کاسٹ: انوپم کھیر، اکشئے کھنہ، وپن شرما، سوزان برنرٹ، منیش بھردواج، ارجن ماتھور، آہانا کمرا
ڈائریکٹر: وجئے رتناکر گٹے
ریٹنگ ستارے: صفر
مبصر: شبھرا گپتا
یہ فلم صاف طور پر ایک پروپگنڈا فلم ہے جس کا واحد مقصد سابق وزیر اعظم کو کمزور، بے وقعت اور ایک مخصوص خاندان کے کٹھ پُتلی کے طور پر پیش کرنا ہے۔شروعات میں ہی دیکھنے والے پر افشاں ہو جا ئے گا کہ یہ فلم ’’ایکسیڈنٹل پرائم منسٹر‘‘ نامی کتاب کے مصنف کے نقطہ نظر کے مطابق ہی بنائی گئی ہے۔ جس میں یو پی اے حکومت ،جس میں منموہن سنگھ وزیر اعظم اور سنجئے باروان کے مشیر برائے میڈیا تھے،پرایک جامع نظر ڈالنے کے بجائے ان کی زندگی کے کچھ انتہائی ذاتی مشمولات کا احاطہ کیا جائے گا۔
اکسیڈنٹل پرائم منسٹر فلم میں عوام کو گمراہ کرنے اور وزیر اعظم کی شخصیت کو کمزور اور لاچار دکھانے کے ساتھ یہ باور کرانے کی بھر پور کوشش کی گئی ہے کہ منموہن سنگھ ملک کے وزیر اعظم نہیں بلکہ گاندھی پریوارکے ہاتھوں بندھے ایک کٹھ پُتلی تھے۔ فلم میں یہ تاثر دینے کی کوشش بھی کی گئی ہے کہ یو پی اے حکومت کی مدت کار میں سونیا ، راہل اور پرینکا گاندھی ہی اصل کرتا دھرتا تھے،جو منموہن سنگھ کے نام کا سہارا لے کراس ملک پرحکومت کررہے تھے۔ بہت ہی شاطرانہ طریقے سے یہ بتایا گیا ہے کہ منموہن سنگھ ایک عزت دار، ایماندار اور صاف دل انسان ہونے کے باوجود، اپنی پارٹی کے اُن لوگوں کے گناہوں پر پردہ ڈال دیا جو رشوت جیسی گندگی میں ملوث تھے۔ ملک کے وزیر اعظم ہونے کے باوجودوہ گاندھی فیملی میں ایک مفلوج جسم کی حیثیت رکھتے تھے۔ حالانکہ میدان سیاست کے نوواردین بھی ان بیانیوں کی حقیقت سے بخوبی واقف ہیں۔اس فلم میں اس دور کے سیاسی حالات کا علم رکھنے والوں کیلئے کوئی’ چونکا دینے والی خبریں‘نہیں ہیں۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آخر اس فلم کو اس قدر بھدے انداز میں کیوں بنایا گیا ہے جس کے بنانے میں آرٹ ( فنون لطیفہ) کا دور دور تک کوئی شائبہ نہیں ہے۔فلم کے تمام کردار خاص طورپر مرکزی کردار منموہن سنگھ(انوپم کھیر) اور سنجے بارو(اکشئے کھنہ)، دونوں دراصل اصلی زندگی کے منموہن سنگھ اور سنجئے بارو کے کارٹون کی طرح دکھائے گئے ہیں۔ پوری فلم میں منموہن سنگھ بناوٹی نرم خو انداز میں بڑبڑاتے رہتے ہیں اور ان کی زبان حال( باڈی لینگویج) اعتماد سے خالی نظر آتی ہے ۔ وہ خود اپنے اعصاب پر قابو نہیں رکھ پاتے۔کسی بھی موقع پر ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ انوپم کھیرکی شکل میں منموہن سنگھ نے بطور وزیر اعظم دو میقاتیں کسی بھی درجے کے عزم وحوصلہ کے ساتھ مکمل کی تھیں۔
فلم اور آرٹ کی دنیا میں اپنی بات پہونچانے کے لیے پردہ سیمیں سے نکل کر دیکھنے والوں سے مخاطبت کم ہی ہوا کرتی ہے لیکن اس فلم میں اس چیز کو کئی بار استعمال کیا گیا ہے۔ کھنہ کے ذریعے نبھائے گئے بارو، بار بار ناظرین کی طرف پلٹ کر مخاطب ہوتے ہیں اور ’رِیل‘کے منظر سے نکل کر’حقیقت طشت از بام‘ کرنے کا دعویٰ کرتے رہتے ہیں۔
کھنہ ایک ایسے شخص کا کردار نبھاتے ہیں جسے ہمیشہ رنگ برنگے اور نفیس انداز میں سلوائے گئے سوٹ بوٹ میں رہنا پسند ہے ۔ حکومت کے ایوانوں میں اس کا اثر و ورسوخ اس قدر ہے جس کے سزاوار کئی مرکزی وزراء بھی نہیں ہیں۔ درحقیقت اس فلم میں بارو کا اتنا اہم رول ہے کہ اس کا نام بلا کم و کاست ’ہر جگہ موجود مشیربرائے میڈیا ‘بھی رکھا جاسکتا تھا۔
فلم میں کہانی نام کی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ یہ منموہن سنگھ کے وقار کو کم کرنے اور ان کی کھلی اڑانے کیلئے ترتیب دئے گئے کچھ مناظر کا مجموعہ ہے جس میں کچھ غیر ارادی طور پر مضحکہ خیز مناظر بھی آگئے ہیں(جیسے ’کیو سیرا سیسرا‘ نامی گانے پر منموہن سنگھ اپنی اہلیہ کے ساتھ بیٹھ کر ہنس رہے ہیں)۔فلم کے سیٹ غیر دلکش انداز میں ترتیب دئے گئے ہیں اور دہلی کے ساؤتھ بلاک کے سارے کمرے پیلے اور لال مائل بہ جامنی رنگے گئے ہیں!
درآنحالیکہ تمام کردار اصلی زندگی کے کرداروں سے صورت میں حیرت انگیز حد تک مماثلت رکھتے ہیں ۔برنرٹ،سونیا گاندھی جیسی ہی نظرآتی ہیں۔ ماتھور، راہل گاندھی کی طرح، کمرا،پرینکا گاندھی، شرما،احمد پٹیل کی طرح۔صرف یہی نہیں بلکہ وہ تمام اداکار جنہوں نے واجپائی، اڈوانی، لالو یادو ، ملائم سنگھ اور دیگر اہم سیاست دانوں کے کردار نبھائے ہیں، اصلی کرداروں کی طرح نظر آئیں گے ۔
ہوسکتا ہے کہ منموہن سنگھ ایک ’ایکسیڈنٹل‘وزیر اعظم رہے ہوں، جیسا کہ بارو خود کہتے ہیں اور تاریخ شاید انہیں ایسے ہی یاد رکھے گی۔ لیکن، یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ فلم بن کر پردہ سیمیں کی زینت بن گئی ہے۔ اس فلم کی ریلیز بڑے ’مناسب‘ وقت میں کی گئی ہے جبکہ لوک سبھا انتخابات قریب ہیں۔ اس فلم کے ذریعہ یہ سبق بھی سیکھنا چاہیے کہ ’’پروپگنڈا‘‘اچھے طریقے سے بھی کیا جاسکتاہے!
(بشکریہ انڈین ایکسپریس)