سائیکل چلاتے ہوئے اچانک میری نظر مشتاق پر پڑی وہ پتلی گلی سے نکل جانا چاہتا تھا لیکن میں نے آ واز دے کر اسے روک لیا۔ میں کچھ دنوں سے غور کررہا تھا کہ تنظیم کا ایک بہترین اور متحرک کا ر کن مشتاق اچانک سست ہوگیا ہے۔اب یہ دروس قرآن میں نہیں آتا؟ کترا کر نکل جاتا ہے؟ آج میرے پاس اچھا موقع تھا کہ میں اپنے ذہن میں اٹھنے والے ان سوالات کا جواب مشتاق سے بلاواسطہ دریافت کرلوں۔ سلام و خیر خیریت کے بعد میں نے اس ضمن میں دریافت کیاتو پہلے تو وہ ٹالنے لگا اور اصرار کرنے اور اعتماد میں لینے پر اصل حقیقت مجھ پر افشاں ہوئی۔ دراصل مشتاق ایک سنجیدہ، اور ہونہار طالب علم تھا۔ ایک مرتبہ کسی اجتماع کے موقعہ پر اس کے ساتھ کسی تنظیمی ساتھی نے زیادتی کے ساتھ اس کا مذاق اڑایا جس کی وجہ سے اس نے تنظیم میں نہ آنے کا فیصلہ کرلیا، یہی واقعہ مشتاق کے لئے اجتما عیت سے دوری کاسبب بن گیا۔ یہ ہماری اجتماعی زندگی کا کوئی اچھوتا واقعہ نہیں بلکہ ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ تمسخر وہ وبا ہے جو ہمارے اجتماعی نظام کو دیمک کی طرح کھوکھلا کر رہی ہے۔
موجودہ دور Reality Showsکا دور ہے۔ جہاں مقابلہ رقص، مقابلہ سرور،اور مقابلہ طنز و مزاح کی ہوڑ لگی ہوئی ہے۔ اس طرح کے Reality Showsنے طلبہ کے مزاج کو بدلنے اور اذہان کو پرا گندہ کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ طلبہ کا مزاج تمسخر پسندی کا ہو گیا ہے۔ اکثر نو جوان دوستوں سے باتوں ہی باتوں میں سنتے ہیں کہ ’’آج میں نے فلاں کی خوب کھینچائی کی۔ میں نے فلاں کو اتنا پریشان کیا کہ وہ رونے پر آگیا۔ چلو آج فلاں کی مزہ لیتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ اور اس قسم کے بہت سے جملے ہم اپنے دوست و احباب سے سنتے رہتے ہیں۔ ان جملوں کو سننے کے بعد ایسا لگتا ہے جیسے جو شخص جتنا عقل مند، دانشور اور حاضر جواب ہو وہ اسی قدر لوگوں کا استہزا کرے گا۔
استہزا یا تمسخر گناہ ہے اور ایسا کرنے والے کا کوئی دنیا وی فائدہ نہیں ہوتا، پھر بھی عام طور پر لوگ غفلت و لاعلمی میں اس حرکت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تمسخر ہمارے بھائی کی دل آزاری کا باعث ہوتا ہے مگر وہ مروت اور دوستی کی وجہ سے کچھ نہیں بولتا اور پھر وہ ہم سے کٹنے لگتا ہے۔ اکثر یہ تمسخر لڑائی اور جھگڑے تک چلا جاتا ہے۔ اس سے سینوں میں بد گمانیاں اور بغض و کینہ پیدا ہوتا ہے۔ اور ہمارے آپسی تعلقات کو یہ تمسخر گھن کی طرح چاٹ کر صاف کر دیتا ہے۔ آپؐ نے اپنی ایک حدیث میں مسلمانوں کی یہ علا مت بتائی ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ و زبان سے کسی مسلمان کو تکلیف نہ پہنچے( مشکوٰۃ) جبکہ تمسخرسے ہمارے بھائی کی شدید دل آزاری ہوتی ہے اور یہ اس کی عزت نفس پر ایک حملہ ہوتا ہے۔ یہ امر واقعی ہے کہ ہر شخص کو اس کی عزت نفس سب سے زیادہ پیاری ہوتی ہے۔ اس لئے جب اس پر حملہ کیا جاتا ہے تو وہ اسے برداشت نہیں کر پاتا اور پھر اس سے دیگر برائیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔
تمسخر کی مختلف صورتیں
