بندگانِ خدا کی خدمت

0

ڈاکٹر وقار انور

مَنْ یَسَّرَ عَلٰی مُعْسِرٍ یَسَّرَ اللّٰہُ عَلَیْہِ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ۔ (عن ابوہریرہؓ/ رواہ ابن ماجہ ۲۴۱۶)
’’جو کسی تنگ دست پر آسانی کرے گا، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا اور آخرت میں آسانی فرمائے گا۔‘‘
دوسرے لفظوں میں اس حدیث کا مفہوم اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ دوسروں کے لیے سہولتیں فراہم کرنے والے شخص کی دنیا اور آخرت کی پریشانیوں کو اللہ تعالیٰ دور کردے گا۔ مسند احمد میں آں حضرتؐ سے مروی ایک حدیث کے الفاظ ہیں:
’’اِسْمَحْ یُسْمَحْ لَکَ۔‘‘ (رعایت کرو، تمہارے ساتھ رعایت کی جائے گی۔)
ان دونوں طرز کی بہت ساری احادیث کتابوں میں موجود ہیں۔ پہلی حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ بندگانِ خدا کے ساتھ تمہارا جیسا رویہ ہوگا ویسا ہی خدائے بزرگ و برتر کا تمہارے ساتھ ہوگا۔ ایک دوسری حدیث کا مفہوم ہے کہ زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔ دوسری متذکرہ حدیث میں یہی پیغام معروف (Active)اور مجہول (Passive)انداز میں دیا گیا ہے۔ یعنی تم اچھا برتاؤ کرو تمہارے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے گا۔ اس طرز کی ایک دوسری حدیث قدسی ہے کہ خرچ کرو، تم پر خرچ کیا جائے گا۔ (اِنْفِقْ یَا اِبْنِ آدَمَ اُنْفِقَ عَلَیْک)


دراصل یہ بات اتنی اہم ہے کہ اسے حضرت محمدؐ نے مختلف پیرائے میں، مختلف مواقع پر الگ الگ طریقے سے فرمایا ہے۔ یہ دین اسلام کا خاصہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کو راضی کرنا ہے تو اس کی مخلوقات کے حقوق ادا کرنے ہوں گے اور ان کی خدمت کرنی ہوگی۔ خدا کی معرفت جنگلوں اور بیابانوں میں نہیں بلکہ انسانوں کے درمیان ان کے تعلقات کے تقاضے ادا کرکے حاصل ہوگی۔ یہ ایک ’نقد‘ سودا ہے۔ ’اس ہاتھ دے، اُس ہاتھ لے۔‘

انسان تعلقات کے درمیان پیدا ہوا ہے اور اس کا امتحان یہ ہے کہ ان سب تعلقات کے تقاضے پورے کرے۔ پہلا اور بنیادی تعلق اللہ کے ساتھ ہے اور اس کا تقاضہ ہے کہ اس کے ذریعہ مقرر کردہ مراسم عبودیت ادا کرکے اور اس کی کتاب اور رسولؐ کے ذریعے اوامر و نواہی کے احکامات کی پیروی کرکے زندگی گزاری جائے۔ دوسرا تعلق خود فرد کی اپنی ذات کا ہے جس کا تقاضہ یہ ہے کہ اس کا تزکیہ کیا جائے اور اسے ظلم سے بچایا جائے۔ تیسرا تعلق جو درج بالا احادیث کا موضوع ہے بندگانِ خدا کے ساتھ تعلقات ہیں۔ انسانوں سے تعلقات کے تقاضے افراد کے درمیان الگ الگ ہوتے ہیں۔ والدین، ازواج، اولاد، پڑوسیوں اور عام انسانوں، سب کے معاملات یکساں نہیں ہیں بلکہ الگ افراد اور الگ مواقع کے تقاضے مختلف ہوسکتے ہیں۔ لیکن ان تمام تعلقات میں ایک اصولی بات یہ ہے کہ ایک فرد صرف اپنی ذات میں گم نہ ہو بلکہ دیگر افراد کی خدمت و ضروریات کی طرف بھی متوجہ رہے۔


درج بالا حدیث جو ہمارے زیرِ مطالعہ ہے، اس میں دو الفاظ یُسر (آسانی) اور عصر (تنگی) استعمال ہوئے ہیں جن پر غور کرنا چاہیے۔ دینِ اسلام کا تعارف مختلف آیات و احادیث میں یُسر کے طور پر کرایا گیا ہے کیوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے رحمت اپنے اوپر لازم کرلی ہے، جس کا ایک اظہار اس طرح کیا ہے کہ وہ اپنے بندوں کے لیے آسانی چاہتا ہے، تنگی نہیں۔ (یرید اللّٰہ بکم الیسر ولا یریدبکم العسر) اور اسی وجہ سے آں حضرتؐنے تاکید کی ہے کہ آسانی پیدا کرو، تنگی نہ پیدا کرو۔ اور اسی وجہ سے اس دین کے فقہا نے کسی بھی حکم کی تلاش میں یہ اصول سامنے رکھا ہے کہ اسے یُسر اور قابلِ عمل ہونا چاہیے، یعنی عُسر اور ناممکن العمل نہیں ہونا چاہیے۔


ہم میں سے ہر شخص کو دنیا میں ایسے معاملات پیش آتے رہتے ہیں اور آخرت میں پیش آئیں گے کہ جب ہم اللہ تبارک و تعالیٰ سے سہولت اور عطائے خاص کے طالب ہوتے ہیں اور ہوں گے۔ ایسی خواہش کے حقیقت بنادینے کا آسان نسخہ یہ ہے اللہ کی مخلوقات کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیا جائے اور ان کی خدمت کرکے ان کو راضی کرلیا جائے۔ اِن کو راضی کرنا اُس کو راضی کرنے پرمنتج ہوگا، ان شاء اللہ ۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights