نام کتاب:شیرازی کی کہانیاں

0

مصنف: رئیس صدیقی
صفحات: ۷۲؍، قیمت: ۴۸؍روپے
سال اشاعت: ۲۰۱۵ء
ناشر: رازی پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرس، نئی دہلی۔ ۲۵
ملنے کا پتہ: ۳۰۲؍۱۱، شاہجہاں آباد اپارٹمنٹ، سیکٹر ۱۱، دوارکا، نئی دہلی۔ ۱۱۰۰۷۵
مبصر: محمد معاذ،
ادب اطفال میں جناب رئیس صدیقی کا نام جانا پہچانا اور مقبول ہے، ملک کے معروف اخبار ورسائل میں آپ کی کہانیاں، ڈرامے اور مضامین ایک عرصے سے قارئین ادب کی دلجوئی کا سامان کررہے ہیں۔ کہانی کے پیرائے میں قاری کو بااخلاق بنانا گویا آپ کی ادبی سرگرمی کی روح ہے، آپ کی ادبی خدمات کو کردارسازی کے عنوان سے مرتب کیا جاسکتا ہے۔ موصوف فی الحال دُوردرشن کے اردو سیکشن سے وابستہ ہیں۔ اردو زبان کے فروغ کے لیے سرگرم عمل رہنا آپ کا مستقل مشغلہ ہے۔ زیرنظر کتاب ’’شیرازی کی کہانیاں‘‘ معروف فارسی تصنیف ’’گلستاں وبوستاں‘‘ سے ماخوذ ہے۔ کتاب کے شروع میں ’’میرے دل کی بات‘‘ کے عنوان سے مصنف نے اپنے بچپن کی منظرکشی خوب ہی انداز سے کی ہے۔ بعد ازاں چند معروف اردو ادباء نے مصنف کا تعارف پیش کیا ہے۔ اس تعارف میں جناب سمیرالحق صاحب(نمائندہ دہلی ہفت روزہ جدید مرکز)، جناب مخمور سعیدی، جناب مظفر حنفی اور جناب بسمل عارفی صاحب نے اپنی شمولیت درج کرائی ہے۔
ادب اطفال کے تعلق سے جناب مخمور سعیدی لکھتے ہیں’’دراصل بچوں کے لیے لکھنا خاصا مشکل کام ہے، اس کے لیے بچوں کی نفسیات اور ان کی دلچسپیوں کو سمجھنا اور ایسا طرز تحریر اختیار کرنا جو ان کے لیے قابل قبول ہو، بہت ضروری ہے۔ اور ان تقاضوں سے ایک پختہ کار ادیب ہی عہدہ برآ ہوسکتا ہے۔ ‘‘ جناب مخمور سعیدی صاحب کا یہ احساس کہ بچوں کی نفسیات کا ادراک ادب اطفال میں طبع آزمائی کے لیے ضروری ہے، بڑی حد تک درست معلوم ہوتا ہے۔
جناب بسمل عارفی صاحب’’بچوں کے ادیب۔ رئیس صدیقی‘‘ کے زیرعنوان ایک اہم بات تحریر کرتے ہیں کہ ’’رئیس صدیقی نے جتنی بھی کہانیاں لکھیں خواہ وہ طبع زاد ہوں یا تراجم، اس بات کا خیال ضرور رکھا کہ بچوں کی نفسیات پر اس کے برے اثرات نہ ہوں اور نہ ہی کہانی دلچسپیوں سے خالی ہو، بلکہ کہانی ختم ہوتے ہوتے کوئی ایسا سبق آموز نکتہ ضرور قائم کرجائے جو بچوں کی کردار سازی میں معاون ہو اور آگے چل کر ان کے روشن مستقبل کا ضامن بنے‘‘ (صفحہ ۱۷؍)جناب بسمل صاحب کے اس تأثر کی تصدیق زیرنظر کتاب سے بھی ہوتی ہے۔
مصنف کے تعارف کے بعدمختصراً سعدی شیرازی کی گلستاں وبوستاں کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔ ضمناً شیخ سعدی کا تعارف اور حالات زندگی کا تذکرہ کتاب کی افادیت میں اضافہ کرتا ہے۔ محترم مصنف نے شیخ سعدی کے اقوال حکمت بھی نقل کردیے ہیں، لیکن اگر یہ اقوال کتاب کے آخر میں درج ہوتے تو زیادہ بہتر تھا۔ اقوال حکمت کے بعد تقریباً چار درجن کہانیاں مختصراً نقل کی گئی ہیں، بعض کہانیاں تو صرف چار یا پانچ سطور پر ہی مبنی ہیں، لیکن اپنے اندر اخلاقی تعلیم کے موتی سمیٹے ہوئے ہیں، جیسے صفحہ ۳۶؍پر یاد کے عنوان سے ایک کہانی ہے کہ ’’ایک بادشاہ نے ایک بزرگ سے پوچھا کہ کبھی آپ کو میری یاد آتی ہے؟ اس پر اس بزرگ نے جواب دیا، اس وقت آپ کی یاد آتی ہے جب میں خدا کو بھول جاتا ہوں‘‘۔
یہ کتاب اپنے دامن میں کتابت کی چند ایک غلطیاں بھی سمیٹے ہوئی ہے، مثلاً صفحہ ۱۷؍پر ’بچوں کو نفسیات‘ لکھا ہے حالانکہ یہاں ’کو ‘ کی جگہ ’کی‘ درست ہے۔ امید ہے آئندہ ایڈیشن میں تصحیح فرمالیں گے۔ الغرض یہ کتاب بیک وقت ادب، اخلاق وزبان کے بہترین استاذ کا کام دیتی ہے، یقینا یہ کتاب اس بات کی مستحق ہے کہ اسے ہر گھر اور لائبریری کی زینت بنایا جائے تاکہ بچوں کی کردار سازی کی طرف پیش قدمی ممکن ہوسکے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights