انجینئر ایس امین الحسن،
رکن مرکزی مجلس شوری جماعت اسلامی ہند
ہندوستانی جمہوریت کی تقدیر اگلے ۵؍سالوں کے لیے ۲۰۱۴ ء کے انتخابات کے نتائج لکھیں گے۔ عوام ہی اس میں کلیدی رول ادا کر یں گے۔ ہندوستان اس لحاظ سے دنیا میں ممتاز ملک ہے کہ سب سے بڑی جمہوریت نے مختلف مسائل سے گزرتے ہوئے بھی جمہوریت کی روح کو باقی رکھا ہے۔ اس کی قدرو قیمت کا اندازہ مصر کے حالات سے موازنہ کرنے سے ہوتا ہے کہ جمہوریت کے دشمنوں سے بچالے جانا کتنا عظیم کام ہے۔ ہندوستان کی یہ عظیم خوبی بھی نظر بد کا شکار ہے اور کچھ شکاری نشانہ لگائے تاک میں بیٹھے ہیں۔ تاہم مستقل انتخابات ہوتے رہے ہیں۔
ہندو ستانی سیاست کا یہ المیہ ہے کہ جمہوریت کے باوجود جمہور کی صور تحال بہتر نہیں ہوسکی ہے۔ روز افزوں مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے کہ صورتحال کی تبدیلی کے لئے کھڑے ہونا ان کے بس کی بات نہیں، اس لئے کہ جسم وجان کارشتہ جوڑے رکھنا ان کی ترجیح اول ہوتی ہے۔ ذات پات کی تقسیم نے بھی انتخابات کو بیمار ذہنیت کی آ ماج گاہ بنا دیا ہے۔ ہندو مسلم فرقہ واریت کے مستقل اور متنوع وار سے مسلمان منفی ذہنیت، احتیاج کی گداگری اور احتجاج کی سیاست سے ابھی اوپر اٹھ نہ پائے۔
اب جب NaMo کا سورج سوانیزے پر چمک رہا ہو مسلمانوں کا ملی وجود ’’ أین المفر‘‘کی تلاش میں سر گرداں نظر آرہا ہے مگر کچھ خیرخواہ ہر طرف سے پکارتے نظر آرہے ہیں کہ ’’لہ اصحاب یدعونہ الی الھدی ائتنا‘‘ (کیا ہم اپنا حال اس شخص کا سا کرلیں جسے شیطانوں نے صحرا میں بھٹکا دیا ہو، اور وہ حیران وسرگرداں پھر رہا ہو، درآں حالیکہ اس کے ساتھی اسے پکار رہے ہوں کہ ادھر آ، یہ سیدھی راہ موجود ہے۔)
سیاسی پارٹیوں نے جمہوریت کے سہارے بادشاہت کا شاہی بچھا رکھا ہے۔ بادشاہ کے بعد شہزادہ، ملکہ کے بعد طفل مکتب کی تاج پوشی کی رسمیں جاری ہیں۔ سیاست گھریلو معاملہ یا تجارت بن گئی ہے۔ جبکہ سیاست کا منشا عوام کی رہنمائی، اجتماعی معاملات کی نگہبانی، امن و امان کے فضا کی بحالی اور رعا یا کی خوشحالی کے لئے منصوبہ سازی اور جد و جہد ہونا چاہئے تھا۔
آنے والے انتخابات کے دو سنگین مسائل نظر آرہے ہیں :
MONTH
FEDERAL
FRONT
NDA
UPA
Agency
JAN
235
184
128
1
MARCH
205
179-200
132-155
2
JULY
162
117
104
3
JULY
208-224
172-180
149-157
CNN-IBN HINDU
4
JULY
253
156
134
TIMES OF INDIA
5
پہلا مسئلہ عوام کے حقیقی مسائل مثلا،غربت، مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن، شہری اور دیہی زندگی میں فرق، کسانوں کے مسائل، فرقہ وارانہ فسادات، رجائیت، حقوق انسانی سے متعلق مسائل وغیرہ انتخابات کے اشوز بنتے نظر آرہے ہیں۔ اس کے برعکس شخصیات، پارٹی، ذات پات اخبارات کی فضا میں چھائے ہوئے ہیں۔
دوسرا مسئلہ نتائج کی پیشین گوئیاں ہیں، علم الانتخابات بہر حال ایک سائنس ہے، اسے یکسر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، مختلف اداروں کی جانب سے کئے گئے poll survey کا خلاصہ حسب ذیل ہے:قیادت کے سلسلہ میں عوامی رجحان یہ بتایا گیا ہے
(۱) NaMo 37.7%
(۲) Rahul 17.6%
(۳) Manmohan 6.2%
(۴) Sonia 3.9%
یہ رہی آنے والے منظر نامے کی ایک جھلکی۔ صورتحال کی بہتری کی جانب بحیثیت خیرخواہ ملک ہم کیا اقدامات کر سکتے ہیں؟ ان حالات میںs Option کو Wide open رکھنا قرین مصلحت ہوگا۔ اس ضمن میں اس تجزیے کو پیش نظر رکھنا ہوگا کہ آئندہ مندرجہ ذیل4؍ امکانی منظر نامے ہوسکتے ہیں۔
1۔UPAحکومت بنائے
NDA -2حکومت بنائے
FF-3 حکومت بنائے
4۔ غیر یقینی صورتحال(کئی حکومت بنیں، قومی حکومت، صدر راج، وغیرہ)
اس ملک کے انصاف پسند اور صاف ذہن رکھنے والے غیر مسلم احباب کے ساتھ مل کر امت کے مختلف طبقات کی وحدت کے ساتھ، ہر ریاست یا ہر بڑے مقام کے لیے ایک اچھی انتخابی سیاسی حکمت عملی تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ پالیسی کی حیثیت سے ۴؍ نقطہ نظر کو پیش نظر رکھنا ہوگا جسے ہم اس طرح عرض کرسکتے ہیں:
پالیسی نمبر۱: با ا خلاق و با کردار، جمہوریت پسند خدمت گزار کا انتخاب
پالیسی نمبر۲: فسطائیت کو شکست دینے والا مضبوط امیدوار
پالیسی نمبر۳: کانگریس اور بی جے پی سے ہٹ کر تیسرا متبادل
پالیسی نمبر۴: WPI
پالیسی نمبر۱؍ کے تحت ہمارا لائحہ عمل یہ ہوگا کہ ہر انتخابی حلقہ میں قبل ازوقت اس شعور کو بیدار کرنا ہوگا کہ ’’ہمارا نمائندہ کیسا ہو ‘‘،اس سلسلے میں رسمی و غیر رسمی مہماتی شکل بھی اختیار کی جاسکتی ہے۔ انتخابات کے اعلان کے بعد نمائندوں سے ملاقات اورانھیں اس بات سے واقف کرانا کہ جمہور کی رائے میں نمائندہ کیسا ہونا چاہیے۔ ان دونوں مر حلوں میں اس ’’عوامی منشور‘‘ کا بھر پور استعمال ہونا چاہیے، جسے جماعت اسلامی ہند نے جاری کیا ہے، جس پر دیگر دانشوروں کے دستخط موجود ہیں۔ بسا اوقات اس کام کو ہم غیر اہم اور غیر موثر سمجھتے ہیں، حالانکہ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ نبیؐ نے سیاسی نما ئندوں اور قبائلی لیڈروں سے باتیں کی اور الگ الگ معاہدے دستخط کروائے۔ معاہدہ شکنی کے عام ماحول میں معاہدات کرانے کو لاحاصل سمجھنا گویا انسانی فطرت سے نا امیدی اور اپنی صلاحیت پر عدم اعتماد کی دلیل ہے۔ نا سازگار حالات کے صحرا ہی میں ساز گاری کی گلستان پیدا کرنے کا خواب انبیائی اسوہ ہے۔
پالیسی نمبر۲؍ کے تحت فسطائیت کے خطرہ کو آج بھی ہلکا محسوس نہ کیا جانا چاہیے۔ با لخصوص عالمی صورتحال میں اسلام پسندوں کی ناطقہ بندی کرنے کی کوششوں میں فسطائیت صیہونیت سے غذایاتی ہے۔ بنگلہ دیش اور برما پڑوس کے وہ ممالک ہیں جہاں کے نت نئے تجربے ان کے جذبات کو مہمیز کرتے ہوں گے۔ حسب سابق انتخابات میں نمائندوں کے حق میں رائے دہی کے سلسلے میں اس پالیسی نمبر ۲؍ کو ترجیح حاصل رہے گی۔
پالیسی نمبر۳؍ کے سلسلے میں مسلم امت میں ایک عام رجحان یہ نظرآتا ہے کہ کوشش کی جائے کہ غیر کانگریسی اور غیرفسطانی نمائندے کی جیت کو یقینی بنایا جائے، بہرحال یہ ایک ’’فلا اقتحم العقبۃ‘‘ والا معاملہ ہے۔ اس پر کچھ سنجیدہ غوروخوض کے بعد اچھی اسٹریٹجی بنانی پڑے گی۔ سوالات ابھرتے ہیں کہ مابعد انتخابات ان کی کیا قیمت لگے گی؟یہ کس کیمپ میں شامل ہوں گے؟ کیا یہ ملک کو غیر یقینی صورتحال کی طرف نہیں لے جائیں گے؟ اور بعد از انتخابات کیا یہ فسطائیت کی تقویت کا باعث نہیں بنیں گے؟ وغیرہ ۔لیکن جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے کہ آئندہ کے امکانی منظر نامے میں ایک قوی امکان ہے۔ اگر خدا نخوا ستہNDAکے ساتھ جانا ان کی سیاسی مجبوری بھی تسلیم کی جائے تو فسطا ئیت کے اثرات کو کم سے کم کرنے میں اِنہیں عناصر کا رول ہوسکتا ہے۔ اگر ہم نے ان کی فتح میں کوئی رول ادا کیا تو کل ان پر اثر انداز ہونے کے لئے ہمارے پاس اخلاقی قوت ہوگی۔ امکان نمبر ۳؍ کے جنم لینے میں ہم کوئی کر دارادا کرسکیں تو شیرخواری کا حق بھی ہمیں حاصل رہے گا۔ اس کے لیے مزید ہوم ورک کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
پالیسی نمبر ۴؍کے سلسلے میں وہ پارٹیاں آتی ہیں جو یا تو مسلم پارٹیاں ہیں یا اقدار پر مبنی سیاست کے لئے میدان میں آئی ہیں، جس میں مسلمانوں کے ساتھ دیگر اقوام کے وہ افراد بھی شامل ہیں جو ملک میں موجود سیاسی منظر نامے میں ایک مثبت تبدیلی لا نے کے خواہاں ہیں، مثلاً ویلفیئر پارٹی آف انڈیا وغیرہ۔ ان کا مقابلہ بڑی پارٹیوں سے ہے۔ یہ خصوصی توجہ کے مستحق ہیں۔ ان کے ضمن میں یہ رائے سازی عوام کی ہوکہ یہی ملک کو مستقبل میں ایک بڑے خطرے سے بچا سکتے ہیں اور اقدار پر مبنی سیاست کر سکتے ہیں۔
اس نازک گھڑی میں ملک اور اہل ملک کے خیر خواہ کی حیثیت سے ہم خاموش تماشائی بن کر نہیں رہ سکتے بلکہ اپنی بساط بھر اور موجود وسائل کے ساتھ کو شش کرنی ہوگی کہ ہم آنے والے انتخابات پر اثر انداز ہوسکیں اور زہر آلود فضا کو پاک کرنے اور ملک کو اقدار، انسانیت، جمہوریت اور صحت مند خطوط کی طرف پیش قدمی کرنے کے لیے رہنمائی کرنے کی ضرورت ہے۔ انتخابات کے دوران میڈیا کی چالبازی ہوتی ہے کہ اصل مسائل نظر انداز ہو جا ئیں اور ان کو باور کرائیں کہ میڈیا ساختہ اشوز میں ملک کے اہم اشوز ہیں۔ جمہوریت پر ذات پات کی سیاست ایک کا ری ضرب لگا تی ہے۔ اس ملک میں بد قسمتی سے ایسی قومیں ہیں جو سماج کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے اور امن کے ماحول کو خراب کرنے کے در پر ہیں ۔چنانچہ مندر جہ ذیل ۳؍ اہم کام بعجلت کرنے کی ضرورت ہے۔
(۱) سیاسی شعور کی بیداری: ترش روئی اور مایوسی کے دور میں پڑھا لکھا طبقہ بھی سیاسی امور میں نا خواندہ ہے۔ قومیں اپنی ذات کے نمائندے کے علاوہ کسی اچھے امید وار کے حق میں ووٹ دیں، یہ ان کے وہم و گمان سے بالا تر ہے۔ اپنی ذات کے نمائندے کی ہزار خرا بیوں پر وہ آنکھ موند لینا ضروری سمجھتے ہیں۔اشد ضروری ہے کہ ذہن سازی کی جائے اور بتا یا جائے کہ امید وار کا کیا مقام ہوتا ہے اور ملک کی تعمیر میں اس سے کیا رول متو قع ہے۔ اس ضمن میں مندرجہ ذیل سر گر میاں انجام دی جاسکتی ہیں:
سیاسی شعور کی بیداری مہم، کتابچہ، ریلیاں، ڈاکیومنٹری فلموں کے ذریعہ یہ واضح کیا جائے کہ تعمیر ملک میں عام ہندوستا نی کیا کردار ادا کر سکتا ہے۔
2خطبات جمعہ
2 کالجز کے’’ پولٹیکل سائنس‘‘ کے شعبہ جات میں تو سیعی لکچر ز کا اہتمام
2’’ فسطائت صدا بہار بھارت کے لئے ایک سنگین خطرہ ‘‘کے موضوع پر کتابچے
2 انگریزی، اردو، اور مقامی زبانوں کے اخبار میں کالم نویسوں/ مضمون نگاروں سے ملنا اور مضامین لکھوانا۔
2 سوشل میڈیا کا بھر پور استعمال
(۲) متحدہ پلیٹ فارمس کی تشکیل:علمی سطح پر دانشور طبقہ سے، مذہب اور ذات پات سے بلند ہوکر، عام بڑے مسائل پر اتفاق رائے بنانے کی کوشش۔ مثلاً جمہوریت کا تحفظ، فسطائیت، اور مقامی سطح پر ایک اچھے امیدوار پر کیسے اتفاق رائے ہوسکے۔
2 دانشوروں سے ملاقات اور اس میں ایک مضبوط ملک کے بنا نے میں ہمارا کردار کیا ہو، اس پر گفتگو ہو۔
2 مقامی سطح پر متحدہ فورمس کی تشکیل مثلاً\’\’Concerned citizen for 2014\’\’ یا \’\’We care Values\’\’ \’\’We are 99%\’\’
2 ’’عوامی منشور ‘‘ کی بڑے پیمانے پر تشہیر
2 مقامی سیاسی قا ئد ین سے ملا قات تاکہ عوام کے جذبات اوپر تک پہنچ سکیں۔
2 گفتگو اور مشورے کے بعد ایک اچھے امید وار کو سیکولر پارٹیز کے سامنے پیش کیا جائے کہ یہ عوام کا ترجمان ہے، اس کے پیچھے ہماری قوت ہے لہٰذا ٹکٹ اسی فرد کو دیا جائے۔
(۳) اتحاد ملت: مقامی پارٹیاں یہ دعویٰ کر رہی ہیں کہ% 25 مسلمانوں نے ہمیں ووٹ دیا ہے اور آئندہ بھی یہی متوقع ہے۔ یہ ایک پروپیگنڈہ ہے تاکہ فسطائیت کے خلاف ہماری متحدہ کو شش کو ناکام بنایا جاسکے۔ سبر منیم سوامی کی ایک ویڈیوگشت کر رہی ہے \’\’Unite Hindus, Divide Muslims\’\’۔یہ ان کے ’’بلند‘‘ عزائم کی عکا س ہے۔ مسلمانوں کے ان حلقہ انتخابات میں اور ان طبقوں میں خصوصی کوشش کرنے کی ضرورت ہے جہاں کچھ مفادپر ست قائدین اپنے مفاد کے لیے ملت کا سودا کرنے کو تیار ہیں۔ اس ضمن میں مندرجہ ذیل کام کئے جاسکتے ہیں:
2 امت کے متحدہ محاذ کی تشکیل ہو اور دیگر پارٹیوں کو یہ واضح پیغام ملے کہ ان کا ووٹ برائے فروخت نہیں ہے۔
2 کوشش ہوکہ غیرکانگریسی غیر فسطائی نمائندے جہاں ممکن ہوسکے کھڑے کئے جائیں۔
2 امت کے متحدہ پلیٹ فارمس سے بتا یا جائے کہ ووٹ دینا ایک امانت ہے، اس سلسلے میں مفتی محمد شفیع صاحب کا کتابچہ عام کیا جا نا چاہیے۔
2 سو شیل میڈیا کا بھر پور استعمال ہو۔