تمسخر کی مختلف صورتیں اور شکلیں ہو سکتی ہیں۔ جیسے زبان سے کسی کا مذاق اڑانا ، اپنے بھائی کی بات پر یا شکل صورت پر یا لباس پر ہنسنا، برے القاب سے پکا رنا، اپنے بھائی کے عادات واطوار پر ہنسنا ،کسی کی نقل اتار نا، اشارے کے ذریعہ استہزا، کسی کے نقص وعیب کی طرف لوگوں کی توجہ دلانا، لعن طعن کرنا، کسی کی کوئی چیز دفعتاً چھپالینا، اپریل فول کے ذریعہ یا چیخ چلاً کر قصداً کسی کو ڈرانا وغیرہ۔
تمسخر کا ذکر قرآن مجید میں بھی آیا ہے، اور اس سے سختی سے منع کیا گیا ہے:
( اے لوگوں جو ایمان لائے ہو، نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ہوسکتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو۔ اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں۔)
(سورہ الحجرات: ۴۹۔ ۱۱)
مندرجہ بالا آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے تمسخر سے اہل ایمان کو باز رہنے کی تاکید کی ہے، اور اس کی اہم وجہ یعنی تحقیر پر نکیر بھی کی ہے۔تمسخر کی اصل وجہ دل میں اپنے بھائی کی تحقیر ہوتی ہے۔ ایک شخص اسی وقت کسی کا استہزا کر سکتا ہے، جب کہ دل میں اس شخص کے لئے تحقیر کا جذبہ شامل ہو۔ اس لئے اس آیت میں ارشاد ربانی ہے کہ کوئی مر د یا عورت کسی دوسرے مرد یا عورت کا مذاق نہ اڑا ئے۔ ہوسکتا ہے کہ جسے تم حقیر سمجھ کر مذاق اڑا رہے ہو وہ تم سے بہتر ہو۔ ایمان وتقویٰ کے ساتھ اپنے مومن بھائی کو حقیر و ذلیل سمجھنا ممکن نہیں۔ آپؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’ایک آدمی کے شریر ہونے کے لئے یہی دلیل کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے۔‘‘ (مسلم۔ عن ابو ہریرہ)
’’کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کی نہ تو تذلیل کرے اور نہ تحقیر کیونکہ متکبر شخص جنت میں نہ جائے گا۔‘‘ ( الحدیث)
تمسخر احا دیث مبارکہ کی
روشنی میں
آں حضرتؐ کبھی قہقہہ لگا کر نہیں ہنستے تھے بلکہ تبسم فرماتے تھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے۔
آج کل ہنسی کے ٹی وی شو آتے ہیں جس میں ہنسی کے فوارے چھوڑتے ہوئے مسخرے ہمیں نظر آتے ہیں۔ یہ عمل شرافت انسانی کے منافی ہے کہ اس طرح کی مجلسیں منعقد کی جائیں۔ کیونکہ زیادہ ہنسنے سے دل مردہ ہوجاتا ہے، اور جب دل مردہ ہو جائے تو نہ وہ برے کاموں پر ملامت کرے گا، اور نہ اعمال کا ذوق باقی رہے گا۔
ایک حدیث میں آپؐ نے آخر ت کی یاد دہانی کرتے ہوئے کہا کہ’’ جو چیزیں میں جانتا ہوں اگر تم ان کو جان لوگے تو تمھاری ہنسی کم ہو جائے گی، اور رونے میں اضافہ ہوگا‘‘۔ ( الفتح الکبیر ۳ ۔ ۴۲)
حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ کسی انسان کی نقل اتاری تو نبی کریمؐنے منع فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ میں کسی کی نقل اتا رنا پسند نہیں کرتا اگر چہ مجھے یہ اور یہ (یعنی کوئی دنیوی نعمت ) دے دی جائے(تر مذی مشکوۃ)۔
حضرت حسنؓ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں کا مذاق اڑانے والے ہر فرد کے لئے قیامت کے دن جنت کا ایک دروازہ کھولا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا تشریف لائیے، وہ غم کے ساتھ آئے گا اور جیسے ہی دروازہ تک پہنچے گا اس پر دروازہ بند کردیا جائے گا، پھر اس پر دوسرا دروازہ کھولا جائے گا کہ ’’آئیے آئیے تو وہ اپنے مصائب و آلام کے ساتھ آئے گا۔ جوں ہی وہ قریب پہنچے گا۔ دروازہ بند کردیا جائے گا۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔ یہاں تک کہ جب کسی کے لئے جنت کا دروازہ کھولا جائے گا، اور کہا جائے گا کہ’ آؤ تو وہ مایوسی کے سبب وہاں آنے اور داخل ہونے کی ہمت نہ کرے گا‘( بیہقی ، جواہر رسالت ص۱۹)
کسی شخص کو اس کے گناہوں پر عار دلاتے ہوئے استہزا کر نا بھی تمسخر میں شامل ہے، آپ کا ارشاد ہے کہ جو کسی شخص کو اس کے گنا ہوں پر عار دلائے گا۔ وہ اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک خود اس گناہ میں مبتلا نہ ہو جائے۔( تر مذی)
کسی کی کوئی اہم چیز چھپالینا اور اس کے ذریعہ اس کا مذاق اڑانا بھی ایک قبیح فعل ہے۔ ایک دفعہ کسی نے اپنے بھائی کی تلوار چھپائی آپؐ کو جب پتہ چلا تو آپ نے اس سے منع فرمایا اسی طرح کسی نے دوسرے شخص کے اونٹ کی رسی چھپالی تو اسے بھی آپ نے ناپسند فرمایا اور کہا کہ کوئی شخص اپنے بھائی کا سامان مذاق میں بھی نہ لے اور نہ حقیقت میں۔ ( ابو داؤد ۲/۶۸۳)
جو عمل ہمارے محبوب حضرت محمدؐ کو نا پسند تھا اس عمل کو ہمارے نوجوان کیوں کر اپنا سکتے ہیں۔
مزاح نبویؐ کا انداز
اسوہ رسولؐ میں ہمیں مذاح کے کئی واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں۔ آپؐ اپنی مجالس میں مزاح کیا کرتے تھے۔ آپ کے مزاح کے کئی واقعات منقول ہیں۔ صحابی رسول عبداللہ بن الحارثؓ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ سے زیادہ مزاح کرنے والا کسی کو نہیں دیکھا۔ لیکن اس میں بھی آپ صداقت سے کام لیتے، سچائی کا دامن کبھی نہ چھوڑ تے۔کبھی آپ کی زبان جھوٹ سے آلودہ نہیں ہوتی۔
ایک مرتبہ آپؐ سے سوال کیا گیا کہ آپ ہم سے مذاق کرتے ہیں؟ تو آپ نے جواباً فرمایا: ’’اس صورت میں بھی میری زبان سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا‘‘۔اس صداقت پر مبنی مزاح کے کئی واقعات ہمیں سیرت کی کتب میں پڑھنے کو ملتے ہیں:
ایک شخص نے آپ سے درخواست کی کہ اے اللہ کے رسول میرے لئے سواری کا انتظام کردیجئے۔ آپ نے فرمایا’’ میں تمہارے لئے اونٹ کا بچّہ مہیا کر دوں گا۔ وہ کہنے لگا کہ اس اونٹ کا بچہ لے کر کیا کروں گا۔ آپ نے فرمایا کیا بڑا اونٹ، اونٹ کا بچّہ نہیں ہوتا۔ (احمد)
ایک مرتبہ ایک خاتون آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میرے شوہر آپ کو بلارہے ہیں۔ آپ نے فرمایا وہ کون ہے، وہی تو نہیں جس کی آنکھوں میں سفیدی ہے عورت نے عرض کیا نہیں بخدا، اس کی آنکھوں میں سفیدی نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا کیوں نہیں اس کی آنکھوں میں سفیدی ہے۔ اس نے دو بارہ عرض کیا کہ ایسا نہیں ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ ہر شخص کی آنکھوں میں سفیدی ہوتی ہے۔ (ابن ہشام) سفیدی سے آپ کی مراد آنکھوں کی وہ سفیدی تھی جو آنکھ کی پتلی کو گھیرے ہوئے ہوتی ہے جو ہر انسان میں ہوتی ہے جب کہ عورت اسے اندھے پن سے ہونے والی سفیدی مراد لے رہی تھی۔
آپ حضرت انس کو یا ذالا ذنین(۱ے دو کان والے) کہہ کہ پکارتے تھے ۔ ( ترمذی)
مسند احمد میں ہے کہ اہل بادیہ میں زاہر نامی ایک صحابی تھے۔ آپ ان سے بہت محبت کرتے تھے حالانکہ ان کی ظاہری شکل بہت خوبصورت نہیں تھی۔ ایک مرتبہ وہ بازار میں اپنا سامان فروخت کر رہے تھے کہ اسی حالت میں آپ کا ادھر سے گزر ہوا۔ آپ نے پیچھے سے ان کی کمر اس طرح پکڑ لی کہ وہ آپ کو نہیں دیکھ پارہے تھے۔ انہوں نے کہا کون ہے؟ چھوڑ و مجھے۔ آپ کے چھوڑ نے پر انہوں نے آپ کو پہچان کر اپنی پشت آپ کے سینے سے اور قریب کرلی۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: اس غلام کو کون خرید ے گا۔ انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول تب تو آپ کو میری قیمت بہت کم ملے گی۔ آپ نے فرمایا لیکن اللہ کے نزدیک تمہاری حیثیت بہت زیادہ ہے۔ حدیث میں آپ نے عبد یعنی غلام سے اللہ کا بندہ مراد لیا ہے۔
ایک مرتبہ ایک بوڑھی عورت آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول ؐ دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں داخل کر دے، آپ نے فرما یا: اے ام فلاں جنت میں کوئی بوڑھی عورت داخل نہیں ہوگی۔ بوڑھی نے یہ سنا تو وہ افسردہ ہوکر واپس جانے لگی۔ آپ نے فرمایا: اسے بتادو کہ وہ جنت میں بڑھاپے کی حالت میں داخل نہیں ہوگی۔(ترمذی)
آنحضرتؐ بچوں کے ساتھ بھی مزاح و تفریح کیا کرتے تھے۔ حضرت انس کے چھوٹے بھائی کے ساتھ آپ باتیں کیا کرتے تھے۔ وہ ایک چھوٹے پرندے کے ساتھ کھیل رہتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ ان کے گھر تشریف لے گئے تو دیکھا کہ وہ بڑے رنجیدہ خاطر ہیں اور ان کا پرندہ بھی غائب ہے۔ ان سے آپ نے فرمایا ’’یا ابا عمیر ما فعل النغیر( بخاری ومسلم) اے ابو عمیر تمہارا وہ پرندہ( نغیر) کیا ہوا۔ ان واقعات سے یہ بات ظاہر ہوئی ہے کہ آپ مزاح و تفریح بھی کیا کرتے تھے۔ خشک مزاج نہیں تھے۔ بلکہ سب سے زیادہ خوش مزاج تھے۔ لیکن آپ مزاح میں سچائی کا دامن نہیں چھوڑتے تھے۔ آپ مزاح ایسے کرتے کہ اس کے ذریعہ کسی کا استہزا بھی نہ ہوتا، اور کسی کے دل کو تکلیف بھی نہ ہوتی۔
بعض لوگ نا واقفیت کی بنا پر استہزا اور تمسخر کو مزاح اور خوش طبعی کا ہم معنیٰ سمجھ لیتے ہیں،اور تمسخر کرنے لگتے ہیں، حالانکہ دونوں میں بڑا فرق ہے۔ مزاح جائز و مباح ہے جو آنحضرت سے ثابت ہے جس کا ذکر درج بالا احادیث واقعات میں بھی کیا گیا ہے۔ جبکہ تمسخر ایک گناہ کا کام ہے۔مزاح کی شرط ہے کہ اس میں زبان سے کوئی خلاف واقعہ بات نہ نکلے اور کسی کی دل آزاری بھی نہ ہو۔ اور وہ بھی مشغلہ اور عادت نہ بن جائے بلکہ کبھی کبھی اتفاقاً ہو جائے۔ مزاح کی حیثیت ہماری مجلسوں میں ایسی ہے جیسے آٹے میں نمک کی مقدار ہوتی ہے اگر نمک زیادہ ہوجائے تو وہ کھانے کو بے مزہ بنادیتا ہے اسی طرح مزاح جب حدوں کے باہر ہوتو وہ تمسخر میں تبدیل ہو جاتا ہے، اور تمسخر بہرصورت غلط ہے۔
اسلاف کا انداز مزاح
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ جب آدمی گھر میں رہے تو بچوں کی طرح رہے، یعنی گھر کے اندر اپنی بیرونی حیثیت کو ملحوظ نہ رکھے ورنہ اس کی وقعت گھٹ جائے گی۔ گھر والوں کے ساتھ مزاح و تفریح کرے۔
حضرت زیدبن ثابت گھر میں رہتے تو بہت زیادہ مزاح کرتے اور جب باہر نکلتے تو عام آدمیوں کی طرح ہوا کرتے۔( شرح السنہ ۱۳/ ۱۸۳)
حضرت ابن عباس جب اہل مجلس میں اکتاہٹ محسوس کرتے تو مجلس کی شاد مانی کے لئے نمکین حکایات بیان کرنے کا حکم دیتے۔
حضرت علیؓ فرمایا کرتے کہ مزاح کے ذریعہ دل جمعی حاصل کرو، اور اکتا ہٹ دور کرو اس لیے کہ جس طرح جسم اکتا جاتا ہے قلوب بھی اکتا جاتے ہیں۔
عامر بن شر جیل شعبیؒ جلیل القدر تابعین میں سے ہیں ۔ آپ ایک ولیمہ میں شرکت کے لیے وہاں پہنچے تو دیکھا کہ اہل مجلس خاموش ہیں۔ آپ نے دیکھ کر فرمایا ’’ایسا لگتا ہے کہ میں کسی جنازے میں حاضر ہوا ہوں۔ ارے دف وغیرہ بجاؤ، اور خوشیوں کا سامان مہیا کرو۔
حضرت سفیان بن عیینہؒ کے سامنے کسی نے مزاح کو بیکار کہا تو آپ نے جواب دیا کہ سنت ہے۔ (شرح السنہ ۱۳/۱۸۴، بیروت)
یہ ان لوگوں کا مزاح تھا جو کتاب و سنت کے ماہر اور زمانہ نبوت کے قریب تھے۔
جدید مفکرین اور علماء کی
رائے میں
بیسوی صدی کے اسلامی مفکرین نے بھی اعتدال اور فطری اصولوں کا لحاظ رکھتے ہوئے مزاح کو صحیح قرار دیا ہے، جبکہ تمسخر سے منع فرمایا ہے۔ حسن البنا شہیدؒ نے اخوا نیوں کو ہدایت دیتے ہوئے ایک مرتبہ فرمایا:
’’ زیادہ نہ ہنسو، جو دل خدا سے وابستہ ہوتا ہے وہ بے حد پر سکون ہوتا ہے۔ مسخرہ پن اختیار نہ کرو، مجاہد قوم سنجیدگی کے سوا کسی چیز سے آشنا نہیں ہوتی ۔‘‘
خرم مراد نے اپنی کتاب’’ تحریک اسلامی میں کار کنوں کے باہمی تعلقات ‘‘ میں تمسخر کو تعلقات کو ڈھا دینے والی برائی کے طور پر پیش کیا ہے۔
مفتی محمد شفیع صاحب پاکستانی نے ابن سعود کاقول نقل کیا ہے کہ آپؐ فرمایا کرتے تھے کہ اگر میں کتے کے ساتھ استہزا کروں تو مجھے ڈرہوتا ہے کہ کہیں میں خود کتّا نہ بن جاؤں، اسی طرح عمرو بن شر حبیلؒ فرماتے ہیں کہ اگر میں کسی شخص کو بکری کے تھنوں سے منھ لگا کر دودھ پیتا دیکھوں اور اس پر مجھے ہنسی آئے تو میں اس بات پر ڈرتا ہوں کہ کہیں میں بھی ایسا ہی نہ ہو جاؤں۔ (المعارف القرآن)
انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے ایک بنیادی قوت رعب کی رکھی ہے۔ جب انسان عام مقا مات پر استہزا کرتا ہے تو اس سے آدمی کی عدم سنجیدگی، مسخرہ پن اور بے مروتی ظاہر ہوتی ہے۔ اور پھر اس رعب کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ اور ہر مخاطب کسی بھی قسم کا مذاق کرنے کی جسارت کر سکتا ہے۔
بچوں کے سلسلہ میں بھی ہمیں محتاط رہنا چاہیے۔ انگریزی میں ایک مقولہ مشہور ہےGIVE RESPECT TAKE RESPECT (عزت دیں۔ عزت حاصل کریں) یہی خوشگوار تعلقات کی کنجی معلوم ہوتی ہے۔ غرض یہ کہ ہمیں مزاح میں اعتدال سے کام لے کر تمسخر سے بچنا چاہیے۔ اسی کی تعلیم ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلاف نے اپنے قول و عمل سے دی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں تمسخر کے دیمک سے بچائے اور ہمارے تعلقات کو خوشگوار بنائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بنیان مر صوص کی طرح ایک دو سرے کے اختلاف طبع کا خیال رکھتے ہوئے کام کرنے کی توفیق عنایت فرمائے ۔( آمین)
ڈاکٹر عد نان الحق خاں،
آکولہ ۔ مہاراشٹر نارتھ