ڈاکٹر حسن رضا
ولایت پادشاہی علم اشیاء کی جہاں گیری یہ سب کیا ہیں فقط اک نقطہ ایماں کی تفسیریں
یہ شعر علامہ اقبال کے مجموعہ کلام بانگ درا کی آخری نظم ’طلوع اسلام‘ سے لیا گیا ہے۔ڈاکٹر اقبال اردو کے صرف ایک عظیم شاعر ہی نہیں بلکہ مفکر اسلام اور بیسویں صدی میں اسلامی نشاۃ ثانیہ کے نقیب بھی ہیں۔ان کی شاعری فکر اسلامی کی رفعت،،فن کی عظمت اور غلبہ اسلام کے جذبہ کی حرارت تینوں کا حسین امتزاج ہے۔یہ نظم اس امتزاج کا بہترین نمونہ ہے۔پہلی جنگ عظیم میں خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد مصطفی کمال پاشا کی قیادت میں ترک فوج نے پہلی بار فتح حاصل کی تھی۔اس فوجی فتح کو اقبال نے طلوع اسلام سے تعبیر کرتے ہوئے اس نظم میں اپنی خوشی کاوالہانہ اور شاعرانہ اظہار کیا ہے۔
یہ نظم نَو بندوں پر مشتمل ہے اور ہر بند میں آٹھ اشعار ہیں۔مذکورہ بالا شعر پانچویں بند کا تیسرا شعر ہے۔اس بند کے پہلے اور دوسرے اشعار میں اقبال نے ’ذوق یقیں‘ اور ’نگاہ مرد مومن‘ کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے۔اشعار ملاحظہ ہوں۔
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیر
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
ہم سب جانتے ہیں کہ ’ذوق یقیں‘ ایمان باللہ کا ثمرہ ہے اور ’مرد مومن‘ میں یہ قوت و تاثیر تعلق باللہ سے پیدا ہوتی ہے۔ایمان باللہ کے ان دو پہلوؤں کو بیان کرنے کے بعد اقبال روحانی بلندیوں، دنیوی جاہ و جلال اور علمی کمالات سب کا رشتہ اسی ایمان باللہ سے وابستہ کرتے ہیں۔بلکہ اس کو نکتہ ایماں کی تفسیر سے تعبیر کرتے ہیں۔
اس شعر میں ولایت سے مراد مابعد الطبیعی حقیقتوں کی بصیرت اور روحانی ترقی و کمالات ہے۔ لفظ پادشاہی دنیوی عزت و اقبال، سماجی و سیاسی اقتدار اور خلافت فی الارض کا اشاریہ ہے۔علم اشیاء کی جہاں گیری سے سائنسی علوم وفنون اور تسخیر کائنات کی حقیقت پر روشنی پڑتی ہے۔علامہ اقبال کہتے ہیں کہ انسانی زندگی کی جملہ فتوحات اور کامیابیاں اسلامی نقطہ نظر سے وحی الہی کی روشنی میں ایمان باللہ ہی سے ڈیفائن ہوتی ہیں۔یعنی علمی فتوحات،انکشاف،روحانی کمالات،مابعد الطبیعی حقیقتوں کا ادراک،فرد اور قوم کی زندگی کا عروج و زوال سب اسی کی مشیت،امر اور اِذن کی عملی تفسیر ہیں۔اس طرح اس شعر کی روشنی میں ایمان باللہ یعنی توحید ہمارے ورلڈ ویو کی اساس اور ہمارے نظریہ علم کی بنیاد ہے اور اسی سے کار جہاں بانی کا اصول بھی طے ہوتا ہے۔
اس شعر کی تفہیم کے بعد اس میں پوشیدہ معنی کو علامہ اقبال نے شعری ہنر مندی سے جو رعنائی عطا کی ہے اس کا تجزیہ بھی کیجئے۔پہلے ’نکتہ ایماں کی تفسیریں‘ کی ترکیب پر غور کیجئے۔نکتہ کہتے ہیں بات کو سمیٹ کر اس طرح مختصر کر دینا کہ مزید اختصار کی گنجائش باقی نہ رہے۔اور تفسیر کہتے ہیں باتوں کو اس طرح پھیلا دینا کہ مزید پھیلانے کی گنجائش باقی نہ رہے۔ اس طرح الفاظ کی اس ترکیب میں تضاد کو جمع کرکے ایک خاص لطافت پیدا کی گئی ہے۔ولایت کے ساتھ پادشاہی کے لفظ کا استعمال مادیت اور روحانیت کے تضاد کو ظاہر کرتا ہے۔پھر ’علم اشیاء کی جہا ں گیری‘ کی ترکیب کا کوئی جواب نہیں ہے۔جہاں گیری کے لفظ میں پادشاہی کے ساتھ ایک ہم آہنگی ہے۔اس شعر کے پورے معنوی حسن کا نظارہ کرنے کے لئے لفظ ’فقط‘کے استعمال کو بھی دیکھئے۔ بلکہ شعر کو دوبارہ پڑھئے اور’فقط‘پر تھوڑی دیر کے لئے ٹھہر جائیے۔آپ محسوس کریں گے کہ دولت ایمان ایک پلڑے میں اور دوسرے پلڑے میں وہ تمام نعمتیں ہیں جن کا ذکر یہاں کیا گیا ہے۔پھر آپ کو ایمان کا پلڑا بھاری نظر آئے گا۔الفاظ کے استعمال ان کی ترکیب اور ترتیب سے معنی میں ایسی کیفیت پیدا کردینا کہ دولت ایمان تمام دولتوں سے افضل،بہتر اور بھاری محسوس ہونے لگے،فن کا کمال ہے۔اور یہی کمال اقبال نے یہاں کرکے دکھایا ہے۔نظم ’طلوع اسلام‘ کا ایک تاریخی پس منظر ہے لیکن اقبال کے فکر و فن اور جذبہ ایمانی کی کیمیا گری نے اس نظم کو بلند اور بعض اشعار کو لافانی بنا دیا ہے۔ جس میں ایک شعر یہ بھی ہے۔