حق بات جب سے سب کو سنانے میں لگ گیا
سارا جہان مجھ کو مٹانے میں لگ گیا
گر میں نہ ڈھونڈ پایا کسی مسئلے کا حل
تو بھی تو بس بہانے بنانے میں لگ گیا
تقدیر جب سے ہوگئی ہے مجھ پہ مہرباں
ہر کوئی مجھ کو اپنا بنانے میں لگ گیا
جھگڑوں سے مسلکوں کے الگ رہ کے دوستو
باطل کے نقش میں بھی مٹانے میں لگ گیا
جانا نہیں ہے چھوڑ کے میدان اس لئے
ساحل پہ کشتیاں میں جلانے میں لگ گیا
چاہا تھا میں نے گھر میں کروں روشنی مگر
طوفان مرا چراغ بجھانے میں لگ گیا
کہتے ہیں جس کو میڈیا، سب کام چھوڑ کر
دہشت پسند ہم کو بتانے میں لگ گیا
اجداد سے الگ ترا کردار ہے بہت
رہبرؔ یہ تجھ کو یاد دلانے میں لگ گیا
توصیف رہبر، تلنگانہ