اصلاحی کوششوں کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے سماجی تبدیلی کی سائنس کی سمجھ ضروری ہے: سید سعادت اللہ حسینی

1

(نوٹ : رفیق منزل کے حالیہ شمارہ کے نظر کا موضوع “سماجی تبدیلی کے خدوخال” ہے۔ اس موضوع کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کی غرض سے ادارہ رفیق منزل نے محترم امیر جماعت اسلامی ہند،جناب سید سعادت اللہ حسینی صاحب سے انٹرویو لیا۔ اس اہم انٹرویو کو افادہ عام کی غرض سے شائع کیا جارہا ہے۔)

٭ سماجی تبدیلی سے کیا مراد ہے؟ سماج میں مختلف قسم کے تغیرات واقع ہوتے رہتے ہیں، اس صورت میں کس نوعیت کی تبدیلی کو سماجی تبدیلی کہا جائے گا؟
سماجیات میں سماجی تبدیلی سے مراد سماج میں واقع ہونے والی ایسی تبدیلی ہے جس سے سماج کا نظام social order تبدیل ہوجائے۔ کوئی بھی سماج، عقائد،اقدار، اصولوں، سماجی رویوں، مختلف اکائیوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت، تہذیب، روایات، سماجی اداروں وغیرہ کی بنیاد پر ایک خاص شکل اختیار کرتا ہے۔ان میں سے بعض چیزیں سماجی ساخت Social Structuresکو وجود بخشتے ہیں اور سماجی کنٹرول کی نوعیت متعین کرتے ہیں۔ جب ان چیزوں میں تبدیلی واقع ہوتی ہے تو سماج کا روپ بدلنے لگتا ہے۔ اسے سماجی تبدیلی کہتے ہیں۔
سماجی تبدیلی کے مختلف درجے ہوسکتے ہیں۔ اساسی تبدیلی Paradigmatic Change وہ بڑی تبدیلی ہوتی ہے جس سے سماج اوپر سے نیچے تک مکمل بدل جاتا ہے۔ایسی تبدیلی مذکورہ بالا عوامل میں سے کسی اساسی عامل کے یکسر بدل جانے کے نتیجے میں واقع ہوتی ہے۔ مثلاً اسلام کے آنے کے بعد عرب کا معاشرہ مکمل طور پر بدل گیا۔ یہ تبدیلی عقیدے میں تبدیلی کا نتیجہ تھی۔ دوسری قسم کی مثال قدیم زرعی معاشرے کی جدید صنعتی معاشرے میں تبدیلی ہے۔ یہاں ٹکنالوجی تبدیلی کی ایک بڑی ایجنٹ بن کر ابھری ۔ ان تبدیلیوں نے سماج کے بہت سے اجزا کو بڑے پیمانے پر متاثر کیا۔ اس کے برخلاف بعض تبدیلیاں جزوی اور ذیلی بھی ہوسکتی ہیں۔ بعض تبدیلیاں زمانے کی تبدیلی، نئے تقاضوں اور ٹکنالوجی وغیرہ کی وجہ سے خود بخود ہونے لگتی ہیں مثلاً سوشل میڈیا کے فروغ سے سماجی تعلقات میں آرہی تبدیلیاں اور بعض تبدیلیاں کسی منظم تحریک کا نتیجہ ہوسکتی ہیں۔


٭سماجی تبدیلی کا عمل کیسے واقع ہوتا ہے؟ اگر یہ ایک ہمہ جہتی عمل ہے تو اس کی مختلف جہات کونسی ہیں؟
میں نے عرض کیا کہ سماجی تبدیلی کی کئی سطحیں ہوسکتی ہیں۔ بعض تبدیلیاں فطری اور بدلتے حالات کے تقاضے کے تحت ہوتی ہیں۔ بعض منظم کوششوں کا نتیجہ ہوتی ہیں۔نئی ٹکنالوجی کا فروغ، شہروں کی طرف مہاجرت، معیشت اور معاشی سرگرمی کے بدلتے انداز وغیرہ جیسے عوامل سماج میں بہت سی تدریجی اور فطری تبدیلیاں لارہے ہیں۔ ان میں سے بعض تبدیلیاں ہمارے نقطہ نظر سے نیوٹرل ہوسکتی ہیں اور بعض باعث تشویش بھی ہوسکتی ہیں۔ لیکن ان کے پہلو بہ پہلو، اس وقت ہمارا سماج تبدیلی کی بہت سی منظم کوششوں کی بھی زد میں ہے۔ عالمی طاقتیں جدید مغربی تہذیب و فلسفے کی بنیاد پر گہری تبدیلیاں لانے کے لئے کوشاں ہیں۔تبدیلی کے مذکورہ فطری عوامل کو بھی اس غرض کے لئے وہ بڑی ذہانت سے استعمال کررہی ہیں۔ ہمارے ملک میں دائیں بازو کی مقتدر طاقتیں بھی سماجی تبدیلی کا ایک خاص وژن رکھتی ہیں۔ان کی کوششیں بھی اب نمایاں اثرات مرتب کرنے لگی ہیں۔ سماج کو بدلنے کے لئے سب سے پہلے لوگوں کی سوچ بدلنا پڑتا ہے۔ روایات، سماجی عادات، سماجی رویے اور معمولات Social Norms ان میں تبدیلیاں درکار ہوتی ہیں۔ سماجی اداروں میں بنیادی تبدیلیاں لائی جاتی ہیں۔ لوگوں کے باہمی تعلقات کی شکلوں کو متاثر کیا جاتاہے۔ ان مقاصد کے لئے نظام تعلیم اور ذرائع ابلاغ کو استعمال کیا جاتا ہے۔انہی اہداف کو سامنے رکھ کرقوانین اور سرکاری پالیسیوں میں تبدیلیاں لائی جاتی ہیں۔آپ ان سب کو سماجی تبدیلی کی جہات کہہ سکتے ہیں۔


٭سماج کی تبدیلی کے عمل میں عقائد یا افکار کی تبدیلی کیا حیثیت رکھتی ہے؟
عقائد و افکار کی حیثیت بہت بنیادی اور اساسی ہوتی ہے۔ عقیدہ اور فکر جتنا جامع اور وسیع الاطراف ہوگا، سماجی تبدیلی میں اس کا رول بھی اتنا ہی ہمہ گیر ہوگا۔ سماج کے رویے، قدریں، تہذیب، بہت سے تمدنی مظاہر، ادارے اور ان کی ہئیت یہ سب عام طور پر فکر و عقیدے اور ورلڈ ویو ہی پر منحصر ہوتے ہیں۔ بعض نظام ہائے فکر یا عقیدے بعض معاملات میں نیوٹرل ہوتے ہیں۔ مثلاً بہت سے مذاہب یا روحانی فلسفے اجتماعی زندگی سے تعرض نہیں رکھتے، چنانچہ تجارت، معیشت،سیاست و غیرہ امور سے متعلق سماجی تبدیلیوں میں ان کا کوئی رول نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس سیکولرنظریات مذہبی اور روحانی امور کے سلسلے میں غیر جانب داری کے دعوے دار ہوتے ہیں۔چنانچہ ان امور سے متعلق سماجی تبدیلیوں میں ان کا رول بہت محدود ہوتا ہے۔ اسلامی عقیدے اور فکر کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا تعلق زندگی کے ہر شعبے سے ہے اس لیے سماجی تبدیلی کے ہر پہلو پر وہ اثر انداز ہوتا ہے۔


٭کسی بھی معاشرے میں عوام کی فکر، مزاج اور نفسیات کس طرح پروان چڑھتی ہے؟ کون سے عوامل ان پر اثر انداز ہوتے ہیں؟
مزاج اور نفسیات پر سب سے اہم اثر تو افکاروعقائد ہی کا ہوتا ہے یا جسے کہتے ہیں ورلڈ ویو، اس کا ہوتا ہے۔جیسا کہ میں نے عرض کیا، فکر یا عقیدہ جتنا ہمہ گیر ہوگا اس کا اثر بھی اتنا ہی ہمہ گیر ہوگا۔اخلاقی قدریں، تہذیبی معیارات اور قوانین بھی عوام کے مزاج پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ قوموں کی تاریخ، روایات، تنازعات و حادثات، معاشی، تعلیمی، تجارتی صورت حال،کنٹرول میں موجود وسائل، جغرافیہ و ڈیموگرافی، اس طرح کے دسیوں دیگر عوامل بھی مزاج اور نفسیات پر اثر ڈالتے ہیں۔ نظام تعلیم، ادب، فنون لطیفہ، لوک فنون Folk Art، مذہبی مواعظ وغیرہ قوموں کے لئے جذبات، افکار اور احساسات کے اظہار کا ذریعہ ہوتے ہیں لیکن یہ بھی بالآخر مزاج بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔سماجی تبدیلی کے لئے ان سب عوامل پر اثرا نداز ہونا ضروری ہوتا ہے۔
اس مسئلے کو دیکھنے کا ایک اور زاویہ تبدیلی کے ایجنٹ Change Agentsکا زاویہ ہے۔ ٹکنالوجی، معاشی تقاضے، مذہبی قائدین، سماجی تنظیمیں، نظام تعلیم ، میڈیا وغیرہ کو تبدیلی کا ایجنٹ سمجھا جاتا ہے۔ ان کی سرگرمیاں بھی عوام کی ذہن سازی اور مزاج سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اس لیے تبدیلی کی خاطر ان پر مناسب توجہ بھی ضروری ہوتی ہے۔


٭ احیائی کوششوں کے لیے سماجی تبدیلی کے عمل کا شعور کیوں ضروری ہے؟
احیائی کوششوں سے غالباً آپ کی مراد احیائے اسلام کی جدوجہد یا تحریک اسلامی کی جدوجہد ہے۔ اس جدوجہد کا اصل ہدف ہی یہ ہے کہ اسلام کی مکمل اقامت ہو۔ یہ ہدف ہمہ گیر اور بہت بڑی تبدیلی کا تقاضہ کرتا ہے۔ اس میں سیاسی، معاشی تبدیلی بھی شامل ہے، ہمہ گیر تہذیبی و تمدنی انقلاب بھی شامل ہے اور ان سب تبدیلیوں کے لئے سماج، سماج کے رجحانات، روایات، رویوں، اداروں وغیرہ میں بھی اساسی تبدیلی ضروری ہے۔یعنی وہ تبدیلی درکار ہے جسے میں نے اوپر Paradigmatic Changeکہا ہے۔
دور جدید میں سماجی تبدیلی ایک بہت ہی منظم اور ہمہ گیر عمل بن گیا ہے ۔ ہماری مد مقابل طاقتیں، گہری تحقیق، ہمہ گیر منصوبہ بندی، اور ترقی یافتہ ذرائع کو منصوبہ بند طریقوں سے استعمال کرکے تبدیلی لانے کی کوشش کررہی ہیں۔ان حالات میں اسلامی رخ پر سماجی تبدیلی کی قیادت و منصوبہ بندی کے لئے قرآن و سنت اور اسلامی علوم سے بھی گہری واقفیت اور دین کی مزاج شناسی بھی درکار ہے اور سماجی علوم خصوصاً سماجی تبدیلی کے عمل کا بھی پختہ شعور ضروری ہے۔

ہمارے روایتی حلقوں میں، سماجی تبدیلی کے عمل کے لئے صرف عوام میں” درست معلومات کے فروغ اور اس کے لئے وعظ وتقریر اور مضمون و کتاب کی اشاعت کو کافی سمجھا جاتا ہے۔اس کی وجہ سے برسوں کی کوششوں اور مواعظ و اصلاحی مہمات کی کثرت کے باوجود سماج بدل نہیں پارہا ہے۔ اس کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ مصلحین کے اندر سماجی تبدیلی کے ڈائنامکس کا گہرا شعور مفقود ہے جس کی وجہ سے تبدیلی کے بہت سے عوامل ابھی تک ہماری اصلاحی کوششوں میں نظر انداز ہورہے ہیں۔ ان کوششوں کو نتیجہ خیز بنانے کے “لیے ضروری ہے کہ سماجی تبدیلی کی سائنس سمجھ میں آئے۔


٭ قرآن اجتماعی اصلاح و تربیت کے کیا اصول پیش کرتا ہے؟
یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے اصلاح و تربیت کے عمل کی بنیاد عقیدے پر رکھی ہے۔توحید، رسالت اور آخرت کے عقائد سے زندگی کا ایک پاکیزہ تصور جنم لیتا ہے۔ ایک اعلیٰ و ارفع مقصد متعین ہوتا ہے۔ اللہ سے محبت، اس کی خشیت و تقویٰ، رسول اللہ سے محبت اور ان کی اطاعت کا جذبہ، انسان کے اندر وہ مضبوط قوت محرکہ پیدا کرتی ہے جس کے بغیر شہوانی اور شیطانی طاقتوں کا مقابلہ اور ان پر قابو ممکن نہیں ہے۔
اسلام کی ایک اہم اور امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے بہت سی اخلاقی قدروں کو دائمی الہامی قدریں بنادیا ہے۔ ان میں تبدیلی کسی کے لیے ممکن نہیں ہے۔ مسلم معاشرے میں گرل فرینڈ کا کلچر عام نہیں ہے، یا ہم جنسی کی تائید نہیں ہے تو اس کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ مسلمان اسے نقصان دہ سمجھتے ہیں یا یہ ان کی تہذیبی روایات کے خلاف ہے بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ ہر مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے ان چیزوں سے منع کیا ہے۔ دور جدید کے تہذیبی طوفان کا مقابلہ ایسا مضبوط عقیدہ ہی کرسکتا ہے۔اور ایسے مضبوط عقیدے کے بطن سے ہی وہ پائیدار اخلاقیات جنم لے سکتی ہے جو اس تہذیبی طوفان کے آگے ٹہر سکے۔
اسلام نے عقیدے کو لوگوں کے ذہنوں میں جاگزیں کردینے پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ اس عقیدے اور اس سے متعلق بہت سی قدروں کی مسلسل اور مستقل یاددہانی اور تذکیر کا انتظام کیا ہے۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، قربانی، حج، اسلام کی ساری عبادات ،بار بار اور تواتر و تکرار کے ساتھ ہرمسلمان کو یاد دلاتی ہیں کہ وہ خدا کا بندہ ہے۔ اس کے سامنے جواب دہ ہے۔ اور اس کی مرضی کا پابند ہے۔اس طرح اعلیٰ قدروں کو عملی زندگی میں بھی استحکام اور دوام بخشنے کی کارگر نفسیاتی و روحانی تدابیر بھی قرآن مجید نے فراہم کردی ہیں۔
پھر اسلامی اصلاح کا ایک اہم اصول یہ ہے کہ معاشرے کے ہر فرد کو اسلام نے دوسروں کی اصلاح کا ذمے دار بنادیا ہے۔ اصلاح و تربیت کا کام اسلام کی اسکیم میں، دیگر مذاہب کی طرح صرف پیشہ ور مذہبی رہنماوں یا کلرجی کا کام نہیں ہے بلکہ ہرمسلمان کا کام ہے۔ ہر مسلمان کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور تواصی بالحق کا حکم دیا گیا ہے۔ امر بالعروف و نہی عن المنکر کا اصول اسلامی تہذیب کا نہایت درخشندہ اصول ہے اور یہ اصول اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ اصلاح کا عمل مسلم معاشرے میں ہمیشہ ، ہر سطح پر اور ہر جانب سے جاری رہے۔
اسلام نے برائیوں کی روک تھام کے لئے دور تک جاکر اس کے دروازے بند کیے ہیں۔ برائیوں کے محرکات کی بھی شناخت کی ہے اور ان کا بھی سد باب کیا ہے۔ سد ذریعہ کا اصول اسلامی فقہ کا اہم اصول ہے جو دراصل قرآنی اصول ہے۔ لا تقربو الفواحش، لاتقربو الزنا، لا تقربوا مال الیتیم وغیرہ قرآنی احکام صرف برائی سے نہیں روکتے بلکہ ان محرکات سے بھی منع کرتے ہیں جو برائی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
اسلام نے معاشرے کی اصلاح کے لئے متعدد انسٹی ٹیوشن قائم کیے ہیں۔جن میں سب سے اہم مسجد کا انسٹی ٹیوشن ہے۔ ان کے علاوہ نظام تعلیم، میڈیا و صحافت، ہر وہ شخص جو کسی بھی قسم اور کسی بھی سطح کی قیادت کا منصب رکھتا ہے(راعی)،یہ سب اصلاحی عمل کے لئے خصوصی طور پر اور اضافی طور پر ذمے دار بنائے گئے ہیں اور اصلاح کے سلسلے میں بھی اللہ کے پاس مسئول ہیں۔
آخر میں ریاست کی بھی اصل ذمے داری معروفات کا حکم اور منکرات کی نہی ہے۔ اس فریضے کو انجام دینے والی ریاست کا قیام و ظہور بھی قرآن کی اصلاحی اسکیم کا ایک اہم جز ہے۔


٭ اس بحث کے تناظر میں تحریک اسلامی ہند کی موجودہ پیش رفت کے بارے میں آپ کا کیا احساس ہے؟ اس پیش رفت کو مستقبل میں کن خطوط پر آگے بڑھانے کی ضرورت ہے؟
تحریک اسلامی اور دیگر مصلحین کی کوششوں نے بہت سے محاذوں پر سماج میں مثبت تبدیلی پیدا کی ہے۔بدعات و خرافات کم ہوئی ہیں۔ دینی بیداری عام ہوئی ہے۔دینی تعلیم خصوصاً قرآن کا علم عام ہوا ہے۔ شعائر دین سے وابستگی بڑھی ہے۔ دعوت دین کے شوق میں افزائش ہوئی ہے۔ یہ سب باتیں نہایت خوش آئند ہیں لیکن ابھی بھی ہمارا معاشرہ اسلام کی تعلیمات سے بہت دور ہے۔ معاشرت، اخلاق، معاملات وغیرہ کی سطح پر معمولی درجے کی نہیں بلکہ سنگین قسم کی خرابیاں بھی عام ہیں۔ عام لوگوں میں ہی نہیں بلکہ باشعور لوگوں میں بلکہ دیندار طبقات میں بھی عام ہیں۔
ان پہلووں پر بھی یقیناً کام ہورہا ہے۔لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس کام کو اب اور گہری منصوبہ بندی، سنجیدہ غور فکر ،تحقیق، ایکشن ریسرچ ،اخلاقی قدروں میں ترجیحات کے شعور، اخلاقی قدروں اور سماجی عمل کے پورے سانچے MATRIXکے سائنٹفک مہم کی بنیاد پر آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس پر میں زندگی نو میں مسلسل لکھ رہا ہوں۔ تفصیلات وہاں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔

1 تبصرہ
  1. Mian Waqas Waheed نے کہا

    Worth reading, Stay blessed,great job done by you

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights