جسیم پی پی
میلکم ایکس نے کہا تھا کہ’’تعلیم مستقبل کی کنجی ہے کل یہ ان کے پاس ہوگی جو اس کے لیے آج تیاری کریں ‘‘۔
میلکم ایکس کا یہ قول صحیح ہے لیکن ہندوستان میں اس کنجی کا حصول مشکل تر ہوچکا ہے۔ کیونکہ تعلیم کا حصول یہاں صرف سماج کے بعض طبقات کے لئے ہی مخصوص کردیاگیاہے۔ جس میں نظریہ ذات پات نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس شیطانی عمل کی حقیقت کو جاننے کیلئے میں یہاں ایک فلم ’’ڈاکٹر باباصاحب امبیڈکر:دی ان ٹولڈ ٹروتھ‘‘ کے کچھ حصوں کو آپ کے علم میں لانا چاہوں گا۔ فلم میں امبیڈکر سے ان کے پروفیسر کہتے ہیں ’’آپ کی جدوجہد بھارت کی جدوجہد آزادی سے بھی بڑی ہے۔‘‘ جبکہ انہیں اپنے تحقیقی مقالے پیش کرنے کے بعد محفل کا انعقاد کیا گیاتھا۔ اسی پروفیسر نے بھارتی جدوجہد آزادی کے حوالے سے امبیڈکرکے نقطہ نظر کے سلسے میں شکایت کی۔ ایک بار لالہ لاجپت رائے نے امبیڈکرسے مطالبہ کیاکہ وہ آزادی ہند کے بارے میں آکر گفتگو کریں۔لیکن امبیڈکر نے شرکت سے انکار کردیا۔اسی واقعہ کا پروفیسر نے حوالہ دیتے ہوئے کہاتھا کہ امبیڈ کر کے مقالے بھارتی جاتیوں، ان کی ترقی اور طریقہ کار پر مبنی ہیں۔یہ پروفیسر کے لئے ہندوستانی سماجی ڈھانچے، ذات پات کا نظام اور نچلی جات کے لئے آزادی وانصاف کیلئے امبیڈکر کی جدوجہد کی حقیقت کو سمجھنے کیلئے ایک بصیرت افروز مطالعہ تھا۔ جس کے بعد پروفیسر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امبیڈکر کی جدوجہد نچلی جاتیوں کی آزادی وانصاف کے لئے تھی۔ اس فلم میں یہ واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ امبیڈکر کی تعلیمی زندگی جدوجہد پر مبنی اور ساری زندگی باوقار تھی۔نچلی ذاتوں کوحق تعلیم سے بالکل محروم کردیاگیاتھا۔پوری فلم ذات پات کے نظام کے متعلق ہندونظریہ پرمبنی ہے۔جس میں اس رواج کو دکھایا گیا ہے کہ نچلی ذات والوں کو چاہئے کہ وہ اعلیٰ ذات والوں سے بات نہ کریں اور ان سے دوری بنائے رکھیں۔ اعلیٰ ذات والے نچلی ذات والوں کی موجودگی میں کبھی وید نہ پڑھیں اورکوئی نچلی ذات کا فرد اگر وید کے الفاظ سن لے تو اس کے کان میں پگھلا ہوا لوہاڈالا جاتا اور اگر وید پڑھ لے تو اس کی زبان کو کاٹ دیاجائے۔ خود امبیڈکر کوغیر برہمن ذات کا حوالہ دے کر وید پڑھنے سے روک دیاگیا۔
ڈاکٹر امبیڈکر کاخیال تھا کہ ’’تعلیم ایسی چیز ہے جسے ہر کسی کے لئے مہیا کرنا لازمی ہے۔ اسی طرح سے ایسی پالیسی کا ہونا لازمی ہے جس کے ذریعہ سماج کے نچلے طبقات کے لئے تعلیم کو سستا بنایا جاسکے۔ اگر تمام کمیونٹی کو برابری کے ساتھ یہ چیز مہیا کی جانے لگے، تو اس کا ایک ہی حل ہوگا کہ مساوات کو اپنایا جائے اور سماج کے نچلے طبقات کو رعایت دی جائے۔‘‘
مقصد تعلیم اور اس کی رسائی پر توجہ مرکوز ہونی چاہئے۔میلکم ایکس (امریکی سیاہ فام آدمیوں کے انصاف کے لئے لڑنے والا)اور ڈاکٹر امبیڈکر کی جدوجہدمندرجہ بالاحوالہ جات کی ترجمانی کرتی ہے۔خود امبیڈکر نے اپنے تعلیمی دور میں کئی رکاوٹوں کا سامنا کیا۔ کیونکہ صرف اعلیٰ ذات کے افراد کو ہی تعلیم کے مواقع حاصل تھے۔ امبیڈکر نے اپنی پوری زندگی ان ہی مسائل( استعمار اوربھید بھاؤ) سے لڑنے میں گذاری۔آج بھی استعمار بھارت میں نظر آتاہے جو تعلیمی پالیسیوں اور منصفانہ آواز کے لئے لمحہ فکر یہ ہے۔کچھ طاقتور گروہ عوام کا استحصال کرنے کے لئے منصوبہ بند انداز میں کوشاں ہیں۔ آج وقت کی اہم ضرورت ہے اس استعمار کے خلاف کھڑے ہوں جو معاشرے کے بعض گروہوں کو حق حصول تعلیم سے محروم کردیتاہے۔
ادارہ جاتی تشدد اور تفریق
جس دیش میں تعلیمی اداروں کو ملک کے مندر کے طورپر پیش کیاجاتاہےوہاں اس طرح کا برتاؤ کیاجارہاہے۔ اس طرح کا غیر امتیازی سلوک مختلف موقعوں پر انسٹی ٹیوشنل تشدد کی شکلوں میں ظاہر ہوتاہے روہت ویمولا کے قتل نے ملک کے معزز تعلیمی اداروں کی جانب سے ہورہے تشدد اور خراب برتاؤ کی حقیقت کو کھول کر رکھ دیاہے۔ تعلیمی اداروں میں بڑھتے ہوئے تشدد کے خلاف طلبہ برادری نے آواز اٹھاتے ہوئے روہت ایکٹ کو نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ۔ کیونکہ اس ایکٹ کے ذریعہ تعلیمی اداروں میں ہورہے امتیازی سلوک کو مٹایاجاسکتاہے ۔ جے این یو میں اے بی وی پی سے جھگڑے کے بعد نجیب احمد کو غائب کردیا جانا،کٹیہار میں میڈیکل طالب علم ڈاکٹر فیاض کا قتل، بہار اور دیگر مقامات پر اس طرح کے واقعات کونوٹ کیاگیا۔
بدقسمتی سے حکومت نے اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔
تعلیمی اداروں میں زیادتی کے واقعات سے صرف نظر، موجودہ تعلیمی پالیسی سماج کےبیشتر مظلوم طبقات، جن کی نمائندگی بہت کم ہے ،ان کی حالت کو مزید بدتر بنا رہی ہے۔ معیاری تعلیم اور حصول تعلیم کے یکساں مواقع کا فقدان، اور ان مسائل کے حل میں غفلت کی روش اس کی واضح علامتیں ہیں۔ اب وقت ہے کہ حکومت کی بہوجن مخالف تعلیمی پالیسیوں، باالخصوص اعلٰی تعلیم کے حصول میں حکومت کے امتیازبرتنے کے رویے کا پردہ فاش کیا جائے۔ مودی حکومت کے اقتدار میں آجانے کے بعد یہ رجحان مزید بڑھ گیا ہے۔ ایسی بہت سی پالیسیاں ہیں جس کے نتیجہ میں غریب اور امیر، طاقت ور اور کمزور، اعلی طبقے اور نچلے طبقے کے درمیان شدید عدم مساوات پروان چڑھ رہی ہے۔ عدم مساوات پر مبنی اس نظام کا شکار ہمیشہ پچھڑے طبقات ہوتے ہیں۔ ان مسائل کو مخاطب کرنے کے بجائے حکومت اس بحران سے پہلوتہی کررہی ہے۔ تعلیمی میدان میں ہوئی گزشتہ ترقی کا جائزہ بھی اس بات کو ثابت کرتا ہے۔
داخلی استعمار کا استحکام
اگرچہ مسلمانوں، دلتوں، آدیواسیوں اور او بی سیس کی حالت پہلے ہی بدتر ہے۔ اس کے باوجود حکومت انہیں وہ مواقع نہیں دے رہی ہے جس کی بناء پر وہ اس حالت سے ابھر سکیں۔ مختلف اعداد وشمار اس کا ثبوت پیش کررہے ہیں۔ اعلی تعلیم کے سلسے میں وزارت انسانی وسائل کے ذریعہ کئے گئے آل انڈیا سروے کو مطابق 17-2016 میں مسلم طلبہ کی تعداد صرف 9۔4 فی صد تھی۔ اور مسلمانوں کی کل آبادی 14فی صد ہے۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ مسلمان کو اعلی تعلیم کے حصول میں بڑے فقدان کا سامنا ہے۔ مسلمانوں کی بدحالی کے سلسلہ میں سرکاری دستاویز موجود ہونے کے باوجود حکومت اب تک کوئی اقدام کرنے سے قاصر ہے۔ اس کے بالمقابل MANF فیلوشپ جو اقلیت کے لئے خاص ہے اس کے سلسلے میں حکومت بھونڈے قوانیں نافذ کر رہی ہے۔ اقلیتی طلبہ کے لئے اعلی تعلیم حاصل کرنے کا MANF ہی واحد مالیاتی امداد کا ذریعہ ہے۔ نئے سرکاری اعلان کے ذریعہ UGC NET کو تعلیمی وظیفہ حاصل کرنے کے لئے لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس کے نتیجہ میں اقلیتی طلبہ اعلی تعلیم سے مزید محروم ہو جائیں گے۔ حکومت کا یہ قدم اقلیتی طبقات بشمول مسلمانوں کو خاص طور پر ریسرچ کے میدان میں معمولی نمائندگی سے بھی محروم کر دے گا۔
یو جی سی قانون کے نتیجہ میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سیٹ کم ہوگئی ہیں۔ جو ملک میں اقلیتی طبقہ کو حاصل ہونے والے مواقع کے لئے نقصاندہ ہے۔ اس قانون کے مطابق ایم فل اور پی ایچ ڈی طلبہ کی تعداد کم ہوگی۔ ایک پروفیسر ایک وقت میں صرف 3 سے 8 طلبہ کی نگرانی کرسکتا ہے، ایک ایسوسیئٹ پروفیسر 2 ایم فل اور 6 پی ایچ ڈی کے طلبہ اور ایک اسسٹنٹ پروفیسر 1 سے 4 طلبہ کی نگرانی کرسکتا ہے۔ ایک یونیورسٹی میں ریسرچ سیٹ کا تعین اساتذہ کی تعداد کے مطابق ہوگا۔ اس سے پہلے تک یونیورسٹی کے شعبے خود طلبہ کی تعداد متعین کرتے تھے۔ مثلا جے این یو میں 18-2017 میں سیٹس کی تعداد 1000 سے کم ہوکر 194 ہوگئی۔ یہی معاملہ ملک کی کئی یونیورسٹیوں کا ہے۔ یہ صورت حال ریزرویشن کے نفاذ میں بحران پیدا کرے گی۔ اگر ایک شعبہ میں صرف ایک ایم فل اور پی ایچ ڈی سیٹ ہے تو وہاں ریزرویشن حاصل نہیں ہوگا۔ یہ یقینی طور پر ریزرویشن کی مستحق طبقات کے لئے زیادہ نقصاندہ ثابت ہوگا۔ یہ قانون پسماندہ طلبہ کو اعلی تعلیم کے حصول اور خصوصاً ریسرچ سے جبراً دور کرے گا۔
وزارت انسانی وسائل کا نیا فیصلہ جو کچھ مخصوص یونیورسٹیوں کو خودمختاری کی حیثیت دے گا۔ یہ فیصلہ بھی سماج کے کمزور طبقات پر برا اثر ڈالے گا۔ ماہرین تعلیم کا ماننا ہے کہ یہ فیصلہ اہم عوامی اداروں کی نجکاری کرنے کا ایک قدم ہے۔ یہ فیصلہ غریب اور ذہین طلبہ کو عوامی اداروں میں اعلی تعلیم کے مواقع سے محروم کردے گا۔ ان اداروں کو خودمختاری حیثیت دینے کے نتیجہ میں یہ ادارے یو جی سی کی منظوری کے بغیر نئے کورسز شروع کریں گے۔ جس میں یو جی سی ان کورسز کو پڑھنے میں کسی طرح کی مالی مدد کی ذمہ داری نہیں ہوگی۔ اور فنڈ جمع کرنے کی ذمہ داری مکمل طور پر اس ادارہ کی ہوگی۔ جس کے نتیجہ میں فیس بڑھائی جائے گی اور ریزرویشن ختم کردیا جائے گا۔
وزارت انسانی وسائل کی جانب سے ایک دوسری تجویز یہ ہے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف انڈیا ایکٹ 2018، کو متعارف کرایا جائے۔ جس کو پیش کرنے کا مقصد یو جی سی کا خاتمہ ہے۔ موجودہ حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہی یو جی سی کے اختیارات کو کم کرنے کے متعدد اقدامات مرکزی وزارت کے ذریعہ ہوئے ہیں۔ 15-2014 کے درمیان یو جی سی کا بجٹ 8906 کروڑ تھا جو اب کم کرکے 4692 کردیا گیا ہے جو مندرجہ بالا دعوے کا ثبوت ہے۔ اس تجویز کے مطابق HEIs کے فنڈ کی تقسیم یو جی سی کے بجائے نیو ہائیر ایجوکیشن کمیشن کرے گا۔ اس کمیشن کے پاس ایک مستقل ممبر بھی نہیں ہے۔ یہ اعلی تعلیم کی فنڈنگ کو سیاسی رخ دے گا جس کے نتیجہ میں اعلی تعلیمی اداروں میں معیار اور حصول تعلیم میں زبردست تخفیف ہوگی۔
اقلیتی آبادی کے شہر اور اضلاع بھی اعلی تعلیمی معیار رکھنے والے اداروں اور وسائل کی حصولیابی میں عدم مساوات کا شکار ہیں۔ یہاں تک کہ سچر کمیٹی اور دوسری رپورٹس نے ایم سی ڈیز میں نئے تعلیمی ادارے بشمول یونیورسٹیز کے قیام کی تجویز پیش کی تھی۔ لیکن حکومت نے ان فیصلوں کا نفاذ نہیں کیا۔ اقلیت، ایس سی اور ایس ٹی سے تعلق رکھنے والے طلبہ نے حق تعلیم کی غیر مساوی تقسیم کے خلاف آواز بلند کی۔ ہریانہ میں میوات اور کیرالا میں ملاپرم اس عدم مساوات کی سب سے واضح مثال ہیں۔ مختصراً، تعلیمی اداروں میں موجودہ حکومت نے اندرونی طور پر قابض ہونے کے لئے کئی اقدامات کئے ہیں۔ حکومت کے ان امتیازی اقدامات کو منظر عام پر لانے کے لئے ہم طلبہ کو چاہئے کہ اس کے خلاف ملک کے کونے کونے میں مہم کاآغاز کریں۔