درس گاہوں میں نفرت

0

شبیع الزماں (پونہ)

 ہندوستان میں فرقہ پرستی اور نفرت نے اب سیاست سے باہر نکل سماج کو زہر آلود کر دیا ہے۔ اس کے اثرات سے اب اسکول اور کالیجیز بھی نہیں بچ پائے ہیں۔ تعلیم گاہوں کا مقصد سماج کو اچھے انسان مہیا کرنا ہے لیکن اب یہ تعلیم گاہیں نفرت کی درس گاہیں بن گئ ہیں۔ ہندوستان بھر میں غیر مسلم اکثریت والی اسکولوں میں پڑھ رہے مسلم طلباء نفرت اور تعصب کا شکار ہیں۔ ان اسکولوں میں مسلم بچوں پر اسلام اور مسلمانوں سے متعلق زہر آلود فقرے کسے جاتے ہیں اور انھیں مستقل ٹارگیٹ کیا جاتا ہے۔ مسلم اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے طلباء کو جس قدر اپنے دین اور تہذیب سے لگاؤ ہوتا ہے اس کی بہ نسبت غیر مسلم اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے زیادہ تر اپنی تہذیب سے بیزار اور دین سے بیگانے ہوتے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ وہ تعلیم گاہیں ہیں جہاں انھیں مستقل دین اور تہذیب کے حوالے سے ذہنی ٹارچر کیا جاتا ہے۔

دہلی کے رہنی والی نازیہ ارم نے اس عنوان پر ریسرچ کرکے اپنی تحقیق کو کتاب mothering a muslim میں شائع کیا ہے۔

  اس کتاب کے مطابق ہندوستان میں بڑھنے والے اسلاموفوبیا کی وجہ سے اسکولوں میں بچوں کو ان کے مذہب کی وجہ سے زیادتی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔مصنفہ نازیہ ارم اس کتاب کو لکھنے کے لیے ملک کے بارہ شہروں میں گئیں جہاں انہوں نے 150 خاندانوں سے ملاقات کی۔ اس کے علاوہ انہوں نے دہلی کے 25 بڑے سکولوں میں پڑھنے والے 100بچوں سے بات کی۔

 نازیہ ارم لکھتی ہیں ‘اپنی ریسرچ کے دوران میں حیران رہ گئی۔ میں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ ان بڑے بڑے اسکولوں میں ایسا ہو رہا ہوگا۔جب پانچ اور چھ برس کے بچے کہتے ہیں کہ انہیں پاکستانی یا شدت پسند کہا جا رہا ہے تو آپ کیا جواب دیں گے؟ آپ اسکولوں سے کیا شکایت کریں گے ”

نازیہ ارم نے اپنی کتاب کے لیے جن بچوں سے بات کی انھوں نے بتایا کہ ان سے کون کون سے سوالات کیے جاتے ہیں۔اور کس کس طرح کے طنز کیے جاتے ہیں

کیا تم مسلمان ہو؟

 کیا تمہارے پاپا گھر پر بم بناتے ہیں؟

کیا تمہارے پاپا طالبان ہیں؟

ایک لڑکی سے سوال کیا جاتا ہے کیا تم نہاتے وقت بھی اسکارف پہنتی ہو ۔

سب سے زیادہ عام سوال جو ہر طالب علم سے کیا گیا

کیا تم پاکستانی ہو؟

ایک مسلم فوجی جس نے اپنی جان دیش کے لیے بارڈر پر لڑتے ہوئی دی اس کی بیٹی سے سوال کیا جاتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے میچ میں تم کس کو سپورٹ کروگی ۔

  نازیہ ارم اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ ‘کھیل کے میدان، کلاس اور اسکول بس تک میں مسلمان بچوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اسے دوسرے بچوں سے الگ تھلگ کر دیا جاتا ہے۔ اسے پاکستانی، آئی ایس، بغدادی اور شدت پسند کہہ کر بلایا جاتا ہے۔‘

اپنی کتاب میں انھوں نے کچھ بچوں کی زبان سے بتائی گئی باتیں لکھی ہیں۔

•ایک پانچ سال کی بچی اس بات سے خوفزدہ ہے کہ مسلمان آ رہے ہیں اور وہ اسے مار ڈالیں گے۔ اسے یہ نہیں معلوم کہ وہ خود ایک مسلمان ہے۔

•ایک دس سال کے بچے کو اس وقت بہت شرمندگی محسوس ہوئی اور غصہ آیا جب یورپ میں شدت پسند حملے کے بعد سکول میں ایک بچے نے اس سے پوچھا کہ یہ تم نے کیا کیا۔

•ایک 17 سال کے لڑکے کو سکول میں شدت پسند کہا گیا۔ جب اس کی ماں نے ایسا کہنے والے بچے کی ماں سے رابطہ کیا تو اس کی ماں نے جواب میں کہا کہ تمہارے بیٹے نے میرے بیٹے کو موٹا کہا تھا”

 یہ سروے اپر مڈل کلاس مسلمانوں پر کیا گیا ہے جنکی مالی حالت اچھی ہے اور جن کے بچے اچھی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور جو بڑی سوسائٹیز میں رہتے ہیں ۔دوسری بات ان کی اکثریت لبرل اور سیکولر خیالات رکھنے والوں کی ہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا کہ تعلیم یافتہ سماج میں نفرت کا یہ حال تو کم پڑھے لکھے اور عام عوام کا کیا عالم ہوگا۔ دوسری اور اہم بات یہ اسکولس کے یہ بچے ہندوستان کی آنے والی نسلیں ہیں اگر ابھی سے انکے ذہن اتنے زہر آلود ہونگے تو ہندوستان کا مستقبل کیا ہوگا۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights