جے۔ کرشنا مورتی

0
جے کرشنا مورتی ۱۱؍ مئی ۱۸۹۵ء میں آندھرا پردیش کے ایک چھوٹے سے قصبہ مدنا پلی میں پیدا ہوئے۔ جس خاندان میں وہ پیدا ہوئے وہ ایک مذہبی خاندان تھا۔ نو عمری ہی میں انھیں تھیاسوفیکل سوسائٹی کی صدر ڈاکٹر اینی بسنٹ نے گود لے لیا۔ اینی بسنٹ نے اعلان کیا کہ کرشنا مورتی معلم عالم(world Teacher) ہوں گے۔ یہی خیال بعض دوسرے لوگوں کا بھی ان کے بارے میں رہا ہے۔ تھیاسوفی کے پیروپہلے سے ہی ایک ایسے معلم کی آمد کا انتظار کررہے تھے۔
اگست ۱۹۲۲ء ؁ میں انھیں کلیوفورنیا کے اُوہاپو گاؤں میں دائمی محبت کے سرچشمہ کی انوبھوتی یا اندرونی تجربہ(Experience) ہوا۔ وہ ایک گہرے رومانی تجربے سے ہوکر گزرے۔ ان کو اس محبت وترجم کا انکشاف ہوا جس سے سارے ہی دکھ اور مصائب دور ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد ساٹھ سے زیادہ سالوں تک وہ دنیا کا سفر کرتے رہے۔ نفسیاتی انقلاب کے ذریعہ سے انسانیت کی نئی تعمیر کے لیے دنیا بھر میں وہ آخری دم تک گھوم گھوم کر اپنا پیغام سناتے رہے۔ کرشنا مورتی آگہی(Awareness) کی بات کرتے تھے۔ یہ آگہی وہی ہے جس کو مہاتما بدھ اَپرماد اور مہابیر وویک کہتے ہیں۔ کرشنا مورتی اپنے خیالات کی تبلیغ میں جی جان سے مصروف رہے یہاں تک کہ ۹۱؍ سال کی عمر میں ۱۷؍ فروری ۱۹۸۶ء میں ان کا انتقال ہوگیا۔ اُن کا انتقال کلیوفورنیا میں اسی مقام پر ہوا جہاں ۱۹۲۲ء میں انھیں انوبھوتی یا روحانی تجربہ ہوا تھا۔
کرشنا مورتی تقاریر، عام خطابات، گفتگوؤں اور انٹرویو کے ذریعہ سے اپنے افکاروخیالات کی اشاعت کرتے تھے۔ انھوں نے اپنے خیالات کی اشاعت کے لیے اپنی تحریروں سے بھی کام لیا۔ وہ حق کے شیدا اور ایک سچے دوست کی حیثیت سے اپنا فرض ادا کرتے تھے۔ وہ ایک گرو کی حیثیت سے دنیا کے سامنے نہیں آئے۔ انھوں نے جو کچھ کہا یا لکھا وہ کتابی علم اور عقل کی بنیاد پر نہ تھا۔ وہ ایک ذاتی تجربہ اور احساس تھا، جس سے وہ اہل عالم کو آشنا کرنے کے آرزو مند رہے ہیں۔ انھوں نے کسی نئے فلسفہ کو دنیا کے سامنے نہیں پیش کیا۔ کرشنا مورتی نے ہماری روزمرّہ کی زندگی ہی کی باتیں کیں۔ تشدد اور فسادات سے مجروح سماج کے جو مسائل ہیں اور انسان جو امن وعافیت کی تلاش میں بھٹکتا دکھائی دیتا ہے اور خوف اور اندیشوں میں مبتلا ہے، کرشنا مورتی نے ان سب چیزوں کا گہرائی سے جائزہ لیا اور ان کا بصیرت افروز تجزیہ کیا۔ انھوں نے نہایت باریک بینی اور حقیقت پسندانہ انداز میں انسان کی نفسیاتی گتھیوں کو سلجھانے کی کوشش کی۔ وہ چاہتے تھے کہ ہماری روز مرّہ کی زندگی دھیان اور مذہبی جذبات سے پرکیف وپرنور ہو۔ انھوں نے زندگی میں ایسی بنیادی تبدیلی کی ضرورت کا احساس دلایا جس سے ایک نئی تہذیب وجود میں آسکے۔
تعلیم یافتہ طبقہ کرشنا مورتی کو عظیم مذہبی معلّموں میں شمار کرتا ہے۔ لیکن انھوں نے خود کو کبھی کسی خاص مذہب، فرقہ یا خاص ملک کے ساتھ منسوب نہیں کیا۔ انھوں نے کبھی کسی سیاسی فکر سے بھی اپنے کو منسلک نہیں کیا۔ وہ کہتے تھے کہ اس طرح کی چیزیں آدمیوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرتی ہیں اور انجام کار جنگ اور کشمکش کا سبب بنتی ہیں۔
وہ کہتے تھے کہ نوع انسانی سے کوئی اپنے کو الگ نہ سمجھے۔ وہ شعور حیات نہیں جس میں سارا عالم منعکس نہ ہو۔ یہ کائنات اور قدرت کی رنگینیاں تمہارے لیے ہیں۔ ان سے تمہارا گہرا رشتہ ہے۔ تم مفلس کیونکر ہوسکتے ہو۔ ان کا خاص پیغام یہ رہا ہے کہ انسانوں نے اپنے درمیان تفرقے کی جو دیواریں کھڑی کر رکھی ہیں وہ گرادی جائیں۔ انسان اس تنگ نظری سے اپنے کو پاک رکھے جو مذہب کے نام سے لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ قومی تفرقے ہوں یا فرقہ وارانہ تنگ وامانی ان سب سے نجات حاصل کرنی ضروری ہے۔
کرشنا مورتی اظہار خیال کے لیے انگریزی زبان استعمال کرتے تھے۔ ان کی بہت ساری کتابیں، عام خطبات، گفتگوئیں، ڈائری، لوگوں کے سوالوں کے جوابات اور دوسری سبھی چیزیں انگریزی زبان میں شائع ہوچکی ہیں۔ ان میں سے بہت سی چیزوں کے دنیا کی اہم زبانوں میں ترجمے بھی ہوئے ہیں۔ ان کی تقاریر آڈیو اور ویڈیوٹیپوں میں دستیاب ہیں۔
کرشنا مورتی نے مطالعہ کے مراکز بھی قائم کیے ہیں۔ جہاں ان کے افکاروخیالات کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ ان کے پیروؤں کا یقین ہے کہ اس مطالعہ کے ذریعہ سے آدمی اپنے اندرون کا سفر بھی کرسکتا ہے، یہ مطالعہ محض مطالعہ نہ ہوگا۔
کرشنا مورتی کے ذریعہ سے ہندوستان اور بیرون ممالک میں ایسے کالجوں کا قیام بھی عمل آیا ہے جہاں بچوں کے لیے ہر طرح کے خوف اور باہمی منافرت اور کشمکش سے پاک ماحول فراہم کیا گیا ہے۔ جہاں علم ہی نہیں طلبہ کی شخصیتوں کو بالیدگی بھی حاصل ہوتی ہے۔ کرشنا مورتی فاؤنڈیشن انڈیا، کرشنا مورتی کی کتابوں کو انگریزی اور ہندوستان کی مختلف زبانوں میں شائع کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
کرشنا مورتی نے تعلیم اور انسان کا مستقبل وغیرہ موضوعات پر اظہار خیال کیا ہے۔ لیکن ان کا خاص موضوع دھیان(Meditation) ہے۔ دھیان کا ان کے نزدیک کوئی طریقہ نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں:’’جو ہے اسے دیکھنا اور اس کے پار چلے جانا ہی دھیان ہے۔‘‘ ان کے نزدیک معلوم سے گزر کر نامعلوم(Unseen)میں داخل ہوجانا دھیان ہے۔ اس کے بغیر آدمی زندگی بھر ظاہر کا قیدی بن کر رہ جاتا ہے۔ اور ایک وسیع دنیا کی وسعت اور اس کی برکات سے محروم ہی رہتا ہے ؂
بند آنکھوں میں ہیں ناپید زمانے پیدا
کھلی آنکھوں سے ہر چیز کو دیکھا نہ کرو
ان کے نزدیک اگر آپ دھیان کے فیض سے محروم ہیں تو ’’آپ جگمگاتے رنگوں، جھلملاتی روشنی اور سایہ کی دنیا میں جینے والے ایک اندھے شخص کی طرح ہیں‘‘۔
وہ کہتے ہیں:
جب من دل کی دنیا میں داخل ہوجاتا ہے تو پھروہ ایک اور ہی وصف سے متصف ہوجاتا ہے۔ وہ حدود سے ماوراء ہوتا ہے۔ اس کی یہ وسعت غوروفکر اور کام کرنے کی صلاحیت میں بھی کارفرما ہوتی ہے۔ وہ وسعتوں میں جینے لگتا ہے۔ جہاں کسی چیز سے آدمی الگ نہیں ہوتا۔
ان کا نظریہ ہے کہ حسن ومحبت سے ناآشنا رہنے کی حالت میں اعلیٰ اوصاف انسان میں پیدا نہیں ہوتے۔
ان کے نزدیک زندہ من حقیقت میں نفس مطمئنۃ ہے۔جہاں زماں ومکاں کی دیواریں نہیں ہیں۔ وہ حدبندیوں سے ماوراء ہوتا ہے۔ اُسے حقیقت کہیے یا سرور اور حسن مطلق یا پریم اور پرماتما۔ ان کے خیال میں دھیان گہری سمجھ سے الگ نہیں ہوتا۔ دھیان سمجھ کی ایک بیدار روہے۔ وقت درحقیقت ناظر اور منظور کے درمیان کی دوری کے اور کچھ نہیں۔
موت کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ غیرمعمولی چیز ہے۔ موت آپ سے آپ کی ہر چیز لے لیتی ہے۔ آپ کی دولت، آپ کی بیوی، بچے، آپ کا وطن، آپ کی اوہام پرستی، آپ کے دیوی دیوتا، آپ کے گرو۔ آپ کی آرزو ہوسکتی ہے کہ آپ ان سب کو اپنے ساتھ لے جائیں۔ لیکن آپ ایسا نہیں کرسکتے۔ موت کا پیغام یہی ہے کہ کچھ ہے جو ماسوا نہیں۔
کرشنا مورتی کی چند کتابوں کے نام یہ ہیں:
دھیان
تشدد سے پرے
کلچر کا مسئلہ
تعلیم اور زندگی کااصل مفہوم
سیکھنے کا ہنر
بنیادی انقلاب کی ضرورت
کتاب زندگی
اندرون کی شگفتگی
پریم
سائنس اور تعمیر
جنگ اورامن
موت اور اس کے بعد
معاش کا مسئلہ
انسان کامستقبل
آزادی، ذمہ داری اور انضباط
اسکولوں کے نام مکتوب
واشنگٹن کے مباحث
مولانا محمد فاروق خاں، معروف اسلامی دانشور

 

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights