اپنی باتیں

ایڈمن

سال نو کی آمد آمد ہے، ہر سال کی طرح امسال بھی سالِ نو کی آمد پر ملک بھر میں جشن منائے جارہے ہیں۔ہرطرف جشن کا سماں ہے، اور طلبہ ونوجوان ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارک باد پیش…

سال نو کی آمد آمد ہے، ہر سال کی طرح امسال بھی سالِ نو کی آمد پر ملک بھر میں جشن منائے جارہے ہیں۔ہرطرف جشن کا سماں ہے، اور طلبہ ونوجوان ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارک باد پیش کررہے ہیں۔
یہ موقع ہر سال آتا ہے، اور چلا جاتا ہے۔ خوشیاں منائی جاتی ہیں اور پھر زندگی معمول کے مطابق رواں دواں ہوجاتی ہے۔ بہت کم افراد ہوتے ہیں جو اس موقع پر اپنی زندگی کے لیے کوئی بڑا فیصلہ کرتے ہیں، اور ان میں بھی بہت کم افراد ایسے ہوتے ہیں جو اپنے اس فیصلے کے مطابق پیش رفت کرپاتے ہیں۔ یقیناًیہ ماہ وسال کا آنا جانا خالق کائنات کی ایک بڑی نشانی ہے، لیکن بہت کم افرادہیں جو اِس سے سبق حاصل کرتے ہیں۔
سماج کی تشکیل نو کا عزم لے کر اٹھنے والے طلبہ ونوجوانوں کے لیے یہ موقع یک گونہ اہمیت کا حامل ہے۔ سال بھر کی پیش رفت کا جائزہ لینے، اور آئندہ سال کے لیے عزمِ سفر تازہ کرنے کا یہ ایک شاندار موقع ہے۔
جائزہ اور احتساب انفرادی طور پر بھی ہوتا ہے اور اجتماعی طور پر بھی، اسی طرح عزم سفر کا بھی معاملہ ہے، ان دونوں میں اجتماعی پہلو سے زیادہ انفرادی پہلو اہمیت رکھتا ہے۔ اجتماعی فیصلوں اور ارادوں کی کامیابی کی ایک اہم شرط یہ بھی ہے کہ وہ اجتماعیت میں شامل ہر فردکا ارادہ اور فیصلہ بن جائے، ہر فرد اسے اپنے دل کی آواز سمجھنے لگے، اور ذاتی حیثیت میں خود کو اس کے لیے جوابدہ محسوس کرنے لگے۔
دوراول کے جس عظیم انقلاب کا حوالہ دیا جاتا ہے، اس انقلاب کے پیچھے یہی وہ سب سے بڑی قوت تھی جو کارفرما نظر آتی ہے،اس کو توفیق خداوندی کہا جائے یا جو بھی مناسب نام دے دیاجائے، یہ ایک حقیقت ہے کہ اُس وقت دربار رسالت سے جاری ہونے والا ہر فیصلہ اور ہر ارادہ انفرادی طور پر پوری امت کا ارادہ اور فیصلہ ہوتا تھا، اور ذاتی طور پر ہر فردِ امت خود کو اس کے لیے بارگاہِ خداوندی میں جوابدہ محسوس کرتا تھا۔
تعلیمی اداروں کی صورتحال کا اس موقع پر بے لاگ تجزیہ ہونا چاہئے، اور اس سے زیادہ اہم اس صورتحال کے تناظر میں ہماری ذمہ داریوں کے حجم کا تعین ہوگا۔ تعلیمی اداروں میں اخلاق واقدار کا انحطاط ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، لیکن اس مسئلے پر کیوں نہ سوچا جائے کہ اخلاق واقدار کے حامل افراد اس مسئلے پر کس طرح ایک آواز ہوسکتے ہیں، اور کن کن سطحوں سے اس کے لیے کس کس اندازسے کوششیں کرسکتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ملک میں جب جب ہم جنس پرستی کے قانونی جواز اور عدم جواز کا مسئلہ چھڑتا ہے تو جواز کا مطالبہ کرنے والے سڑکوں پر اتر آتے ہیں اور اس کے حق میں پرزور احتجاج اور مظاہرے کرتے ہیں، لیکن اس کو سماج کے لیے گھناؤنا جرم اور ناسور ماننے والے افراد بحیثیت مجموعی اپنی خاموشی توڑنے کے لیے کسی بھی طرح تیار نہیں ہوتے۔
اسی طرح تعلیمی نظام اور تعلیمی اداروں سے متعلق ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تعلیم مادہ پرستی سے اس قدر قریب ہوتی جارہی ہے کہ سماج اور سماجی اقدار پیچھے جاتے چلے جارہے ہیں، یہ ایک حقیقت ہے، جس کا تدارک لازمی ہے، تاہم اس کے دو پہلو ہیں، ایک کا تعلق نظام سے ہے، اور دوسرے کا تعلق مخصوص کلچر سے ہے، جو بہت تیزی کے ساتھ سماج کا حصہ بنتا جارہا ہے، اور اس میں طلبہ کا بڑا کردار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نظام کی تبدیلی ایک دو دن کا مسئلہ نہیں ہے، اس کے لیے مدت درکار ہوتی ہے، اب سوال اٹھتا ہے کہ طلبہ کے درمیان اس کا شعور کیسے عام کیا جائے، یہ ہمارے لیے ابھی سوچنے اور غوروفکر کرنے کا مسئلہ ہے۔
اسی طرح فکری ونظریاتی بحران اور تعلیمی اداروں کی سیاسی وجمہوری فضا کا مسئلہ بھی ہے، ان تمام مسائل کا الگ الگ تجزیہ کرنا ہوگا، اور ان کے تناظر میں اپنی صورتحال کا جائزہ اور مستقبل میں ذاتی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی اپنی اپنی ذمہ داریوں کے حجم کا تعین کرنا ہوگا۔
اس وقت ملک کے حالات جس تیزی کے ساتھ تبدیل ہورہے ہیں، اور فسطائی طاقتیں جس طرح سماج میں فرقہ وارانہ سوچ عام کررہی ہیں، یہ ایک کھلی حقیقت ہے، دوسری طرف خیرامت کا تاج رکھنے والی ملت اسلامیہ اور اس کی قیادت جس غفلت اور اضمحلال کا شکار ہے، وہ بھی سامنے ہے۔ یقیناًان حالات میں اگر کسی سے کچھ امید کی جاسکتی ہے تو وہ طلبہ ونوجوان ہی ہیں، البتہ ان کے درمیان یہ شعور کیسے عام کیا جائے، یہ وقت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
(ابوالاعلی سید سبحانی)

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں