پھر حشر کے ساماں ہوئے ایوانِ ہوس میں

0

(ملک کے موجودہ سیاسی حالات پر ایک نظر)

اس سال قومی اتخاب میں بی جے پی نے محض ۳۱؍ فیصد ووٹ حاصل کرکے جو غیر معمولی کامیابی درج کرائی اس کی بنیادی وجہ شمالی وسطی ہند میں اس کا ارتکاز تھا۔ اس کے سبب اسے ایک فیصد ووٹ کے بدلے ۹؍ سے زیادہ سیٹیں مل گئیں، اس کے برعکس بہوجن سماج پارٹی نے جسے ۴؍ سے زیادہ فیصد ووٹ حاصل ہوئے خالی ہاتھ رہ گئی، اس لئے کہ اس کی طاقت بکھر گئی تھی۔ جن ریاستوں میں بی جے پی نے غیرمعمولی کامیابی درج کرائی ان میں یاتو اس کی صوبائی حکومت تھی یا ماضی میں وہ وہاں پرحکومت کر چکے تھے گویا عوام میں اس کا نفوذ تھا۔ ان میں سے تین بہار، مہاراشٹر اور اترپردیش ایسی بڑی ریاستیں ہیں جہاں بی جے پی ریاستی اقتدار سے محروم ہے۔ انتخابی کامیابی کے بعد بی جے پی کی رال ان صوبوں میں ٹپکنے لگی اور شروع ہوگیا نیا سیاسی چکرویوہ۔بقول فیض ؂
پھر حشر کے ساماں ہوئے ایوانِ ہوس میں
بیٹھے ہیں ذوی العدل گنہگار کھڑے ہیں
بہار: ریاستِ بہار کی کامیابی نے بی جے پی سمیت ساری دنیا کو چونکا دیا۔ جنتا دل (یو) کا جب صفایا ہو گیا تو بی جے پی نے یہ افواہ اڑادی کہ جے ڈی یو کے پچاس ارکانِ اسمبلی اس سے رابطے میں ہیں اور جلد ہی ریاست میں سشیل مودی وزیر اعلیٰ بننے والے ہیں۔ اس بار سارے لوگوں کو ایسا لگنے لگا کہ بی جے پی کا یہ خواب واقعی شرمندۂ تعبیر ہوجائے گالیکن اس نازک صورتحال میں نتیش کمار اور لالویادو نے کمال دانشمندی کا ثبوت دیا۔ بی جے پی کے سیلاب پر بندھ باندھنے کے لئے ان دونوں نے بالترتیب اقتدار پرستی اور انانیت پسندی کو بالائے طاق رکھ دیا، نتیجہ میں سشیل مودی کاخواب چکنا چور ہوگیا۔
اس بابت اول تو نتیش کمار قابلِ ستائش ہیں کہ انہوں نے شکست کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ پیش کردیا۔اس غیر متوقع فیصلہ نے بھاجپا کی مخالفت کی ہوا نکال دی۔ اب ایک نئے وزیر اعلیٰ کی مخالفت بی جے پی کس منہ سے کرسکتی تھی جس کو اسمبلی میں اکثریت حاصل ہو اور جو انتخابی شکست کے لئے سرے سے ذمہ دار بھی نہ ہو۔ نتیش کمار کے استعفیٰ نے لالو یادو کے لئے جے ڈی یو کی حمایت کو سہل بنادیا۔ بی جے پی نے اسے ناپاک الحاق قراردیا، گویا پاسوان اگر لالوکو چھوڑ کر ان سے مفاہمت کرے تو وہ پاک صاف دوستی ہوگی، اور نتیش اگر ان کو چھوڑ کر لالو کے ساتھ جائیں تو ناپاک تعلق ہو جائے گا۔ لالو یادونے اپنی برسوں پرانی دشمنی پر خاک ڈال کروسعتِ قلبی و بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نئی حکومت کواعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں مدد کی۔ اس طرح گویا لالو نے اڈوانی کی رتھ یاترا کی طرح مودی کے رتھ کو بہار میں روک دیا۔
لالو نے آگے چل کر ایوانِ بالا کے انتخاب میں بھی جے ڈی یو کے صدر شرد یادو کو بلا مقابلہ کامیاب کروا دیا۔ اب لالو اور نتیش مشترکہ محاذ بنا کر آئندہ انتخاب لڑنے کی تیاری کررہے ہیں۔ اس اقدام سے غیر بی جے پی رائے دہندگان کے اندر ایک نیا اعتماد اور ولولہ پیدا ہوا ہے جو یقیناً رنگ لائے گا۔ اس پرمہنگائی کی مار اور رام ولاس پاسوان جیسے اشیائے خوردنی کے وزیر کا بیان کہ مہنگائی کا سبب ذرائع ابلاغ ہے، اپنا اثر ضروردکھلائے گا۔ مرکزی حکومت کے چہرے سے اٹھنے والی نقاب اٹھ جانے کے سبب اس کا عوام دشمن چہرہ رائے دہندگان کے سامنے آچکا ہے، اس لئے بہار میں بی جے پی کے لئے اقتدار کا حصول اب آسان نہیں ہو گا۔
اترپردیش :ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے کسی اندازے نے اترپردیش میں بی جے پی کو ۵۵؍ سے زیادہ اور بی ایس پی کو پانچ سے کم سیٹیں نہیں دی تھیں، لیکن نتائج اس طرح سے آئے کہ بی جے پی ۷۲؍ اور بی ایس پی کا پتہ صاف ہو گیا۔ ایس پی پانچ اور کانگریس کو دو پر اکتفاء کرنا پڑا۔ اس کامیابی نے اترپردیش کے بی جے پی رہنماؤں کو اقتدار کے لئے بے کل کردیا۔ ان کے لئے اتر پردیش میں بھی سب سے بڑا خطرہ وہی ہے جو بہار میں تھا، یعنی ایس پی اور بی ایس پی کا اتحاد۔ ویسے اسمبلی میں واضح اکثریت کے سبب اکھلیش کو کسی حمایت کی ضرورت نہیں ہے، لیکن بی جے پی والے عوامی سطح پر ایک ایسی صورتحال پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ مایاوتی کے لئے ملائم کے ساتھ جانا ناممکن ہو جائے، اور اگر مایا وتی اس کی کوشش کرے تو دلت رائے دہندگان ان کا ساتھ چھوڑ دیں۔
اس مقصد کے حصول کی خاطر ایک نہایت گھناؤنی سازش رچی گئی، اور شروع کیاگیا دلت لڑکیوں کی عصمت دری کا سلسلہ۔ اس بربریت کا الزام پوری طرح ملائم پر ڈالنے کے لئے اس منصوبے پر عملدرآمد کے لئے ان علاقوں کا انتخاب کیا گیا جہاں یادو برادری کی اکثریت اور ایس پی کا زور ہے۔ یہ ایک دو دھاری حکمت عملی تھی۔ اگر ملائم اس بابت نرمی دکھلائیں تو دلت سماج کے اندر ان کے خلاف نفرت بھڑکاکرمایاوتی کو سخت رویہ اختیار کرنے پر مجبور کردیا جائے تاکہ دونوں کے درمیان کی کھائی وسیع تر ہو جائے۔ اس کے برعکس اگرملائم ملزمین کے خلاف سخت رویہ اختیار کریں تو یادو سماج کو ایس پی سے برگشتہ کرکے اپنا ہم نوا بنالیاجائے۔
اس معاملے میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ اترپردیش میں ایس پی کی سرکار ابھی حال میں تو قائم نہیں ہوئی بلکہ وہ دوسال کا عرصہ گزار چکی ہے۔ اگر اس طرح کے واقعات کی وجہ اس کا اقتدار میں آنا ہے تو اس کا آغاز بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھالیکن ایسا نہیں ہوا۔ اترپردیش کے سیاسی افق پر ماضی قریب میں جو تبدیلی واقع ہوئی ہے وہ بی جے پی کی کامیابی ہے اس لئے اگر اس کے پس پشت سیاسی محرکات ہیں تو اس کی سوئی بی جے پی کی جانب مڑتی ہے۔ کم از کم یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کی کامیابی نے ظالموں کے حوصلے اس قدر بلند کردئیے کہ وہ معصوم لڑکیوں کی عصمت دری کرکے انہیں پیڑپرلٹکانے تک سے باز نہیں آتے۔ ذرائع ابلاغ میں ان واقعات کو اس طرح اچھالا گیا گویا اس انارکی اور جنگل راج کے لئے صرف اور صرف اکھلیش سرکار ذمہ دار ہے۔
بی جے پی نے سڑکوں پر اتر کر جب احتجاج کرنا شروع کیا تو ایسا لگنے لگا کہ اکھلیش کی الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے، وہ دن دور نہیں جبکہ اترپردیش میں صدرراج نافذ کرکے انتخابات کا اعلان کردیا جائے گا اور پھر دیکھتے دیکھتے زعفرانی پرچم لکھنؤ پر لہرانے لگے گا۔لیکن پھر ہوا کا رخ بدلا مدھیہ پردیش سے بھی دلت خواتین کی عصمت دری کے بہیمانہ واقعات منظرِ عام پر آئے اور مرکزی وزیر پٹرولیم نہال چند میگھوال کو عصمت دری کے الزام میں جئے پور کی عدالت نے ملزم کی حیثیت سے حاضر ہونے کا حکم دے دیا۔ اس واقعہ نے بی جے پی سرکار کے ہاتھ سے عصمت دری کا مدعا چھین لیا۔ بی جے پی کے لئے میگھوال کو وزیر رکھنا اور نکالنا دونوں مشکل ہو گیا،اس طرح عصمت دری کی سیاست پر روک لگ گئی۔
اس کے بعد بی جے پی نے مرادآباد ضلع میں فرقہ وارانہ پانسہ پھینکا اور مسلمانوں کو دلتوں سے لڑانے کی کوشش کی۔ کانٹھ نامی گاؤں میں کل چار چار ہزار ہندو اور مسلمان آباد ہیں۔ ہندؤوں کی زیادہ تر آبادی دلت ہے۔ وہاں ایک مندر کا لاؤڈ اسپیکر خراب ہوگیا تھاجسے مرمت کے بعد جب دوبارہ لگایا گیا تو کسی نے پولس میں شکایت کردی اور اسے اتار لیا گیا۔ بی جے پی نے اس معمولی سے مسئلہ پر مہا پنچایت بلا کر مظفر نگر کی سی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اس بابت پولس کا بیان کہ لاؤڈ اسپیکر کی اجازت نہیں لی گئی تھی احمقانہ لگتا ہے، اس لئے کہ مذہبی مقامات پر لگائے جانے والے لاؤڈ اسپیکر کی اجازت لینے کا رواج ہمارے ملک میں نہیں ہے۔ ایس ایس پی کی جانب سے بی جے پی کو موردِالزام ٹھہرانے پراور بی جے پی ایم ایل اے کے خلاف ایف آئی آر درج کئے جانے پر بی جے پی چراغ پا تو ہوئی لیکن کچھ کر نہ سکی۔
سماجوادی پارٹی کو چاہئے تھا کہ سماج کے سرکردہ لوگوں کو ساتھ بٹھا کر باہمی گفت و شنید کے ذریعہ اس مسئلہ کا حل نکالتی لیکن اس نے قانون کے ڈنڈے سے اسے سلجھانے کی کوشش کی جس سے بی جے پی کو اس کا ناجائز سیاسی فائدہ اٹھانے کا نادر موقع مل گیا۔ ایس پی کا بھی عجیب معاملہ ہے کبھی تو وہ ہندووں کی دلجوئی کے لئے مظفر نگر میں انہیں جی بھر کے مظالم کرنے کا موقع عنایت کردیتی ہے تو کبھی مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے سختی پر اتر آتی ہے۔اس بار مہاپنچایت کو روکنے میں اس نے کامیابی توحاصل کرلی ہے لیکن کشیدگی ہنوز قائم ہے۔مرکزی وزارت داخلہ نے اس سانحہ کاسخت نوٹس لیا ہے اور ریاستی حکومت سے رپورٹ طلب کی ہے۔ بی جے پی نے اپنے ارکانِ پارلیمان کی تفتیشی کمیٹی بھی جائے حادثہ کا جائزہ لینے کے لئے روانہ کی ہے۔ ایس پی کو آئندہ اس طرح کی صورتحال میں پختہ سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرنا ہوگا، ورنہ وہ دونوں جانب سے خسارے میں رہے گی۔
مہاراشٹر: اس سال ماہِ دسمبر کے اندر مہاراشٹرمیں ریاستی اسمبلی کے انتخابات منعقد ہونے والے ہیں۔ مہاراشٹر کے اندر بی جے پی اور شیوسینا کی حکومت تقریباًیقینی نظر آرہی ہے لیکن یہاں اصل جنگ خارجی نہیں بلکہ داخلی ہے۔مہاراشٹر گوکہ آریس ایس کی جنم بھومی ہے اورنہ صرف اس کے بانی ڈاکٹر ہیڈگیوار بلکہ مفکراعظم گرو گولوالکر کا تعلق بھی اسی ریاست سے ہے۔اس کے باوجود سنگھ کو مہاراشٹر میں عرصۂ دراز تک پذیرائی نہیں ملی۔ مہاراشٹر میں دائیں بازو کا زور رہا، اور برہمن دانشوروں نے بھی ہندوتوا پر اشتراکیت کو ترجیح دی۔ یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ جہاں ہندو مہاسبھا کے ساورکراور گوڈسے پیدا ہوئے، وہیں جیوتی با پھلے اور ڈاکٹر امبیڈکر نے بھی اپنی اصلاحی تحریک چلائی بلکہ کانشی رام نے بھی اپنے کام کا آغاز پونے میں کیا تھا۔ کانگریس کو بال گنگا دھرتلک اور گوپال کرشن گوکھلے جیسے رہنما اسی سرزمین سے ملے۔
بی جے پی کومہاراشٹر کے اندر اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کے لئے علاقائی جماعت شیو سینا کے رہنمابال ٹھاکرے کے آگے جھولی پسارنی پڑی، نیزبرہمنوں کے بجائے پسماندہ طبقات کے ہاتھ میں ریاستی قیادت سونپنے پر مجبور ہونا پڑا۔ گوپی ناتھ منڈے کو اسی حکمت عملی نے ریاست کا نائب وزیر اعلیٰ بنایا۔ اب تک ریاستی انتخاب میں شیوسینا کو علاقائی جماعت کے طور پر بی جے پی سے زیادہ نشستیں ملتی تھیں، اور پارلیمانی انتخاب میں قومی جماعت ہونے کی حیثیت سے بی جے پی کو بڑا حصہ دیا جاتاتھا۔ اس کے باوجود پارلیمانی انتخاب میں بی جے پی کو شیوسینا سے کم نشستوں پر کامیابی حاصل ہوتی تھی لیکن اس بار معاملہ الٹ گیا اور بی جے پی نے زیادہ نشستیں جیت لیں اور وہ اپنے آپ کو جونیئر کے بجائے سینئر پارٹنر سمجھنے لگی۔ بی جے پی والوں کو ایسا لگنے لگا کہ وہ شیوسینا کے بغیر راج ٹھاکرے کی نونرمان سینا کی مدد سے انتخاب جیت سکتے ہیں۔
بال ٹھاکرے کی موت کے بعد شیوسینا کے اندر جوکمزوری آئی تھی اس کا فائدہ اٹھا کر اس بار انتخاب سے قبل نتن گڈکری نے شیوسینا کی پرواہ کئے بغیر راج ٹھاکرے کے ساتھ مفاہمت کرلی۔ جسے ادھو ٹھاکرے نے بادلِ ناخواستہ برداشت کرلیا۔ اس کے بعد وزارت سازی میں شیوسینا کو صرف ایک اور غیر اہم قلمدان دیا گیا۔ نواز شریف کو دعوت دینے کے خلاف شیوسینا کے اعتراض کو بی جے پی نے نظر انداز کر دیا، اور ریلوے کرایہ میں اضافہ پر شیوسینا کی مخالفت کومودی نے مسترد کردیا۔ شیوسینا نے اس کا بدلہ اس طرح لیا کہ اپنی کامیابی کا کوئی کریڈٹ مودی کو نہیں دیا۔ شیوسینا ممبئی کے صدر کو تہنیتی جلسہ میں حاشیہ پر رکھا، یہاں تک کہ ادھو ٹھاکرے نے اپنے کارکنان کو مخاطب کرتے ہوئے اعلان کر دیا کہ مودی کی ہوا نکل چکی ہے اب ہم اس کے سہارے انتخاب نہیں جیت سکتے اس لئے کسی خوش فہمی کا شکار رہنے کے بجائے اپنے حلقہ انتخاب پر توجہ دی جائے۔
گوپی ناتھ منڈے بی جے پی کے پختہ کار رہنما تھے اور ان کی موت سے پارٹی میں ایک بڑا خلا ء پیدا ہوگیا ہے۔ان کے متبادل سمجھے جانے والے بی جے پی ممبئی کے صدر اشیش شیلارنے اپنی ناتجربہ کاری اور بچکانہ پن کی ایک مثال پیش کرتے ہوئے اپنے کارکنان سے کہا کہ ممبئی میں پانچ روپئے کے اندر پیٹ بھر کھانا ملتا ہے جبکہ مہنگائی کے سبب ممبئی کامشہور ناشتہ وڈا پاؤ بھی ۱۲؍ روپئے سے کم میں نہیں ملتا اور پانی پوری کیلئے ۲۰؍ روپئے دینے پڑتے ہیں۔ اس سوال پر کہ یہ کہاں ملتا ہے؟ جواب تھا ماہم درگاہ کے باہر۔دراصل وہاں فلاحی ادارے بھکاریوں کو پانچ روپئے میں کھانا کھلاتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بی جے پی غریبوں کی بھوک کس طرح مٹانا چاہتی ہے۔ اس اہم اجلاس میں یہ بھی کہاگیا کہ شیوسینا کے ساتھ الحاق باقی رکھا جائے یا توڑ دیا جائے اس کا فیصلہ رہنماؤں کی ملاقات کے بعد ہوگا۔ انتخاب سے قبل اسی طرح کی رعونت کے سبب کانگریس پارٹی کسی کو منہ نہ لگاتی تھی۔اب اقتدار کا یہ نشہ بی جے پی کو مہنگا پڑ سکتا ہے اس لئے کہ مرکزی حکومت ایک بڑے قحط کی پیشین گوئی کررہی ہے اور عوام مہنگائی کی ایک سونامی کوتیزی کے ساتھ اپنی جانب آتا ہوا دیکھ رہے ہیں، اس پر سلمان احمد کا یہ شعر یاد آتا ہے ؂
وہ جن درختوں کی چھاؤں میں سے مسافروں کو اٹھا دیا تھا
انہیں درختوں سے اگلے موسم میں پھل نہ اترے تو لوگ سمجھے
ایک طرف زعفرانی خیمے میں دراڑ بڑھتی جارہی، دوسری طرف کانگریس اپنے کھوئے ہوئے ووٹ بینک کو دوبارہ رجھانے میں جٹ گئی ہے۔اس نے مراٹھا سماج کے لئے ۲۰؍ فیصد اور مسلمانوں کی خاطر۵؍ فیصد ریزرویشن کا اعلان کردیا ہے۔ ان فیصلوں کا انتخابات پر کیا اثر پڑے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا، اس لئے کہ مہاراشٹر میں کانگریس کا رتھ ان ہی دو پہیوں پر چلتا رہا ہے۔ اس دوران کچھ فرقہ پرست عناصر نے فیس بک پر شیواجی کی بے حرمتی کرکے فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانے کی مذموم کوشش کی اور ایک مسلم نوجوان کو پونے میں شہید کردیا لیکن حکومت نے مجرمین پر بروقت کارروائی کرکے اس فتنہ کو دبا دیا، اور سینا بی جے پی نے اس کا فائدہ اٹھانے سے گریز کیا۔ کچھ حلقوں کی جانب سے لاؤڈ اسپیکر میں اذان کی مخالفت بھی سامنے آئی لیکن شیوسینا رہنماتاوڑے نے ایک مسلم وفد کو یقین دہانی کرائی کہ وہ مطمئن رہیں ایسے کسی اقدام کی حمایت نہیں کی جائے گی۔
راجستھان اور مدھیہ پردیش:مذکورہ بالا تین ریاستوں کے علاوہ بی جے پی کی حکومت والی والے صوبے راجستھان اور مدھیہ پردیش میں بھی ایک سرد جنگ برپا ہے۔ ان صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے گزشتہ ریاستی انتخاب میں مودی کی مدد کے بغیرگجرات سے بڑی کامیابی حاصل کی تھی۔ مدھیہ پردیش کے شیوراج چوہان نے ابتدا ء میں نریندرمودی کے وزارت عظمیٰ کے لئے امیدواری کی مخالفت بھی کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب اڈوانی جی کو گاندھی نگر میں خوف محسوس ہوا کہ مودی سازش کرکے انہیں ہرا دے گا تو انہوں نے بھوپال میں جاکر پناہ لینے کی کوشش کی۔ مودی کے دہلی میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد چوہان کے ارد گرد شکنجہ کسا جارہا ہے۔ چوہان کی اہلیہ اور مودی کی ناقداوما بھارتی کے خلاف بدعنوانی کے الزامات منصوبہ بند طریقہ پر منظر عام پر لائے جارہے ہیں گویا ؂
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
راجستھان کی وزیر اعلیٰ کو اس بات کا قلق ہے کہ ان کی ریاست سے صرف ایک ایم پی کووزیر بنا یا گیا، اور وہ بھی اگران کا چشم و چراغ ہوتا جسے بڑے ارمانوں سے کامیاب کیا گیا تھا تو کوئی بات نہیں تھی لیکن اسے نظر انداز کر کے ایک ہریجن میگھوال کو اس عہدے سے نواز دیا گیا۔ وزیر پٹرولیم اور کیمیاوی مصنوعات نہال چندمیگھوال کو ۲۰۱۱ ؁ء کے اندر ایک اجتماعی عصمت دری کے الزام میں ملوث پایا گیا تھا، مگر کانگریس کے اشوک گہلوت نے انہیں کلین چٹ دلوا دی۔ یہ تو پرائے کا احسان تھا مگر بی جے پی کی وسندھرا راجے سندھیا نے اس مقدمہ کو زندہ کرکے اپنی ہی جماعت کے مرکزی وزیر کودوبارہ مقدمے میں پھنسا دیا ہے تاکہ اس کا پتہ کٹے، تو اپنے بیٹے دشینت سنگھ کی قسمت کھلے۔ اس داخلی مہابھارت سے نئی سرکار کیسے نبٹتی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن اگر وہ اس میں ناکام ہوجاتی ہے تو ممکن ہے راج ناتھ کی قسمت کھل جائے، اور وہ ہندوستان کے تخت و تاج کے مالک ہو جائیں۔

ڈاکٹر سلیم خان، معروف سیاسی تجزیہ نگار

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights