جاتے ہو کہاں میں نے یہ پوچھا تو نہیں ہے
اک حرفِ دعا نکلا ہے، ٹوکا تو نہیں ہے
دشمن سے ملوں، اپنی کہوں، اس کی سنوں بھی
اے گردش ایام، یہ سوچا تو نہیں ہے
اس دھوپ کی شدت میں، یہ اڑتے ہوئے پنچھی
برگد کا گھنا پیڑ وہ، سوکھا تو نہیں ہے
گھر لوٹ کے آؤ تو، ذرا بیٹھ کے سوچو
نادار پڑوسی ترا بھوکا تو نہیں ہے
کیا جانئے کیوں جھیل میں اٹھنے لگیں لہریں
پتھر ابھی اس میں کوئی پھینکا تو نہیں ہے
محسوس تو کرتا ہوں ہمہ وقت ہے کوئی
آنکھوں نے مگر یار کو دیکھا تو نہیں ہے
جس شخص کو احباب مٹانے پہ تلے ہیں
وہ صادق ومصدوق ہے جھوٹا تو نہیں ہے
بڑھتے ہوئے قدموں نے کئی بار یہ پوچھا
نظروں کا کہیں اپنی یہ دھوکا تو نہیں ہے
جب چاہے امیں آئے مرا در یہ کھلا ہے
میں نے بت طناز کو روکا تو نہیں ہے
محمد امین احسن، بلریاگنج اعظم گڑھ
غزل۔۔۔
ان کا نہ ہو جو ساتھ تو جنت حرام ہے
یہ ہے اگر عطا تو عطا کو سلام ہے
وہ مائل کرم ہو تو گونگا بھی ہے کلیمؔ
آجائے جب جلال مجالِ کلام ہے
محدود مت کرو اسے بس ایک نام تک
جس نام سے پکارو وہی اس کا نام ہے
اظہار کے بغیر اگر منکشف نہ ہو
تویہ سمجھ لو عشق ابھی ناتمام ہے
ناداں عبث خیال سزائے خطا کا ہے
یہ ہے نماز عشق جو لمبا قیام ہے
ہم سے نہ ہوسکے گا کبھی اس میں قیل وقال
یہ تم ہو کہہ رہے ہو کہ سودائے خام ہے
ق
گنجائش کلام کہاں ہے پھر اس کے بعد
اتنی سی بات کافی ہے یہ اس کا کام ہے
ملتا ہے ترش روئی میں شاکرؔ مزا اسے
ہم بھی اسی میں راضی ہیں جس میں وہ رام ہے
شاکر الاکرم شاکرؔ ناگپور