جدید دور میں فکری عمل

ایڈمن

(تحریک اسلامی کے انقلاب پرور، فکر نواز ، مرد مجاہد مولوی ٹی کے عبداللہ کے خطاب کے کچھ حصے ذیل میں دیے جارہے ہیں۔ یہ خطاب انہوں نے مرکز ایس آئی او کے نیشنل میڈیا ورکشاپ کے اختتامی سیشن میں…

(تحریک اسلامی کے انقلاب پرور، فکر نواز ، مرد مجاہد مولوی ٹی کے عبداللہ کے خطاب کے کچھ حصے ذیل میں دیے جارہے ہیں۔ یہ خطاب انہوں نے مرکز ایس آئی او کے نیشنل میڈیا ورکشاپ کے اختتامی سیشن میں پیش کیا تھا۔ اردو، عربی اور فارسی کی تمثیلوں ، محاوروں اور اشعارسے مزین شستہ و شائستہ گفتگو ؛گفتگو وہ کہ جس میں کبھی عظمت رفتہ کی شوکت اور کبھی مستقبل کی تابناکی جھلکے۔ میں مولوی صاحب نے اپنی گفتگو میں بہت اہم نکات کی جانب توجہ دلائی۔ اور زبان حال اور قال سے یہ سکھایا کہ ہماری ترجیحات اور پسند و ناپسند کے معیارات کیا ہونے چاہئیں۔ ایک طرف ان کی بذلہ سنجی و خوش گفتاری اور دوسری طرف ان کی آنکھوں میں چھپا ہو ااضطراب و تفکر، اہل مجلس پر ؎ پیغام سکوں پہنچا بھی گئی ، دل محفل کا تڑپا بھی گئی کا مصداق بن گئی۔)

عربی کا ایک شعر ہے جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے ؎ اکثر لوگ اپنے دل میں بسنے کے بجائے دوسروں کے دلوں میں بستے ہیں۔گویا یہ کہ ان کے اپنے دل کی دنیا خالی اور ویران ہوتی ہے۔اسکی مثال یوں ہوسکتی ہے کہ اپنا لباس بالعموم انسان فیشن کے مطابق متعین کرتا ہے ۔ وہ چیز جو سب کو پسند ہو اسے اپنے لئے اختیار کرتا ہے۔ لیکن وہ جو اپنے دل کو پسند آئے اس کو اہمیت کم دیتا ہے۔گویا یہ کہ وہ دوسروں کی پسند اور ناپسند کے اعتبار سے اپنے رویہ کو ترتیب دیتا ہے۔لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی دل پسند چیز کو اختیار کرتے ہیں چاہے وہ لوگوں کو پسند آئے یا نہ آئے۔
اخبار نویسی کے سلسلے میں بھی میں دو اقسام کے اخبار دیکھتا آیا ہوں۔ ’دعوت‘ اور’ زندگی نو‘۔ غالباً ۵۰ سال سے دعوت نے وہ اسلوب اختیار کیا ہے جو اس کو پسند ہے۔روکھی پھیکی تحریریں، وہی لمبے مضامین۔ ’ترجمان القرآن‘ نے بھی اپنا ایک مخصوص انداز اپنایا ہے۔
یہ بات ہوتے ہوئے بھی ان اخباروں کا اپنے باقی رہنے کا ایک شدید وجہ جوازہے۔ مثلاً دعوت میں ایک کالم ہے ’خبر و نظر‘۔ میرے حافظے کے مطابق محمد مسلم صاحب نے اسے شروع کیا۔ اس کالم کا ایک وزن ہے۔ سب قاری اسے دیکھتے ہیں، اگرچہ پورا اخبار نہ دیکھیں۔پرواز رحمانی صاحب نے موجودہ زمانے میں اس کا معیار باقی رکھنے کی کوشش کی ہے۔
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ایک نظریاتی تحریک کا ترجمان بہت زیادہ رنگین نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے مقصد کے خاطر اگر اس نے ایک ہی انداز اختیار کیا ہے تو یہ کوئی بری بات نہیں ہے۔ ان اداریوں کو پڑھنے سے دل میں ایک آگ لگتی ہے۔ انقلابی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔
ایسی ہی ایک مثال ’صدق‘ کی ہے۔ عبدالماجد دریا بادی کا اخبار۔ وہ مغربیت اور الحاد سے بیزار ہوکر اسلام کی طرف آئے تھے۔ ایک زمانے میں مولانا مودودی کے مداح تھے۔ بعد میں اختلافات بھی ظاہر کئے۔ اُن کا ایک کالم تھا’سچی بات‘؛ سب لوگ اسے پڑھنے کے لئے انتظار کرتے تھے۔ اسی طرح مرحوم مولانا عامر عثمانیؒ ’تجلی‘ چلاتے تھے۔ علوم دین کا ماہنامہ۔ اسکے ہزاروں پڑھنے والے تھے، ہزاروں عاشق تھے۔ اس میں ایک کالم تھا ’مسجد سے میخانے تک‘ ۔قلمی نام استعمال کرتے تھے ؛ ملا عرب مکی۔ایک بار ایک شمارے میں پڑھ لیں اس کالم کوتو اگلی بار پرچہ کا انتظار کرتے رہیں گے۔ایسا جادو تھا اس کالم میں۔ کیرالا کا ایک اسکالر تھا۔ ملحد تھا۔ ایک پرچہ جاری کرتا تھا ۔۔ بہت سی بے سروپا باتیں اس میںہوتی تھیں ۔ ہم سے ملاقات کی غرض سے ’پربودھنم‘ کے آفس بھی آیا کرتا تھا۔کوئی جاذبیت نہیں تھی اس رسالے میں۔لیکن ایک کالم میں دنیا بھر کے مسائل کا اپنے انداز میں تجزیہ کرتا تھا۔اور صرف اس تجزیے کی وجہ سے لوگ اس کو خریدتے تھے۔
ہم ان مثالوں سے بہت سی باتیں سیکھ سکتے ہیں۔ اخبار چلانے کا ایک ہی انداز نہیں ہوتا۔ ’دعوت‘ میں کوئی تصویر شائع نہیں ہوتی لیکن وہ چلتا ہے۔اسکی اپنی انفرادیت ہے۔
………………………
ان باتوں کے بعد بات دو اہم امور کی جانب میں گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ آج ہم سب امت مسلمہ ساری دنیا میں ایک شدید بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ ایک انتہائی پریشان کن صورتحال سے جھوجھ رہی ہے۔ ایک طرف ہمہ گیر سامراجیت۔ اسرائیل نواز، سرمایہ دارانہ، مغربی ، امریکی سامراجیت، جس کے پیچھے اسرائیلیت کی طاقت ہے۔ دوسری طرف دہشت گردی۔ خاص طور پر داعش اور القاعدہ۔ ان دو کے درمیان امت مسلمہ بے بس ہوگئی ہے۔ زندگی کے لئے ترس رہی ہے۔اپنی بقاء کے لئے کوشش کررہی ہے۔
اس صورتحال کے اندر تحریک اسلامی کی کیا حیثیت ہے؟
میرے تجزیے کے مطابق پورے عالم اسلام کے تحریکات اسلامی بھی ایک نازک بحرانی صورتحال سے دوچار ہے۔
بیسویںصدی کے دو مجدّدین امام حسن البناء شہید اور سید ابوالاعلیٰ مودودی، عالمی سطح پر تحریکات اسلامی کے مانے ہوئے لیڈر تھے۔ ان کی شخصیت پر، اور قیادت پر دشمن کو بھی اعتبار تھا۔ اتنے بڑے عبقری شخصیت کے حامل مجدیدن گذر گئے۔ آدھ صدی بیت گئی۔ اب جو شخصیات ہیں وہ مقامی شخصیات ہیں۔ غنوشی، اردگان، اور۔۔۔ (سوچتے ہوئے) نام بھی لینا مشکل ہے۔
یہ سب اپنے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ پوری دنیا کو سامنے رکھ کر، پورے حالات کو پیش نظر رکھ کر، نگاہ میں وسعت کے ساتھ پورے دنیا کے حالات کا تجزیہ کرنے والے قائد اب دنیا میں باقی نہیں رہے۔ مانتا ہوں کہ یوسف القرضاوی مسائل حاضرہ پر فتویٰ ضرور دیتے ہیں۔ مگر قائد ہمارے یہاں موجود نہیں ہے۔
دوسری طرف جو تحریکات اسلامی کے باقیات صالحات ہیںان کے پاس بھی بہت بڑے چیلنجس ہیں۔ ان پر جمود اور اضمحلال کی کیفیت طاری ہے۔ کئی حیثیتوں میںپہلے جہاں تھے وہیں پلٹ آئے ہیں۔ روٹین کے کام ہوتے ہیں۔ سرکولر آئے گا۔ رپورٹ جائے گی۔ تقریریں ہوںگی۔
ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کہ، سوچنے سمجھنے والے نوجوان فکری انتشار کا شکار ہیں۔ آج کل کے مسلم نوجوان بہت چیزیں دیکھتے ہیں، بہت پڑھتے ہیں ۔ دنیا گلوبل ولیج بن گئی ہے، اسکا نوجوان فائدہ اٹھاتے ہیں۔ان کوسب کچھ مل گیا ہے۔سوائے خدا کے!!
بنیادی سوالات، انسان، خدا، کائنات، زندگی کے ہمارے پاس مضبوط جوابات تھے۔ ان سوالات کی کیا کیا تشریح ہو، نوجوان طبقہ اس سے واقف نہیں ہے۔ میں اپنے علم کی بنیاد پر، تخمین و اندازہ نہیں بلکہ علم کی بنیاد پر یہ کہتا ہوں کہ ہمارے نوجوان جاہلیت جدیدہ اور ہلکی فکروںسے متاثر ہوتے جارہے ہیں۔ پوسٹ ماڈرنزم، Pluralism, Identity Crisis, Feminism اور جدید اسلامی کمیونزم جیسی سوچ سے متاثر ہورہے ہیں۔ ان کو رہنمائی نہیںملتی۔ اور وہ اس وجہ سے سمجھتے ہیں کہ یہ سارے تصورات اسلام میں سما سکتے ہیں۔ اسلام کے ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں۔
جاہلیت کی شکل اب ہمارے پاس واضح نہیں ہے۔ ایس آئی او کے قائدین اپنے گریبان میںجھانک کر دیکھیں، کہ ہمارے نوجوانوں کی کیا صورتحال ہے۔ میں ان نوجوانوں کو قصوروار نہیں ٹہراؤں گا ۔ وہ تو نوجوان ہیں۔ پڑھیں گے، لکھیں گے۔ دہلی یونیورسٹی، جامعہ ملیہ، حیدرآباد کے اداروں میں مسلم نوجوان کافی پڑھتے ہیں ، وہ بہت سارے نئے افکار لے کر آتے ہیں۔ ایس آئی او کے لیڈروں کو ان کی فکری تربیت کی جانب توجہ دینی چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو مجھے شدید اندیشہ ہے کہ ہمارے نوجوان اسلام کے باہر حل تلاش کرنے کی کوشش کرنے لگیں گے۔
زندہ فرد از ارتباط جان و تن
زندہ قوم از حفظ ناموس کہن
مرگ فرد از خشکی رود حیات
مرگ قوم از ترک مقصود حیات
فرد کی زندگی جان و تن کے تعلق سے قائم ہے، اور قوم کی زندگی اپنی قدیم روایات کے تحفظ سے قائم رہتی ہے۔ فرد کی موت جوے حیات خشک ہوجانے سے واقع ہوجاتی ہے، اور قوم کی موت مقصودِ حیات ترک کردینے سے ہے۔
اللہ صراط مستقیم پر استقامت دے اور دین اسلام کے لئے تا قیامت خدمت کرنے کی توفیق دے۔ آمین

 

از: ٹی کے عبداللہ

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں