معتصم سعد خان سعدی
میں سوچتا ہوں
یہ زندگی کے اصول ہیں یا
کہ اک معرکہ بپا ہے
ہزار داغوں کو لے کے چلنا
رفو ہی کرنا زخم پرانے
زخم بھی وہ جن سے ٹیس اٹھے
بہت سی الجھن شکایتوں کے
گھنیرے جنگل بچھے ہوئے ہیں
مگر انھیں میں ثمر صبر کے لگے ہوئے ہیں
کئی ہی جنگیں چھڑی ہوئی ہیں
کئی تو خود سے چھڑی ہوئی ہیں
بہت مسائل سلگ اٹھے ہیں
بہت ہے موقع سہولتیں بھی
نفس کو ڈالے لگام رکھ کر
خودی کو کرنا تلاش بھی ہے
بہت ہے سنگ گراں بھی حائل
خارزاریں ڈٹی ہوئی ہیں
گو راستوں کی چبھن بہت ہے
چبھن سے آگے سکوں بہت ہے
طلوع بہت ہے
دلوں کو اپنے جدتوں سے
کتاب زندہ کے رنگ میں رنگنا
سکوں یہی ہے
طلوع یہی ہے
مگر یہ اتنا سہل نہیں ہے
میں سوچتا ہوں
یہ زندگی کے اصول ہیں یا
کہ اک معرکہ بپا ہے