انقلاب تیونس اور النہضۃ کا سیاسی سفر

ایڈمن

\”جب لوگ جینے کا عزم کر لیں ،تو منزل آسان ہو جاتی ہے، اور ایک نہ ایک دن غلامی کی زنجیریں خود بہ خود ٹوٹ جاتی ہیں\”۔ یہ ایک صدی پرانے تیونس کے عظیم اسلامی شاعر ابو القاسم الشابی کے…

\”جب لوگ جینے کا عزم کر لیں ،تو منزل آسان ہو جاتی ہے، اور ایک نہ ایک دن غلامی کی زنجیریں خود بہ خود ٹوٹ جاتی ہیں\”۔
یہ ایک صدی پرانے تیونس کے عظیم اسلامی شاعر ابو القاسم الشابی کے مشہور اشعار ہیں جو تیونس کے قومی ترانہ کے طور پر پڑھے جاتے ہیں۔
15؍ جنوری 2011 ؁ء کادن تیونس ہی نہیں بلکہ عالم عربی کے لئے ایک تاریخ ساز دن تھا، جب تیونس کی عوام نے ظالم وجابر حکمران زین العابدین کی تیئس سال پر محیط مطلق العنانیت(Iron Fisted Rule) کا خاتمہ کیا، اور کئی دہائیوں پر مشتمل غلامانہ زندگی کی تمام زنجیروں کو توڑ کر پھینک دیا،اورآزادی کے ساتھ اپنے جمہوری سفر کے آغاز کا اعلان کردیا۔
تیونس کی یہ انقلابی لہر بہت جلد ہی دوسرے عرب ممالک تک پہنچ گئی اور عرب دنیا اور وسط ایشیا کے کئی ایک ممالک میں ملوکیت اور مطلق العنان حکومتوں کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا ایک لامتناہی سلسلہ چل پڑا ،جو آج تک جاری ہے۔
انقلاب تیونس کے بعدآئین سازاسمبلی (Constituent Assembly)کے آزاداور منصفانہ انتحابات کے نتیجے میں 23؍اکتوبر2011 ؁ء کو تیونس کی پہلی جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ اسلامی تحریک حرکۃ النہضۃ کو تمام سیاسی جماعتوں میں سب سے زیادہ ووٹ ملے ،اگرچہ واضح اکثریت اسے حاصل نہ ہو سکی۔ اسے آئین ساز اسمبلی کی ۲۱۷؍ نشستوں میں سے نوے نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔ الیکشن میں کامیابی کی دعویدارالنہضۃکی مخالف بائیں بازو کی سیکولر جماعت پی ڈی پی (PDP) کی شکست ہوئی ۔بائیں بازو کی سی پی آر(CPR)نے کل تیس نشستوں پر قبضہ کر لیا ،اسی طرح اٹاکٹول (Ettakotal) اکیس نشستوں پر فائز ہو کر تیسری کامیاب جماعت بنی۔اس منتخبہ قانون ساز اسمبلی کو ایک عبوری صدر کے انتخاب کے علاوہ ملک کا نیا قانون بنانا تھا، اور آنے والے صدارتی اور پارلیمانی الیکشن کے لئے تاریخوں کا تعین کرنا تھا۔
تیونس کی ما بعد انقلاب صورت حال کا صحیح طور سے تجزیہ کرنے سے پہلے اس حقیقت کوسمجھنا ضروری ہے کہ آیا تیونس میں آنے والا یہ انقلاب اسلامی انقلاب تھا یا صرف جمہوری انقلاب۔یہ وہ بحث ہے جو انقلاب تیونس یا النہضۃ کی جانب سے حکومت کی تشکیل کے بعد ہی سے عالمی میڈیا میں شروع ہوگئی۔ اگرچہ اسلامی اصولوں پر قائم اوراسلام کے نظریہ سیاسی کی حامل پارٹی ’النہضۃ‘ اکثریت کے ساتھ برسراقتدار آئی، لیکن اس کے باوجود ہم اس انقلاب کومکمل اسلامی انقلاب نہیں کہہ سکتے۔ تیونس کا یہ انقلاب فی الواقع ایک جمہوری انقلاب ہے ،اگر چہ اس انقلاب میں سب سے اہم اور سب سے بڑا رول اسلامی پارٹی ’النہضۃ‘ کا ہی ہے لیکن اس کو وہاں کی اسلام مخالف سیکولر اور لیبرل پارٹیوں کو الگ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا جو انقلاب تیونس میں برابر کی شریک تھیں، اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ یہ انقلاب گرچہ خالص جمہوری انقلاب ہے لیکن یہ انقلاب نقطہ اختتام نہیں ہے، بلکہ ایک عظیم تبدیلی کی طرف سفر ہے یا اس تبدیلی کے راستہ کا ایک پڑاؤ ہے جو ایک اسلامی جمہوری ریاست کے قیام پر منتج ہو گی،کیونکہ تیونس کی غالب اکثریت کی ترجیح اسلامی شریعت اور النہضۃ ہی ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت پہلی مرتبہ ہونے والے آزادانہ اور شفاف جمہوری انتخابات ہیں۔
23؍اکتوبر 2013 ؁ء کو تیونس کی جمہوری حکومت نے اپنا دو سالہ سفر پورا کرلیا۔اس دو سال کے عرصہ میں ملک کی سیاست نے مختلف کروٹیں لیں، جمہوریت کی راہیں تنگ کی گئیں اور آخری مہینوں میں جنوری2013 ؁ء سے ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ دیکھنے والے یہ سوچنے پہ مجبور ہوگئے کہ شائد عرب انقلابات کی گود یا بہار عرب کا قائد خود جمہوریت سے محروم ہو سکتا ہے، اور مصر کے جمہوری انقلاب کی طرح یہاں کا انقلاب بھی اب اپنی اہمیت کھو کر اپنے مطلوبہ ہدف تک پہنچنے سے محروم رہ جائے گا۔جنوری کے مہینہ میں بایاں بازو کی سیکولر جماعت کے ایک اہم رہنما شکری بیلاد(Shokri Belaid)کا قتل ہواجس نے تیونس کے سیاسی حالات کو کافی حد تک متأثر کیا،اور تیونس کی سیاسی پارٹیوں میں اختلافات کے نئے بیج بو دیئے۔ جس سے حکومت مخالف احتجاجات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔ جنوری میں ہی النہضۃ کے سینئر لیڈر تیونس کے وزیر اعظم حمد الجبالی کااپنے عہدے سے استعفی ٰ بھی ان ہی احتجاجات کا نتیجہ ہے۔بایاں بازو کی سیکولر جماعت نے معاشی بدحالی، بے روز گاری اور امن و امان کے قیام اور دیگر سیاسی مسائل کو وجہ بنا کر النہضۃ کو ملک کے سیاسی عدم استحکام کا ذمہ دار ٹھہرا یا، اور ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ایک نئی عبوری حکومت کا مطالبہ کیا۔ شکری کے قتل کے صرف چھ ماہ بعد مذکورہ سیاسی جماعت کے ایک اور اہم رہنما محمد براہمی (Mohamed Brahmi)کے قتل نے اس تشویشناک صورت حال میں مزید اضافہ کر دیا۔اس سے بایاں بازوکی سیاسی جماعتوں کی جانب سے حکومت کی برطرفی کا مطالبہ زور پکڑتا گیا۔
ان مقتدر سیاسی رہنماؤں کے قتل کے پیچھے انصار الشریعۃ نامی ایک نام نہادالقاعدہ سے وابستہ انتہاپسند گروپ کا نام لیا جارہا ہے ،جس کے نتیجہ میں النہضۃ کے اسلامی تشخص کو نشانہ بنایا جارہا ہے، اور اس کی بنا پر مزید الزامات کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے،جس سے ملکی سطح پر اسلام اور سیکولر کشمکش (Islam-Secularist Tension) میں اضافہ ہورہا ہے۔
مخلوط حکومت میں موجود ۲؍ لیبرل سیاسی جماعتوں نے بھی ان حالات سے تنگ آکرالنہضۃ کے خلاف انگلیاں اٹھانی شروع کردی ہیں۔لیکن النہضۃ اس سیاسی عدم استحکام سے نکلنے کے لئے تمام ملکی سیاسی جماعتوں کو قومی مذاکرات(National Diolouge )کی دعوت دے رہی ہے،جس کے لئے چند متشدد سیکولر جماعتوں کے علاوہ ملک کی اکثر چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیوں نے آمادگی ظاہر کردی ہے۔ قومی مذاکرات مخالف عناصر اس مفاہمت کو ناکام بنانے کی کوشش میں سر گرداں ہیں۔لیکن یکم نومبر 2013 ؁ء سے باقاعدہ مذاکرات اور مفاہمت کا آغاز ہوگیا ہے۔ آئین سازی بھی اپنے آخری مراحل میں ہے، اورنئے پارلیمانی انتخابات بھی قریب ترہیں۔
اس سیاسی عدم استحکام کا اصلی ذمہ دار کون ہے،قومی مذاکرات کیا نتائج سامنے لائیں گے،کیا موجودہ حکومت اپنی میعاد پوری کر سکے گی یا ٹیکنوکریٹس گورنمنٹ اور عبوری حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے گا،کیا ایک ٹیکنوکریٹ گورنمنٹ کا مطالبہ النہضۃ کو تسلیم ہے،کیا تیونس کی جمہوریت بھی مصر کی جمہوریت کی طرح اب اپنے آخری سانس لے رہی ہے،النہضۃ اپنے مشن میں کس حد تک کامیاب ہے،کیا اسلامی ریاست کا قیام یا اسلامی شریعت پر مبنی آئین سازی ایسے حالات میں ممکن ہے۔۔۔اس طرح کے بہت سارے سوالات ہیں جواس وقت سامنے آرہے ہیں،جن کا احاطہ اس تجزیہ میں کرنے کی کوشش کی گئی ہے:
۱)تیونس کے اس انقلاب کے نتیجے میں صدیوں سے قائم آمریت، بادشاہت اور مطلق العنانیت کا خاتمہ ہوا ہے،یہ صرف تیونس کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ پوری عرب دنیا ،مشرق وسطیٰ، بلکہ پورے عالم اسلام یا اسلامی دنیا کے حق میں ایک تاریخی تبدیلی ہے۔ ایک صدی قبل سقوط خلاف عثمانیہ کے بعد سے ہی نہیں بلکہ تیرہ سو سال قبل سقوط خلافت راشدہ کے بعد سے عالم اسلام سیاسی زوال اور عدم استحکام سے دوچار رہا ہے۔ سقوط خلافت عثمانیہ تک کسی حد تک اس عدم استحکام میں کمی نظر آتی ہے ، لیکن سقوط خلافت عثمانیہ کے بعد عالم اسلام پے در پے غلامی کی زنجیروں میں جکڑتا چلا گیا ، پہلے انگریزوں کی غلامی میں ، پھراپنے ہی لباس میں ملبوس انگریزوں کے غلاموں کی غلامی میں ،چنانچہ عالم اسلام سے مکمل طور پر آزادی سلب کرلی گئی۔ فکری طور سے عالم اسلام میں موجود نمائندہ افراد کو پابند سلاسل کردیا گیا،ظلم اور استبداد کے خلاف اٹھنے والی ہرآداز کو کچلا گیا ،نتیجہ یہ ہوا کہ عالم اسلام سیاسی ،معاشی،سماجی،معاشرتی، فکری اور اخلاقی ہر اعتبار سے تنزل اور پستی کا شکار ہوتا چلا گیا۔اب انقلاب کے بعد ایسے حالات میں آزادی و جمہوریت کی فضا کو بحال کرنا ،وہ تیونس کا معاملہ ہو یا کسی اور عرب ملک کا، یہ ایک مشکل ترین عمل ہے۔ تیونس کی بات کریں تو سابق حکمرانوں اور حکومتوں نے کئی دہائیوں تک ملک کو جس سیاسی اور معاشی بدحالی کے آخری دلدل میں پھنسا کر رکھا تھا،جمہوریت کے صرف دو سالوں کے اندر ملک کو اس بدحالی سے نہیں نکالا جا سکتا ہے،اس کے لئے کئی دہائیوں کی محنت درکارہے۔لیکن بہرحال اس انقلاب کے نتیجے میں ایک طویل عرصے بعد ظلم، نا انصافی اور آزادی سے محروم عوام کو اپنے حقوق کے مطالبہ کی مکمل آزادی مل گئی ہے،انہیں یہ حق بھی مل گیا ہے کہ وہ اپنے حقوق کا مطالبہ کریں۔ البتہ ملک جن صبرآزما حالات سے گزر رہا ہے اس میں ہر ایک کومکمل طور پر اس کے حقوق ملنا نا ممکن ہے، ایسے حالات میں صبر سے کام لے کر آگے بڑھنا، اور جمہوریت کی اس عظیم دولت کی حفاظت کرتے ہوئے ملک کو استحکام اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنا حکومت کی اصل ذمہ داری ہے۔ حکمراں جماعت النہضۃ کے سامنے ملک کی یہ پوری صورتحال واضح ہے ،ان حالا ت میں جو ذمہ داری ان پرآتی ہے وہ اسے انجام دینے کی پوری کوششوں میں لگے ہوئے ہیں، جس کا اظہار تیونس کی موجودہ حکمراں جماعت النہضۃ کے سربراہ راشد الغنوشی بار بار کر رہے ہیں۔ 9؍نومبر 2013 ؁ء کو جریدۃ (التیونسیۃ)کو دیئے گئے ایک انٹریو میں انہوں نے اس حقیقت کا اعلان کیا کہ \”انقلاب کے بعد جو بھی حکومتیں آتی ہیں وہ کمزور ہوا کرتی ہیں، کیونکہ اس سے پہلے قانون کا مأخذ طاقت ہوا کرتی ہے ، تیونس بھی انقلاب سے پہلے ایک فوجی مملکت تھی،جہاں قوت نافذہ صرف رعب و دبدبہ تھا اور حکومت مطلق طور پر قانون سے بالاتر ہوا کرتی تھی، لیکن اب انقلاب کے بعد حکومت قانوں کے دائرہ میں جکڑی ہوئی ہے ،بعض اوقات غیر اطمینانی کی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے اس لئے کہ ملک اس وقت ڈکٹیٹرشپ سے جمہوریت کے تاریخی، اہم اور نازک سیاسی عبوری دور ((Political Transition ( سے گزر رہا ہے ،ایسے حالات میں یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ طاقت و رعب کے بجائے آزادطریقہ سے ملک کے اجتماعی امن و امان کو قائم رکھا جائے، یہ بھی صحیح ہے کہ اس وقت ملک سیاسی مسائل، امن و امان کے عدم استحکام، اور معاشی بدحالی سے دوچار ہے،لیکن وجہ یہ ہے ہم اس وقت سیکھ رہے ہیں کہ ملک کو کیسے آزادی کے ساتھ چلائیں، جبکہ اس سے پہلے طاقت ،رعب اور تعذیب کی بنیادوں پر ملک کو چلایا جا رہا تھا \”۔
۲)تیونس کی جمہوریت اپنی منزل کو چھوتی نظر آ رہی ہے ،جس کے لیے ملک کی عوام ،تعلیم یافتہ افراد ، حکمراں پارٹیاں خصوصا النہضۃ سرگرم عمل ہے۔ انہیں اس بات پہ یقین ہے کہ تاریخ کا دیا ہوا یہ اہم موقع ہے جو اگر فوت ہو جائے گا تو ملک پھر دہائیوں یا صدیوں تک غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر رہ جائے گا اور آزادی و قانون کی بالادستی سے محروم کر دیا جائے گا۔ تیونس کی جمہورت کو اس وقت سب سے بڑا خطرہ انتہا پسندی سے ہے جو تین طرح کے عناصر پر مشتمل ہے:
(الف) بنیاد پرست متشدد کمیونسٹ اور سیکولرسٹ عناصر جو منتخب حکومت میں غالب اکثریت والی پارٹی النہضۃ کو اس کے اسلامی نظریات کی بنیاد پر اپنی شناخت کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں اور مختلف حیلے بہانوں کی بنیاد پر النہضۃ کو حکومت سے بے دخل کرنے کی ناکام سعی کر رہے ہیں ۔
(ب) سابق حکمراں زین العابدین کے حامیوں پر مشتمل ایک ٹولہ جو چند بیرو کریٹس یا عوام کی صورت میں ملک میں کسی جگہ موجود ہیں ،اگرچہ ملک کی سیاست میں اب ان کا کوئی رول یا وزن نہیں، لیکن بعض اوقات حالات کا فائدہ اٹھا کر یہ جمہوریت مخالف سرگرمیوں کو ہوا دینے کا موقع پا جاتے ہیں۔
(ج) ملک کی جمہوریت کوتیسرا بڑا خطرہ نام نہاد انتہاپسند سوچ رکھنے والا مسلم عناصر سے ہے،جو ملک میں صحیح اسلامی سوچ پروان چڑھانے میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ ان کے سبب عوام کے ذہنوں میں النہضۃ کا ملک کے تئیں اسلامی وژن اور مشن بھی منفی اثرات کا شکار بن رہا ہے۔یہ عنصر تیونس میں \”انصار الشریعہ \”کے نام سے موجود ہے، متشدد سیکولر عناصر اور انتہا پسند مسلم عناصر کا ٹکراؤ ہی تیونس کی جمہوریت کے ستونوں میں دراڑیں ڈال رہا ہے۔ اسلام اور سیکولر ٹکراؤ (Islam-Secularist Tension)کا مظہر انہیں دو عناصر کے ٹکراؤ کے نتیجے میں ہے۔ پچھلے چھ ماہ سے ملک میں پائے جانے والے عدم استحکام کے پیچھے ان ہی ۲؍ عناصر کا ہاتھ ہے۔بایاں بازو کی سیکولر جماعت کے دو اہم لیڈروں کے قتل کے پیچھے بھی \”انصار الشریعہ \”کا ہاتھ ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، جس کی النہضۃ نے بھی مذمت کی ہے۔کیونکہ النہضۃ اسلامی اور غیر اسلامی عناصر کے ساتھ کشیدگی کے بجائے مذاکرات اور مفاہمت (Dialouge) پر زیادہ یقین رکھتی ہے، اور خاص طور سے اس وقت کی صورتحال میں ٹکراؤ نہ صرف تیونس میں جمہوریت کے لیے بلکہ اسلام کے لئے بھی بہت بڑا خطرہ ہے۔
تیونس کی جمہوریت کو ان تین طرح کے عناصر سے خطرہ تو ہے لیکن وہ اب ذہنی لحاظ سے بہت ہی پختہ ہو چکی ہے اور تیونس کی حکومت ،سیاستداں ،تعلیم یافتہ نوجوان اتنے حساس بن چکے ہیں کہ وہ اس طرح کی کسی بھی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے ،جس کا اظہار راشد الغنوشی نے ان الفاظ میں کیاہے: \”مجھے اس بات پر پورا یقین ہے کہ تیونس میں انتہاپسندی کسی بھی صورت میں اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہو گی،کیوں کہ عوام متحد ہیں اور تشدد سے سخت نفرت کرتے ہیں اور تیونس کے لوگ پرامن ہیں،اس لئے دہشت گردوں کی ہر ایک کارستانی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام کے اتحاد میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے،اور ہمیں اس بات پہ اطمینان ہے کہ تیونس کے پاس ایک منظم اورتجربہ کار فوج ہے اور اس کے پاس پاس اپنا ایک پرامن نظام ہے جس کی پشت پر ایک حوصلہ مند عوام ہے جو اپنے امن اور اپنے کامیاب جمہوری سفر کے لئے کمر بستہ ہے،یقیناًفوج اور عوام کی یکجہتی اور مضبوطی سے انتہاپسندی کی ہر کوشش کو خاک میں ملادیا جائے گا\”۔
۳)میڈیا میں بعض اوقات اس طرح کی بے بنیاد خبریں اور غیر ذمہ دارانہ تجزیے ملتے ہیں کہ اب مصر کے بعد تیونس کی جمہوری حکومت ناکام ہو رہی ہے، یہ حقیقت ہے اور اس کا تذکرہ بھی ہوا کہ ملک نازک ترین حالات سے گزر رہا ہے لیکن مصر اور تیونس کی سیاسی صورتحال میں بہت زیادہ فرق ہے، جو وجوہات مصر کی جمہوریت کے خاتمہ کا سبب بنیں، وہ وجوہات تیونس میں موجود نہیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ بات سمجھنے کی ہے کہ مصر کی جمہوریت کا خاتمہ انتخابات میں غالب اکثریت سے کامیاب ہونے والی اسلامی نظریات رکھنے والی جماعت الاخوان المسلون کی ملکی اقتدار سے بے دخلی سے ہوا۔ اس لئے کہ جب مصری انقلاب رونما ہوا اس وقت جمہوریت کی حمایت میں اٹھنے والی جماعتوں میں سے اکثر جماعتوں نے جمہوریت مخالف فوجی بغاوت کا ساتھ دیا۔یہ جماعتیں جمہوریت چاہتی تھیں مگر اسلام مخالف،اپنی من مانی کی اور اسرائیلی اور امریکہ نواز جمہوری حکومت۔اس کے برخلاف اخوان عوامی اور اسلام پسند جمہوریت چاہتی تھی۔ جو وجوہات مصر میں اخوان کی جمہوری حکومت کے خاتمہ کا سبب بنیںیا جو عناصر اس کی پشت پرکارفرما تھے، وہ کچھ اس طرح ہیں:
(الف) مغربی ممالک بطور خاص امریکہ اور اسرائیل کی اخوان سے شدید دشمنی ونفرت۔ مسئلہ فلسطین پر اخوان نے ہمیشہ سیاسی ،سفارتی اور جنگی ہر محاذ پر غزہ اور حماس کا ساتھ دیا، اس طرح وہ اسرائیل اور اس کی حلیف مغربی طاقتوں کی سب سے بڑی حریف بن کر رہی ہے اور اس کے تمام مقاصد کو اس نے خاک میں ملادیا ہے۔ اب مصر پر اخوان کی حکومت آگئی تھی، جس سے وہ اب حماس کی بھرپور حمایت کر سکتے تھے، اور چند سالوں یا دہائیوں کے اندر فلسطین کو اسرائیل کے پنجوں سے چھڑاکر ہمیشہ کے لئے فلسطینیوں کو ان کا حق واپس دلانے کی کوشش کرسکتے تھے، یہ چیز اسرائیل نواز مغربی ممالک کے لیے کسی بھی صورت قابل قبول نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پوری عالمی طاقت اور سرمایہ اخوان کی حکومت کو کچلنے کے لئے استعمال کیا گیا، جس میں بالآخر کچھ حد تک مغربی ممالک یا اسلام دشمن طاقتیں کامیاب بھی ہوئیں۔
(ب) سابق مطلق العنان حکمران حسنی مبارک کی حکومت کے باقیات ،جو بیروکریٹس کی شکل میں مصری حکومت اور فوج میں بڑے عہدوں پر فائز کافی تعداد میں موجود ہیں،جنہوں نے جمہوریت کے خاتمہ اور سابقہ ڈکٹیٹرشپ کی بحالی کے لئے اپنی ہر ممکنہ کوشش کی ،فوج اور عوام کو اکسایا،اور اسرائیلی لابی کا بھرپور ساتھ دیا۔یہ اور اس کے علاوہ اور بھی اسباب ہو سکتے ہیں،لیکن یہ اسباب تیونس کی سیاست کے حوالے سے بہت حد تک موجود نہیں، اگر ہیں بھی تو ان کا اثر کافی کم ہے، اس طرح کہ وہ وہاں کی جمہوری حکومت کے خاتمے میں کوئی خاص کردار ادا کر سکیں، یا اسلامی پارٹی النہضۃ کی مقبولیت پر کچھ اثرانداز ہوسکیں۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود اسرائیل، امریکہ اور دیگر مغربی طاقتیں النہضۃ کی بالادستی کو ٹھنڈے پیٹ برداشت نہیں کر سکتیں ،پہلے بھی انہوں نے النہضۃ کو کچلنے میں وہاں کے ڈکٹیٹر زین العابدین بن علی کی حمایت کی تھی، اور آج بھی ان کی ایسی ہی پالیسی ہے، جس میں کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آتی،لیکن اخوان کی بہ نسبت النہضۃ اس کے لئے اتنی اہم نہیں ہے۔ النہضۃ اخوان کے بہ نسبت مصالح اور حکمت کی پالیسی پر زیادہ یقین رکھتی ہے ،نہضۃ ٹھوس اور خالص اسلامی نظریات کے ساتھ ساتھ مفاہمت ، تدریج، اورلچک کے اصولوں پر گامزن ہے جو وقت کے سیاسی حالات میں مجبوری بھی ہے اور اسلامی جمہوری سیاست کے ابھرنے کے لئے ضروری بھی ہے۔یہی دجہ ہے کہ النہضۃ کو ایک معتدل اسلامی جماعت کہا جاتا ہے، اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خود اخوان کے اندر سیاسی میدان میں آخری دو دہائیوں کے اندر جو تغیر یا لچک پیدا ہوئی ہے، اس میں ایک بڑا کردار النہضۃ کے عظیم رہنما اور جدید اسلامی مفکر راشد الغنوشی کے افکار و نظریات کا ہے۔تیونس میں اس وقت سابق مطلق العنان حکمراں ابن علی کے ہم خیالوں او ر حامیوں کی تعداد بھی کوئی خاص نظر نہیں آتی، جس کے سبب یہ بات کہی جارہی ہے کہ مصر میں جس طرح مبارک حامیوں نے خطرناک منفی اثرات ڈالے، وہاں کی طرح یہاں ابن علی کے حامی اور ہم خیال کوئی خاص منفی اثر نہیں ڈال سکیں گے۔
۴)تیونس کی حکمراں جماعت النہضۃ اور دیگر سیاسی جماعتوں نے موجودہ اضطرابی حالات سے نکلنے کے لئے قومی مذاکرات کی پیشکش کی ہے، جس پر چند مخالف سیاسی جماعتوں کے علاوہ سب نے اتفاق کیا ہے، اور با قاعدہ یکم نومبر سے قومی مذاکرات کا آغاز بھی ہوگیا ہے۔النہضۃ حکومت سے دست برداری اور ایک عبوری حکومت کی تجویز کے بجائے قومی مذاکرات کو عدم استحکام سے نکلنے کا واحد حل سمجھتی ہے۔اس کا ماننا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے اشتراک اور تعاون سے ہی ملک کو تعمیر وترقی اور استحکام بخشا جا سکتا ہے۔الشرق الاوسط کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں راشد الغنوشی نے کہا کہ\”ابھی تک ہمیں یہ نہیں محسوس ہوا کہ سیاسی حکومت کی جگہ ٹیکنوکریٹ حکومت قائم کرنے کی ضرورت ہے،پھر ان انتخابات کا کیا حاصل اگر اان کے ذریعہ قائم کی گئی حکومت کو برقرار نہ رکھا جائے \”۔
ملک کی سلامتی کی خاطر النہضۃ کسی بھی سیاسی جماعت کی ہر ایک تجویز ماننے کے لئے تیار ہے،اگر قومی مفاہمت میں یہ بھی طے پائے کہ استحکام کے لئے النہضۃ اور موجودہ حکومت کو نئے انتخابات تک حکومت سے دست بردار ہونا ضروری ہے تو وہ اس کے لئے بھی تیارہو سکتی ہے،جس کا اظہار النہضۃ کے سینئر لیڈروں اوررریپبلکن کانگریس پارٹی کے لیڈر اور تیونس کے وزیر اعظم حسن المرزوقی نے مختلف مواقع پر کیا ہے۔
تیونس میں پالیمانی انتخابات قریب آ رہے ہیں ،مخالف اور متشدد سیکولر عناصر یہی چاہتے ہیں کہ النہضۃ کی موجودہ حکومت اپنی میعاد پوری نہ کر پائے تاکہ النہضۃ کی ناکامی کا ڈنڈورا پیٹ کر آئندہ آنے والے انتخابات کو اپنے حق میں کامیاب بنایا جاسکے ،بعض اوقات دوسری معتدل اور موجودہ مخلوط حکومت میں شامل سیاسی جماعتیں بھی اپنے سیاسی مفادات کے خاطر النہضۃ کی دبی زبان میں مخالفت کرتی نظر آرہی ہیں ۔انہیں النہضۃ کی ملکی سطح اور عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی مقبولیت سے اپنی امیج متأثر ہونے کا خدشہ ہے ۔لیکن امید یہی ہے کہ اس قومی مفاہمت کے مثبت اوراچھے تنائج سامنے آئیں گے،مفاہمت کسی بھی مسئلہ کے بہترین حل کے لئے احسن طریقہ ہے۔تیونس کے لئے ،اس کی جمہوریت کی بقا کے لئے، اور اس کی سلامتی اور روشن مستقبل کے لئے اسلام اور اسلام پسند سیاسی پارٹی النہضۃ سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں ،ان کی مضبوط حکمت عملی اور مدبرانہ اور ٹھوس فیصلوں سے ہی ملک کو استحکام نصیب ہو سکتا ہے اورملک ترقی کی شاہراہ پہ گامزن ہو سکتا ہے۔

ذاکرحسین فلاحی، مدیر ماہنامہ پیام

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں