خواتین کا استحصال:اسلامی تاریخ اور شریعت کے آئینے میں

0


جویریہ ارم
ریسرچ اسکالر عثمانیہ یونیورسٹی، حیدرآباد

تین طلاق بل کے لوک سبھا میں پاس ہونے کے پیچھے حکمراں جماعت کی یہ خوش فہمی کارفرما ہے کہ یہ بل 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں جیت کا منتر ثابت ہوگا۔ ہر طرف مسلمان خواتین پر ہورہے ظلم کی بات ہورہی ہے، انھیں ایمپاورکرنے ، اور ایسا قانون لانے کا شور و غل مچا ہوا ہے جو انہیں انصاف اور باوقارزند گی دے۔


ایسا قانون تو صرف اسلام کے پاس ہے’قانون قصاص‘۔ اس کے برخلاف جو قانون ہمارے ملک میں بنانے کی کوشش کی جارہی ہے وہ خواتین کو ٹکہ فائدہ نہیں پہنچائے گا۔


قرآن میں ہے ’’جان کے بدلے جان ، آنکھ کے بدلے آنکھ ، ناک کے بدلے ناک ، کان کے بدلے کان ، دانت کے بدلے دانت اور تمام زخموں کے لئے برابر کا بدلہ ، پھر جو قصاص کا صدقہ کردے تو وہ اس کے لئے کفارہ ہے اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں‘‘۔(المائدہ:45)


قصاص ایک قانونی اصطلاح ہے جو سزا میں مساوات کی بات کرتا ہے، اسلام جس شدت کا جرم ہو اتنے ہی شدت کی سزا کا قائل ہے۔مظلوم کو اللہ نے یہ حق دیا ہے کہ وہ ظلم کا قصاص چاہے ۔ساتھ ہی معاف کرنے کی ترغیب بھی دی ہے ۔’’ جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں‘‘۔ اس آیت کی تفسیر میں امام ابن کثیرؒ لکھتے ہیں کہ جو مظلوم کے حق کو دینے میں کامیاب نہ ہو وہ بھی ظالموں میں سے ہے، کیوں کہ اللہ کے حکم کے مطابق وہ فیصلہ نہ کرسکے۔ ابوداؤد 4497 میں آیا ہے کہ آنکھ کے بدلے آنکھ کا لفظی مفہوم نہیں لیا گیا ہے بلکہ اسلام کے تعزیراتی قانون کے مطابق جرمانہ یا قید کی سزائیں جو جرم کی شدت کے مطابق ہوں، دی جاسکتی ہے۔


دوسری طرف خون بہا بھی قصاص کی ایک شکل ہے۔ سنن نسائی میں ایک صحیح حدیث 4730 میں آیا ہے کہ انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص اپنے رشتہ دار کے قتل کا معاملہ لے کر نبی ﷺ کے حضورپہونچا۔ نبی ﷺؐ نے معاف کردینے کی تلقین کی اور خون بہا کی ترغیب دلائی۔باجود اس کے کہ قانونی سزا پر عمل درآمد معاشرے میں مجرموں کو دوسرے کے حقوق تلف کرنے سے روکنے کا ایک ذریعہ مانا گیا ہے۔ خواتین بھی اس سے مستشنی نہیں ہیں ، انھیں بھی برابرکے حقوق حاصل ہیں، اسلامی تاریخ اور اسلامی عدالتوں میں پیش ہوئے مقدمات پر نظر ڈالیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ماضی میں آج کے ترقی یافتہ دور سے زیادہ مرد و خواتین اپنے حقوق اور اختیارات کے حوالے سے ہوش مند تھے اور جہاں ضرورت ہو انصاف کے حصول کو یقینی بناتے تھے۔ بخاری و مسلم میں مشہور واقعہ نقل ہے کہ ام کلثومؓ اپنی مرضی سے مدینہ ہجرت کر آئی تھیں ،جب ان کے خاندان نے انھیں واپس لے جانے کی کوشش کی تو نبی کریمﷺ نے فیصلہ ام کلثومؓ کے حق میں دیا تھا کہ وہ اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا حق رکھتی ہیں۔


ابوبکرصدیقؓ نے جس شخصیت کو امیر المومنین کے لئے سب سے بہتر سمجھا ،جب اس مستقبل کے امیر المومنین عمر فاروقؓ نے اپنی مطلقہ اہلیہ سے اپنے بیٹے عاصم کی تحویل حاصل کرنی چاہی ، تو انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے فیصلہ ان کے خلاف ہوا ۔ان کے بچے کوان کی نہیں بلکہ عاصم کی ماں کی تحویل میں دے دیا گیا۔سلطان ملک شاہ سلجوقی ایک مرتبہ اصفہان کے جنگل میں شکار کھیل رہا تھا۔کسی گاؤں میں قیام ہوا۔ وہاں ایک غریب کی بیوہ کی گائے تھی جس کے دودھ سے اس کے تین بچوں کی پرورش ہوتی تھی۔ سلطان کے شکاریوں نے اس گائے کو ذبح کرکے خوب کباب اڑائے،بیوہ بڑھیا اصفہان کی مشہور نہر کے پل پر جا کھڑی ہوئی۔ جب سلطان پُل پر آیا تو بڑھیا نے ہمت اور جرات سے کہا ’’ائے الپ ارسلان کے بیٹے! میرا انصاف اس نہر کے پُل پر کرے گا یا پُل صراط پر؟ جو جگہ پسند ہو انتخاب کرلے‘‘ بادشاہ گھوڑے سے اترپڑا ۔بڑھیا عورت سے کہا ’’پُل صراط کی طاقت نہیں ہے، میں اسی جگہ فیصلہ کرنا چاہتا ہوں کہو کیا کہتی ہو؟‘‘ بڑھیا نے اپنا قصہ بیان کیا۔ بادشاہ نے شکاریوں کی اس ظالمانہ حرکت پر افسوس کا اظہارکیا اور ایک گائے کے عوض اس کو ستر گائیں دلائیں اور مالا مال کردیا ۔جب بیوہ عورت نے کہا کہ: ’’ تمہارے عدل سے میں خوش ہوں اور میرا اللہ خوش ہے‘‘ تب وہ گھوڑے پر سوارہوا۔( نظام الملک طوسی حصہ دوم ص 686 )


کوفہ میں نہر فرات کے کنارے ایک خوبصورت باغ تھا جس کا مالک کوفہ کا ایک شخص تھا۔اس باغ کے ساتھ ہی کوفہ کے گورنر موسیٰ کا محل تھا۔موسیٰ کی خواہش تھی کہ باغ خریدلیں تاکہ اس کا صحن مزید کھلا اور کشادہ ہوسکے مگر باغ کے مالک نے انکار کردیا۔کچھ عرصہ گزراوروہ شخص فوت ہوگیا۔ اس کے وارثین میں چند بیٹے اور ایک بیٹی تھی ۔لڑکوں نے اپنا حصہ بیچنے پر رضامندی ظاہر کردی اور لڑکی نے اپنا حصہ بیچنے سے انکار کردیاکہ جس زمین کو میرے باپ نے فروخت نہیں کیا، میں بھی اسے فروخت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں۔تو گورنر نے دباؤ کا حربہ اختیار کیا۔ خطیر رقم پیش کی مگر وہ نہ مانی ت۔گورنر نے ایک دن اپنے نوکروں کو حکم دیا اور نوکروں نے دیوار کو گرا کر اس زمین کو محل میں شامل کردیا ۔ادھر اس لڑکی نے گورنرکوفہ موسیٰ بن عیسیٰ کے خلاف قاضی شریک کی عدالت میں مقدمہ دائر کردیا۔قاضی شریک نے گورنر کو فہ کو سمن جاری کردیا۔ گورنر نے پولیس اور شہر کے بڑے معززین کے ذریعہ قاضی پر دباؤ بنانا چاہا ۔قاضی نے کہا کہ عدالت کی نظر میں سب عام و خاص برابر ہیں اور جو لوگ انصاف کے راستے میں رخنہ ڈالیں گے انھیں جیل بھیجا جائے گا ۔ گورنر پولیس فورس لے کر جیل پہنچا اور اپنے تمام لوگوں کو رہا کروالیا۔ قاضی نے اپنے کاغذات، کتب اور اپنا ذاتی سامان اکھٹا کیا اپنی سواری پر بیٹھے اور بغداد کارخ کرلیا۔ ادھر گورنر خلیفہ کو سارے حالات پتہ چل جانے کے خوف سے انھیں شہر کے باہر روک لیا، اور کہا کہ آپ جیسا چاہیں ویسا ہوگا، قاضی نے کہا جتنے لوگوں کو رہا کروایا ہے سب کو جیل جانا ہوگا، تمہیں بھی گورنر کی عدالت میں کھڑا ہونا ہوگا۔ چنانچہ رہا شدہ معززین مع پولیس چیف دوبارہ جیل بھیجے گئے۔گورنرعدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہوا۔ فیصلہ لڑکی کے حق میں ہوا ۔اس کی زمین اسے واپس کی گئی اور حکم دیا گیا کہ اسے زمین فروخت کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ (سیر اعلام النبلاء، ج 8ص 211-200 )


اسلامی تاریخ شاہد ہے کہ خواتین آج کے مقابلہ میں بڑی آسانی سے اپنے حقوق حاصل کرتی تھیں۔ انصاف حاصل کرنے میں کوئی دشواری نہ ہوئی ۔کبھی اسے معیوب نہ سمجھا گیا۔عورت دشمن معاشرہ میں اسلامی تعلیمات کے نتیجے میںیہ ایک انقلابی تبدیلی تھی۔ وراثت کا حق، نکاح کا حق، چائلڈ کسٹڈی، بیوی کے ساتھ زیادتیو تشدد، برا سلوک یا تضحیک کے معاملات عدالت میں پیش بھی کیے جاتے تھے اور عدل بھی ہوتا تھا، مجرام کو سزائیں بھی ملتی تھیں۔ ان تمام تاریخی واقعات پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھیں گے کہ شاید ایک بھی واقعہ ایسا نہ ملے کہ کوئی شاہ بانو نان نفقہ مانگنے عدالت جائیہے اور طلاق ہوجائے۔ آفرین رحمان یا کوئی بلقیس بانو عدالت میں اپنے اوپر ہورہے تشدد، جبراً اسقاطِ حمل کا انصاف مانگنے عدالت جائے اور ہاتھ لگے تین طلاق بل


گھریلو تشدد:

سورۃالنساء آیت 34 میں ’فاضربوھن‘جو بات کہی گئی ہے اس بنیاد پر بھی خواتین کو زد کوب کرنے کی بالکل اجازت نہیں ہے۔ مرد ہلکی چپت سے تجاوز نہیں کرسکتا۔ گھریلو تشدد، بدسلوکی ، بد زبانی ، تحقیر ، برے ناموں سے پکارنا ،والدین یاد رشتہ داروں کی تذلیل کرنا یہ سب اسلام کی نظر میں جرم اور گناہ (offence)ہے۔احمد شفاعت کہتے ہیں کہ’’ اگر شوہر بیوی کو مارے اور بیوی عدالت جائے اس کا جرم ثابت ہو، تو بیوی کو حق حاصل ہے کہ وہ قصاص کے طور پر شوہر کو اسی طرح مارے جس طرح سے اس نے مارا ہوگا‘‘۔


ایک نشست میں تین طلاقیں


یہ ممکن ہے ۔لیکن طلاق کے وقت شوہر کا بیوی پر جسمانی ، ذہنی ، جنسی اذیت دینا بالکل جائز نہیں ہے۔ اس کے اخراجات یا حقوق ادانہ کرنا، جہیز طلب کرنا بالکل پسندیدہ نہیں ہے۔بلکہ ظلم برداشت کرنا بھی ظلم ہے اور اللہ کے آگے مظلوم بھی جوابدہ ہوگا اگر اس نے اپنے ان حقوق کے لئے
آواز نہ اٹھائی جو اللہ نے اسے عطا کئے تھے۔ لوک سبھا میں اس بل کو پاس کروا کر شادماں ہورہے ’’معززین‘‘ خواتین کے اصل مسائل پر توجہ نہیں دینا چاہتے۔کیوں ایک آفرین رحمان، بلقیس یا کوئی اور خاتون برسہابرس ظلم برداشت کرتے ہوئے زندگی گزارنا چاہتی ہے؟ کیوں وہ اب بھی طلاق کو اپنے لئے نئی زندگی کی شروعات نہیں مانتی؟ کیوں وہ چاہتی ہے کہ طلاق کا طریقہ مشکل ترین ہوجائے؟ کیوں چند خواتین جیسا کہ دعوی کیا جارہا ہے؟ حلالہ تک کے لئے راضی ہوجاتی ہیں؟کیونکہ اصل مسئلہ اس کی دوبارہ شادی کا ہے ، بقیہ زندگی کے لئے وسائل کا ہے۔


اسلامی تاریخ سے بے شمار شواہدپیش کیے جاسکتے ہیں جہاں مسلمان خواتین کی دو ، تین شادیاں ہوئی ہیں اور انھوں نے ایک باوقار اور خوشحال زندگی گزاری ہے۔ وہ بیوہ ہوجائیں ، چاہے تین دفعہ لیکن انھیں شہید کی زوجہ کہا جاتانہ کہ منحوس یا شوہر کو کھا جانے والی! ان کی طلاقیں بھی ہوتی تھیں ان کے دوبارہ نکاح بھی ہوتے تھے اور وہ ام المومنین بھی کہلائی گئیں۔ طلاق کو معیوب اور طلاق شدہ عورت کو شجر ممنوعہ نہیں سمجھا گیا کیوں کہ قرآن و حدیث نے دوبارہ نکاح کی ہمت افزائی کی ہے۔


جنسی زیادتی


علماء اسے گناہ تصور کرتے ہیں اور شوہر کے خلاف بیوی عدالت میں مقدمہ بھی دائر کرسکتی ہے، تاریخ میں قاضی حضرات کوڑوں کی تعداد خود ہی متعین کرتے تھے۔ خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم میں زنا بالجبر کے بھی واقعات ملک میں تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ معصوم لڑکیوں ، چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ بھی یہ حادثات پیش آرہے ہیں ۔گو کہ یہ معاملہ صرف مسلم خواتین نہیں جڑا ہے لیکن جو سزا اسلام نے تجویز کی ہے وہ شائد ہی دنیا کے کسی قانون نے تجویز کی ہو۔


زنا بالجبر


زنا بالجبر کی سزا وہی ہے جو زنا کی ہے۔ یعنی شادی شدہ شخص کو سنگ سار کرنااور غیر شادی شدہ کو سو کوڑے لگانا اور ایک سال کے لئے جلا وطن کردینا ۔اس کے علاوہ گناہ کے مرتکب کو مظلوم کو مہر ادا کرنا ہو گا اور مہر کی رقم طئے کرنے کا حق مظلوم ہی کو ہوگا۔ پہلی سزا اللہ کا حق اور دوسری سزا یعنی مہر ادا کرنامظلوم کا حق ہے اس طرح دوہری سزا دی جاتی ہے۔


موجودہ حالات


صحت کی عالمی تنظیم (World Health Organisation)اور اقوام متحدہ کے مطالعہ کے مطابق ہندوستان، پاکستان ، افغانستان اور بنگلہ دیش مسلم خواتین کی ایک معتد بہ تعدادگھریلو تشدد، سب وشتم اور تحقیر کا سامنا کرتے ہیں۔ہندوستان میں نیشن وائڈ فیملی ینڈہیلتھ کے 2006کے سروے کے بموجب بدھ مذہب کو ماننے والی خواتین اور مسلم خوا تین مارکھانے میں سرفہرست ہیں۔ HRW201 کی رپورٹ کے مطابق افغانستان پوری دنیا میں گھریلو تشدد میں پہلا مقام رکھتا ہے۔ 2011 کی رپورٹ کے مطابق 80 فیصدخواتین پاکستان میں اس کی شکار ہیں۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس کی 2002 کی رپورٹ کے مطابق 90فیصدپاکستانی شادی شدہ خواتین تھپڑ، مار پیٹ اور جنسی ہر اسانی کا شکارہوتی ہیں۔ 1998 اور 2003کے درمیان 2666 خواتین غیرت کے نام پر قتل ہوئی ہیں۔ اگر ان رپورٹس کے اعداد وشمار پر شک بھی کیا جائے یا وہاں کے معاشی و تعلیمی پسماندگی جیسے زمینی حقائق کو دیکھا جائے اور جنگوں کی وجہ سے ابترہوئے حالات کو قصور وار قرار دیا جائے تب بھی اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ حالاتخواتین کے لیے سازگار و خوش گوار نہیں ہیں۔یہ ہمارے سماج کے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔


دارلقضاء اور شرعی کمیٹیوں اور دوسرے اداروں میں ایسے کئی معاملات آتے ہیں جہاں مرد اپنی خواتین کے ساتھ رہنا بھی نہیں چاہتے اور ان کا مہر ادا کرکے رخصت بھی نہیں کرنا چاہتے ۔ان کی زندگی
اجیرن کرکے انہیں خلع لینے پر مجبور کرتے ہیں تاکہ مہر، طلائی زیور وغیرہ واپس نہ کرنا پڑے کئی۔ واقعات جہیز ،ہر اسانی، گھریلو تشدداورظلم کے بھی آتے ہیں وہاں بھی بڑے بزرگ، قاضی صاحبان صرف خلع کو ہی تمام مظالم کا حل تصور کرتے ہیں۔یہ درست نہیں ہے۔ اس طرح سے ایک صحت مند معاشرہ کبھی تعمیر نہیں ہوسکتا۔سماجی برابری اور انصاف اگر ہم خاندانی نظام میں فراہم نہ کرسکے تو نظام عدل اور سیاسی انقلاب کی ، فلاحی ریاست کی بڑی بڑی باتیں ہمارے منہ سے معیوب لگیں گی۔

طلاق کا حق ایک طاقت ہے تو یہ ضروری ہے کہ طاقت کے ساتھ خوفِ خدا بھی ہو۔خوف خدا سے بے بہرہ طاقت انسان کو شیطان بنا دیتی ہے۔ ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ نکاح نامہ میں تفویضِ طلاق کے بعد معاملات الٹ ہوکر خواتین اس کے بے جا استعمال کی بات کرسکتی ہیں ۔ خواتین کے ایسا کرنے کے امکانات کم ہیں کیوں کہ صدیوں سے رائج مہر کے حق کے باوجود بھی کوئی قابل ذکرواقعہ نظر نہیں آتا جہاں مرد مہر کی بھاری رقم کی وجہ سے ہراساں ہوئے ہوں۔ تفویضِ طلاق کے حق کے باوجود بھی دوبارہ نکاح ہمارے معاشرے کا ایک مستقل مسئلہ ہے۔اس لئے یہ شبہات بھی فرو ہوجاتے ہیں۔ جہاں تک ملک میں ظلم اور گھریلو تشدد کے کیس کی بات ہے اب ان میں اتنی تبدیلی آچکی ہے کہ حقیقی کیس میں بھی انصاف کے حصول کے لئے خواتین کو لوہے کے چنے چبانے پڑتے ہیں۔


Fake NRI groom کے معاملات میں پنجاب و ہریانہ کے بعد دوسرا نمبر تلنگانہ کا ہے۔ تلنگانہ میں کئی مسلم خواتین اس طرح کی دھوکہ بازی کی شادی میں پھنس کر پولیس اور عدالتوں و شرعی کمیٹیوں کے چکر لگارہی ہیں کیوں کہ دارالقضاء نکاح تو کرواسکتا ہے لیکن فسخ نکاح نہیں۔جس NRI کامکمل سراغ نہ مل رہا ہو وہاں کچھ سال کی جدو جہد اور قیمتی وقت کی بربادی کے بعد اس کا نکاح فسخ ہوجاتا ہے ۔ جن خواتین کے شوہر قصداً واپس آکر طلاق نہ دینا چاہیں، ان کے مسائل تو اور بھی سنگین ہیں۔


تجاویز

  • دارالقضاء کا نظام ملک میں جہاں موجود نہیں ہو وہاں اس کو جلد از جلد قائم کرنا چاہیے۔
  • جہاں جہاں یہ نظام موجود ہے وہاں نکاح نامہ کی موجودہ شکل میں بہتری لانی چاہیے۔
  • لڑکے لڑکیوں کوان کے حقوق و فرائض اور نکاح و طلاق کے معاملات کی باریکیاں بھی بتائی جائیں۔
  • ’نکاح ایک معاہدہ (contract)ہے‘ کہہ دینا کافی نہیں ہے، اسے اس صورت میں قبول بھی کرنا ہوگا، اگر معاہدہ توڑا جائے یا اس کی کوئی شق توڑی جائے تو اس کے نتائج کیا ہوں گے اسے بھی نکاح نامہ میں درج کرنا ہوگا۔ طلاق و خلع کی تفصیلات (provisions)اس معاہدہ نکاح میں شامل کرنا کوئی معیوب بات نہیں ہے۔
  • مضبوط بنیادوں پرمعاشرہ کی تعمیر نو کی کوشش ہو۔قریبی رشتوں سے محبت اور حوصلہ افزائی کے بجائے اگر صرف کڑوے گھونٹ ملیں توایک مظلوم خاتون آگے کی زندگی بہتر انداز میں کیسے گزارسکے گی؟ا
  • مسلم خواتین کو بھی اپنے حقوق کی بحالی کے لئے خود ہی اٹھنا ہوگا۔انفرادی طور پر پنے فرائض اور حقوق کے تئیں شعور وآگہی لانی ہوگی ۔خود اپنی ذات میں بھی اور اپنے اطراف و اکناف میں بھی۔
  • اجتماعی طور پر کوئی بڑی تحریک لے کر اٹھنے سے پرہیز کرنا ہوگا جس طرح کے حالات اس وقت ملک میں ہیں یہ مناسب نہیں ہوگا کہ بڑی مہمات یا تحریکیں شروع کی جائیں۔ مقامی طور پر چھوٹے موٹے گروپس جو عورتوں اور لڑکیوں کو باشعور بنانے کے لئے تشکیل دئیے جاسکتے ہیں۔
  • خواتین کی معاشرے کی معمار ہوتی ہیں ۔ بچپن ہی سے لڑکے اور لڑکیوں کی تربیت اس نہج پر کی جائے کہ وہ ایک دوسرے کو برتر یا کمترنہ سمجھیں ۔ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کے معاملے میں اللہ سے ڈریں، کیوں کہ جتنے بھی سخت قوانین بنائے جائیں، اور نکڑ پر شرعی عدالتیں، ویمن پولیس اسٹیشن
  • بنالئے جائیں بہر حال اچھی تربیت و اعلیٰ کردار ہی مسائل کا اصل اور دائمی ہے۔
  • ثالث یا حکم چاہے عدالتیں ہوں یا پولیس ہو یا دارالقضاء ہویا دوسری غیر سرکاری تنظیمیں ہوں، سب اس امر کو یقینی بنائیں کہ کمزور اور مظلوم کے ساتھ انصاف ہوگا، جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ نہ ہو۔
  • وراثت، ترکہ، بچوں کی تحویل ، بچوں کا نان نفقہ م اپنی ملکیت یا تنخواہ ، پرسنل لاء کے تمام معاملات میں اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے عدالت کا رخ کرنے پر معاشرے کو اسے تنگ نگاہی سے دیکھنے ،اس کے متعلق باتیں بنانے اور اس کی راہ میں رخنہ بننے سے پرہیز کرنا چاہئے۔
  • حکومتیں موجودہ قوانین کو مزید بہتر کرے ۔


نبی اکر م ﷺ کاارشاد ہے:
’’تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی عورتوں کے ساتھ بہتر ہو اور میں تم سب میں اپنی عورتوں کے ساتھ سب سے بہتر ہوں‘‘۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights