ذوالقرنین حیدر
سماج کیا ہے اور سماجی تبدیلی کیا ہے؟ سماجی تبدیلی کو سمجھنے کے ذرائع کیا ہیں؟ سماجی تبدیلی کے عوامل کیا ہیں؟ اسلامی فکر میں تبدیلی کی کیا حیثیت ہے؟ سماجی تبدیلی میں ایک مسلمان کا ردعمل کیا ہونا چاہئے؟ فکر اسلامی کی تاریخ اس سلسلے میں کیا رہنمائی کرتی ہے؟ شریعت پر سماجی تبدیلی کا کیا اثر پڑتا ہے؟ یہ اور ان جیسے کچھ سوالات پر اس مضمون میں غور و فکر کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
تبدیلی انسانی زندگی کی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔ تبدیلی انسان کی فطرت میں بھی پنہاں ہے، کائنات کے پورے نظام میں بھی موجود ہے اور انسانی سماج کی بھی ایک بدیہی حقیقت ہے۔ البتہ موجودہ دور میں تبدیلی کی رفتار جس قدر تیز ہوگئی ہے اس کے نتیجے میں بہت سے مفکرین کا یہاں تک کہنا ہے کہ اب تبدیلی کا خود اپنا مفہوم بھی تبدیل ہو رہا ہے۔ ہمیشہ تبدیلی کو ایک خاص تناظر ہی میں دیکھ کے سمجھا جاتا رہا ہے یعنی سماج کے ایک جزء کو تو قابل تبدیل مانا جاتا رہا ہے لیکن یہ بھی ذہن میں صاف رہا ہے کہ دوسرا جزء تبدیلی سے بالکل ہی محفوظ اور پرے ہے۔ لیکن موجودہ تبدیلیوں کے اسکیل اور اسکوپ نے ان تصورات کو بھی ہلا ڈالا ہے اور ایسی بہت سی چیزیں تبدیلی کی زد میں آنے لگیں جن کا ثابت وجامد ہونا مسلم مانا جاتا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق کائنات کی ابتداء سے آج تک رونما ہونے والی تبدیلیوں کو اگر دیکھا جائے تو صرف پچھلی دو صدیوں میں ساری تبدیلیوں کے تقریبا ًاسی (۸۰) فیصد تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ بقیہ بیس (۲۰) فیصد تبدیلیاں باقی کے پورے ہزاروں سال کی مدت پر محیط ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کون سی تبدیلی سماجی تبدیلی ہوگی اور کون سی تبدیلی سماجی تبدیلی کے دائرے سے خارج ہوگی؟ اس کے لئے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ سماج کیا ہے؟
سماج کو عموماً انسانوں کے ایک مجموعے یا گروہ کے معنی میں سمجھ لیا جاتا ہے یعنی فرد واحد کے بالمقابل سماج کو رکھا جاتا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ مشہور عالم سماجیات اینتھونی گڈنس (Anthony Giddens) سماج یا سوسائٹی کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں:”ایک بڑے طبقے کے درمیان پائے جانے والےساختیاتی تعلقات (Structured relations) اور ادارے (Institutions)کو سماج کہتے ہیں۔ محض کچھ افراد کے جمع ہو جانے اور ان کے مجموعے کو سماج کا نام دینا صحیح نہیں ہوگا”۔ ایک دوسرے ماہر سماجیات کے الفاظ میں: “سماج کسی گروہ میں منظم تعلقات اور اداروں کے مرکب کا نام ہے”۔ گویا سماج ایک مرکب (complex) وجود کا نام ہے جس کی تشکیل متعدد عوامل مل کر کرتے ہیں اور اس کے معاملات پر اثر ڈالتے ہیں۔ مثال کے طور پر ٹیکنالوجی ایک بہت اہم عامل ہے کسی سماج کی ساخت کی تشکیل کے حوالے سے بھی اور سماج کی تبدیلی کے حوالے سے بھی۔ ایسےہی مختلف ادارے، خاندان، اسکول، حکومت وغیرہ کا بہت اہم رول ہوتا ہے سماج کی تشکیل میں۔ اسی طرح نقل حرکت کے وسائل وذرائع بھی سماج پر اپنا غیر معمولی اثر ڈالتے ہیں۔
چنانچہ ایسی کوئی بھی تبدیلی جس کا اثر سماج، سماجی اداروں، سماجی ساخت، سماجی تعلقات، سماجی اقدار، سماجی معتقدات وغیرہ پر پڑے چاہے وہ براہ راست ہو یا بالواسطہ اسے سماجی تبدیلی کہا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی زندگی کا شاید ہی ایسا کوئی حصہ ہو جسے سماجیاتی پیرائے سے الگ رکھ کر دیکھا جاسکتا ہو۔
سماجی تبدیلی کو کس حیثیت سے دیکھنا چاہئے؟ کیا ایک پسندیدہ عمل ہے؟ کیا اس کو سراہنا چاہئے؟ اس سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ جب سماجیات میں سماجی تبدیلی کی بات کی جاتی ہے تو اس سے مراد محض مثبت تبدیلی ہوتا ہے اور نہ ہی صرف منفی تبدیلی۔ وہ تبدیلی دونوں میں سے کسی بھی طرح کی ہوسکتی ہے اور اکثر اوقات اس کا فیصلہ کرنا اس قدر آسان اور سادہ نہیں ہوتا ہے کہ تبدیلی کو بآسانی اور مکمل طور سے مثبت یا منفی قرار دے دیا جائے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اکثر اوقات یہ بہت ہی کمپلیکس صورتحال کے طور سے سامنے آتی ہے۔ جس میں بہت ہی باریکی اور گہرائی سے اور تفصیل سے دونوں پہلوؤں کو الگ الگ کرنا اور دیکھنا مناسب ہوگا۔ مثال کے طور پر جدیدیت (modernity)کے تعلق سے نہ یہ موقف انصاف پر مبنی ہوگا کہ ہم اسے مکمل طور سے منفی اور غلط قرار دے دیں اور نہ ہی یہ رویہ صحیح ہوگا کہ ہم اسے من و عن قبول کر لیں۔ بلکہ اس کا تفصیلی جائزہ لے کر اس کے مثبت پہلؤوں کا مثبت انداز میں دیکھنا اور منفی پہلؤوں کو منفی انداز میں دیکھنا عدل پر مبنی رویہ مانا جائے گا۔ اب واپس اسی سوال پر آتے ہیں کہ سماجی تبدیلی کو کس حیثیت سے دیکھنا چاہئے؟ اس کا جواب دو پہلؤوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ایک تو یہ کہ سماجی تبدیلی کوئی ایسا عمل نہیں ہے جس کے عوامل اور محرکات ہمارے ہاتھ میں ہوں اور ہم یہ فیصلہ لے سکیں کہ یہ عمل ہونا چاہئے یا نہیں۔ گویا سماجی تبدیلی کو ایک ایسی حقیقت کے طور پر دیکھنا چاہئے جو بہر حال واقع ہوگی۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ سماج میں ہمیشہ مختلف رجحانات رکھنے والے عناصر موجود رہے ہیں اور رہیں گے اور ہر کسی کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ سماج کے عمومی ماحول اور سمت میں اسی کے رجحان کا غلبہ ہو۔ ایک مسلم امت ہونے کے حوالے سے اور اللہ کے آخری پیغام کے علمبردار ہونے کے حوالے سے اور اس ایمان کے حوالے سے کہ اللہ کا یہ پیغام انسانی زندگی کے ہر شعبے اور بالخصوص سماجی سطح پر قائم ہونا چاہئے، زندگی کا حصہ بننا چاہئے،سماج کا رنگ بننا چاہئے، ایسے میں ہماری یہ ذمہ داری ہوگی کہ ہم سماج کو اس رنگ میں تبدیل کرنے کے خواب بھی دیکھیں اور اس کے لئے پوری تیاری کے ساتھ تگ و دو بھی کریں۔
یہاں ایک بہت ہی اہم سوال پر مختصر گفتگو کرنا ضروری ہے۔ اور وہ ہے سماج کی تبدیلی کا طرز کیا ہوتا ہے؟ تبدیلی کا اصل ذمہ دار کون ہوتا ہے؟ اس سلسلے میں ماہرین سماجیات کے یہاں کئی اپروچ اور نظریات پائے جاتے ہیں۔ لیکن ان میں زیادہ مناسب نظریہ یہ ہے کہ اس میں دو بڑے کردار ہوتے ہیں۔ ایک سماجی ڈھانچہ یا سماجی ساخت (Social structure) اور دوسرے افراد (Agency)۔ یہ دونوں مستقل اور باہم ایک دوسرے پر اثر بھی ڈالتے ہیں اور متاثر بھی ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ٹیکنالوجی کی غیر معمولی ترقی اور ڈیولپمنٹ کے نتیجے میں ایک طرف انسانی زندگی میں غیر معمولی تبدیلیاں واقع ہوئیں اور ہو رہی ہیں چاہے رہن سہن کا طریقہ ہو یا بحث وتحقیق کا منہج وغیرہ۔ دوسری طرف اسی ٹیکنالوجی کے ذریعے انسان اپنے افکار اور معتقدات کی بڑے پیمانے پر اور سماج کے بڑے حصے تک ترسیل کے ذریعے سماج میں مخصوص سیاسی یا ثقافتی تبدیلی کی کوشش بھی کررہا ہے اور بڑی حد تک اس میں کامیاب بھی ہے۔
اسلامی فکر کے حوالے سے دو الگ الگ پہلؤوں پر گفتگو کرنا بہت اہم اور ضروری ہوگا۔
ان تبدیلیوں پر ہمارا بحیثیت مسلم کیا ردعمل ہونا چاہئے؟ شریعت نے اپنے احکام میں تبدیلی بالخصوص سماجی تبدیلی کے حوالے سے کیا منہج پیش کیا ہے؟
سماجی تبدیلی کا اگر جائزہ لیں اور تفصیل سے ان کا مطالعہ کریں تو ہم بخوبی دیکھتے ہیں کہ تبدیلیوں کو مختلف حوالوں سے دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔ تبدیلی کی ایک قسم وہ ہوگی جس کا تعلق اداروں سے ہوگا اور ان تبدیلیوں کے پیچھے ایک اہم محرک ان اداروں کی تاثیر اور فعالیت میں اضافہ کرنا اور اداروں کے عمل کو تیز رفتار اور آسان بنانا ہوگا۔ جیسے تعلیمی اداروں کا پورا نیا اسٹرکچر ، جس کے ذریعے اس بات کی کوشش ہوتی ہے کہ تعلیم ہر فرد تک پہنچ سکے۔ یا سیاسی اور عدالتی اداروں کا نظم، جن کے ذریعے عوام کے رول اور عوام کے سامنے جوابدہی کو یقینی بنانے اور عدل کو جلد یقینی بنانے کا محرک بہت اہم ہے۔ یہ اور ان جیسی بہت سی تبدیلیاں ہیں جن کا تعلق اداروں سے ہے اور ان میں موجود تبدیلی کی اہمیت بہت واضح ہے۔ گرچہ کہ موجودہ پریکٹس میں بہت سے منفی پہلو بھی بہت نمایاں ہیں لیکن ان کو دور کرکے ان مثبت پہلؤوں کو اپنانا ہی صحیح اور قابل عمل اپروچ ہوگی۔
تبدیلی کی ایک دوسری قسم سماجی عادات اور نارمس سے متعلق ہوگی۔ عادات اور سلوک کے رویے مخصوص وقت اور حالات کی پیداوار ہوتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق نارمس دراصل تین عوامل پر منحصر (Contingent) ہوتے ہیں: مخصوص سیاق (Context)، سوشل گروپ (Social Group) اور تاریخی احوال (Historical circumstances)۔ اخلاقی نقطہ نظر میں ان میں تنوع کی بڑی گنجائش ہوتی ہے۔ چنانچہ بحیثیت مسلم ہم نارمس کی تبدیلی کو اخلاقی اور شرعی دائرے کے اندر رہتے ہوئے قبول کرسکتے ہیں۔ اسی طرح سماجی ساخت کے حوالے سے جن میں سماجی طرز تعامل، تقسیم عمل، تقسیم کردار،وغیرہ شامل ہیں۔اس میں بھی تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے اور وہ بھی متعدد عوامل پر منحصر ہوتی ہے۔ سماج کے معتقدات اور ان کے افکار میں بھی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ تبدیلی کو اس کی تفصیلات اور پیچیدگیوں میں سمجھے بغیر یہ طے کرنا کہ ان تبدیلیوں کے ساتھ ہمارا رویہ کیاہونا چاہئے مناسب اپروچ نہیں ہوگی۔ مختصر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ تبدیلیوں کی وہ شکلیں جو شریعت کے مقاصد اور اصولوں سے ہم آہنگ ہوں ان کے ساتھ ہمارا رویہ مثبت تعامل کا ہونا چاہئے اور جن تبدیلیوں سے ہمارا اصولی ٹکراؤ ہو ان کو مزید تبدیل کرکے اپنے اصولوں کے موافق کرنا ہماری ذمہ داری ہوگی۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ اس تبدیلی کے تناظر میں شریعت کو کیسے سمجھا جائے گا؟ یا شریعت کے احکام کو ان تبدیلیوں کے تناظر میں کیسے دیکھا جائے گا؟
معاصر اسلامی فکر میں ایک بہت ہی اہم اور فکر انگیز گفتگو رہی ہے جس کو “شریعت میں ثابت و متغیر” کے عنوان سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس گفتگو کا سیاق سامنے رہنا بہت ضروری ہے۔
روشن خیالی اور جدیدیت کے سامنے آنے کے بعد جن کی کوکھ سے دسیوں بڑے بڑے اور دنیا کا نقشہ بدلنے والے انقلابات رونما ہوئے ،سماج بالکل ایک نئے قسم کی صورتحال سے دوچار ہوا۔ برسوں سے قابل عمل طریقے، رویے، عادات، نظام، سب پرانے اور بے کار ہونے لگے۔ ایسے میں جدیدیت کے بنائے ہوئے پروڈکٹس ہی ہر طرف قابل عمل سمجھے جانے لگے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت تھی کہ جدیدیت کی انڈسٹری سے نکلنے والے بیشتر پروڈکٹس دوسروں اور خصوصا مسلمانوں کے لئے بہت ہی اجنبی تھے۔ جس کی صاف وجہ یہ تھی کہ اس انڈسٹری کے پیچھے جو پورا ریفرنس اور ورلڈویو تھا وہ مسلمانوں کے لئے اجنبی اور ناقابل قبول تھا۔ ایسے میں ۔انوں میں احیائی اور اصلاحی تحریکوں کا آغاز ہوا۔ اور اسلام کے پیغام کی ہمہ گیریت اور آفاقیت کا چرچہ شروع ہوا۔ لیکن اس میں ایک بڑا اشکال یہ پیش آیا کہ اسلام کے نام پر جو کچھ فکر و فقہ کا خزانہ موجود تھا وہ ایک ایسے سماجی سیاق میں وجود میں آیا تھا جو موجودہ سماج سے بہت ہی زیادہ مختلف تھا۔ چنانچہ ایک بہت بڑا حصہ خصوصا ًسیاسی، معاشی اور سماجی نوعیت کا ایسا تھا جو قابل عمل نہیں رہ گیا تھا۔ لیکن دوسری طرف مسلمانوںکا ایک بہت بڑا طبقہ اس کو بھی اسلام ہی کا حصہ سمجھ رہا تھا۔ ایسے میں ان تحریکات کے لئے ضروری تھا کہ اسلام کی ہمہ گیریت اور آفاقیت کا دعوی کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو نظریاتی اور عملی سطح پر ثابت بھی کریں۔ چنانچہ اس حوالے سے جن اہم بحثوں کا آغاز ہوا ان میں ایک بحث “شریعت میں ثابت و متغیر” تھی۔
یوسف قرضاوی ثابت و متغیر کی اس بحث کو شریعت اور فقہ کے فرق کے حوالے سے پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:”شریعت دراصل وہ ربانی منہج ہے جس کو اللہ نے اپنے رسول کے ذریعے ہم تک بھیجا ہے اور جس کا مقصد انسانوں کے تعلقات ان کے مالک کے ساتھ اور ان میں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ طے کرنا اور صحیح کرنا ہے۔ اور یہ منہج اور شریعت قرآن مجید اور سنت نبوی ﷺ کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے۔ چنانچہ شریعت اللہ کی وحی کا نام ہے۔ اور یہ دین کا وہ ثابت حصہ ہے جس میں کسی اختلاف کی گنجائش نہیں ہے اور یہ ان قطعی احکامات پر مشتمل ہے جن پر دوسرے تمام احکامات کا دارومدار بھی ہے۔ رہی فقہ تو وہ اس وحی کو سمجھنے کے لئے عقل کے استعمال کا نتیجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فقہاء میں ایک دوسرے کے ساتھ خوب اختلافات ہوتے ہیں۔” وہ مزید لکھتے ہیں: “چنانچہ اسلامی شریعت کو بیک وقت ثبات ولچک یا ثبات وتبدیلی کے مجموعے کے طور پر دیکھنا چاہئے۔ یعنی اہداف ومقاصد میں ثبات اور وسائل میں لچک، اصول میں ثبات اور فروع میں لچک، کلیات میں ثبات اور جزئیات میں لچک دیکھا جاسکتا ہے۔”
قابل ذکر بات یہ ہے کہ علامہ قرضاوی کی یہ بات اسلامی فکر کی تاریخ میں کوئی بالکل نئی اور بدعتی بات نہیں تھی بلکہ اسلامی فقہ کی تاریخ میں ایسی مثالیں کافی ہیں۔ ایک بڑی اور مشہور مثال امام شافعی کے حوالے سے پیش کی جاتی ہے کہ امام شافعی نے جب ایک حالات سے کافی مختلف دوسرے حالات کا تجربہ کیا تو دونوں حالات میں ان کی طرف سے پیش ہونے والی رائیں ایک دوسرے سے کافی مختلف تھیں۔ چنانچہ ان کی فقہی کوششوں کو دو حصوں میں تقسیم کرکے پڑھا جاتا ہے۔ ایک کو فقہ قدیم اور دوسرے کو فقہ جدید کہتے ہیں۔
اس سلسلے میں اسلامی تعلیمات کی نوعیت کو سمجھنا بہت مفید ہوگا۔ اسلامی احکامات یا شریعت کو تین ابواب میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک عقائد کا باب ہے۔ یہ دراصل اسلام میں داخل ہونے کا باب ہے اور یہ باب بہت ہی واضح ،قطعی اور ثابت ہے۔ اس میں کسی طرح کی کسی بھی تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ وہ حصہ ہے جو قطعی اور یقینی بنیادوں پر قائم ہے اور بہت مختصر ہے۔البتہ بعد کے ادوار میں بہت سی ایسی چیزوں کو بھی عقائد کے باب میں شامل کردیا گیا جن کا تعلق عقائد سے نہیں تھا۔ دوسرا باب عبادات کا ہے اور عبادات بھی اس مخصوص معنیٰ میں جہاں کچھ متعین اعمال کو ہی عبادات کے طور سے دیکھا جاتا ہے۔ اس باب میں اصل اور بڑا حصہ تو ایسا ہے جو ثابت ہے اور زمان ومکان سے بدلتا نہیں ہے۔ البتہ ایک چھوٹا حصہ ایسا ہے جو حالات اور سیاق کے بدلاؤ کی وجہ سے اجتہاد کا متقاضی ہوتا ہے اور اس میں لچک اور تبدیلی کا امکان ہوتا ہے۔ تیسرا باب معاملات کا ہے۔ اس باب میں اصل تو مقاصد، کلیات اور اصول ہیں جن کی روشنی میں مخصوص زمان ومکان اور حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی رہنمائی پیش کی جاتی ہے۔ البتہ ایک چھوٹا حصہ ایسا بھی ہے جو تفصیلی احکامات اور رہنمائی پر بھی مشتمل ہے۔ گویا عقائد، عبادات، اور اصول ومقاصد میں اصل تو ثبات ہے اور معاملات میں تفصیلی رہنمائی کے لئے اصل تغیر ہے۔
اسلام اور اسلامی فکر کے اس تصور کو سمجھنے کے بعد نہ صرف یہ کہ سماجی تبدیلی کے حوالے سے ہمارا موقف واضح ہوسکتا ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ تبدیلی کے اس عمل کو مزید مؤثر بنانا اور مقاصد شریعت کو سامنے رکھتے ہوئے اور ان کے حصول کے لئے تبدیلی کو مزید تیز کرنے کی کوشش کرنا بھی ہماری ذمہ داری کا ایک اہم حصہ ہونا چاہئے۔ ایسا نہ ہوکہ ہم تبدیلی واقع ہونے کے بعد یہ جائزہ لیں کہ اس میں کون سی چیزیں ہیں جو شریعت کے اصول ومقاصد اور کلیات کی روشنی میں ہمارے لئے قابل قبول ہیں بلکہ ہم خود ایسی تبدیلی کی پہل کریں جو لوگوں کے لئے آسانی اور خوشحالی پیدا کرے، سماج کو خوبصورتی کی طرف آگے بڑھائے، سماجی اداروں کے عمل کو بہتر سے بہتر بنائے، سماجی روایات اور اقدار کو بلندی کی طرف لے جائے اور ایک صالح مثالی سماج کی تشکیل ہوسکے۔