(مولا نا عبدالقیو مؒ ، سابق سکریٹری جماعت اسلامی ہند)
حیات جس کی امانت تھی اس کو لوٹا دی
میں آج چین سے سوتا ہوں پاؤں پھیلا کر
خوش نصیب ہیں وہ ہستیاں جن کی زندگی اور موت حفیظ میرٹھی مرحوم کے پیش کر دہ اس تصور موت و حیات کی آئینہ دار ہو ں۔بہرحال یہ ایک امر دشوار ہے، کیو نکہ اما نت حیات کی کماحقہ حفاظت اصلاً زندگی کے لمحہ لمحہ کو کشید کر نے کا تقا ضا کر تی ہے، اور ایسی زندگیا ں مستقلاً انتھک جدو جہد اور پیہم کا وشو ں کی سا ن پر چڑھی رہتی ہیں ۔
ریا ست مہا راشٹر میں اسلامی تحریک کے ایک درخشا ں با ب مو لانا عبد القیومؒ کی شخصیت ایسی ہی تھی ۔ موصوف ۳؍ جو ن ۲۰۱۴ ء کو اورنگ آباد میں علی الصبح داعئ اجل کو لبیک کہتے ہو ئے اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔ را قم کوکچھ عرصہ قبل یہ سعا دت حا صل ہو ئی تھی کہ مولا نا مرحوم کے گھر پہنچ کر دو دن قیام کر تے ہوئے ان کی زندگی کے احوال اور مہاراشٹر میں تحریک اسلامی کی تا ریخ اور پیش رفت کو ریکا رڈ کر سکے۔ یہ تحریر اسی تفصیلی انٹرویو کے مشمولات سے اخذ کر دہ ہے۔
ایک معزز مشائخ گھرانے سے تعلق رکھنے والی اس ہستی نے مولانا سید مودودیؒ کے افکار و نظریہ کو دیکھا پرکھا، تو بلاشبہہ جماعت اسلامی کے اقامت دین کے مقصد کو حرزِ جاں بنالیا، لیکن نصف صدی سے زائد عرصہ پر پھیلے ہوئے ان کے حرکیاتی و سیمابی کردار کے سلسلہ میں بلامبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی کاوشوں اور جدوجہد کا دائرہ صرف جماعت اسلامی کی سرگرمیوں تک محدود نہیں رہا، بلکہ اثرات و نتائج کے لحاظ سے علاقہ کے پورے مسلم معاشرہ اور عام انسانی سماج کو محیط رہا۔ وہ طلبہ و نوجوان جو اپنے شبا ب کو لہو کی آگ میں تپا کر سخت کوش ہو نا چا ہتے ہو ں ان کے لیے مو لا نا عبدالقیوم ؒ کی مجا ہدہ سے بھر پور زندگی زبردست مہمیز کا کام کرتی ہے۔
مولانا عبدالقیومؒ نے 28؍اپریل 1932ء میں جالنہ کے آستانۂ قادر آباد کے مشائخ گھرانے میں آنکھ کھولی۔ آپ کے جداعلیٰ حضرت شاہ عالمؒ جو عہد عالمگیری 1650ء میں لاہور سے برہان پور اپنے مرشد کے پاس آبسے تھے اور نقل مکانی کرتے کرتے جالنہ میں منتقل ہوئے اور مختلف خدمات کے عوض اورنگ زیبؒ سے انعام میں بڑی اراضی پائی تھی۔ آپ کے والد حسین بن محی الدین تجارت کے ساتھ درگاہ اور خانقاہ کے انتظامات دیکھتے تھے۔ اس طرح آپ کے خاندان میں ابتداء ہی سے دعوت و تبلیغ کا مشن جاری تھا۔ ایک اہم بات یہ کہ درگاہ اور خانقاہ سے متعلق ہوتے ہوئے بھی اس خاندان میں بدعات کا گزر نہ تھا۔ تایا حضرت اشرف علی تھانویؒ سے بیعت تھے۔ مولانا عبدالقیوم صاحب کی والدہ کی روایت کے مطابق ان کے تایا حضرت نے محلے میں بٹھائے جانے والے تعزیہ کو جلا دیا تھا۔
جن شخصیات کو آگے چل کر ملت کے درد کا درماں بننا ہوتا ہے ان میں سے اکثر ابتداء ہی میں سخت حالات کی بھٹی میں تپائی جاتی ہیں۔ مرحوم کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ مولانا ابھی آٹھویں جماعت کے طالب علم ہی تھے کہ سقوط حیدرآباد کے ہنگامے شروع ہوگئے۔ فوج نے یلغار کی اور آپ کے خاندان کے کاروبار اور مکانات لٹ کر تباہ ہوگئے۔ فوج کے بعد ہوم گارڈس نے ظلم ڈھایا۔ یہ کانگریس کے نوجوانوں کی تنظیم تھی جو گھیراؤ کرکے لوگوں کو پولیس کے حوالے کرتی تھی، اور برائے نام کیس وغیرہ چلنے کے بعد سزائیں ہوتی تھیں۔ ستمبر 1948ء میں مولانا بھی گرفتار کرلیے گئے جو اس وقت ہشتم جماعت کے طالب علم تھے۔ رہائی کے بعد حالات اتنے ابتر تھے کہ حوصلوں کی برقراری اور اہل خانہ کی کفالت ہی کے لالے پڑ گئے، لہٰذا یہ اول ترجیح کا محاذ بن گیا۔ آپ کے بڑے بھائی عبدالستار صاحب نے بھی حالات کو سنبھالا لیکن کوشش کے باوجود مولانا کی رسمی تعلیم جاری نہ رہ سکی، اس طرح مولانا نے اپنا باقی مطالعہ قرآن و حدیث اور سیرت بعد کے مرحلوں میں مکمل کیا۔
مولاناؒ رسمی تعلیم جاری نہ رکھ سکے، لیکن ادب، تاریخ، اسلامیات اور شعر و شاعری سے گہرا شغف تھا۔ دور طالب علمی ہی میں مسدس حالی، شاہ نامۂ اسلام ، علامہ راشد الخیری کے اصلاحی ناول، مولانا ابوالکلام آزاد کے مضامین ، سیرت کمیٹی لاہور کے مضامین نیز غالب اور اقبال کے کلام کو پڑھ لیا تھا۔ اس کے علاوہ عربی ادب میں صرف ونحو اور مجائن الادب جیسی کتابیں اختیاری مضمون کے تحت مکمل کی تھیں جس سے بعد میں مطالعہ قرآن و حدیث میں انہیں خوب مدد ملی۔ زبان و ادب سے لگا ؤ ہی کا نتیجہ تھا کہ مو لا نا عبدالقیوم ؒ جما عت سے قبل ادا رہ ادب اسلامی سے وابستہ ہو ئے، اسی دوران وہ نعیم صدیقی کی \”ذہنی زلزلے \”اور \”اذان دعوت حق\” جیسی کتا بو ں سے متعارف ہوتے ہوئے تحریک کے قریب آئے۔
جماعت اسلامی ہند کی سرگرمیوں میں آپ کی شرکت 1951ء سے ہونے لگی تھی۔ مولانا مودودیؒ کی معرکۃ الآرا کتاب ’’سیاسی کشمکش‘‘ آپ نے اس وقت پڑھی جب آپ ششم جماعت کے طالب علم تھے اور کتاب کو پوری طرح سمجھ بھی نہیں سکتے تھے۔ پھر آگے چل کر جس کتاب نے مولانا کو اقامت دین کی اس عظیم الشان تحریک کا حرکیاتی کردار بنادیا، وہ تھی مولانا صدر الدین اصلا حیؒ کی ’’اساس دین کی تعمیر‘‘، جس کے بارے میں مولانا کی خود گواہی تھی کہ انہوں نے اس کتاب کو تقریباً 25؍مرتبہ پڑھا ہے۔
مولانا عبدالقیومؒ کی جماعت اسلامی سے بڑھتی دلچسپی کو دیکھ کر ان کے خاندان کے افراد کو تشویش ہوئی۔ آپ کو اس چیز سے باز رکھنے کے لیے نقل مکانی کرائی گئی۔ کبھی سندھ کھیڑ را جہ (نانیہال) میں فلور مِل ڈال کر تو کبھی زراعت میں مشغول کرکے جماعت سے بڑھتی وابستگی کو روکنے کی کوشش کی گئی، لیکن اللہ کا فیصلہ کہ پیڑ پودوں کی نگہبانی کے بجائے آپ سے انسانی صلاحیتوں کی آبیاری اور انہیں دین حنیف کی سربلندی کے لیے تیار کرنے کا کام لینا تھا، آپ نے اپنے آپ کو تحریک اسلامی کی سرگرمیوں کے لیے یکسو کرلیا۔
تحریک اسلامی سے وابستگی کے وقت آپ کے حالات نہایت سنگین تھے۔ ماحول بھی سازگار نہ تھا، لیکن مولانا نے اس موقع پر جس حوصلہ کا اظہار کیا وہ ان ہی کے ان اشعار سے جھلکتا ہے؛
جینے والے موت سے گھبرا گئے
مرنے والے زندگی پہ چھا گئے
اہل ساحل بہہ گئے ساحل کے ساتھ
ڈوبنے والے کنارے پا گئے
ایک اور قطعہ میں مولانا کا انداز ملاحظہ کیجئے
فرطِ غم میں مسکرانا آگیا
اپنی بگڑی خود بنانا آگیا
انقلابِ دہر تیرا شکریہ
زہر کو امرت بنانا آگیا
مولانا عبدالقیومؒ 1959-60میں رکن جماعت ہوئے اور رکنیت کے ساتھ اورنگ آباد کے ناظم ضلع اور کچھ عرصہ بعد کئی اضلاع پر مشتمل علاقے کے ناظم ہوئے۔ یہ ذمہ داری کم و بیش تیس سال آپ نے نبھائی۔ 1990ء تا 1995ء مولانا جماعت اسلامی ہند حلقہ مہاراشٹر کے امیر رہے۔ 1995ء تا 2003ء مرکز جماعت میں معاون قیم جماعت کی ذمہ داریاں ادا کیں۔اس دوران مختلف شعبۂ جات کی ذمہ داریوں کے علاوہ آپ قومی سطح پر فورم فار ڈیموکریسی اینڈ کمیونل امیٹی (FDCA) کے سکریٹری بھی رہے اور اس فورم کے صدر جسٹس تا رکنڈے اور دیگر عہد ہ دا ران جسٹس راجندر سچر اور مچکن دوبے جیسی شخصیا ت کے سا تھ مل کر ملک میں فرقہ وا رانہ ہم آہنگی عام کرنے کے لیے کا م کیا۔ اس عرصہ میں ابتداء میں ریاست کی شوریٰ کے رکن رہے، اور مجلس نمائندگان اور مرکزی شوریٰ کے رکن بھی رہے۔ آخری ایام اور پیرانہ سالی کے باوجود مولانا کے حوصلے نوجوانوں کی طرح بلند تھے اور مطالعہ، تصنیف و تالیف ، رفقاء سے ملاقات ، تبادلہ خیال اور رہنمائی کا کام جاری تھا، اور جماعت کے مختلف ٹرسٹ اور باڈیز میں آپ کی خدمات سے استفادہ کیاجاتا تھا۔مولانا کو قریب سے دیکھنے والوں کو اقبال کا یہ مصرعہ مجسم نظر آتا تھاکہ
ہزا ر کا م ہیں مردا ن حُر کو دنیا میں
ان تمام جماعتی ذمہ داریوں کے ساتھ ملت کے تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام، معزز شخصیات، اعلیٰ تعلیم یافتہ باصلاحیت نوجوان، سیاسی و سماجی کارکنان سے ربط و تعلق اور رفقائے جماعت کی خبرگیری مولانا کا خاص وصف رہا ہے۔ علا قہ مرا ٹھوا ڑہ کے نا ظم کی حیثیت سے آپ نے جما عت کے پیغا م کو ضلعی ہیڈ کوارٹر کے سا تھ تعلقہ جا ت ، قصبہ قصبہ اور دیہا ت دیہات تک پہنچا یا ۔ سینکڑو ں افراد آج بھی گوا ہی دیتے ہیں کہ مولانا اپنے دوروں میں خاندا ن کے بڑے بو ڑھو ں ، خوا تین اور بچو ں کو جس اپنا ئیت سے جماعت کے قریب کر تے تھے، وہ اس کے سحر سے کبھی نہیں نکل سکے ۔ معا ملہ یہ تھا کہ 50؍سال کا عرصہ گزرجانے کے بعد بھی انہیں تمام مقا مات ، گلیاں ، مکینو ں کے نا م ایسے یا د تھے جیسے کل ہی کی بات ہو۔ پھر ارضی و سماوی آفات ، فرقہ وارانہ کشیدگی اور فسادات کے موقع پر بے باکانہ نمائندگی اور ریلیف کے حوالے سے آپ کا تعمیری اور فعال رول ان شاء اللہ عرصہ تک یاد رکھا جائے گا۔ فسا دات کے دوران مو قع کی نزا کت ہو تی تو مولانا کر فیو میں بھی نکل پڑتے اور افسرا ن کے سا تھ بضد ہو جاتے کہ تمہیں کرفیو پاس جا ری کرنا پڑے گا۔ اور پھر مو لا نا مو قع وا ردا ت پر مظلو مو ں کے حو صلو ں کو جِلا بخشتے اور مت�أثرہ مقا م پر اس وقت تک پڑا ؤ ڈالے رہتے جب تک قا بل اطمینا ن حد تک ان کے دکھو ں کا مداوا نہ ہو جا تا۔
مولانا نے جماعت کی ذمہ داریوں کے علاوہ ملت کی دینی شناخت، اور مسلمانوں کے جان و مال کی حفاظت کے لیے قید و بند کی تکالیف بھی برداشت کیں۔
1948ء میں دورِ طالب علمی میں پہلی گرفتاری ہوئی پھر 1965ء میں ہندوپاک جنگ کے موقع پر DIR کے تحت گرفتار ہوئے اور پانچ ماہ قید رہے پھر 1966ء میں شہر میں فساد ہوا تو گرفتار کرلیے گئے اور دو ماہ بعد رہا ہوئے۔
اس موقع پر آپ پر یہ الزام تھا کہ ’’ تم مسلمانوں سے کہتے ہو کہ ان کو مسلمان ہی رہنا چاہیے‘‘۔
آپ نے تین ججوں پر مشتمل بینچ کے سامنے بے باکانہ حق کا اظہار کیا کہ ’’ہاں میں یہ کہتا ہوں کہ مسلمانوں کو اپنی آخری سانس تک مسلمان رہنا چاہیے۔‘‘
پھر ایمرجنسی میں گرفتار ہوئے اور ناسک جیل میں قید کیے گئے۔ اس موقع پر جیل میں بھی دعوتی کام کیا۔ 1986ء میں بابری مسجد میں فرقہ پرستوں نے شیلانیاس کروایا تو اورنگ آباد میں احتجاج ہوا۔ تیس قائدین کے ساتھ مرحوم کی بھی گرفتاری عمل میں آئی۔
ان قید و بند اور مصائب کے علاوہ مولانا دیگر کئی آزمائشوں، نجی مسائل اور معاش کی تنگی کے باوجود راہِ حق پر اس طرح گامزن رہے کہ ان کے قدم کبھی نہیں ڈگمگائے۔ گھر میںآپ کی اہلیہ مستقل بیمار رہتیں اور کبھی گھر میں یہ بھی حالات آجاتے تھے کہ اپنے شیرخوار فرزند کے لیے دودھ نہیں خرید سکتے تو اُسے اس عمر میں روٹی بھگوکر کھلا دیا کرتے۔ پھر مخالفین اور حکومت کی جانب سے مستقل چیلنجز کا بھی جرأت کے ساتھ مقابلہ کرتے رہے۔ ایسے سخت حالات میں بھی مولانا نے مستقل کاوش، مسلسل دورے، انتھک جدوجہد اور بے تکان کام کیا۔ اس عرصہ میں مولانا نے دیہات دیہات کا دورہ کیا۔ اندازہ ہے کہ آپ ہر ماہ اوسط 18دن دورے پر رہے۔ مولانا کے ماہانہ دوروں کے اوسط کو جوڑا جائے تو پچاس سالہ حرکیاتی زندگی میں اُنھو ں نے تقریباً پچیس لاکھ کلو میٹر کے دورے کیے۔ سفر کی سہولتیں بعد میں میسر آئیں لیکن ابتداء میں کئی علاقوں میں آپ کے دورے سائیکل پر ہوا کرتے تھے۔ درمیان میں ندی پڑجاتی تو سائیکل کو ندی میں چلنے والے ٹوکروں میں رکھ کر ندی پار کرتے پھر دوبارہ سائیکل پر سوارہوجاتے۔ ساتھ میں روٹی بندھی ہوتی جہاں جیسا موقع ہوتا یہ روٹی نکالی جاتی اور پانی پی کر پھر سفر پر نکل پڑتے۔ کئی موقعوں پر پچاس تا ساٹھ کلو میٹر پیدل چل لینا مولانا مرحوم کے لیے کوئی دشوار کام نہ تھا۔
غرض مولانا نے راہِ خدا میں وقف عزیمت و قربانیوں سے بھرپور زندگی گزاری۔ وہ سرشاری کے عالم میں جھوم کر عامر عثمانی کے ان اشعار سے اپنے ان ایام کی یاد تازہ کرتے تھے کہ
خوشا وہ دور بے خودی کہ جستجوئے یار تھی
جو درد میں سُرور تھا تو بے کلی قرار تھی
کسی نے زہر غم دیا تو مسکرا کے پی گئے
تڑپ میں بھی سکون تھا خلش بھی سازگار تھی
سر شا ری کی یہ کیفیت ہی تھی جس نے مر حوم کو اتنی آزما ئشو ں بھری اور دُشوار گزار وا دی میں بھی ہر لمحہ تازہ دم رکھا ۔ ان کی شگفتہ مزا جی اور بذلہ سنجی اس شخص کی ما نند تھی جس نے کبھی کو ئی دُکھ ہی نہ دیکھا ہو ۔ کو ئی غیررسمی محفل ایسی نہ ہو تی تھی جس میں مولا نا شریک ہوں اور احبا ب اُن کی با تو ں ، لطیفو ں اور حا ضر جوا بی سے خوب خوب محظوظ نہ ہو ئے ہو ں۔
ابتدا ئی میقا تو ں میں بعض ریا ستو ں میں ایس آئی او کے تربیتی کیمپ اکثر تنظیم کی پر چم کُشا ئی اور ترا نہ تنظیم سے شروع ہو تے تھے۔ ایسے میں ایس آئی او کا کو ئی نو جوا ن ہمت کر کے پو چھ بیٹھا کہ
مولا نا ایس آئی او کا تو پر چم ہے لیکن جما عت کا کیو ں نہیں ؟
تو مولانانے مسکر اکرکہا کہ
\” ارے بابا یہ کھلو نے وغیرہ تو بچو ں کے لیے ہوتے ہیں ۔\”
ایک مر تبہ ایس آئی او آف انڈیا ہی کے بعض منچلے برادران کو خوا ہش ہو ئی کہ مولا ناؒ سے مشفقا نہ ڈانٹ سنیں، کہا کہ
\” مو لا نا ایس آئی او کی رفتار ایکسپریس ٹرین کی طرح ہے اور یہ جماعت پیسنجر ٹرین کی ما نند سر گرمیا ں انجا م دیتی ہے\” ۔
تو مولانا ؒ نے کو ئی توقف کیے بغیر فوراً اپنے مخصوص با رعب لہجے میں مسکرا تے ہو ئے کہا کہ
\”میا ں یہ پٹری کس کے باپ نے بچھائی ہے؟\”
مولا نا عبدالقیوم ؒ ایس آئی او کے طلبہ و نو جوا نو ں کی صلا حیتیوں کے معترف بھی تھے اور انہیں ستا ئشی نظرو ں سے دیکھتے تھے۔ آخر وقت میں دواخانہ میں ان کی عیا دت اور خدمت کو پہنچنے والے نو جوا نو ں سے مولاناؒ کہنے لگے تھے کہ اب میں سکو ن سے مر سکو ں گا کہ تم لو گ اب تحریک کے لیے تیار ہو چکے ہو ۔ انتقال سے قبل مولاناؒ کو بدلتے ہو ئے ملکی و عالمی حالات پر زبردست تشویش تھی ۔ محترم عبدالقوی فلا حی صا حب اورنگ آباد کی گوا ہی کے مطا بق اکثر کہنے لگتے تھے کہ ملک جس تیزی سے کر وٹ لے رہا ہے اس سے لگتا ہے کہ تم پر کڑی آزمائشیں آئیں گی پھر اخوان اور ان کے رہنما ؤ ں کی داستا نیں چھیڑ دیتے تھے۔
مولانا اپنی شخصیت کے ہمہ پہلو ارتقاء اور مومنانہ کردار کی تعمیر کے سلسلے میں برملا اعتراف کرتے تھے کہ یہ سب کچھ صرف تحریک اسلامی کے مقصد اور نصب العین سے وابستگی کی دین ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسولؐ کو کامیابی کی واحد شاہ راہ سمجھتی ہے۔ مولانا اپنی کاوشوں اور جدوجہد کا سہرہ جماعت اسلامی ہند جیسی اجتماعیت کے سر باندھتے تھے،جو تزکیہ نفس سے لے کر ریاست کی تشکیل تک کا واضح پروگرام رکھتی ہے۔ نئی نسل کو اجتماعیت سے وابستہ ہوجانے کی تلقین کرتے ہوئے وہ اکثر کہتے تھے کہ
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج دریا میں ہے اور بیرون دریا کچھ نہیں
اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کی خدمات کو شرفِ قبولیت سے نوازے۔ ان کی کاوشوں کا بہترین بدلہ دے، انہیں جنت کے باغوں میں داخل فرمائے اور تحریک اسلامی کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین
محمد عبدالجلیل (ناندیڑ)، سابق مدیر ماہنامہ رفیق منزل