امام ابو حنیفہ (گذشتہ سے پیوستہ)

ایڈمن

امام ابو حنیفہ (قسط اول) زکریہ اِس سب کے باوجود بھی تکمیل سند کیلئے حرمین کا رُخ کرنا ضروری تھا۔ چنانچہ اب اَمام نے حرمین کا قصد کیا۔ مکہ معظمہ میں عطابن ابی ربع کا حلقہ درس سب سے زیادہ…

امام ابو حنیفہ (قسط اول)

زکریہ

اِس سب کے باوجود بھی تکمیل سند کیلئے حرمین کا رُخ کرنا ضروری تھا۔ چنانچہ اب اَمام نے حرمین کا قصد کیا۔ مکہ معظمہ میں عطابن ابی ربع کا حلقہ درس سب سے زیادہ وسیع تھا اور بڑے رتبہ کے محدث تھے۔ امام جب اُن کے حلقہ درس میں شامل ہوتے تو وہ اوروں کو ہٹا کر انھیں اپنے پہلو میں جگہ دیتے اور ان کی ذہانت اور فہم کی خوب تعریف کرتے۔ اسی طرح امام نے مدینہ کے مدرسین سے بھی استفادہ کیا اور امام مالکؒ کے حلقہ درس میں بھی آپ شامل ہوئے۔ آپ امام مالکؒ سے عمر میں ۱۳؍ سال بڑے ہونے کے باوجود بھی اس طرح مودبانہ تشریف رکھتے جیسے کوئی طالب علم اپنے اُستاد کے سامنے بیٹھا ہو اور بالکل اسی طرح امام مالک امام ابو حنیفہؒ کا حد درجہ ادب و احترام کرتے تھے۔ ایک دفعہ امام مالکؒ اپنے دوست عبداللہ بن المبارک کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک بزرگ تشریف لائے۔ امام مالکؒ نے ان کا نہایت ادب و احترام کیا اور اپنے پاس بٹھایا۔ ان کے جانے کے بعد اپنے دوست سے کہا جانتے ہو یہ کون ہے؟ یہ ابو حنیفہؒ عراقی ہیں کہ اگر اس ستون کو سونے کا ثابت کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔ اور اسی طرح بہت سے محدثین ، مدرسین اور فقیہ سے امام ابو حنیفہؒ نے علم کا ایک بسیط خزانہ اپنے اندر جمع کرلیا۔

لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ امام اعظمؒ کی شخصیت جب بھی ہمارے سامنے آتی ہے وہ شخصیت کے اصل پہلوئوں سے ہٹ کر بالکل غیر اہم پہلوئوں سے ہمارے سامنے آتی ہے اور زیادہ تر مسلکی اختلافات کے حوالے سے آتی ہےیا پھر یہ کہ امام نے ۳۰ سال مسلسل روزے رکھے، چالیس سال عشاء کے وضو پر فجر کی نماز پڑھی وغیرہ وغیرہ اور جو کہ حقیقی معنوں میں امام سے ثابت بھی نہیں۔ لیکن ان سب سے بہت آگے امام کی شخصیت میں اور بہت کچھ ہے جو امامؒ کی اصل شخصیت ہے۔ امام اخلاقی اعتبار سے نہایت اعلیٰ درجہ پر فائز تھے۔ اکثر چپ رہا کرتے جب بھی کسی کا ذکر کرتے بھلائی کے ساتھ کرتے، نہایت فیاض اور سخی تھے کسی کے سامنے اپنی حاجت نہ لے جاتے اور آپ خود بھی بہت رئیس تھے اور اپنی اِس دولت سے کئی طلبہ کی کفالت کرتے کہ وہ اطمینان سے علم حاصل کرپائیں۔ آپ انتہا درجہ کے بے نیاز انسان تھے۔ اس زمانے میں رواج تھا کہ حاکم وقت علمائِ دین کو ہدیوں سے نوازتے تھے لیکن امام ابو حنیفہؒ نے کبھی کسی کا کوئی ہدیہ بھی قبول نہیں کیا کہ آپ خود بھی بہت امیر تھے، لیکن اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ یہ چیز حق گوئی و بے باکی میں مانع ہوئی تھی۔ آپ چونکہ دنیاوی شہرت سے نفرت کرتے تھے لیکن آپ کے زہد و تقویٰ ، فیاضی و سخاوت کے چرچے دور دور تھے۔ حکومت کی طرف سے کئی دفعہ آپ کو قاضی القضاء Cheif Justice کا عہدہ پیش کیا گیا لیکن آپ نے ہر دفعہ انکار کیا کہ قاضی کے فیصلوں میں حکومت کا دبائو ہوتا تھا جو حق کے خلاف ہے۔ آپ کا سلسلہ درس نہایت ہی وسیع تھا۔ اسپین کے علاوہ ممالکِ اسلامیہ میں کوئی ملک ایسا باقی نہ تھا جو آپ کی شاگردی کے تعلق سے چھوٹ گیا ہو۔

اِمام کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ آپ کے زمانے میں کثرت سے حدیثوں کا روایت کرنا بہت عام ہوچکا تھا۔ اور ہر کوئی حدیثیں روایت کرتا پھرتا تھا۔ جس میں بہت سے غلط اور وضع کی گئی احادیث صحیح احادیث کے ساتھ شامل ہوگئیں۔ امام نے حدیث کے روایت کرنے کے سلسلے میں ایسے اصول وضع کئے کہ جس کے سبب صحیح اور غلط احادیث کی پہچان آسانی سے ہونے لگی۔ آپ فقہ حنفی کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔ اور آپ نے زندگی میں پیش آنے والے اکثر مسائل کو اُٹھا اُٹھا کر اس پر بحث کی اور اس کا فقہی حل ڈھونڈ نکالا اور ان اُصولوں پر دنیا کی ایک بڑی تعداد آج بھی عمل کرتی ہے۔ خود وطن عزیز میں اور عالم اسلام میں سب سے بڑی تعداد فقہ حنفی پر عمل کرنے والوں کی ہے۔ امام صاحب کی چند مختصر سی تصنیفات بھی ہیں۔ فقہ اکبر ، العالم والمستعلم اور مسند یہ سب عقائد اور سوالات پر مبنی مختصر سے رسالے ہیں۔ امام صاحب کے بعد اِمام کے کام سب سے زیادہ آگے بڑھانے والے امام کے قابل شاگرد ’’امام ابو یوسف،، ہیں۔ انھوں نے فقہ حنفی پر منظم کتابیں مرتب کیں اور اسی کے سبب فقہ حنفی کی تعلیمات آج ہم تک پہنچی ہیں۔ امام ابو یوسف نے امام ابو حنیفہؒ سے اس وقت تعلیم حاصل کی کہ جب امام قید و بند کی تکلیفیں جھیل رہے تھے۔

ایک دفعہ خلیفہ المنصور نے امام کو دربار میں پیش ہونے کا حکم دیا اور انھیں عہدہ قضاء کی پیش کش کی۔ امام نے صاف انکار کیا تو اُس نے زور و زبردستی کی ۔ امام صاحب نے بھی قسم کھالی کہ وہ بالکل یہ عہدہ قبول نہیں کریں گے جس کی پاداش میں منصور نے انھیں قید میں ڈلوادیا۔ اس کے باوجود بھی امام صاحب کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ امام سے ملاقات کیلئے عوام کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ اور جیل میں بھی امام کی تعلیمی و تدریسی مشغولیات میں کوئی کمی نہیں آئی۔ بلکہ ایک وسیع حلقہ درس قائم کیا اور امام ابو یوسف نے بھی یہیں تعلیم حاصل کی۔ یہ سب دیکھ کر منصور اور زیادہ خوف زدہ ہونے لگا اور اسے اپنی حکومت کے سلسلے میں خطرہ محسوس ہونے لگا۔ لہٰذا منصور نے انھیں بے خبری میں زہر دلوادیا۔ جب امام کو زہر کا اثر محسوس ہوا تو سجدہ کیا اور اسی حالت میں قضاء کی۔ ان کے مرنے کی خبر نہایت جلد تمام شہر میں پھیل گئی اور سارا بغداد امڈ آیا۔ حسن بن امارہ قاضیٔ شہر تھے غسل دیا۔ نہلاتے جاتے اور کہتے تھے ’’واللہ تم سب سے بڑے فقیہ ، بڑے عابد ، بڑے زاہد تھے۔ تم میں تمام خوبیاں جمع تھیں۔ تم نے اپنے جانشینوں کو مایوس کردیا کہ وہ تمہارے مرتبے کو پہنچ سکیں۔ غسل سے فارغ ہوتے ہوتے لوگوں کی یہ کثرت ہوئی کہ پہلی بار نمازِ جنازہ میں کم و بیش پچاس ہزار کا مجمع تھا۔ اِس پر بھی آنے والوں کا سلسلہ قائم تھا۔ یہاں تک کہ چھ بار نمازِ جنازہ پڑھی گئی اور عصر کے قریب جا کر تدفین ممکن ہوسکی۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں