تبلیغ کے ساتھ تدبیر و اقدام بھی ضروری

ایڈمن

ذوالقرنین ملک کے حالات سے آج ہر کوئی کسی نہ کسی حد تک واقف ہے۔ کیونکہ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ پل بھر میں یا کچھ سیکنڈ میں ہزاروں میل کی خبریں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجاتی…


ذوالقرنین


ملک کے حالات سے آج ہر کوئی کسی نہ کسی حد تک واقف ہے۔ کیونکہ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ پل بھر میں یا کچھ سیکنڈ میں ہزاروں میل کی خبریں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجاتی ہیں۔2014میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہندوستان میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف سرگرمیاں تیز تر ہوگئی ہیں۔ اسلام کی مخالفت یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ہرزمانے میں اسلام کو چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قریش مکہ کو کوہ صفا سے خطاب فرمایا کہ اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر ہے جو تم پر حملہ آور ہونے والا ہے تو کیا تم میری بات کا یقین کرلو گے؟قریش مکہ نے کہا کہ جی ہاں ہم یقین کر لیں گے کیوں کہ آپ صادق و امین ہیں۔ تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو سمجھانے کے لیے مثال تھی۔ اس کے بعد پہلی مرتبہ رسول اللہ نے اپنی نبوت اور اسلام کی دعوت کا اعلان کیا۔ کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی دعوت پیش کی تو سب سے پہل آپ کے چچا ابو لہب نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی بات کا انکار کیا، کہا کیا ہمیں اسی لیے یہاں جمع کیا تھا؟اور برا بھلا کہنے لگا۔


قریش مکہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہوگئے۔ لیکن آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ہمت و استقامت شجاعت و بہادری سے اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا کام جاری رکھا۔ مختصر مدت میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی قربانیوں سے صحابہ کرام کی جماعت تیار ہوگئی اور عرب میں تیزی سے اسلام پھیل گیا ۔ عرب کے باہر بھی جو مسلمان تجارت کی غرض سے جاتے تھے ان کے اخلاق و کردار، ایمانداری ودیانت داری کو دیکھ کر لوگ اسلام قبول کرنے لگے۔ آج کلمہ لا الٰہ الا اللہ کا پڑھنے والا دنیا کے ہر خطہ میں موجود ہے۔ دنیا کے57ملکوں میں مسلمحکومت قائم ہے لیکن پھر بھی ہر طرف سے مسلمان کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اکثر مسلم ریاستیں محض نام کی مسلم یاستیں ہیں۔ان کے کردار و عمل اور ملک کا نظام حکومت اسلامی نہیں ہے۔


ہم ہندوستان کے ہی حالات پر نظر ڈالیں تو اتنی بڑی تعداد میں مسلمان ہونے کے باوجودوہ تفرقوں،جماعتوںاور مسلکوں میں منقسم ہیں۔آج کا باطل اسلام و مسلمانوں کو للکار رہا ہے۔ لیکن مسلمانوں کی دینی غیرت و حمیت ہمیں نہیں للکار رہی ہیں۔ کیونکہ ایمان کی حلاوت دلوں میں نہیں رہی۔ ایمان کی حلاوت کیسے رہے گی جب بلا سوچے سمجھے حرام مال کا استعمال عام ہوجائے، سود کا لین دین عام ہوجائے !یہی نہیں ملک میں مسلمانوں کی اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہے جو بلا سوچے سمجھے اندھی تقلید میں گرفتار ہیں۔ میری مسجد، میرا امام، میرا مسلک، میرا فرقہ، میری جماعت، میرا لٹریچرہی صحیح ہے اور باقی سب سے مجھے کوئی سروکار نہیں ہے! کچھ جماعتیں اپنی جماعت کی اشاعت میں لگی ہوئی ہیں۔ بس تعداد جمع کرناان کا مقصدرہ گیاہے۔ لیکن وقتی طور پر عوام کا جم غفیر جمع کرلینا کافی نہیں ہیں۔ افراد کی ہمہ جہت تربیت پر توجہ دی جانی چاہیے ۔ان کے دل ایمان کی حلاوت سے آشنا ہونے چاہئیں کہ تاکہ وہ محض موسمی مسلمان کا کردار ادا نہ کریں۔اس وقت ضرورت ایسے افراد کی جو ایمان پر ہر حال میں جمے رہیں۔ چاہے انہیںتختہ دار پر لٹکایا جائے یا آگ میں جلا دیا جائے ، لیکن ان کے ایمان میں تزلزل نہ آنے پائے۔باطل طاقتوں کے خلاف ہمیں ایسے افراد کی تربیت کرنے کی ضرورت ہے جو ہر محاذ پر کام کرنے والے ہو۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے جس طرح صحابہ کرام کو تیار کیا تھا۔ ایمانی قوت کے ساتھ ساتھ وہ مقدس جماعت میدان جنگ کی میں بھی ماہر تھی۔ وہ جماعت تجارت کے میدان میں بھی آگے تھی۔ وہ آنے والے حالات کو بھانپ لینے کی بصیرت رکھتی تھی۔ وہ حالات کے آنے سے قبل حالات پر قابو پانے کے لیے جد وجہد کا ہنر جانتی تھی۔وہ دعاؤں پر کامل یقین کے ساتھ ساتھ اسباب وسائل بھی اختیار کرتی تھی۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں