ایک ایسے دور میں جب نوجوان طبقہ مختلف قسم کی لغویات میں غرق ہو، اخلاقیات سسک رہی ہو، ذمہ داری کا احساس دم توڑ رہا ہو، شعور کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہو، ایسی پب جی اور ٹک ٹاک گزیدہ نسل کے چند نوجوانوں کی مشترکہ کاوش ’رفیق منزل‘ زیر مطالعہ ہے رفیق کے مطالعہ سے مایوسیوں اور نا امیدیوں کے اندھیروں میں امید کی ایک کرن نظر آئی ہے۔ دل کو اطمینان ہوا کہ ابھی سب کچھ ختم نہیں ہوا ہے۔ اب بھی شعور کو پروان چڑھایا جاسکتا ہے، اب بھی اقدار کو جلا بخشی جاسکتی ہے۔ اب بھی مطالعہ کوفروغ دیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ مزید خوشی اس بات کی ہوئی رفیق منزل اس طبقہ کی کاوش نہیں ہے جو زہد اور تقوی کی بناء پر خود کو عام طبقہ سے الگ کرلیتا ہے یا ان کیلئے قابل احترام ہوجاتا ہے۔ رفیق منزل ان نوجوانوں کی کاوش ہے جن سے کوئی بھی نوجوان کسی بھی حفظ مراتب کی پرواہ کیے بغیر بے تکلفانہ ماحول میں گفتگو کرسکتا ہے اور اس بے تکلفانہ ماحول میں سوچنے اور سمجھنے کے وہ دروازے بھی کھل جاتے ہیں جو حفظ مراتب کا خیال رکھنے میں شاید نہیں کھل پاتے ہیں۔ المختصر رفیق منزل کی ادارتی ٹیم اور عام نوجوان طبقہ میں ایسی کوئی خلیج نہیں ہے جو عموماً مذہبی حلقوں سے شائع ہونے والے ماہ ناموں کی ادارتی ٹیم اور ان کے قاریوں کے مابین پائی جاتی ہے۔ ایسی صورتحال میں رفیق منزل نوجوان طبقہ کی توجہ حاصل کرنے میں خاطر خواہ طور پر کامیاب ہوسکتا ہے خواہ وہ نوجوان مذہبی ہوں یا لاابالی اور آوارہ! حسن البنا شہیدؒ کہ مطابق یہ آوارہ نوجوان ہی وہ خام مال ہیں جو دین کی طرف متوجہ ہوا تو اپنا سب کچھ اسلام پر قربان کردیں گے۔’رفیق منزل‘ ان آوارہ نوجوانوں کو مذہب کی جانب متوجہ کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے جبکہ روایتی مذہبی شمارے فقہی بحثوں اور لفظی موشگافیوں کی نذر ہوجاتے ہیں جنہیں سمجھنا ان نوجوانوں کیلئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔
رفیق منزل کے مئی کے شمارے میں محمد اکمل فلاحی کی تحریر توبۃ النصوح کی آسان اور عام فہم تشریح ہے اور رمضان المبارک کے دوران توبہ کی ترغیب عام ایام کی بہ نسبت زیادہ بروقت ہے کہ عام دنوں کہ بہ نسبت رمضان کے ایام میں حالت روزہ میں نفس پر قابو پانا آسان ہوتا ہے۔ کچھ عجب نہیں کہ یہ تحریر قلوب پر اثر انداز ہوجائے۔ برادرم سعود فیروز اعظمی نے’رمضان – خیر امت کی تجدید کا مہینہ‘ جیسے مشکل موضوع کو آسان اور عام فہم انداز میں سپرد قرطاس کیا ہے۔ ماضی کی خیر امت بنی اسرائیل کے جرائم کا ذکر کرتے ہوئے حال کی خیر امت کو ان جرائم سے باز رہنے کی تلقین اور بارگاہ ایزدی سے عہد وفا کی تجدید میں ماہ رمضان کے خصوصی کردار کا بحسن خوبی تذکرہ کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر محمد رفعت کی تحریر ’رمضان تقویٰ اور سماج‘ میں ماہ رمضان کے مسلم سماج پر اثرات پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر تحاریر کا انتخاب بھی بہترین ہے جن پر تفصیلی تبصرہ فی الوقت ممکن نہیں ہے۔اور نا رسالے کے محدود صفحات اس کی اجازت ہی دیتے ہیں۔
سب سے زیادہ خوشی شمارے میں جتندر نرموہی کے افسانچے کی موجودگی سے ہوئی۔ عموماً مذہبی شماروں میں غیر مسلم قلمکاروں کو شامل کرنے کا رجحان بہت ہی کم پایا جاتا ہے لیکن رفیق منزل کے اس شمارے میں جب قاری بیزار ہونے لگتا ہے اسی وقت جتندر نرموہی اپنے خوبصورت افسانچے اور نجم السحر کی تحریر ’جام و سندان باختن‘ والی کیفیت پیدا کرتی ہے۔
ایس آئی او کے طلباء ماضی میں دیوبند سے نکلنے والے ماہنامہ ’تجلی‘ سے بخوبی واقف ہوں گے لیکن عام طبقہ جو اردو سے کماحقہ واقفیت رکھتا ہے وہ بھی مولانا عامر عثمانی کے ماہنامہ ’تجلی‘ سے آشنا نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ تجلی کے شمارے نایاب ہوگئے جن میں مولانا عامر عثمانی کی شاندار تحریریں بکھری ہوئی ہیں۔ اگر رفیق منزل کے ہر شمارے میں مولانا عامر عثمانی کی کم از کم ایک تحریر کو بھی شامل کیا جائے تو علم اور ادب کا ایک وسیع سرمایہ جو اب صرف جماعت کی لائبریریوں تک محدود ہوکر رہ گیاہے، اس تک عام اردو داں طبقہ بھی رسائی حاصل کرسکتا ہے۔ اس سلسلے میں غور کیا جانا چاہیے۔
اس کے علاوہ شمارے میں ایک کمی محسوس ہوئی۔ملک کی سیاسی صورتحال جگ ظاہر ہے۔ مکر و فریب کا بول بالا ہے۔ میڈیا زرخرید غلام بنا ہوا ہے۔ ایسی صورتحال میں کم از کم ایک مضمون ہونا چاہیے جس میں ملک کے سیاسی منظر نامے پر گفتگو کی جائے اور واضح کیا جائے کہ ملک کس سمت جارہا ہے اور اس صورتحال میں عام ہندوستانی کیلئے طرز عمل کیا ہونا چاہیے۔ نئی نسل کی تعمیر میں حالات حاضرہ کا خمیر ضرور شامل ہونا چاہیے جس کے بغیر ایک ایسی نسل تعمیر ہوگی جو جذباتی باتوں، لچھے دار تقریروں اور جھوٹے وعدوں کے فریب میں آئے گی۔ پھر گزشتہ نسل اور نئی نسل میں سیاسی شعور کے معاملے میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا۔
ان سب باتوں کے باوجود ’رفیق منزل‘ کئی معاصر ماہناموں سے بہتر ہے۔ باری تعالی سے دعا ہے کہ رفیق منزل کیلئے وقت دینے والے نوجوانوں کی کوششوں کو قبول فرمائے اور ان کی رفاقتوں کو منزلوں کے حصول تک اور اس کے بعد بھی قائم و دائم رکھے۔ آمین
حفظ الرحمن
سب ایڈیٹر، راشٹریہ سہارا