قسط: 07
مصنف: سید حسین نصر
مترجم: اسامہ حمید
فتح مکہ اور سیرت طیبہ کے آخری ایام
بالآخر رمضان المبارک ۸ ہجر ی میں رسول اللہ ایک بڑی فوج کے ساتھ جس میں انصار ، مہاجر ین اور ساتھ ہی بہت سارے بدو قبیلے بھی شامل تھے، مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے۔ مکہ والوں نے مزاحمت کی فضولیت دیکھ کر ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا سردار ابو سفیان شہر سے باہر آکر رسول خدا کے سامنے ہتھیار ڈالے اور اسلام قبول کرلیا۔ اور اس طرح مکہ مکرمہ کے تمام بیٹوں میں سے یہ سب سے عظیم محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بغیر کسی جنگ کے اپنے پیدائشی شہر میں داخل ہوئے۔ جہاں سے آپؐ کو ہجرت پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ ایک یتیم جس نے بچپن میں بہت تکلیفیں برداشت کی اور خدا کی طرف سے اس کا رسول منتخب ہونے کے بعد بھی ہر ممکن طریقے سے ستایا گیا ، اب پوری شان و شوکت کے ساتھ اور ایک انسانی معاشرے کے حاکم کی حیثیت کے ساتھ ساتھ خدا کی تمام تخلیق کے بادشاہ کی طرح خدا کے شہر میں داخل ہوا۔
تقریبا تمام مکہ والوں نے اسلام قبول کر لیااور نبی پاک ؐ نے جو انسانوں میں سب سے کامل ہیں اور بدلہ لینے کے احساس جیسی انسانی کمزوریوں سے پاک ہیں ، ان تمام لوگوں کی خود سپردگی کو جو آخری لمحہ تک آپؐ کی مخالفت کرتے رہے تھے قبول کر لیا۔ جب تک کہ وہ اپنی زبان سے ایمان کا اعلان کرتے رہے آپؐ انہیں معاف کرتے رہے اور انہیں نئی اسلامی امت میں قبول کرلیا گیا۔ آپؐ کے دل میں ان کے لئے نہ کوئی ذاتی رنجش تھی نہ دشمنی۔ آپؐ کا مقصد حق اور انصاف پر مبنی ایک نظام کا قیام تھا نہ کہ آپؐ اور آپؐ کے ساتھیوں کے خلاف کئے گئے ظلم و ستم پر مبنی ذاتی عداوت یا اس کا انتقام۔
نبی پاکؐ انسانوں کو معاف کرنے میں جس حد تک فراخ دل تھے ، کافر عربوں کی بت پرستی کے اتنے ہی سخت مخالف بھی تھے۔ آپؐ کا غضب ان لوگوں کے خلاف نہیں تھا جنہوں نے معافی مانگی اور اسلام قبول کیا، خواہ خلوص کے ساتھ کیا ہو یا مجبوری میں، بلکہ ان مادیت پسند اور انفرادیت پسندانہ فطرت کے بتوں کے خلاف نازل ہوا جن سے خدا کے گھر کو بھر دیا گیا تھا اور خدائے واحد لا شریک جس کی نہ کوئی تصویر ہو سکتی ہے نہ مورت، کے مسکن کے بطور اس کی اصل پاکیزگی کو پوشیدہ کر دیا تھا ۔ نبی مبارکؐ کعبہ تشریف لائے اور آپؐ نے تمام بتوں کو توڑ کر تباہ کر دئے جانے کا حکم دیا ۔ علیؓ نے سب سے بھاری اور سب سے بڑے بت حبل کو توڑ کر اس حکم کو نافذ کرنے میں سب سے زیادہ مدد کی۔ نبی مبارکؐ نے خانہ کعبہ کی دیواریں بھی ان تصویروں سے صاف کر دیں جو ان پر نقش کر دی گئی تھیں سوائے مریمؑ اور مسیحؑ کی تصویر کے جس کی آپؐ نے اپنے ہاتھ رکھ کر حفاظت کی۔(بیشتر علماء کے نزدیک یہ روایت ضعیف ہے، اس لئے اس سے متعلق مندرجہ ذیل بحث بھی کمزور ٹھہرتی ہے۔ مترجم و ناشر اس سے برات کا اعلان کرتے ہیں۔ )
یہ معنی خیز عمل نہ صرف ان دونوں شخصیات کے لئے اسلام کے احترام کی علامت ہے جن کی عظمت قرآن کی متعدد آیات میں ملتی ہے بلکہ قرآنی نقطہ نظر میں کسی بت یا کھدے ہوئے نقش اور مقدس فن سے وابستہ علامت کے درمیان بنیادی فرق بھی واضح کرتا ہے۔عرب بت پرستی کے بت محض انسانی خیال کی پیداوار تھے جن کی کوئی آسمانی حقیقت نہیں تھی بلکہ یہ خالصتا انسانی عناصر کی عکاسی کرتے تھے۔ یہ وہ بت یا اصنام تھے جو قرآن مجید کی روح اور اسلامی نقطہ نظر کے مخالف شرک و بت پرستی کی بنیاد تھے۔ جبکہ رسول بابرکتؐ کے ذریعہ محفوظ روایتی عیسائی تصاویر، لوقا (St Luke) کے الہام کے ذریعہ حاصل کردہ مقدس فن کے اصولوں اور طریق کار پر مبنی تصاویر تھیں ۔ لہذا یہ بالکل مختلف نوعیت کے تھے۔ یہ بت نہ تھے، بلکہ کسی دوسرے مذہب کے اصولوں کے مطابق جن میں اس کی اجازت تھی، الوہی موجودگی کی علامت تھے ۔ ان تصاویر کو مسخ نہ کرتے ہوئے، نبی پاکؐ نے نہ صرف ایک بت اور ایک مقدس شبیہ کے مابین فرق کو واضح کیا، بلکہ یہ بھی نشاندہی کی کہ اگرچہ اسلامی نقطہ نظر اپنے مقدس فن میں تصویر کشی کی اجازت نہیں دیتا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک مختلف ڈھانچے اور نقطہ نظر کے دوسرے مذہب کے فن میں بھی تصویر کشی غیر قانونی تھی۔
بلاشبہ مکہ مکرمہ میں فاتحانہ داخلہ عروج کا لمحہ تھا اور زمین پر خدا کے دین کو قائم کرنے کے لئے برسوں کے مصائب اور مسلسل جدوجہد کا تاج تھا۔ یہ عظمت کا وہ لمحہ بھی تھا جس میں رسول کریمؐ کے روحانی وجود کا اس کی وسعت اور عظمت کے ساتھ شاندار انکشاف بھی ہوا۔قرآن مجید ان آیات میں اس لمحے کی عظمت بیان کرتا ہے:
اللہ کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے
جب اللہ کی مدد آ جائے اور فتح نصیب ہو جائے
اور (اے نبیؐ ) تم دیکھ لو کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں
تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو، اور اس سے مغفرت کی دعا مانگو، بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔(قرآن؛110)
اور یہ بھی فتح مکہ کے حوالے سے ہے، جو خود اسلام کی فتح کا بھی عروج ہے کہ قرآن فرماتا ہے:
”اے نبیؐ، ہم نے تم کو کھلی فتح عطا کر دی۔ تاکہ اللہ تمہاری اگلی پچھلی ہر کوتاہی سے درگزر فرمائے اور تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کر دے اور تمہیں سیدھا راستہ دکھائے۔ اور تم کو زبردست نصرت بخشے۔” (48:1-3)
مکہ مکرمہ میں فاتحانہ داخل ہونا پورے عرب میں بھی اسلام کے تسلط کی کلید تھا۔ مکہ مکرمہ میں معاملات طے کرنے کے بعد، رسول مبارکؐ نے وسطی عرب میں حنین کے مقام پر قبیلہ حوازن کا سامنا کیا۔ یہ ایک خطرناک جنگ تھی جسے مسلمان بڑی مشکل سے جیت پائے۔ پھر آپؐ نے طائف کی طرف رخ کیا جس کی مضبوط دیواروں کی وجہ سے آپ کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔اور آخرکار وہاں باشندوںکے دل کی تبدیلی تھی جو اس شہر کو اسلام کے قدموں میں لے آئی۔ اسلام کے آسمانی پیغام اور اس کے ساتھ ہونے والی فتح کی حقیقت کو بھانپتے ہوئے، طائف کے لوگوں نے اسلام قبول کر لیا اور اپنی مرضی سے ہتھیار ڈال دیئے۔ اس طرح عرب کے سب بڑے شہروں نے دین کو قبول کرلیا۔ اہل مدینہ تشوتش کا شکار تھے کہ مکہ مکرمہ اور طائف مسلمانوں کے ہاتھوں میں آ جانے کے بعد رسول مبارکؐ مدینہ چھوڑ کر اپنے پیدائشی شہر کو اسلام کا دارالحکومت بنا لیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہونا تھا۔ ان فتوحات کے بعد نبی مبارک انصار کی تشویش کو رفع کرتے ہوئے مدینہ واپس آگئے جو اب تیزی سے مذہبی اور سیاسی لحاظ سے عرب کا دارالحکومت بن رہا تھا۔
سن 9 ہجری میں نبی پاکؐ کے پورے عرب کو اسلام کے بینر تلے متحد کرنے کا مقصد ایک بڑا قدم آگے بڑھا۔ اس سال جزیرۃ العرب کے تمام قبیلوں سے متعدد وفود اسلام قبول کرنے اور خدا کے آخری نبیؐ کی بیعت کرنے کے لئے آنا شروع ہوئے۔ دریں اثنا یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ شمالی عرب کو بھی اسلام کی سائے میں لایا جائے اور اس خطے کے مسلمانوں کے اس سے قبل ہو چکے نقصانات کی تلافی کی جائے۔ رسول بابرکتؐ نے خود تبوک کی رہنمائی فرمائی اور یہاں مسلم لشکروں نے کامیابی حاصل کی۔ در حقیقت اسلام کا وقار اس قدر بڑھ چکا تھا کہ اس خطے کے کچھ مقامی عیسائی اور یہودی حکمران نبی مبارکؐکے سامنے خود ہی پیش ہوگئے اور اطاعت قبول کر لی۔ شمال میں یہ فتح خاص طور پر اہم تھی کیونکہ اس وقت مدینہ میں موجود کچھ متضاد قوتیں اور عربی معاشرے کے مرکز بیزار رجحانات نئے مذہب کے ذریعہ پیدا ہونے والے اتحاد کے خلاف متحرک تھے۔
شمالی عرب کے متوازی، جنوبی عرب کے یمن ، عمان اور بحرین بھی اسلام کے زیر اثر آگئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی مکمل طور پر مسلمان ہوگئے۔ یہ خطہ فارس کے مضبوط اثر و رسوخ میں رہا تھا اور غالبا مشہور صحابی سلمان فارسیؓ کے علاوہ اولین فارسی مسلمان اسی خطے سے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس خطے نے خاص طور پر یمن نےبغیر کسی مسلم فوجی فتح کے اسلام قبول کیا۔ عظیم یمنی بزرگ اویس القرنی نے خدا کے نبیؐ کے بارے میں سنا اور آپؐ کو دیکھے بغیر ہی آپؐ کی پکار پر لبیک کہا۔آپؓ فاصلے سے ہی رسول مبارکؐ سے ایسی محبت کرتے تھے کہ یہ محبت اسلامی صوفیہ و اولیاء کی نسلوں کے لئے اپنے خالق کے لئے انسان کی محبت کی مثال راہ اور دور سے ہی خدائی اسرار کے ادراک کی ابتدا بن گئی۔ اویسی آج بھی تصوف کی ایک خاص شاخ کا حصہ ہیں جس کی ابتدا کسی عام انسانی روحانی استاد کے بجائے ایک پراسرار، سبز پگڑی والے نبی خضر سے بتائی جاتی ہے۔
سلمان الفارسیؓ بھی ابتدائی اسلام کے ایک عظیم بزرگ بنے اور اویس کی طرح بعد میں علیؓ کے خلیفہ بننے پر آپؓ کے ساتھ ہو گئے۔ سلمانؓ اسلام قبول کرنے والے پہلے فارسی تھے جس طرح بلالؓ اسلام قبول کرنے والے پہلے سیاہ فام شخص تھے جو رسول اکرمؐ کی زندگی میں لوگوں کو نماز کے لئے پکارتے تھے۔ یہ دونوں افراد بانی اسلامؐ کے بہت ہی محبوب ساتھی تھے اورآپؐ کے کنبے کے افراد کی طرح تھے۔ ان کی موجودگی فارسیوں اور سیاہ فام لوگوں میں اسلام کے تیز پھیلاؤ کی علامت ہے۔ در حقیقت عربوں کے بعدیہ فارسی اور سیاہ فام لوگ ہی تھے جنہوں نے دیگر بڑے نسلی گروہوں جیسے ترک، ہندوستانی اور ملئے سے پہلے بڑی تعداد میں اسلام قبول کیا۔
شمالی اور جنوبی عرب میں اسلام کے پھیلاؤ کے ساتھ ہی، اسلام کی بنیاد پر عرب کو متحد کرنے اور عدل وانصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل کے نبی پاکؐ کے وژن کو عملی جامہ پہنایا گیا۔ رسول بابرکتؐ نے بر سر پیکار قبائل ، امیر اور غریب، طاقت ور اور کمزور کو ایسے معاشرے میں متحد کر دیا جس میں امتیاز روح اور تقویٰ کی شرافت پر مبنی تھا۔ آپؐ قرآن مجید کی اس آیت میں موجود سچائی کو زمینی حقیقت بنانے میں کامیاب ہوئے” لوگو ، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔(49:13)
سن 10 ھ کے آخر میں نبی پاک نے مکہ میں پہلا مکمل اسلامی حج کرنے کا فیصلہ کیا، جس میں صرف مسلمان ہی خانہ کعبہ اور اس کے حرم میں حاضر ہوں سکیں گے۔اور اس حکم کی پیروی تب سے آج تک ہو رہی ہے۔ حج کو ایک خالص اسلامی ادارے کے طور پر قائم کرنے والے اس سفر کو ” حجۃ الوداع ” کہا گیا ۔ یہ خدا کی سب سے کامل مخلوق کے بے مثال سیرت پاک کی آخری کامیابی کی علامت تھی۔ اس موقع پرحضرت نبی اکرمؐ کے ناقابل فراموش خطبے کا نچوڑ جو مسلمانوں کے دلوں اور دماغوں میں ہر دور میں تازہ رہتا ہے، ان مشہور قرآنی آیات میں موجود ہے جن میں محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ہوئے دین کا نام اسلام رکھا گیا ہے۔ ”آج کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے پوری مایوسی ہو چکی ہے لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔” (5:3)
اس ”الوداعی سفر” کے موقع پر رسولؐ مبارک نے فصاحت و خوبصورتی سے لبریز جو خطبہ امت مسلمہ کے سامنے دیا وہ اسلام اور آپؐ کی سنت کی تعلیمات کا خلاصہ تھا۔ 9 ذی الحجہ 10 ھ کے دن عرفات میں ” حجۃ الوداع” کے ارکان کے اختتام پر جو شاید سب سے یادگار خطبہ آپؐ نے دیا یہاں پیش کیا جا رہا ہے:
“تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں۔ ہم اسی کی بڑائی بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد مانگتے ہیں ، اسی سے معافی مانگتے ہیں اور ہم اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ہم اپنی برائیوں اور اپنے اعمال کے برے انجام سے خدا کی پناہ لیتے ہیں۔ خدا جس کو ہدایت دینا چاہے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور اللہ جس کو گمراہ کرے اسے کوئی سیدھے راستہ پر نہیں لا سکتا ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کا غلام اور اس کا رسول ہے۔
اے خدا کے بندو!میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ خدا سے ڈرو اور میں تم سے گزارش کرتا ہوں کہ اس کی فرمانبرداری کرو اور میں اس خطبہ کو اس بات سے شروع کرتا ہوں جو اچھی بات ہے۔
اے لوگو! میری بات غور سے سنو۔ میں تم کو ایک پیغام پہنچانے والا ہوں۔ کیوں کہ میں نہیں جانتا کہ اس سال کے بعد مجھے تم سے ملنے کا موقع ملے گا۔ اے لوگو! تمہارا خون (زندگی)، تمہارا مال اور تمہاری عزت ایک دوسرے کے لئے اسی طرح مقدس ہے جیسے کہ آج کا یہ دن اور تمہارا یہ شہر مقدس ہے، یہاں تک کہ تم اپنے رب کے حضور حاضر ہو جاؤ۔ بے شک تم اپنے رب سے ملاقات کروگے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے پوچھے گا۔ تو کیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟
اے خدا، گواہ رہ! لہذا جو شخص اپنے پاس کوئی امانت رکھتا ہے، تو اسے یہ امانت اس شخص کو ادا کرنا چاہئے جس نے اسے اس کے پاس رکھا تھا۔خبردار ررہو! جرم کا ذمہ دار مجرم کے علاوہ کوئی اور نہیں۔ نہ تو بیٹا اپنے باپ کے جرم کا ذمہ دار ہے اور نہ ہی باپ اپنے بیٹے کے جرم کا ذمہ دار ہے۔
لوگو! میری بات سنو اور اس کو سمجھو۔ تم کو معلوم ہونا چاہئے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اور تمام مسلمان ایک جتھا ہیں۔ کسی مسلمان کے لئے اس کے بھائی کی کوئی چیز حلال نہیں ہے سوائے اس کے کہ وہ خود اجازت دے۔ لہذا تم خود پر ظلم نہ کرو۔ اے خدا، کیا میں نے پیغام پہنچا دیا ؟
دیکھ لو!جہالت کی ہر چیز میرے دونوں پیروں تلے ہے۔ دورِ جاہلیت کا خون کا بدلہ منسوخ کیا جاتا ہے۔ اور سب سے پہلے میں نے اپنا بدلہ منسوخ کیا۔ابن ربیع ابن حارث کے خون کا بدلہ جسے سعد کے قبیلے میں پالا گیا تھا اور جسے ہضیل نے قتل کیا تھا۔ دور جاہلیت کا سود ختم کردیا گیا ۔ لیکن تمہیں تمہارا اصل مال مل جائے گا۔ ظلم مت کرو اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ خدا نے فیصلہ کر دیا ہے کہ کوئی سود باقی نہیں ہے۔ پہلا سود جس کو میں منسوخ کرتا ہوں وہ عباس بن عبد المطلب کا ہے۔ بے شک یہ مکمل طور پر منسوخ ہے۔
اے لوگو! عورتوں کے بارے میں خدا سے ڈرو۔ تم نے انہیں خدا کی امانت کے طور پر لیا ہے اور تم نے خدا کے کلام سے ان کی شرمگاہوں کو حلال کیا ہے۔ بیشک تم کو اپنی عورتوں پر کچھ حقوق حاصل ہیں اورتمہاری خواتین کو بھی تم پر کچھ حقوق حاصل ہیں۔ تمہارا ان پر حق یہ ہے کہ وہ انہیں جسے تم ناپسند کرتے ہو،تمہارے بستر پر آنے دیں اور نہ تمہارے گھروں میں داخل ہونے کی اجازت دیں۔ اگر وہ کوئی ایسی حرکت کرتی ہیں تو پھر خدا نے تمہیں ان کو ایذا پہنچانے کی اجازت دی ہے کہ تم انہیں اپنے بستروں سے الگ رکھو اور ان کو مارو لیکن سختی سے نہیں۔ اگر وہ باز آجائیں تو ان کا رزق اور لباس تمہارے ذمہ ہے۔
خیال رکھو! خواتین کے بارے میں جو احکام دئے گئے ہیں اسے شفقت کے ساتھ قبول کرو۔ کیونکہ وہ تمہارے ساتھ تمہاری مددگار ہیں۔ ان کے پاس اپنے لئے کچھ نہیں ہے اور تم ان سے اس سے زیادہ کچھ نہیں لے سکتے۔ اگر وہ تمہاری اس طرح اطاعت کرتی ہیں تو تم ان کے ساتھ ناجائز سلوک مت کرو۔ تو کیا میں نے بتادیا ؟ اے خدا گواہ رہیو۔
اے لوگو! اگر ایک بدحال حبشی غلام بھی تم پر حکمراں ہو جائے اور وہ تمہارے درمیان خدا کی کتاب نافذ کر تا ہو تو اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو ۔
اے لوگو! بے شک خدا نے ہر ایک کو اس کا حق مقرر کیا ہے۔ وراثت کے لئے کوئی وصیت جائز نہیں ہے اور وصیت ایک تہائی (جائیداد) سے زیادہ کیلئے جائز نہیں ہے۔
بچہ (قانونی) بستر سے تعلق رکھتا ہے اور زانی کے لئے سنگساری ہے۔ جو شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی اور سے اپنی نسبت جوڑے یا اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کا غلام بنے،اس پر خدا، اس کے فرشتے اور انسانوں کی لعنت ہے۔ خدا اس سے توبہ قبول کرے گا نہ راستبازی۔
اے لوگو! بے شک شیطان تمہاری اس سرزمین میں اس کی عبادت کئے جانے سے مایوس ہو چکا ہے۔ لیکن وہ ان دوسرے معاملات میں بھی اطاعت کئے جانے پر مطمئن ہے جنہیں تم اپنے کاموں سے بہت چھوٹا سمجھتے ہو۔ تو اپنے دین میں اس سے محتاط رہو۔ بے شک، میں نے تمہارے درمیان وہ چیز چھوڑی ہے جسے اگر تم نے پکڑے رکھا تو کبھی کسی واضح چیز پر گمراہ نہیں ہوگےاور وہ چیز خدا کی کتاب اور اس کےنبی کی سنت ہے۔
اے لوگو! جبریل میرے پاس آئے، میرے رب کی طرف سے سلام پہنچا یا اور کہا: ‘بے شک اللہ نے جو غالب اور عظیم ہے،عرفات اور حرم خانہ کے لوگوں کو (ان کی کوتاہیوں کو) معاف کردیا ہے۔'”
عمر بن الخطابؓ کھڑے ہوئے اور کہا: یا رسولؐ اللہ، کیا یہ صرف ہمارے لئے ہے؟ آپؐ نے جواب دیا، یہ تمہارے اور ان لوگوں کے لئے ہے جو قیامت تک تمہارے پیچھے آئیں گے۔
“اور تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا، پھر تم کیا کہو گے؟” لوگوں نے جواب دیا، ‘ہم گواہ ہیں کہ آپؐ نے پیغام پہنچا دیا، (آپؐ نے اپنا فرض) نبھایا اور نصیحت کی۔’
پھر آپؐ نے اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے اور لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ”خدایا گواہ رہیو۔ اے خدا، گواہ رہیو۔ اے خدا، گواہ رہیو۔ ‘ (مولانا ایم۔ عبید الاکبر ، The Orations of Muhammad، لاہور، 1954، صفحہ 79-78 ،کچھ ترمیمات کے ساتھ)۔