ترقی بنام سیاست

0

محمد سلیم انجینئر ،
سکریٹری جماعت اسلامی ہند
ہمارے ملک کو آزاد ہوئے ۶۶؍سال گزر چکے ہیں، بہت ہی قربانی اور عظیم جدوجہد کے بعد ہی یہ آزادی ہم کو حاصل ہوئی ہے۔ آزادی کے وقت ہم نے خواب دیکھا تھا کہ ایک ایسے ہندوستان کی تعمیر ہوگی جو ظلم وناانصافی سے آزاد ہوگا، غلامی کے تاریک زمانے میں انگریزوں نے ہمارے قدرتی وانسانی وسائل کا بری طرح سے استحصال کیا، اور سونے کی چڑیا کہے جانے والے اس ملک کے عام عوام ترقی تو دور کی بات بنیادی سہولیات سے بھی محروم رہے، اور ذہنی وجسمانی طور سے بھی مظلوم رہے۔ آزادی کے بعد ترقی کا پورا فائدہ ہندوستان کے تمام عوام کو مل سکے گا، اور اپنی ترقی کو منصوبہ بند کرنے میں ہم آزاد ہوں گے۔ ایسی ہماری امیدیں تھیں، لیکن ابھی ان امیدوں کو پورا ہونے میں عام عوام کو اور کتنا انتظار کرنا ہوگا، یہ اندازہ لگاپانا مشکل ہے۔
کچھ اچھے پہلو
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک میں قدرتی وسائل کے ساتھ ساتھ صلاحیتوں کی بھی کمی نہیں ہے، ہم نے کچھ میدانوں میں ترقی کی ہے، جس پر ہمیں فخر بھی ہونا چاہئے۔ سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں ہم نے ایک مقام حاصل کیا ہے، خلا میں ہم نے بہت بلندیاں حاصل کی ہیں، ایٹمی توانائی، اطلاعاتی انقلاب ، سبز انقلاب، ودیگر کامیابیاں، آزادی کے کچھ سالوں بعد ہی بڑے بڑے بجلی پلانٹ ، آبپاشی اور بجلی کے بڑے بڑے باندھوں کی تعمیر، کمپیوٹر سافٹ ویئر، اور آئی ٹی ہماری کامیابی کے کچھ اہم میدان ہیں۔ لیکن ایمانداری سے ہر پہلو کا جائزہ لیا جائے تو ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ جتنا ہم کرسکے ہیں وہ توقعات سے بہت کم ہے۔ اگر کسی انسان کا جسم غیرمتوازن اوربے لگام انداز سے بڑھے تو اس کا بہت زیادہ دیر تک زندہ رہنا اور دوسروں کے لیے سودمند ہونا ناممکن ہوگا۔
آج ہمارے ملک کی ترقی کو بھی کچھ اسی طرح کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے، جس ترقی کا زیادہ سے زیادہ فائدہ ان لوگوں تک پہنچتا ہو، جو پہلے سے خوشحال ہیں، اور وہ ملک کی آبادی کا محض بیس فیصد ہیں، اور اسی فیصد عام عوام جس سے محروم رہتی ہو، کچھ چنے ہوئے شہر یا قصبے ہی ترقی کی خوشبو محسوس کرتے ہوں، اور گاؤں میں بسنے والاحقیقی ہندوستان غریبی، مجبوری، اور محرومی کی چلچلاتی دھوپ میں جھلس رہا ہو، ایسی ترقی کو ہندوستان میں حقیقی ترقی کہا جاتا ہے۔
ہمارا ملک اس لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم ہے، اس بیس فیصد خوشحال لوگوں کی دنیا کو انڈیا کہا جاسکتا ہے، اور ترقی سے محروم اسی فیصد عوام ہی حقیقی بھارت ہیں۔ ان ۶۶؍سالوں میں انڈیا کی ہی بیشتر ترقی ہوئی ہے، اور بھارت محروم رہا ہے۔ انڈیا کی آسمان چھوتی عمارتیں بھارت کی جھگی جھونپڑیوں کا مذاق بناتی محسوس ہوتی ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ انڈیا اور بھارت کی یہ جنگ کسی بڑے مسئلہ کی صورت اختیار کرلے۔ اس سے پہلے ہی ہمیں ترقی کی اس غلط تعریف کو ٹھیک کرلینا چاہئے۔ اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ اس ترقی کا جو فائدہ عام بھارتی عوام یا مہاتما گاندھی کے الفاظ میں ’’آخری انسان‘‘ تک پہنچنا چاہئے تھا، ابھی تک نہیں پہنچا۔ ترقی کا نتیجہ آخری انسان تک کیسے پہنچے؟؟ یہ ہمارے ملک کی سرکاروں اور سیاسی رہنماؤں کے سامنے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ بلکہ یوں کہا جائے تو شائد زیادہ صحیح ہوگا کہ حقیقی ترقی کے راستے کی سب سے بڑی دشواری ہماری سیاست ، سیاسی رہنما، حکومتیں، اور ان کو چلانے والی افسر شاہی ہے۔
ترقی کی غلط تعریف
یہ ایک المیہ ہی ہے کہ ہماری حکومتوں ، سیاسی رہنماؤں اور عوامی نمائندگان کو ترقی کا خیال انتخابات کے قریب ہی آتا ہے، اور پھر وہ ترقی کا نعرہ انتخاب ہی تک محدود ہوکر رہ جاتا ہے۔ ایسے منصوبوں کو ترجیح ملتی ہے جو تشہیر کا ذریعہ بن سکیں، کچھ بڑے بڑے شہروں میں میٹرو ٹرینوں کی شروعات، کچھ شہروں کو ورلڈ کلاس سی ٹی بنانے کے اعلانات، منتخب شہروں میں بڑے بڑے فلائی اوورس، خوبصورت آسمان چھوتی عمارتیں، بڑے سپر مارکیٹ، ہمیں کسی ترقی یافتہ ملک میں ہونے کا تھوڑی دیر کے لیے احساس دلاتے ہیں۔ لیکن یہ احساس ایک حسین خواب کی مانند تب چور چور ہوجاتا ہے جب ہمارا گزر جھگی جھونپڑیوں سے ہوتا ہے، یا اس سے اور آگے بڑھ کر دیہی علاقوں سے ہوتا ہے۔ اس ترقی کا میں مخالف نہیں ہوں جو بیان کی گئی ہے، مگر ترقی غیرمتوازن ہو، تو اسے ترقی نہیں کہا جائے گا۔
سیاست، بدعنوانی اور ترقی
آزادی کے بعد بھی ایک نسل تک لوگ سیاست میں خدمت کے جذبے کے تحت آتے رہے اور ان کاسیاسی سفر بھی بے داغ رہا، لیکن یہ سلسلہ پندرہ بیس سال سے زیادہ جاری نہ رہ سکا۔ اب تو لوگ سیاست میں مستقبل (کریئر) سنوارنے کے لیے آتے ہیں۔ ایک لمبے عرصے سے وہ سیاست میں داخلے کے لیے منصوبے بناتے ہیں اور کاروبار کی طرح کروڑوں روپے انوسٹ کرتے ہیں، تاکہ اس سے اربوں کھربوں روپے کما سکیں، اور اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ کرسکیں۔ اس تفصیلی منصوبے کے ساتھ سیاست میں آنے والے عوامی نمائندے جب برسراقتدار ہوتے ہیں، تو ان کی ترقی کی تعریف بھی اسی منصوبے سے کنٹرول ہوتی ہے۔ ایسے ترقیاتی منصوبے ایسی جگہوں پر، ایسے اشخاص کے ذریعے روبہ عمل لائے جاتے ہیں جس سے عوامی نمائندے اپنے منصوبے کے مطابق بھارت کی غریب عوام کے پسینے کی کمائی سے جلد اپنی اور اپنے خاندان کی ترقی کرسکیں، ایسے میں گاؤں کی ترقی ، عام آدمی کو راحت، تعلیم وصحت کے شعبوں میں خرچ ترجیحات کے آخری پائیدان تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ سب صرف نعروں، شعلہ بیاں تقریروں، اور سیاسی منشور، اخباروں اور ٹی وی چینلوں کے اشتہارات ، سرکار کی رپورٹوں کے اعدادوشمار میں تو نظر آتا ہے، مگر اس کا اثر عام بھارتی عوام کی زندگی میں دھندلا سا بھی نظر نہیں آتا۔ عام شہری ہر بار ٹھگے جانے کے باوجود ہر پانچ سال کے بعد پھر آنکھیں پھاڑ کر ان سیاسی رہنماؤں کی جانب پُرامید نظروں سے دیکھتا ہے، اور ان کے وعدوں اور نعروں پر بھروسہ کرنے کے سوا، اس کے سامنے کوئی اور چارہ کار نہیں ہوتا۔ اس کیفیت کو کسی شاعر کے یہ مصرعے بیان کرتے ہیں ؂
وہ سلیقے سے جھوٹ بول رہا تھا
میں اعتبار نہ کرتا تو اور کیا کرتا
سیاست، تفریق، فرقہ واریت اور ترقی
سیاست میں اپنے چہیتوں کو، اپنے خاندان اور قبیلے کے لوگوں کو، اور اپنے علاقے کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانا، اور اپنے مخالفین یا دوسری ذات، یا دوسرے علاقے کے لوگوں کو نظرانداز کردینا، ترقی میں ان کو جائز حق نہ دینا، ایک عام بات ہے، اور اب تو لوگ اسے برا بھی نہیں سمجھتے، بلکہ اسی کو کامیاب سیاست کی علامت سمجھتے ہیں۔
اس تفریق سے بھی زیادہ خطرناک ہے فرقہ وارانہ تفریق۔ سیاست میں ایک بہت بڑا کنبہ ایک سیاسی پارٹی کے روپ میں ایسا بھی مجتمع ہوگیا ہے جو اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو دوئم درجہ کا شہری بنانا چاہتا ہے۔ ان کی مذہبی شناخت کو مٹانا چاہتا ہے۔ اگر وہ اپنے دم پر معاشی وتعلیمی ترقی کی کوششیں کریں، تو کبھی فسادات، حکومتی تحفظ میں فسادات کے نام پر قتل عام، فرضی انکاؤنٹر، اور دہشت گردی کے واقعات کے ذریعے پڑھے لکھے نوجوانوں کے درمیان خوف کا ماحول پیدا کرکے پورے معاشرے کو بدنام وخوفزدہ کیا جارہا ہے۔ اپنی آبادی کے چھٹے حصے کو بدنام اور خوفزدہ کرکے، انہیں ترقی میں شمولیت کی راہ سے الگ کرکے کسی بھی ملک کی متوازن ترقی کیسے ممکن ہوسکتی ہے؟!فرقہ وارانہ ذہنیت اور مخصوص طبقے سے نفرت کرنے والے سیاسی رہنما جب برسراقتدار ہوں گے، منصوبے بنائیں گے، یا اس ذہنیت کے افسران ان منصوبوں کا نفاذ کریں گے تو نتیجے اسی طرح سامنے آئیں گے، جس طرح آج آرہے ہیں۔ آزادی کے ساٹھ سال بعد جب سچر کمیٹی نے مسلمانوں کی تعلیمی ومعاشی صورتحال کا جائزہ لیا، تو معلوم ہوا کہ ساٹھ سالوں میں وہ مسلم طبقہ جس کی آزادی کے وقت ہر میدان میں بہترین نمائندگی تھی،آج دلتوں سے بھی نیچے آگیا ہے۔ آزادی کے بعد ہوئے ۳۵؍ہزار سے بھی زیادہ مسلم مخالف فسادات میں ہونے والے جان ومال کے نقصانات کا اندازہ لگاپانا بہت مشکل ہے۔ اگر یہ فسادات نہ ہونے دیئے جاتے تو مسلم طبقہ اپنے بوتے ترقی کے پائیدان پر بہت اوپر ہوتا، اور ملک بھی ترقی کے راستے پر بہت آگے بڑھ گیا ہوتا۔
سرمایہ داروں اور مافیاؤں کا مسئلہ
آج کی سیاست میں دولت کا استعمال جس کثرت سے ہونے لگا ہے، سیاست اور جمہوریت دولت مندوں کے غلام بن گئے ہیں، سرمایہ دار ہر پارٹی کو بڑی بڑی رقم بطور چندہ دیتے ہیں، حکومت کسی بھی پارٹی کی بنے، ان کے پیسے سے جیتنے والے نمائندے قانون ساز اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں پہنچتے ہیں، جو ان سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچانے والی پالیسیاں ترتیب دیتے ہیں اور بہت سے ترقیاتی منصوبے انہیں کے ذریعے نافذ کرواکر قومی وسائل کا استحصال کراتے ہیں۔ شراب اور زمین مافیا اپنے من مطابق پالیسیاں بنواتے ہیں اور سیاسی پارٹیاں انتخابات میں ان کی دولت کو کالی کمائی کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ اب تو مافیاؤں کے لیے نئے نئے میدانوں میں مواقع فراہم کرائے جارہے ہیں، ایسا ہی ایک اہم میدان ہے تعلیم۔ مافیاؤں نے اس میدان پر قبضہ کرکے اسے کاروبار بنالیا ہے۔ انجینئرنگ اور میڈیکل کی تعلیم میں لاکھوں روپے بطور ڈونیشن وصول کیے جارہے ہیں اور میڈیکل میں تو یہ وصولی کروڑوں میں پہنچ گئی ہے۔ پرائیویٹ کالجوں کی فصل سی اُگ گئی ہے، اور سیاسی پارٹیاں وسرکاریں ان کے چندے کھاکر ان کے مفادات کا تحفظ کرنے پر مجبور ہیں۔ ترقی کے نام پر پرائیویٹائزیشن کو فروغ دیا جاتا ہے۔ SEZ جیسے منصوبوں میں دیہی علاقوں کے کسانوں سے سستی زمینیں لے کر بڑی کمپنیوں کو بہت سی رعایتوں کے ساتھ دے کر عام شہریوں کا دوہرا استحصال کیا جارہا ہے۔
تعلیم وصحت میں ناکافی بجٹ
ہم ترقی یافتہ اور دیگر ترقی پذیر ممالک کی تعلیم وصحت کے بجٹ کے تناسب کو اپنے ملک کے بجٹ سے موازنہ کرنے کی کوشش کریں تو صاف نظر آتا ہے کہ جو تعلیم اور صحت ترقی کی بنیاد ہیں، اس کا ہمارے بجٹ میں انتہائی کم حصہ مختص کیا گیا ہے۔ ترقی کے لیے ضروری ہے کہ اعلی تعلیم اور تحقیق پر ہمارے بجٹ میں اخراجات کا تناسب بڑھنا چاہئے۔ تعلیم اور صحت حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے، یہ ہر شہری کو مساوی طور پر مفت ملنی چاہئے۔
کیا کریں؟
یہ صورتحال ہمیں سوچنے پر مجبور کررہی ہے کہ اس سیاست اور جمہوریت کو سرمایہ داروں کی غلامی سے جب تک آزاد نہیں کرایا جائے گا، اقدار پر مبنی سیاست کے لیے جب تک راستہ ہموار نہیں کیا جائے گا، تب تک عام بھارتی عوام کا حقیقی ترقی کا خواب کبھی پورا نہیں ہوسکے گا، ہم سب کو اپنی استطاعت کے مطابق ایک بہتر سمت میں ملک اور سماج کو لے جانے کی کوشش کرنی چاہئے، اس میں وقت تو ضرور لگے گا، لیکن ایک نہ ایک دن ملک کو اقدار پر مبنی سیاست کی جانب پلٹنا ہی ہوگا۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights