غزل

ایڈمن
نومبر 2013

جس کا کوئی دنیا میں ٹھکانا نہیں ہوتا اس شخص کا دشمن بھی زمانا نہیں ہوتا آنکھوں کو چلو آج ہی آئینہ بنا لیں سنتے ہیں یہ آئینہ پرانا نہیں ہوتا جینا ہے تو خوش بو کا چلن سیکھ لو…

جس کا کوئی دنیا میں ٹھکانا نہیں ہوتا
اس شخص کا دشمن بھی زمانا نہیں ہوتا

آنکھوں کو چلو آج ہی آئینہ بنا لیں
سنتے ہیں یہ آئینہ پرانا نہیں ہوتا

جینا ہے تو خوش بو کا چلن سیکھ لو ورنہ
سب کچھ تو میاں کھانا کمانا نہیں ہوتا

بس یوں ہی گزر جاتے ہیں یادوں کے سہارے
دیوانوں کا کوئی بھی ٹھکانا نہیں ہوتا

جس روز سے دیکھا ہے تباہی کا تما شہ
موسم کوئی اس دن سے سہانا نہیں ہوتا

اس شہر میں پہچان ضمیر اپنی یہی ہے
سچ کہتا ہوں کوئی بھی بہانا نہیں ہوتا

ضمیر اعظمی،دہلی

حالیہ شمارے

جدید تہذیب اور اسلامی اخلاق

شمارہ پڑھیں

عام انتخابات کے نتائج 2024 – مستقبل کی راہیں

شمارہ پڑھیں