عید الاضحیٰ جسے ہر سال قمری مہینہ ذی الحجہ کی دس تاریخ کو منایا جاتا ہے، مسلمانوں میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ ایک طرف جہاں سماجی پہلو سے یہ خوشی و مسرت، باہمی ربط اور ہمدردی کا موقع فراہم کرتی ہے وہیں دوسری طرف اس کی مذہبی حیثیت بھی ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب اور اقوام میں خوشی منانے کے لیے مختلف رسوم اور تہوار ہیں لیکن اسلام کا یہ ‘تہوار’ ان سب سے منفرد اور امتیازی ہے۔
حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷺہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ وہاں کے لوگ دو دن جشن مناتے ہیں اور خوب کھیل کود کرتے ہیں۔ آپﷺنے ان کے بارے میں دریافت کیا تو لوگوں نے جواب دیا: “زمانہ قدیم سے یہ دو دن ہمارے تہوار ہیں، جن میں ہم کھیل تماشا کرتے ہیں۔ اس پر رسول ﷺنے ارشاد فرمایا:
انَّ اللّٰہَ قَدْ اَبْدَلَکُمْ بِہِمَا خَیْراً مِّنْہُمَا: یَوْمَ الاَضْحٰی وَ یَوْمَ الْفِطْرِ(ابوداؤد: 1132)
“اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے تمھیں ان سے اچھے دو دن عطا فرمائے ہیں: اضحیٰ کا دن(یعنی عید الاضحیٰ) اور فطر کا دن(یعنی عید الفطر)”
عید الاضحیٰ کے موقع پر پوری دنیا کے صاحب حیثیت مسلمان قربانی کرتے ہیں۔ یہ اس بے مثال اور عظیم قربانی کی یادگار ہے جو اللہ کے برگزیدہ اور محبوب پیغمبر حضرت ابراہیمؑ نے اللہ کے حضور پیش کی تھی۔
آج سے تقریباً چار ہزار سال قبل حضرت ابراہیمؑ کی بعثت عراق کے علاقے ‘اُر’ میں ہوئی تھی۔ یہ علاقہ جہاں ایک طرف تمدن و تجارت کا بڑا مرکز تھا، وہیں دوسری طرف شرک و بت پرستی کا گڑھ بھی بنا ہوا تھا۔ حضرت ابراہیمؑ نے توحید کی دعوت کا آغاز کیا اور شرک اور بت پرستی کی سخت انداز میں مخالفت کی تو تمام لوگ آپ کے دشمن بن گئے۔ باپ اور خاندان ہی نہیں، بلکہ ساری قوم اور حکمرانِ وقت بھی آپ کی جان کے درپے ہوگئے۔ انھوں نے آپ کو ڈرا دھمکا کر آپ کے مشن سے روکنے کی کوشش کی، لیکن جب ناکام ہوگئے تو آپ کو زندہ جلانے کے لیے ایک گہری خندق میں آگ دہکاکر اس میں ڈال دیا۔ لیکن مشیّت ایزدی سے آپ محفوظ رہے اور آپ کا بال بیکا نہ ہوا۔ اس کے بعد آپ حکم الٰہی سے ہجرت کر گئے۔ آپ شام، فلسطین، مصر، ریگ زار عرب اور دنیا کے دوسرے خطوں میں تشریف لے گئے۔ ہر جگہ آپ نے اللہ کا کلمہ بلند کیا اور لوگوں کو اس کی اطاعت و فرماں برداری کی دعوت دی۔
حضرت ابراہیم ؑمتعدد آزمائشوں سے گزرے اور ہر آزمائش میں سرخ رو ہوئے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انھیں پوری دنیا کا امام بنا دیا(البقرۃ: 124)۔ اپنے وطن سے ہجرت کرتے وقت انھوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ “مجھے صالح اولاد عطا کر۔” یہ دعا قبول ہوئی اور ان کی بیوی حضرت ہاجرہ سے اسماعیل کی پیدائش ہوئی۔ ابھی اسماعیل چھوٹے ہی تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت ابراہیمؑ کو حکم ہوا کہ اس بے آب و گیاہ وادی میں، جسے آئندہ قیامت تک کے لیے دعوت اسلامی کا مرکز بننا ہے، اسماعیل کو اُن کی ماں کے ساتھ چھوڑ آئے۔ حضرت ابراہیمؑ نے فوراً حکم کی تعمیل کی۔ حضرت ہاجرہ نے صبر و رضا کا بے مثال مظاہرہ کیا۔ بالآخر مشیت الٰہی سے آب و گیاہ اور سنسان وادی میں زندگی کے آثار پیدا ہوگئے۔ زمزم کا چشمہ جاری ہوگیا۔ اسے دیکھ کر اس راہ سے گزرنے والے قافلے وہاں آباد ہوگئے اور ایک بستی قائم ہوگئی۔
حضرت ابراہیمؑ اپنی بیوی اور بیٹے کو بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ کر بے پروا نہیں ہوگئے تھے، بلکہ وقتاً فوقتاً ان کی خبر گیری کے لیے آتے رہتے تھے۔ اسماعیل جب تھوڑے بڑے ہوئے اور دوڑ دھوپ کی عمر کو پہنچ گئے تو حضرت ابراہیمؑ کی ایک دوسری بڑی آزمائش کی گئی۔ انھیں اللہ تعالیٰ نے خواب میں اشارہ کیا کہ اپنے بیٹے کو میری راہ میں قربان کردو۔ حضرت ابراہیمؑ فوراً اس پر بھی آمادہ ہوگئے۔ باپ بیٹے دونوں نے سرِ تسلیم خم کردیا۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے اس آزمائش میں بھی کامیابی کا مژدہ سنایا ،بیٹے کی قربان کرنے سے روک دیا اور ان کے بجائے دُنبے کی قربانی کا حکم دیا۔
آخر میں حضرت ابراہیمؑ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنے بیٹے اسماعیلؑ کے ساتھ مل کر سرزمینِ مکہ میں خانہ کعبہ کی تعمیر کی، جسے مشیت الٰہی سے تاقیامت توحید کا مرکز بننا تھا۔ انھوں نے کعبہ کی بنیادیں اٹھاتے وقت اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی کی کہ “ہماری نسل سے ایک ایسی امت برپا کر جو تیری مطیع فرمان ہو”(البقرۃ:127-128)۔ جب خانہ کعبہ تعمیر ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کوحکم دیا کہ وہ لوگوں میں ‘حج'(بیت اللہ کی زیارت) کی منادی کردیں، تاکہ لوگ دنیا کے کونے کونے سے مکہ مکرمہ کا قصد کریں، وہاں آکر مناسک ادا کریں، اللہ کے نام پر قربانی کریں،اس کا گوشت خود کھائیں اور دوسروں کو بھی کھلائیں۔ آج پوری دنیا کے مسلمان لاکھوں کی تعداد میں ہر سال مکہ مکرمہ پہنچتے ہیں، وہ در اصل حضرت ابراہیمؑ کی اسی منادی کی تعمیل ہے۔
حج کے تمام مناسک و شعائر در اصل حضرت ابراہیم ؑ کی یادگار کے طور پر شروع کیے گئے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسولﷺنے حج کے موقع پر ارشاد فرمایا:
قِفُوا عَلَی مَشَاعِرِکُمْ فَاِنَّکُمْ عَلَی اِرْثٍ مِّنْ اِرْثِ اَبِیْکُمْ اِبْرَاہِیْمَ(ابوداؤد: 1919)
“حج کے تمام مناسک ادا کرو۔ یہ تمھیں تمھارے باپ ابراہیمؑ سے ورثہ میں ملے ہیں۔”
حضرت ابراہیمؑ کی یادگار تلبیہ(لبیک کہنا)، طوافِ کعبہ، صفا و مروہ کے درمیان سعی، وقوفِ عرفہ، قربانی، رمی جمرات اور دیگر مناسکِ حج میں کارفرما ہے۔ سب سے پہلے حضرت ابراہیمؑ نے ان پر عمل کیا۔ آپ کے بعدآپ کی ذریت اور آپ پر ایمان لانے والے ان پر عمل کرتے رہے۔ آخرمیں خاتم النبیین حضرت محمد ﷺنے ان پر عمل کیا اور اپنی امت کو ان پر عمل کرنے کا حکم دیا۔
عید الاضحی ٰکے موقع پر سب سے اہم عمل ‘قربانی’ ہے۔ یہ اصلاً اس قربانی کی یادگار ہے جو حضرت ابراہیمؑ نے اشارۂ الٰہی پاکر اپنے بیٹے اسماعیل کی کرنی چاہی تھی، بعد میں اللہ کے اِذن سے انھوں نے حضرت اسماعیلؑ کی جگہ ایک مینڈھے کی قربانی کی تھی۔ اس وقت سے یہ سنت جاری ہوگئی اور اللہ کی خوش نودی کے لیے جانور قربان کرنا ایک مشروع اور مسنون عمل قرار پایا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ(الکوثر: 2)۔ پس تم اپنے رب ہی کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔
احادیث سے ثابت ہے کہ اللہ کے رسولﷺنے قربانی کی ہے (بخاری: 5564)۔چنانچہ یہ عمل سنت اور بعض علماء کے نزدیک واجب قرار پایا اور مسلمان برابر اس پر عمل کررہے ہیں۔
ایک مسلمان عید الاضحی کے موقع پر قربانی کرکے درحقیقت اس عہد کا اظہار کرتا ہے کہ وہ زندگی کے تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی کرے گا، اس کی مرضیات پر چلے گا اور وقت ضرورت کسی طرح کی قربانی سے گریز نہیں کرے گا۔یہی قربانی کا مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَلاَ دِمَاؤُہَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ(الحج: 37)
“نہ ان کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اسے تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے۔”
موجودہ دور میں بعض حضرات قربانی پر اعتراضات کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس عمل سے بے شمار جانوروں کا ضیاع ہوتا ہے اور اس سے سنگ دلی اور بے رحمی کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ اگر قربانی میں صرف ہونے والے کروڑوں اربوں روپے انفرادی یا اجتماعی طور پر رفاہی کاموں میں خرچ کیے جائیں تو اس سےبہت سے فائدے حاصل ہوں گے۔
سوچنے کا یہ انداز صحیح نہیں ہے۔گویا انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے انجام دیے جانے والے تمام کام قربانی کی وجہ سے رکے ہوئے ہیں۔ ان پر پابندی عائد کرنے یامحدود کرنے سے وہ کام تیزی سے ہونے لگیں گے۔
دین کے تمام احکام پر مِن و عَن عمل مطلوب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قربانی کا حکم دیا ہے اور خدمت خلق کی بھی تاکید کی ہے۔ اہل ایمان سے دونوں اعمال مطلوب ہیں۔ کسی عمل کو ترک کیا جاسکتا ہے نہ ایک کو دوسرے پر ترجیح دی جاسکتی ہے۔ قربانی میں دکھاوےکےلیے مہنگے جانور خریدنے کو فقہاء نے ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔
محمد رضی الاسلام ندوی
(مضمون نگارشریعہ کونسل ،جماعت اسلامی ہند کے سیکریٹری ہیں)