غزل

ایڈمن

آسیب سا جیسے مرے اعصاب سے نکلا یہ کون دبے پاؤں مرے خواب سے نکلا سینے میں دبی چیخ بدن توڑ کے نکلی یادوں کا دھواںروح کے محراب سے نکلا جب جال سمیٹا ہے مچھیرے نے علی الصّبح ٹوٹا ہوا…

آسیب سا جیسے مرے اعصاب سے نکلا
یہ کون دبے پاؤں مرے خواب سے نکلا
سینے میں دبی چیخ بدن توڑ کے نکلی
یادوں کا دھواںروح کے محراب سے نکلا
جب جال سمیٹا ہے مچھیرے نے علی الصّبح
ٹوٹا ہوا اک چاند بھی تالاب سے نکلا
مٹّھی میںچھپائے ہوئے کچھ عکس، کئی راز
میں اس کی کہانی کے ہراک باب سے نکلا
آواز مجھے دینے لگی تھی مری مٹّی
میں خود کو سمیٹے ہوئے مہتاب سے نکلا
جمنے لگی جب پیاس ہواؤںکے لبوں پر
دریا کا لہو وادی ٔ بے آب سے نکلا
کچھ تہمت ودشنام، شکایات وسوالات
کیا کچھ نہ میاں حلقہ ٔ احباب سے نکلا

عزیز نبیل۔ قطر

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں