از: عبداللہ جاوید
انسانوں سے تعلق کے تقاضوں کی تکمیل اور ایک مثالی معاشرہ کی تعمیر کا کام ہم سے قول وعمل میں مکمل یکسانیت چاہتا ہے۔ قول اور عمل میں ہم آہنگی ہی معاشرہ پر واضح کرے گی اسلام اور مسلمان ہیں کیا؟اسوۂ رسول اللہ ؐہی کے توسط سے دعوت کو حیات آفریں اور شخصیت کو جاذب نظر بنایا جاسکتا ہے۔ ہماری زندگیوں میں رسول اللہؐ کے اخلاق حسنہ جس قدر نظر آئیں گے اسی قدر لوگ بھی ہم سے قریب ہوتے نظر آئیں گے۔ اس لیے محبت رسولؐ کا تقاضا ہے کہ ہر فرد یہ دیکھے کہ اس کے کس رویے سے رسول اللہؐکی جھلک نظر آتی ہے؟ دن بھر کے کاموں میں وہ کس حد تک رسول اللہؐ کے احکامات کا پاس و لحاظ رکھتا ہے؟ رسول اللہؐ کی ہدایت کے مطابق انجام پانے والے ہر چھوٹے بڑے کام ہی سے سب پر واضح ہوگا کہ مسلمان درحقیقت رحمۃٌ للعالمین ؐکے امتی ہیں اور وہ بھی سراپا رحمت ہیں۔ دنیا والوں کے سامنے سیرت رسولؐ کے پیغام کو کما حقہ پیش کرنا‘ انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو سیرت رسولؐ کے سانچے میں ڈھالنے ہی سے ممکن ہے۔لہذا حسب ذیل پہلوئوں سے بہتری کی مستقل کوشش ہوتی رہنی چاہئے:
(۱) سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اپنی شخصیت میں نکھا ر لائیے
شخصیت میں نکھار ‘ بہتر اخلاق سے ممکن ہے۔اور ایک بااخلاق شخصیت کے ذریعہ سے ہی معاشرہ ‘بہتر معاشرہ بنتاہے۔ یہی وہ کامیابی اور کامرانی کی شاہ کلید ہے جسے ہم رسول اللہؐ کی مکی زندگی میں پاتے ہیں۔ نہ صرف مکہ معظمہ میں بلکہ پورے عرب میں آپؐ الصادق اورالامین کی اعلیٰ مثال سمجھے جاتے تھے اور ان ہی ناموں سے لوگ آپؐ کو پہنچانتے اور یاد کرتے تھے۔یعنی جب بہتراخلاق کا مظاہرہ ہوتو معاشرہ اس کا اثر محسوس کرے گا‘یہاں رہنے والے لوگ حسن سیرت کی قدر و قیمت جانیں گے۔ جس طرح ایک صحت مند شخص ہی پھل کی مٹھاس اور ذائقہ محسوس کرسکتا ہے اسی طرح ایک صحت مند سماج ہی اچھے اخلاق و کردار کی قدر کرسکتا ہے۔بہتر اخلاق کی پہچان یہ ہے کہ ایک مسلمان کے نزدیک سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی محبت ہو‘اسکے رسولؐ کی محبت اور اس واسطے تمام انسانوں سے الفت و محبت کے تعلقات ہوں۔ یہی محبت ایک مسلمان کو ہر وقت‘ اپنے کردار سے معاشرہ کو سنوارنے میں مصروف رکھنے کا محرک بنے گی۔ وسائل ہوں تب بھی اور کچھ بھی نہ ہو‘ تب بھی۔رسول اللہؐ کی تلقین کی ہوئی یہ دعا ایک ایسے ہی مسلمان کی دلی کیفیت کا اظہار ہے:
….اَللّٰہُمَّ مَارََزَقْتَنِیْ مِمَّا اُحِبُّ فَاجْعَلْہُ قُوَّۃً لِیْ فِیْمَا تُحِبُّ
اے اللہ جو میری محبوب چیزیں تو نے مجھے عطا کی ہیں ان سے مجھے قوت پہنچا کہ میں انہیں تیرے پسندیدہ کاموں میں خرچ کروں۔
وَمَا زَوَیْتَ عَنِّی مِمَّا اُحِبُّ
اور جو میری پسند کی چیزیں تو نے مجھے نہیں دی ہیں
وسائل نہ ملیں تو ظاہر بات ہے کہ آدمی کو فراغت میسر آتی ہے ۔بندہ ٔمومن کی دعا ہے کہ اے اللہ بجائے یہ کہ وسائل نہ ہونے کا گلہ شکوہ کرتا رہوں۔
فَاجْعَلْہُ فَرَاغاً لِیْ فِیْمَا تُحِبُّ
مجھے اس بات کی توفیق دے کہ میں اس فراغت کو تیرے محبوب کاموں میں خرچ کروں۔ (حضرت ابوہریرہؓ – ترمذی)
رسول اللہؐ نے معاشرہ کی ترقی و خوشحالی کو اہل ایمان کے اخلاق سے جوڑ دیا ہے۔معاشرہ اتنا ہی اچھا ہوگا جتنے اچھے مسلمان ہوں گے۔لہٰذااخلاق و کردار کا ہمیشہ ایک اونچا معیار قائم رکھنا چاہیے تاکہ زمانہ ہماری طرف دیکھے تو سر اٹھا کر دیکھے۔پہاڑوں کی بلندیوں اور آسمانوں کی اونچائیوں کو کوئی سرجھکائے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ سیرت رسولؐ کے مطابق شخصیت سنوارنے کے معنی یہی ہیں کہ ہر مسلمان کو معاشرہ ایمان دار‘ دیانت دار‘ وعدہ کا پابند‘ انسانوں اور ملک و معاشرہ کا سچا خیر خواہ‘ نیکیوں کا خوگر اور برائیوں کو دفع کرنے والا سمجھیں اور جانیں۔
(۲) سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں گھر وں کو سجایئے
رسول اللہؐ جب گھر میں قیام فرماتے تو اپنے کام خود ہی کرلیا کرتے تھے۔ امہات المومنینؓ کے گھر کے کاموں میں آپؐ ان کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ آپؐ کا یہ اسوہ اصل میں ایک بڑا ہی انقلابی پیغام دیتا ہے۔ وہ یہ کہ ایک مرد کو چاہیے کہ وہ اپنے گھر کی خواتین کے کام کا بوجھ ہلکا کرے تاکہ وہ عبادات کے علاوہ اپنی تعلیم و تربیت کے لیے قرآن وحدیث کے مطالعہ پر توجہ کرسکیں‘بچوں کی تربیت کرسکیں اوراپنی صلاحیتوں کی نشوونماکے لیے مصروف رہ سکیں۔ اگر مرد کا گھر میں ایسا تعاون نہ ہو تو پھر خواتین کے لیے کھانا پکا نے اورکپڑے دھونے کے علاوہ اور کچھ کام نہیں رہ جاتا۔
آپ محسو س کرتے ہوں گے کہ پہلے کے بزرگوں کے بارے جو پڑھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے والد/والدہ یاد ادا / نانا سے حاصل کی ہے ویسا آج کے ماحول میں شاذو نادر ہی نظر آتا ہے۔جب خواتین کو نہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے فرصت ملے اور نہ ہی بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے وقت میسر آئے تو کیسے وہ ماضی کی شاندار مثالیں ہمارے سامنے آسکتی ہیں؟فی زمانہ بچوں کی دوسری ضرورتیں پوری کرنے پر توبھرپور توجہ دی جاتی ہے لیکن شاید یہ بات دل میں نہیں بیٹھی کہ بچوں کے لیے اصل تحفہ کھلونے اورگاڑیاں نہیں بلکہ اچھی تعلیم و تربیت ہے۔رسول اللہؐ فرماتے ہیں:
مَا نَحَلَ وَالِدٌ وَلَدَہُ مِنْ نُّحْلٍ اَفْضَلُ مِنْ اَدَبٍ حَسَنٍ
کسی باپ نے اپنے بیٹے کو اچھا ادب سکھانے سے بڑھ کر کوئی عطیہ نہیں دیا۔ ( ترمذی)
گھر میں تعلیم و تربیت کا نظم ہو تو اس کا بڑا غیر معمولی اثر بچوں کے اخلاق و کردار پر پڑتا ہے۔کیونکہ کوئی بھی تربیت کا طریقہ اسی وقت کارگر ہوگا جبکہ تربیت کرنے والا یا تربیت کرنے والی جو کچھ کہیں اس پر عمل کرنے والے بھی ہوں۔والدین کی جانب سے جو تعلیم دی جائے ‘بچے ان کا عملی نمونہ اپنے والدین کے چال ڈھال اور رویوں میں دیکھیں گے۔ جہاں قول و عمل یکسانیت ہو تو بچوں پر بڑا غیر معمولی اثر پڑتا ہے اگر اس میںتضاد ہو بچے بگڑ جاتے ہیں،اور ان سب کے لئے گھر گویا کہ ایک کسوٹی بن جاتا ہے۔لہذا شوہر بیوی کے درمیان محبت کے تعلقات‘ ایک دوسرے کا تعاون اور بچوں کی تعلیم و تربیت کا نظم ہو تو بلاشبہ ‘گھر اسلامی تعلیمات کی روشنی سے منور ہوجاتا ہے۔
(۳) سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں خاندان کی تعمیر کیجئے
یہی معاملہ خاندان کے افراد کے ساتھ کا بھی ہے‘ کہ اگر خاندان مثالی ہو تو معاشرہ بھی مثالی بنے گا۔ بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ آج مسلم معاشرہ کے جو مسائل ہیں‘ غربت‘ بے روزگاری‘ بھوک‘ بن بیاہی بیٹے‘بیٹیاں ‘ اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کا فقدان ……. ان کی ایک وجہ افراد خاندان کے درمیان ویسے تعلقات کا نہ ہونا ہے جیسے تعلقات کی تعلیم ہمارے پیارے نبیؐ نے دی ہے۔
ایسے کتنے لوگ ہیں جورسول اللہؐ کے ارشاد مبارک صِلْ مَنْ قَطَعَکَ یعنی تم اس سے جڑو جو تم سے کٹتا ہے پر عمل کرتے ہوں گے؟ رشتہ دار دوری اختیار کریں تووہ ان سے قریب ہونے کی کوشش کرتے ہوں گے؟ جب اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ دیا ہو کہ تمہارے مال میں تمہارے ان رشتہ داروں کا بھی حق ہے جو دولت سے محروم کردیئے گئے ہیں(سورۃ الذاریات:۱۹) تو ایسے کتنے لوگ ہیں جو اس ارشاد ربانی پر عمل کرتے ہوئے اہل خاندان کی مالی امداد کرتے ہوں گے؟
ایک صحابیؓ نے رسول اللہؐ سے یہ سوال کیا کہ افضل صدقہ کون سا ہے؟ آپؐ نے فرمایا عَلی ذِی الرَّحْمِ الْکَاشِح یعنی وہ صدقہ افضل ہے جو کسی ایسے غریب رشتہ دار کو دیا جائے جو سخت دشمنی کرتا ہو۔ ذرا غور فرمائیے دشمنی کرنے والا رشتہ دار بھی ہو تو اس کی مالی مدد کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ اگر رشتہ دار اچھے ہوں تو‘ ان پر خرچ کرنا اور زیادہ آسان ہونا چاہئے ۔اس تناظر میں دیکھنا چاہئے کہ افراد خاندان کی کس حد تک خبر گیر ی کی جاتی ہے۔
ذرا غور کیجئے !معاشرہ میںیہ فقراء و مساکین کیوں نظر آتے ہیں؟کیوں ہماری مائیں اوربہنیں اور بیٹے اپنی ضرورتوں کے لیے در در دامن پھیلائے پھرتے ہیں؟اگر کوئی اپنا ہاتھ پھیلائے توسمجھ لیجئے کہ وہ یہ پیغام دے رہا ہے کہ اس کے ہاتھ کوا س کے اپنے خاندان والوں نے نہیں تھاما۔ اگر دنیا والوں کو سیرت رسولؐ کا درس دینے والی ملت کا یہ حال ہوتو لوگ کیونکر اس کی دعوت کی طرف توجہ دیں گے؟ خاندان کو مثالی بنانے کی کوشش کریں ‘مالی اور بدنی مدد کے علاوہ تمام رشتہ داروں سے مربوط رہیں۔خوشی و غمی کے موقعوں سے انہیں یہ احساس کرائیں کہ آپ ہر لحاظ سے ان کے ساتھ ہیں۔ایسے کردار ہی کہ ذریعہ سے سیرت رسولؐکا پیغام اس کے شایان شان انداز سے لوگوں کے سامنے پیش کیا جاسکتا ہے۔
جب گھر اور خاندان میں قرآن و سنت کی تعلیمات پر عمل کیا جائے تو اس کے اثرات سے اطراف کا ماحول لازماً متأثر ہوجاتا ہے۔یوں گھر کی چہاردیواری میںکیا جانے والا عمل وسعت اختیار کرتے ہوئے معاشرہ کی اصلاح اور بہتری کا ذریعہ بن جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایمان کو پڑوس کے ساتھ حسن سلوک سے جوڑدیا گیا ہے۔گھر کے اطراف یوں تو کئی مکانات ہوتے ہیں‘ اسلام نے ان سب کو ایمان کے رشتہ سے جوڑدیا ہے۔چاہے پڑوسی رشتہ دار ہوںیا نہ ہوں‘چاہے ایمان والے ہوں یا نہ ہوں‘پڑوسی کا بہرحال حق ثابت ہے۔ کسی مسلمان کا مسلمان ہونا اس طرح جانچا جائے گا کہ وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ کیسے رہتا ہے۔ ایک شخص رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:
یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ کَیْفَ لِیْ اَنْ اَعْلَمَ اِذَا أَحْسَنْتُ وَاِذَا أَسَأْتُ۔ فَقَالَ النَّبِیُّ ؐ اِذَا سَمِعْتَ جِیْرَانَکَ یَقُوْلُوْنَ قَدْ اَحْسَنْتَ وَاِذَا سَمِعْتَہُمْ یَقُوْلُوْنَ قَدْ اَسْأْتَ فَقَدْ اَسَأْتَ
اے اللہ کے رسولؐمجھے کیسے معلوم ہو کہ میں نے بھلائی کی ہے یا برائی کی ہے؟ نبی کریمؐنے فرمایا کہ جب تم اپنے پڑوسی کو کہتے سنو کہ تم نے بھلائی کی تو واقعی تم نے بھلائی کی اور جب اپنے پڑوسی کو کہتے سنو کہ تم نے برا سلوک کیا تو واقعی تم نے برا سلوک کیا۔ (حضرت عبداللّٰہ ابن مسعود ؓ ،ابن ماجہ )
اس لیے پڑوسی کو ایمان جانچنے کا ایک پیمانہ سمجھیں‘ اس کے ساتھ آپ جتنے اچھے ہوں گے اسی قدر اللہ کی نگاہ میں بھی اچھے ہوں گے:
خَیْرُ الْجِیْرَانِ عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرُھُمْ لِجَارِہٖ
اچھے پڑوسی وہ ہیں جو اپنے پڑوسیوں کے لیے اچھے ہیں۔ (حضرت عبداللہ بن عمر ؓ، ترمذی)
یہ خیر کا پہلو ہی مسلمانوں کو ساری انسانیت کے لیے نفع بخش بنادیتا ہے۔
(۴) اپنے حسن اخلاق سے معاشرہ کونئی بلندیاں عطا کیجئے
اچھے اخلاق کے ذریعہ ہی سے قرآن وسنت کی باتیں بڑی تیزی کے ساتھ عام کی جاسکتی ہیں۔ایک مسلمان اپنے قول وعمل ‘ اپنے کردار اور اپنے معاملات سے معاشرہ کو اس قدر اونچا اٹھاتا ہے کہ اس معاشرہ کے اچھے لوگ حق کو حق جان کر اس کا ساتھ دینے تیار ہوجاتے ہیں۔ معاشرہ کی بھلائی کے لیے مزید غور کیا جائے تو رسول اللہؐ کے اسوۂ مبارکہ کے اور بھی بے شمار پہلو سامنے آتے ہیں۔ انہیں اپنانے پر توجہ ہونی چاہیے۔ معاشرہ کی بھلائی کے لیے ‘ معاشرہ میں موجود برائیوں کا خوب اندازہ ضروری ہے تاکہ ان کے ازالے کی کوشش کی جاسکے۔ برائیوں کا علم ہی نہ ہو تو برائیوں کو کیسے مٹایا جاسکتا ہے؟اسی طرح معاشرہ کی اچھائیوں کی پہچان ہو‘اور جو اچھے لوگ ہیں ان سے تعاون لینے اور دینے کا ماحول پروان چڑھنا چاہئے۔ جب کوئی گروہ یا افراد اچھے کام کے لیے جٹ جاتے ہیں تو ان کے دل اللہ واسطے جڑ جاتے ہیں۔ ان میں جو لوگ حق نہیں جانتے ‘ ان کی سمجھ میں حق آجاتا ہے۔جو دین اسلام کے اخلاقی اقدار سے ناواقف ہیں انہیں مسلمانو ںکی ایمان داری اور دیانت داری اور ملک اور باشندگان ملک کی خیر خواہی بخوبی معلوم ہوجاتی ہے ،اور وہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ پر ایمان لانے والوں کے بہتر اخلاق و کردارآخر کیسے نشوونما پائے ہیں۔ اور وہ کیا محرکات ہیں کہ یہ امت محمدیہؐ انسانوں کی بے لوث خادم بنی ہے؟
معاشرہ کی بھلائی کے لیے نیکیوں کو عام کرنااور برائیوں کو مٹانا اسی طرح ضروری اور فرض ہے جس طرح نماز اور روزہ ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ حکم دیتا ہے:
وَلْتَکُن مِّنکُمْ أُمَّۃٌ یَّدْعُونَ إِلَی الْخَیْْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَأُوْلَـئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُون
تم میں کچھ لوگ ضرور ہی ایسے ہونے چاہئیں جو نیکیوں کی طرف بلائیں اور برائیوں سے روکیں اور ایسے ہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔(آل عمران:۱۰۴)
چنانچہ اس اہم کام سے غفلت کے سلسلہ میںرسول اللہؐ سخت تاکید فرماتے ہیں:
وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَتَاْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلَتَنْھَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ اَوْ لَیُؤْشِکَنَّ اللّٰہُ اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَاباً مِّنْ عِنْدِہٖ ثُمَّ لَتَدْعُنَّہُ وَلاَ یُسْتَجَابُ لَکُمْ۔
قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے تم ضرور نیک کاموں کا حکم کرنا اور برے کاموں سے منع کرتے رہنا، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنے پاس سے عذاب بھیج دے گا۔ پھر تم اس سے دعا کرو گے تو تمہاری دعا قبول نہیں کی جائے گی۔ (حضرت حُذیفہ ؓ ، ترمذی)
جیسا کہ یہ واضح ہوا کہ معاشرہ کی ترقی و خوشحالی بہتر اخلاق سے ممکن ہے‘اوپر بیان کردہ اخلاقی اقدار کے علاوہ انسانوں کی خیر خواہی ان میں بڑی نمایا ں حیثیت رکھتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ خود اس جانب متوجہ کرتا ہے کہ جو رسول اللہؐ تمہارے درمیان آئے ہیں ان کی یہ خوبیاں ہیں:
لَقَدْ جَاء کُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْْکُم بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُوفٌ رَّحِیْمٌ
تمہارے پاس خود تم ہی میں سے ایک رسول آئے ہیں۔تمہارا مصیبت میں پڑنا ان پر شاق گذرتا ہے اور وہ تمہاری فلاح کے حریص ہیں اور جو لوگ ایمان لائے ان کے لیے وہ شفیق اور رحیم ہیں۔ (التوبہ:۱۲۸)
آپ انہیں اخلاقی خوبیوں کا پیکر بنے ‘معاشرہ کوترقی و خوشحالی کی بلندی تک پہنچاسکتے ہیں۔
(۵) علمی وفکری دنیا کے امام بن جائیے
کار دعوت کا ایک پہلوعلمی ‘فکر اورنظریاتی برتری سے تعلق رکھتا ہے۔بلکہ یہی دعوتی پہلو غالب ہے ان معنوں میں کہ اس پہلو سے جتنی پختگی ہوگی اتنی ہی پائیدار دعوتی کاوشیں ہوں گی۔اس تناظر میں اہل حق کو یہ ضرور دیکھنا چاہئے کہ باطل طاقتیں جس منظم اور منصوبہ بند انداز سے‘علمی ‘فکری‘ ثقافتی اور تہذیبی میدانوں میں سرگرمیاں دکھا رہی ہیںان کے معاشرہ پر کس طرح کے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ فی زمانہ باطل طاقتوں نے لڑیچر کی اشاعت ‘ الیکڑانیک میڈیا کے استعمال ‘ کارٹون اور اینی میشن ‘فلم اور ڈاکیومینڑیز اورسوشیل نیٹورکنگ کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ماحول سازی کا کام بڑے پیمانے پر انجام دیاہے اور یہ سلسلہ ابھی تھما نہیں۔جن میدانوں میں باطل طاقتیں اپنے ناپاک عزائم اور منظم کوششوں سے انسانیت کو نقصان پہنچارہی ہیں‘اہل ایمان کو ان میدانوں میں موثر رول ادا کرتے ہوئے انسانیت نواز جواب دینا چاہئے۔ جس طرح رسول اللہؐ نے شاعروں کا جواب دینے کے لیے حسان بن ثابتؓ کو اشعار پڑھنے کو کہا اسی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ جو نفرت اور تعصب کا ماحول پیدا کیاجارہا ہے اس کو قرآن وسنت کی بنیاد پرصاف و شفاف بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔
علم و فکر کا دنیا میں اپنا ایک الگ مقام ہے۔ جب باتیں دلائل کے ساتھ پیش کی جائیں اور مختلف قسم کے تاریخی اور سائنسی حقائق اجاگر کئے جائیں تو لوگ بغیر کسی تردد کے حق بات مان لیں گے۔قرآن و سنت کی تعلیمات ہی سے صحیح معنوں میں علمی و فکری بلندی حاصل کی جاسکتی لہذا امت محمدیہؐ کا یہ ایک اجتماعی ہدف ہونا چاہئے کہ اس کے افراد علم و فکر کا امام بنیں۔ اس کام کے لیے ڈاکٹرز اور انجینئرز بھی چاہئیں اور تاریخ‘ جغرافیہ‘ عمرانیات‘سوشل سائنس‘ سیاسیات‘ معاشیات‘نفسیات وغیرہ کے ماہرین بھی درکار ہیں۔ اس سلسلہ میں ہماراشہری اور محلہ واری سطح پر ایسا نظم ہونا چاہیے جو ملت کے نوجوانوں کے سامنے تعلیم حاصل کرنے کی ترجیحات پیش کرسکے۔ تاکہ جب جس میدان کا علم حاصل کرنا ضروری ہو اس پر نوجوان توجہ کرسکیں۔
تاریخ انسانی میں جس علمی وفکری سطح سے اسلام اور رسول اللہؐ کی عظیم شخصیت پر حملے ہورہے تھے‘ مختلف ادوار میں بعض سنجیدہ اور صاف ذہن رکھنے والے اہل کتاب نے بڑے پروقار انداز سے ان سے متعلق حقائق پیش کیے ہیں۔اس پہلو سے بھی ہمارا مطالعہ ہونا چاہئے۔ بقول ایک مشہور امریکی مصنف مریم جمیلہ اس ضمن میںReynold Nicholsonاور Arthrur Arberryکی کوششیں قابل ذکر ہیں۔ اگر مزید غورکریں تو ماضی کی بعض نامور شخصیات نظر آتی ہیں جنہوں نے رسول اکرمؐ سے متعلق کیے جانے والے بے بنیاد اعتراضات کا جم کر جواب دیا:
٭ جرمن کے مشہور شاعر Johann Wolfgang von Goetheنے 1773میں حضور اکرمؐ کی شان میں ایک طویل نظم لکھی جس کو انہوںنے ترانۂ محمد( Muhammad’s Song)کا نام دیا۔اس میں نبی اکرم ؐ کی خوب تعریف و توصیف کرتے ہوئے اس نے آپؐ کو انسانیت کا جوہر نادرقرار دیا۔ Goetheنے اپنی زندگی کے آخری مرحلہ میں سیرت رسول ؐ پر کتاب لکھنی شروع کی لیکن اس کی تکمیل سے پہلے وہ انتقال کرگئے۔ اسلام سے متعلق موصوف کے صحت مند خیالات اور رسول اکرمؐ کی عقیدت کے باعث کہا جاتا ہے کہ Goetheنے شاید مرنے سے قبل دین اسلام قبول کرلیا ہو۔
٭ 1840 میںبرطانوی مؤرخ تھامس کارلائل نے اس جرمن شاعر کی نظم کا انگریزی میں ترجمہ کیا ۔جس میں اس نے نبی اکرمؐ کی شخصیت کو تاریخ انسانی میں عظیم ترین انقلاب برپا کرنے والا بتایا۔تھامس کارلائل نے بڑے ہی پرزور انداز سے وضاحت کی :
…none of the allegations put forward against the Prophet of Islam up until that time were true, for his incredible achievements in creating a great civilization, as well as the fact that there were many wise men with a great characters who were followers of Prophet Muhammad, is enough to disprove the negative allegations against him. He also notes that accusing the Prophet ,creates more problems than it solves. (Thomas Carlyle in his book – On Heroes and Hero Worship and the Heroic in History)
اس و قت تک اسلام اور پیغمبر اسلام ؐکے سلسلہ میں جتنی بھی غلط فہمیاں پھیلائی گئی تھیں وہ بالکل غلط اور بے بنیادہیں۔اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس عظیم شخصیت نے تاریخ انسانی میں ایک حیرت انگیز تہذیب کو وجود بخشا اور اپنے ایسے متبعین تیار کیے جن کے اخلاق و کردار ہر لحاظ سے مثالی تھے۔ تھامس کارلائل آگے کہتا ہے کہ پیغمبراسلامؐ سے متعلق غلط فہمیاں پھیلانا‘ مسائل پیدا کرنا ہے نہ کہ مسائل کا حل۔ (تھامس کارلائل کی کتاب کا اقتباس)
٭ مسز اینی بیسنٹ ہندوستا ن کی تھیو سوفیکل سوسائٹی کی پیشوا اور بڑی مشہور انگریز خاتون تھیں‘ وہ اپنی کتاب The life & teachings of Prophet Muhammad میں لکھتی ہیں کہ:
“پیغمبر اعظم آنحضرت ؐ کی جس بات نے میرے دل میں عظمت وبزرگی قائم کی ہے وہ ان کی وہ صفت ہے جس نے ان کے ہم وطنوں سے الصادق اور الامین کے خطاب دلوائے۔ کوئی صفت اس سے بڑھ کر نہیں ہوسکتی اور کوئی بات اس سے زیادہ مسلم اور غیرمسلم دونوں کے لیے قابل اتباع نہیں۔ایک ذات جو مجسم صدق ہو اس کے اشرف ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے ایسا ہی شخص اس قابل ہے کہ پیغام حق کا حامل ہو”۔
ہمارے نوجوانوں کو بطور خاص تو جہ دینا چاہیے کہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے شایان شان وہ بھی علمی وفکری سطح پر امت محمدیہؐ کے جانشین بن کر نمائندگی کریں۔رحمت للعالمین ؐکی امت کا حق بنتا ہے کہ وہ اپنے نبیؐ پر نازل ہوئی کتاب اور آپؐ کی سنت کے مطابق علمی و فکر ی دنیا کے امام بنیں۔دین اسلام کے احیا ء کے لیے کی جانے والی یہی وہ مطلوب کوششیں ہیں جن سے ملت ‘ ملت واحدہ نظر آئے گی۔ ملی اتحاد کے لیے ایک بامقصد اور طویل المیعاد منصوبہ چاہیے‘ اس کے بغیر سب کا ملنا‘ ملے رہنا اور تعمیری طرز پر کام انجام دیتے رہنا ممکن نہیں۔اس لیے اتحاد ملت کے معنی ہی یہ ہیں کہ سب مل کر قرآن وسنت کو مضـبوطی سے تھامیں اور ان کے مطابق اپنی شخصیتوں اور اطراف کے ماحول میں تبدیلیاں لانے کی کوشش میں جٹ جائیں۔
(۶) ثقافتی میدان میںاپنا وجود منوائیے
منظم جدوجہد ثقافتی میدان میں بھی ہونی چاہیے۔ لٹریچر کی اشاعت ‘ذرائع ابلاغ‘فلم‘ ڈاکومینڑیز‘ اینی میشن‘ کارٹونز وغیرہ کے ذریعہ دین اسلام کو عام کرنا اہم ترجیحات میں سے ہونا چاہیے۔دنیا نے یہ جدید ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے اپنے افکار و خیالات بڑے پیمانے پر عام کیے ہیں۔ سچی اور دلوں کو جوڑنے والی باتوں اور آخرت کو سنوارنے والی تعلیمات کو اگر ان ذرائع سے پیش کی جائیں تو ان شاء اللہ ‘ بڑے پیمانے پر دین کی اشاعت کا کام ہوسکتا ہے اور ثقافت کے میدان میں پڑ رہے غلط اثرات کا ازالہ بھی ۔
آپ جانتے ہیں ہمارے اسلاف نے اپنے زمانوں میں جو تہذیبی اور ثقافتی کارنامے انجام دیئے ہیں جن کی آج بھی دنیا معترف ہے ‘ان کارناموں کے لئے اسلام کے مختلف النوع ثقافتی پہلوپائیدار بنیاد بہم پہنچائے ہیں۔ تفصیلات ملاحظہ فرمائیں:
کہانیاں- نصیحت اور سبق آموز افسانے‘ حکمت و موعظت کے ساتھ مزاح اور سبق آموز کہانیاں لکھنے‘ پبلش کرنے ‘فروخت کرنے او رپڑھنے کی گنجائش ہے ۔ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ حکمت ودانائی کی باتیں مومن کی گمشدہ متاع ہیں وہ جہاں مل جائیں تو وہ ان کو پالیتا ہے۔ ہمارے اسلاف نے اس ضمن میں جو کوششیں کی ہیں وہ قابل غورہیں۔ ابوالفرج اصفہانی کی کتاب الأغانی ‘حافظ جاحظ کی کتاب البخلاء اور عبد اللہ ابن المقفع کی کلیلۃ ودمنۃ اورمشہور محقق ابن الجوزی نے تفریحی مضامین پر مشتمل ایک مستقل کتاب أخبار الحمقی والمغفلین کے نام سے تحریر فرمائی ہے۔یہ اور ان جیسی دیگر کاوشوں سے ترغیب حاصل کرتے ہوئے صحت مند لٹریچر کی تیاری پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ قلم کے ذریعہ جہاد(جہاد بالقلم) کی بھی بڑی اہمیت ہے۔
کھیل کود- اسی طرح جائز کھیل کود کے میدان میں بھی بھرپور نمائندگی ہونی چاہیے۔ رسول اللہؐ نے بعض کھیل کے سلسلہ میں بڑی ترغیب دلائی ہے۔ جیسے تیراکی‘ گھوڑ سواری‘ دوڑ‘ تیراندازی وغیرہ۔
بعض کھیلوں کے سلسلہ میں رسول اللہؐ نے خصوصی تاکید فرمائی ہے۔ترمذی میں ہے:
کُلُّ مَا یَلْہُوبِہ الْمَرْئُ الْمُسْلِمُ بَاطِلٌ اِلاَّ رَمْیَۃٌ بِقَوْسِہ وَتَأدِیْـبُہ فَرَسَہ وَمُلاعَبَتُہ اِمْرَأتُہ فَاِنَّھُنَّ مِنَ الْحَقِّ
مرد مسلماں کا ہر کھیل بیکار ہے سوائے تین طرح کے کھیلوں کے ‘پہلا تیر اندازی کرنا دوسری گھوڑے سدھانا اور تیسرا بیوی کے ساتھ کھیلنا‘ کیونکہ یہ تینوں کھیل حق ہیں۔
ایک اور جگہ رسول اللہؐ نے فرمایا:
اللہ کی یاد سے تعلق نہ رکھنے والی ہر چیز لھو ولعب ہے، سوائے چار چیزوں کے:
(۱) آدمی کا اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنا (۲) اپنے گھوڑے سدھانا (۳) دونشانوں کے درمیان دوڑلگانا (۴) تیراکی سیکھنا۔
دوڑ لگانا- حضرات صحابہ کرامؓ عام طور سے دوڑ لگایا کرتے تھے۔حضرت بلال بن سعد کہتے ہیں کہ میںنے صحابہ کرامؓ کو دیکھا ہے وہ دو نشانوں کے درمیان دوڑ لگاتے تھے اور بعض آپس میں دل لگی کرتے تھے ‘ہنستے تھے ‘ اور جب عبادت کا وقت ہوجاتا تو اس میں مشغول ہوجاتے تھے (مشکوۃ المصابیح)۔
پیدل دوڑ (jogging)میں مثالی شہرت رکھنے والے ایک صحابی سلمہ بن الاکوع ؓکہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں تھے ‘ ہمارے ساتھ ایک انصاری نوجوان بھی تھا‘جو پیدل دوڑ میں کبھی کسی سے ہارا نہ تھا۔وہ راستہ میں کہنے لگا ہے کوئی جو مدینہ تک مجھ سے دوڑ میں مقابلہ کرے۔وہ صحابیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ بات رسول اللہؐ کی خدمت میں رکھی اورعرض کیا: میرے ماں باپ آپؐ پر قربان یا رسول اللہؐ مجھے اجازت دیجئے کہ میں ان سے دوڑ لگائوں۔آپؐ نے اجازت دے دی۔چنانچہ میں نے ان سے مدینہ تک دوڑ لگائی اور جیت گیا(مسلم)۔
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کا بیان ہے کہ حضرت عمر ؓ اورحضرت زبیر بن عوامؓ میں دوڑ کا (running race)مقابلہ ہوا۔حضرت زبیرؓ جیت گئے توفرمایا رب کعبہ کی قسم میں جیت گیا۔ پھر کچھ عرصہ بعد ان دونوں کے درمیان دوبارہ دوڑ کا مقابلہ ہوا تو حضرت عمرؓ آگے نکل گئے تو انہوں نے وہی جملہ دہرایا رب کعبہ کی قسم میں جیت گیا۔(کنزالعمال)۔
نیزہ بازی – تیر(archery) اور بھالا چلانا(javelin throw) ایک پسندیدہ کھیل ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اللہ کی قسم میں نے رسول اللہؐ کو دیکھا آپؐ میرے حجرے کے دروازہ پر کھڑے ہوگئے۔ کچھ حبشی نیزوں کے ساتھ مسجد کے باہر صحن میں کھیل رہے تھے۔ رسول اللہؐ مجھے اپنی چادر سے چھپارہے تھے اور میں آپؐ کے کان اور کاندھوں کے درمیان حبشیوں کو کھیلتے دیکھ رہی تھی۔ (بخاری)۔
کشتی اور کبڈی- ستر کا خیال رکھتے ہوئے کشتی (wrestling) کرنا پسندیدہ ہے۔عرب کے ایک مشہور پہلوان رکانہ نے رسول اللہؐ سے کشتی لڑی تو آپؐ نے اس کو کشتی میں پچھاڑ دیا تھا (ابوداؤد)۔اسی سے کبڈی جیسے کھیل کا بھی جواز نکلتا ہے۔
ان کھیلوں میں نمائندگی‘ صحیح افکار و خیالات کو عام کرنے کا ذریعہ بنے گی۔ اور جو ان کھیلوں سے وابستہ ہیں انہیں متوجہ کیا جاسکے گا کہ وہ اپنی توانائیاں اور وسائل ملک اور باشندگان ملک کی بھلائی کے لیے لگائیں۔لہٰذاان میدانوں میں نہ صرف اعلی کارکردگی کے ساتھ نمائندگی ہو بلکہ ان سے متعلق افراد ‘اداروں اورتنظیموں سے روابط و تعلقات ہونے چاہئیں۔ان میدانوں میں ہماری سرگرمیوں کی اصل غایت اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک صحت مند تفریح ایک متبادل کے طور پر لوگوں کے سامنے رہے ورنہ وہ اپنادل بہلانے کے لیے تفریح کے اور بھی ناجائز طریقے اختیار کرسکتے ہیں۔
انسانی مزاج میں تفریح کا عنصر بھی موجود ہے‘ اس کا لحاظ رکھنا چاہیے۔رسول اللہؐ فرماتے ہیں: رَوِّحُوْا الْقُلُوبَ سَاعَۃً۔دلوں کو وقتاً فوقتاً خوش کرتے رہا کرو (جامع الصغیر للسیوطی)۔
ایک اورروایت میں ہے:
اَلْقَلْبُ مُمِلٌّ کَمَا تَمُلُّ الْأبْدَانُ فَاطْلُبُوْا بِھَا طَرَائِقَ الْحِکْمَۃِ
دل اسی طرح تھکنے لگتا ہے جیسے بدن تھک جاتے ہیںلہٰذا اس کی تفریح کے لیے حکمت سے بھرپور طریقے تلاش کرو۔
اگر تفریح کے طریقے اللہ کی عبادت سے غافل نہ کرتے ہوں اور نہ ہی ان کا شمار اترانے اور پھول جانے میںہوتا ہو تو وہ قابل تحسین قرار پائیں گے کیونکہ اترانے والوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ پسند نہیں فرماتا: لَا تَفْرَحْ إِنَّ اللَّہَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ (القصص:۷۶)۔
آپسی محبت کا نمونہ بن جائیے
دعوت دین کے ذریعہ انسانوں کی تقدیر سنوارنے والی ملت نہ صرف ہمیشہ آپس میں متحد رہے بلکہ وہ محبت ویگانگت اور ایثار و قربانی کا مجسم بن جائے۔لہذا یہ دیکھنا چاہیے کہ آج مسلمان جن حالات سے دوچار ہیں وہ کس حد تک رسول اللہؐ کی محبت کو نمایاں کرتے ہیں؟ کیا ہمارے درمیان اللہ کے رسول ؐ کی تعلیمات روبہ عمل آتی ہیں؟ کیا ہم ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراتے ہیں؟ سلام میں پہل کرتے ہیں؟ ہماری مسجدوں کے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں؟کیا ہماری تنظیموں اور جماعتوں اور اداروں میں باہمی اتفاق وتعاون کا ماحول ہے؟ ہمارے باہمی تعلقات کیسے ہوں‘ اس کی یاد پھر سے دلوں میں تازہ کرلیں۔اللہ تعالیٰ پسند فرماتاہے کہ ہمارے دل ایکدوسرے سے وابستہ رہیں :
وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ وَلاَ تَعْدُ عَیْنٰـکَ عَنْھُمْ…..
اور اپنے دل کو ان لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے رب کی رضا کے طلب گار بن کر صبح و شام اسے پکارتے ہیں‘اور تمہاری نگاہیں ان سے ہٹنے نہ پائیں۔(الکھف:۲۸)
قرآن مجید کی خوبی ہے کہ یہ رشتہ کی باریکی کو انتہائی خوش اسلوبی سے بیان کرتا ہے۔ مسلمانوں کو نہ صرف ایک دوسرے سے جڑے رہنا ہے بلکہ ایک دوسرے پر نگاہیں جمائے رکھنا بھی ہے۔ یعنی ایک دوسرے کو اچھی طرح دیکھنے والے بنیں۔کیا خوبیاں ہیں اور کیا خامیاں؟ کیا مسائل ہیں اور کیا پریشانیاں ؟ یہ سب معلوم کرنا اسی وقت ممکن ہے جبکہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو دیکھنے والے ہوں۔ اب ذرا جائزہ لیں کہ ہماری نگاہیں کس حد تک ایک دوسرے کو دیکھ رہی ہیں۔ اور ہم ایک دوسرے کے مثبت اورقابل اصلاح پہلوئوں سے کس حد تک واقفیت رکھتے ہیں؟ایک اور آیت ہمارے آپسی تعلقات کی بڑی دلنشین انداز سے وضاحت کرتی ہے:
وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ
اور ایمان لانے والوں میں سے جو لوگ تمہاری پیروی اختیار کریں ان کے ساتھ تواضع سے پیش آئو۔(الشعراء :۲۱۵)
یعنی جو مسلمان ہیں ان کے ساتھ نرمی اور ہمدردی سے پیش آنا چاہیے۔ یہاں اِخْفِضْ جَنَاحَکَ کہا گیا ہے یعنی تم اپنے پروں کو بچھا دو۔ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر اپنے پروں کو بچھائے۔ یعنی جس طرح ایک پرندہ اپنے پروں سے جاناجاتا ہے اسی طرح ہم بھی اپنی قابلیت‘ صلاحیت‘ دولت ‘و سائل‘ شہرت ‘ تنظیم اور اداروں سے جانے پہچانے جاتے ہیں‘گو یا ان سب کی حیثیت ہمارے پروں کی سی ہے۔اوریہ سب مسلمان پر قربان ہونے چاہئیں۔ نہ ہماری صلاحیت اور نہ ہی دولت ‘نہ ہمارے وسائل اورنہ ہی ہماری تنظیم کسی مسلمان سے بڑھ کر ہونی چاہیے ۔ رسول اکرمؐ نے ہماری باہمی محبت ‘خیر خواہی اور اتحاد سے متعلق نصیحتیں فرمائیں ہیں‘ ان کے پیش نظر بھی جائزہ لینا چاہئے:
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ؐ لَا یَحِلُّ لِلرَّجُلِ اَنْ یَّھْجُرَاَخَاہُ فَوْقَ ثَلاَ ثِ لَیَالٍ یَلْـتَـقِیَانِ فَیُعْرِضُ ھٰذَاوَ یُعْرِضُ ہٰذَاوَخَیْرُھُمَا الَّذِیْ یَبْدَأُ بِالسَّلَامِ
رسول اللہؐ نے فرمایا کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے مسلسل تین دن سے زیادہ تعلق توڑے رہے‘کہ جب بھی وہ دونوں ملیں تو کوئی ادھر منہ کرے اورکوئی ادھر منہ کرے۔ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔(حضرت ابوایوب انصاریؓ،بخاری‘مسلم)
ایک اور حدیث میں اس سے آگے آپؐ نے ارشاد فرمایا:….. فَمَنْ ھَجَرَ فَوْقَ ثَلاَثٍ فَمَاتَ دَخَلَ النَّارَ -تو پھر جس نے تین دن سے زیادہ تعلق توڑا اور اسی حال میںمرا تو جہنم میں ڈالا جائے گا۔ (حضرت ابوہریرہؓ،مسنداحمد‘ابوداؤد)
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ ؐ لاَ تَقَاطَعُوْا وَلاَ تَدَابَرُوْا وَلاَ تَبَاغَضُوْا وَلاَ تَحَاسَدُوْا وَکُوْنُوْا عِبَاد َاللّٰہِ اِخْوَانًا وَلاَ یَحِلُّ لِلْمُسْلِمِ اَنْ یَّھْجُرَ أَخَاہُ فَوْقَ ثَلاَثٍ۔
رسول اللہ ؐ نے فرمایاکہ تعلقات کوہرگز نہ توڑو‘اورپیٹھ پیچھے برا مت کہو‘اورآپس میں نفرت اور دشمنی مت کرو‘اورآپس میں حسد مت کرو‘اوراے اللہ کے بندوآپس میں بھائی بھائی بن کر رہواورکسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ اپنے بھائی سے تعلق توڑ لے-(حضرت انسؓ، ترمذی)
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ ؐ کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ مَّالُہٗ وَعِرْضُہٗ وَدَمُہٗ حَسْبُ امْرِیئٍ الشَّرِّ اَنْ یُّحَقِّرَاَخَاہُ الْمُسْلِمَ۔
رسول اللہؐ نے فرمایا مسلمان کی سب چیزیں دوسرے مسلمان پر حرام ہیں۔اس کا مال‘ اس کی عزت اور اس کا خون۔اور ایک شخص کی تباہی کے لیے صرف اتنی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔(حضرت ابوھریرہ ،ابوداؤد)
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ ؐ اَیُّمَا رَجُلٍ قَالَ لِاَخِیْہِ کَافِرٌ فَقَدَ بَآئَ بِھَا اَحَدُھُمَا۔
رسول اللہؐ نے فرمایا جس نے اپنے بھائی سے کافر کہا تو دونوں میں سے ایک کی طرف وہ کفر لوٹے گا۔ (حضرت ابوذر غفاری ؓ،بخاری)
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ ِؐ مَنْ اَشَارَ اِلٰی اَخِیْہِ بِحَدِیْدَۃٍ فَاِنَّ الْمَلٰٓـئِکَۃَ تَلْعَـنُہٗ حَتّٰی یَضَعَھَا وَاِنْ کَانَ اَخَاہُ لِاَبِیْہِ وَاُمِّہٖ۔
رسول اللہؐ نے فرمایاجو اپنے بھائی کی طرف لوہے کے نیزے سے اشارہ کرے تو فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں یہاں تک کہ اسے ہٹالے‘ چاہے وہ اس کا سگا بھائی ہی کیوں نہ ہو۔
(حضرت ابوھریرہؓ، بخاری)
قرآن و سنت کی یہ روشن تعلیمات ہمیں ایک دوسرے سے باہمی محبت اورخیر خواہی کی بنیاد پر اس طرح جوڑے رکھیں گی گویا تمام مسلمان ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوں۔انسانوں کے مقدر کا سنورنا اور زمانے میں احسن تبدیلیوں کا رونما ہونا‘ ایسے منظم گروہ ہی سے ممکن ہے۔
دین محمدؐ کی سربلندی
رسول اللہؐ کی محبت سے سرشار ملت ہی ایک صالح انقلاب کی داعی و امین بن سکتی ہے۔ اس کے ہر فرد کی زندگی ‘ دین محمدؐکی سربلندی کے لیے وقف ہوگی۔ لہٰذا ہم میں سے ہر فرد کے لیے باعث شکر ومسرت صرف یہ بات ہوکہ ملت کی انفرادی و اجتماعی کوششوں سے اللہ اور اس کے رسولؐ کا بول بالا ہو۔ تمام مسلمان اپنے خدااور رسول اور عقائد کی بنیاد پر ایک ہیں۔جب ہمارے نبیؐ نے کہہ دیا کہ ہم ایک جسم ہیں تو بس‘کوئی اختلاف‘کوئی مسلک‘ کسی بھی تنظیم سے وابستگی جسم سے جسم کو الگ نہیں کرسکتی۔بلاشبہ ہماری تنظیمیں‘ ہمارے ادارے اور مسالک الگ ہیں لیکن ان سب کا ایک ہی حقیقی محرک و مقصد ہے‘یعنی اللہ کی بندگی اور انسانوں کو بندگی کی جانب متوجہ کرنا اور اس کے ذریعہ دین محمدیؐکی سربلندی ۔
اللہ تعالیٰ اس دین کی سربلندی کے لیے اخلاص و للہیت کے ساتھ جدوجہد کرنے والوں کو بڑا خاص مقام اور شرف عطا فرماتا ہے جو اس قابل بناتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ تو اپنے بندوں کو مزید مہلت دے‘ کہ ہم تیرے حبیب پاکؐ کے طریقے سے انہیں تیرے دین کی طرف بلانے کی جی توڑ کوشش کریں گے۔کیا ہی سعادت کی بات ہوگی کہ اس عظیم مقصد کے لیے ملت اسلامیہ کاہر ہر فرد‘مرد بھی خواتین بھی‘ بزرگ بھی نوجوان بھی اور بچے بھی‘اپنے پہلو میں ایسا دل رکھیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت رکھتا ہو‘ دین اسلام سے والہانہ وابستہ ہو اور دین کی اشاعت کو زندگی کا حقیقی مقصد مانتا ہو۔رہی بات اسلام مخالف پروپیگنڈوں کی اور مختلف تخریب کار گروہوں کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش تو یہ سب ہمارے صحت مند طرز عمل اور کام کے آگے اسی طرح اپنا وجود کھودیں گے جس طرح سورج کے طلوع ہونے سے اندھیرا اپنا وجود کھودیتا ہے۔ قرآن میں واضح کردیا گیا :
کَتَبَ اللّٰہُ لَأغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ….
اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب ہوکر رہیں گے۔( المجادلہ : ۲۱)
تو کوئی کچھ بھی کرلے حقیقت نہیں بدلے گی اور بالاخر امت محمدیہؐ ہی سرخرواور کامیاب ہوگی۔ان شاء اللہ