سیرت کا دعوتی اسلوب

ایڈمن

حضرت محمد ؐ کا اسوہ ہمارے لیے بہترین اسوہ ہے(سورہ احزاب:۲۱)۔ایک داعی کے لیے آپؐ کی زندگی میں بہترین رہنمائی موجود ہے۔اسی کا مختصر جائزہ زیر نظر مضمون میں لیا جائے گا۔ دعوتی تڑپ: انسان کی فطرت میں اﷲ تعالی…

حضرت محمد ؐ کا اسوہ ہمارے لیے بہترین اسوہ ہے(سورہ احزاب:۲۱)۔ایک داعی کے لیے آپؐ کی زندگی میں بہترین رہنمائی موجود ہے۔اسی کا مختصر جائزہ زیر نظر مضمون میں لیا جائے گا۔
دعوتی تڑپ: انسان کی فطرت میں اﷲ تعالی نے یہ بات ودیعت کردی ہے کہ وہ دوسروں کی تکلیف دیکھ کربے چین ہوجاتا ہے۔کسی کو مرتا دیکھ کر اسے بچانے کے لیے دوڑ پڑتا ہے۔اگر کوئی شخص بہت جلدبازی میں ایک بہت ہی اہم کام کے لیے جارہاہو اور وہ دیکھے کہ ایک چھوٹا سا بچہ آگ کی جانب بڑھ رہا ہے تو وہ ضرور سب کچھ چھوڑ کر اسے بچانے دوڑے گا۔یہی تڑپ داعی کا بھی نمایاں وصف ہے۔ایک داعی نوع انسانی کو جہنم کی آگ سے بچاناچاہتا ہے۔اﷲ کے رسول ؐ انسانوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کے لیے ایسے ہی بے چین رہتے تھے۔ آپؐ کا فرمان ہے کہ’’ میں لوگوں کی کمریں پکڑ پکڑ کر انہیں جہنم میں گرنے سے روک رہا ہوں اور وہ ہیں کہ پتنگوں کی طرح جہنم کے گڑھے میں گرتے جارہے ہیں۔‘‘اسی قول کا عملی پرتو آپؐ کی سیرت مبارکہ میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ تھکے ماندے ہونے کے باوجود گزرتے ہوئے قافلے کی طرف دوڑپڑنا کہ اگریہ دعوت سے محروم رہ گئے تو کہیں قیامت تک اسلام سے دور نہ رہ جائیں۔کبھی طائف میں پتھر کھانے کے باوجود یہ امید کہ یہ نہیں تو ان کی آنے والی نسلیں ایمان لائیں گی۔ مشرکین کے اسلام نہ لانے پر آپؐ اپنے آپ میں گھلتے رہتے ،یہاں تک کہ اﷲتعالی نے ارشاد فرمایا کہ’’اچھا،تو اے نبیؐ،شاید تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھودینے والے ہو اگر یہ اس تعلیم پر ایمان نہ لائیں۔‘‘(سورہ الکہف: ۶)۔آج ہم دشمنوں کو گالیاں دیتے ہیں، ان کو برا بھلا کہتے ہیں،لیکن آپؐ کا اسوہ دیکھئے کہ اپنے دشمنوں کے لیے دعائیں کر رہے ہیں۔آپؐ عمرین کے لیے دعا کرتے ہیں کہ ان دونوں میں سے کم سے کم ایک کو اسلام میں داخل کردے تاکہ اسلام کو ان کے ذریعے قوت نصیب ہو۔ دعوت کے ساتھ ساتھ مدعو کی ہدایت کے لیے مستقل دعاؤں کا درس بھی ہمیں اسوہ رسولؐ سے ملتا ہے ۔ایک داعی سے یہی تڑپ مطلوب ہے۔
سیرت وکردار:آپؐ کو لوگ صادق وامین کے طور پر جانتے تھے۔آپ کی رحم دلی چارسو مشہور تھی۔ اسی کردار کو اﷲ تعالی نے نبوت کے ثبوت میں پیش کیا ہے۔ آپؐ کو نبوت ۴۰؍ سال کی عمر میں دی گئی تھی۔اس کی ایک حکمت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ان چالیس سالوں میں آپؐ کی سیرت مبارکہ کے تمام پہلو معاشرہ کے سامنے آجائیں اور وہ آپ کی دعوت کی عملی شہادت دیں۔
سماجی رتبہ اور اثر: موجودہ دور میں مسلمان Ghettoizationمیں رہتے ہیں۔کالج کے مسلم طلبہ اپنے غیرمسلم دوستوں سے کٹے کٹے رہتے ہیں۔ہمارے معاملات سبھی سے ہونے چاہئیں۔آپؐ نبوت سے قبل بھی تعارف عام رکھتے تھے اور آپ کا حلقہ اثر کافی وسیع تھا۔ مکہ کا بچہ بچہ آپ سے واقف تھا،لوگ آپ سے محبت کرتے، آپ کی عزت کرتے، اپنی امانتیں آپ کے سپردکرتے۔ آنحضرتؐ ایک سماجی فرد تھے ۔حلف الفضول میں آپ نے شرکت کی۔کعبہ کی تعمیر کے بعد حجر اسود کو نصب کرنے کے مسئلہ پر تمام قبیلے آپ کے فیصلہ پر متفق ہوگئے۔
زورکلام:اسلام کی دعوت مؤثرہونے کی ایک اہم وجہ آپؐ کی فصاحت وبلاغت تھی۔ آپؐ مدعو کی ذہنی استعداد اور مزاج کے مطابق حکمت ودانائی سے لبریز مختصر گفتگو کیا کرتے۔یہی زبان کی چاشنی تھی کہ لوگ کھنچے چلے آتے اور مشرکین اسے سحر کا نام دیتے۔
جدید ذرائع ابلاغ وترسیل کا استعمال:ہم اکثر جدید ذرائع کے دعوتی استعمال پر تذبذب کا شکار رہتے ہیں،لیکن آپؐ نے اس زمانے کے ذرائع ابلاغ سے بھرپور استفادہ کیا۔جن ذرائع ابلاغ وترسیل کا استعمال منفی کاموں کے لیے ،غلط طریقوں سے کیا جاتا تھا،اور ان میں مختلف خباثتیں درآئی تھیں۔ان ہی ذرائع کا استعمال آپؐ نے دعوت کے کاز کے لیے کیااور ان خباثتوں سے ان ذرائع کو پاک کیا۔صفا کی چوٹی،حج بیت اﷲ اور عکاظ کے میلے اس دور کے بڑے ذرائع ابلاغ ہوا کرتے تھے۔ان کے استعمال نے عرب کے باہر اسلام کی اشاعت میں مدد دی۔مشرکین نے ان ذرائع کا استعمال منفی پروپیگنڈہ کے لیے کیا جس طرح آج باطل کر رہا ہے۔لیکن آپؐ بنا مرعوب ہوئے اپنا کام کرتے رہے اور آخرکار باطل کی چال ان پر الٹی پڑگئی،ویمکرون ویمکر اﷲ واﷲ خیر الماکرین۔ (سورہ انفال:۳۰)
طریقہ دعوت: مدعو کی ذہنیت،کیفیت اورحالات کی نزاکت کودیکھتے ہوئے آنحضرتؐ دعوت دیا کرتے تھے۔آپؐ کبھی خاموش دعوت دیتے ،تو کبھی صفاسے پکار لگاتے،اور کبھی اہل قریش کو کھانے کی دعوت پر بلا کر اپنا مدعا ان کے سامنے رکھتے۔لوگ آپ کے حسن اخلاق اور عفوودرگزر سے متأثر ہوکر اسلام قبول کرتے۔ لکڑی کی گٹھری والی بڑھیا اور کچرا پھینکنے والی بڑھیا کے واقعات اس کی واضح مثالیں ہیں۔فتح مکہ کے موقع پر آپؐ کے بے مثال عفوودرگزر سے متأثر ہوکر کئی لوگوں نے اسلام قبول کیا۔جنگ بدر کے ایک قیدی کے ساتھ آپؐ نے حسن سلوک کیا اور اسے آزاد کردیا۔ یہی بات اس کے مشرف بہ اسلام ہونے کا سبب بنی۔ آپؐ اپنی دعوت میں قرآن مجید کی آیات کا خوب استعمال کرتے تھے۔ اکثر آپؐ نے اپنی طرف سے کچھ نہیں کہا، بس قرآن کی آیات سنائیں اور مدعو متأثر ہوکر اسلام کے سایہ رحمت میں آگیا۔
ڈاکٹر عدنان الحق خان،آکولہ

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں