اقلیتوں کے استحصال کے خلاف قانون کی ضرورت

ایڈمن

(ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی (اے پی سی آر)            اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل کی چیف مائیکل بیچلیٹ نے جنیوا میں حقوق انسانی پر اپنی سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے ہندوستان میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ اور مدتوں سے…

(ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی (اے پی سی آر)

            اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل کی چیف مائیکل بیچلیٹ نے جنیوا میں حقوق انسانی پر اپنی سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے ہندوستان میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ اور مدتوں سے استحصال کا شکار دلتوں و قبائلیوں کے ساتھ تیزی سے بڑھتے ہوئے استحصال اور ظلم و زیادتی کے واقعات پر ہندوستانی حکومت کے سلسلہ میں تشویش ظاہر کرتے ہوئے ایک بار پھر اس بحث کو ازسر نو زندہ کردیا کہ کیا ہندوستان میں اقلیتوں خصوصاً مسلم سماج کے خلاف ظلم و زیادتی اور استحصال کے بڑھتے ہوئے واقعات پر قدغن لگانے کے لیے کسی مخصوص قانون کی ضرورت ہے؟

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ”فرقہ وارانہ پالیسیوں اور تنگ سیاسی ایجنڈوں کی وجہ سے پہلے سے ہی غیر مساوی سماج کے کمزور طبقات مزید درکنار کیے جارہے ہیں“۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستانی سماج صدیوں سے فرقہ واریت کا شکار رہا ہے، چاہے وہ فرقہ واریت ذات پات کی بنیاد پر رہی ہو یا مذہب اور رنگ و نسل کی بنیاد رہی ہو۔ آزادی کے بعد ایک عوامی وجمہوری دستور اور دستوری حکومت کی بنیاد رکھی گئی۔ اس دستور کے بنیادی مقاصد میں یہ بات شامل تھی کہ صدیوں سے جس طرح پورا سماج مختلف غیر مساوی درجات میں منقسم ہے اس کو ایک مساوی سماجی دھارے سے جوڑا جائے، جہاں ہر ایک کو مساوی مواقع حاصل ہوں، ایک ایسا سماج تشکیل دیا جائے جہاں حکومتی پالیسیاں سماج کے پسماندہ طبقات کی فلاح و بہبود نیز ان کی آزادی اور تحفظ کو پیش نظر رکھ کر بنائی جائیں، تاہم حکومتیں اور ان کی پالیسیاں روز اوّل سے ہی ناکام رہیں، جس کی وجہ شاید سماج کی صدیوں پرانی وہ ذہنیت تھی جو نئے دستور کے ساتھ بدل نہیں سکی اور اسی ذہنیت کے افراد حکومت کی باگ ڈور سنبھالتے چلے آئے۔

            ہندوستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اتنے مختلف النوع مذاہب، زبانیں، تہذیبیں، نسلیں اور ذات پات کے نظام پائے جاتے ہیں، بلکہ ہر مذہب میں مختلف و متنوع رسوم و رواج اور خیالات موجود ہیں۔ ہندو اکثریتی ملک میں ایک طویل مدت تک مسلم حکومت ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے اقلیت میں ہونے کے باوجود شدت پسند ہندو تنظیموں اور جماعتوں نے مسلم اقلیت کو اکثریت کے سامنے ایک دشمن کی حیثیت سے پیش کیا، چنانچہ مسلم اقلیت کو ایک سیاسی حریف یا دشمن کے طور پر پیش کرکے سیاست کا ایک حربہ اختیار کیا گیا نیز منظم انداز سے اس قوم کو تعصب کا شکار بھی بنایا گیا، استحصال کی اہم صورت تعصب یا امتیازی سلوک کا شکار ہونابھی ہے، حالیہ دنوں میں کئی سینئر پولیس افسران کا یہ دعوی رہا ہے کہ ان کے مسلم یا دلت ہونے کی وجہ سے ان کو تعصب کا شکار بنایا گیا ہے۔

            دلتوں کی سماجی پسماندگی کو دیکھتے ہوئے اور بی آر امبیڈکر کی ایک منظم کوشش کے تحت دلتوں کو تو دستور نے خصوصی مراعات فراہم کردیں تاہم مسلم و عیسائی اقلیتوں کی ناکام قیادت کی وجہ سے 1950 میں اسی وقت یہ اقلیتیں حکومت کے تعصب کا شکار ہوگئی تھیں، جب صدارتی آرڈر کے ذریعے مسلم و عیسائی دلتوں کو ریزرویشن سے باہر کردیا گیا تھا، یعنی ایک دلت جو صدیوں سے استحصال کا شکار رہا جب تک ہندو مذہب کا ماننے والا ہوگا اس کو ریزرویشن کی مراعات ملیں گی، لیکن اگر وہی شخص جس کو پسماندگی کی وجہ سے مراعات ملی تھیں وہ عیسائی یا مسلمان ہوجاتا ہے تو اس کو حاصل ہونے والی تمام ترمراعات مذہب کی بنیاد پر چھین لی جائیں گی۔ یعنی اس کے ساتھ مذہب کے نام پر کھلے طور پر تعصب یا تفریق کا رویہ اختیار کیا گیا۔ 

            فرقہ وارانہ تشدد اور فسادات کے واقعات ہندوستان کے لیے ہرگز نئے نہیں ہیں تاہم گزشتہ برسوں میں خصوصاً موجودہ حکومت میں جس طرح کا خوف و دہشت کا ماحول ہم دیکھ رہے ہیں اس سے پہلے کبھی ایسا ماحول نہیں دیکھا گیا۔ مسلم قوم کے خلاف فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات1947میں ملک کی تقسیم کے موقع پر ہوئے جو 1980اور1990کی دہائیوں میں مزید بڑھے، جس کی ایک بڑی وجہ بابری مسجد اور رام مندر کا تنازعہ بھی تھا، شدت پسند ہندو تنظیموں کامقصد اگر سیاسی طاقت حاصل کرنا تھا تو برسراقتدار سیاسی جماعت کے نرم رویہ اختیار کرنے کے پیچھے اکثریتی طبقات کی ناراضگی سے بچنے کی کوشش تھی۔

             دوسری طرف دیگر اقلیتیں مثلا عیسائی بھی فرقہ وارانہ تشدد کا شکار ہوتے رہے، ان کے اوپر الزام لگا کہ وہ اپنے وسائل کے ذریعہ صدیوں سے ظلم و زیادتی کے شکار پسماندہ دلتوں و قبائلیوں کے مذہب کو تبدیل کرانے کی کوشش کررہے ہیں، عیسائی پادریوں پر حملے ہوں یا چرچ اور اس کی مذہبی سرگرمیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعات ہوں، یہ نہ تو نئے ہیں اور نہ ہی اس میں کوئی کمی آئی ہے، بلکہ تبدیلی ئ مذہب کی روک تھام کے نام پر کئی اسٹیٹ میں نئے قوانین بناکر مذہب کی تبلیغ و تشہیر کی دستوری آزادی پر نہ صرف پابندی عائد کرنے کی کوشش جارہی ہے بلکہ عیسائیوں اور ان کے مذہبی مقامات و سرگرمیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعات بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔

            اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ملک میں اقلیتی طبقات کے استحصال کی تاریخ ایک طویل عرصے پر محیط ہے، یہ استحصال صرف اکثریتی طبقے سے تعلق رکھنے والی شدت پسند سیاسی جماعتوں یا اداروں کے ذریعے ہی نہیں بلکہ حکومت و حکومتی اداروں میں بیٹھے ہوئے اقلیتی طبقات سے نفرت کرنے والے عناصر کے ذریعے زیادہ منظم انداز میں کی گئی ہے، جنہوں نے نہ صرف استحصال کیا ہے بلکہ استحصال کرنے والی جماعتوں اور افراد کی سرپرستی و پشت پناہی بھی کی ہے، اس کا اعتراف یکے بعد دیگرے نہ صرف بے شمار کمیشن کی رپورٹوں میں کیا گیا ہے بلکہ مختلف صوبوں کی ہائی کورٹ کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ نے بھی اپنے فیصلوں میں کیا ہے۔

            ملک میں اقلیتوں کے استحصال کے اکثر و بیشتر واقعات کے پس منظر میں سیاسی فوائد یا سیاسی حربے کارفرما ہوتے ہیں، یعنی اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اقلیات کو نشانہ بناکر سیاست کی جاتی ہے، پھر آخرمیں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا سیاست یا الیکشن میں سیاسی فوائد کے لیے مذہبی جذبات کے استحصال کی روک تھام کے لیے کوئی کوشش ہوئی؟

ہمارے آزاد ملک میں عام انتخابات پہلی بار 1591 میں ہوئے اور ان انتخابات سے پہلے رپریزینٹیشن آف پیوپلس ایکٹ (1951)کا قانون بنا جس کی دفعہ123/اور اس کی ذیلی شقات میں صاف طور پر یہ درج کیا گیا کہ ”کسی بھی امیدوار یا اس سے منسلک کسی بھی شخص کے ذریعے مذہب، نسل، ذات، قوم یا زبان یا اس سے متعلق کسی بھی نشان، قومی جھنڈے یا کسی بھی طرح کے نفرت آمیز خیالات و جذبات کو بھڑکا کر مختلف طبقات کے درمیان مذہب، نسل، ذات، قوم یا زبان وغیرہ کی بنیاد پر ووٹ لینے کی کوشش کو کرپٹ پریکٹس تسلیم کیا جائے گا“۔ لیکن افسوس کہ آج کا پورا سیاسی نظام اور اس کی سرگرمیاں نیز میڈیا کے تمام ذرائع اور ان کی صورتحال ہمارے سامنے ہے، جن کو نہ تو سماجی بھائی چارے کی فکر ہے اور نہ ہی قانون و عدلیہ کا خوف۔

دستور میں اقلیتی طبقات کے مذہبی حقوق سے متعلق اہم آرٹیکل 14, 15،16،21،25،26، 27،28،29،30 کے علاوہ انڈین پینل کوڈ کی دفعات 1531(اے)، 2955(اے) اور296کے علاوہ کرمنل پروسیجر کوڈ میں بھی اہم دفعات موجود ہیں جن کے تحت اقلیتوں کے مذہبی حقوق کا تحفظ نیز کسی قسم کے استحصال کی صورت میں ان کا بحسن وخوبی بچاؤ کرسکیں، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوسکتا کہ فرقہ وارانہ تشدد یا اقلیتی طبقات کے استحصال اور ان کے ساتھ ہر طرح کے تعصب کا سامنا کرنے کے لیے ایک منظم و مخصوص قانون کی اشد ضرورت نہیں ہے۔

ہمیں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جن مسائل کا ہم تذکرہ کررہے ہیں یہ ایک سماجی مسئلہ اور جرم کی حیثیت رکھتے ہیں، جبکہ کسی بھی جرم یا کرائم کی صورت میں ہمارے دستور و قوانین نے کرمنل جسٹس سسٹم بنایا ہے۔ کرمنل جسٹس سسٹم کو حرکت میں لانے کی چابی یا بٹن کا نام ایف آئی آر ہے، اب تک کہ تقریباًتمام ہی تحقیقات اور رپورٹ میں جو ایک چیز عمومی ہے وہ ہے پولیس کے ذریعے اقلیتی طبقے کی طرف سے ایف آئی آر درج کرنے میں مجرمانہ حد تک ٹال مٹول اور تاخیر، بلکہ بے شمار معاملات میں جھوٹی اور غلط ایف آئی آر جس کا سیدھا فائدہ ملزمین و مجرمین کو حاصل ہوتا ہے۔ ستم بالائے ستم جب متأثرہ افراد ایف آئی آر درج کرانے کے لیے عدالت کا رخ کرتے ہیں تو وہاں بھی تاخیر تادم اخیر ہوتی ہے۔

            پولیس کا کام کیس کی ایماندارانہ تفتیش اور جانچ کرنا ہوتا ہے، تاہم یہ ایک معمہ ہے کہ جرائم اگر اقلیت کے خلاف سرزد ہوئے جس کے پس پشت سیاسی مقاصد ہوں تو صاف شفاف جانچ دور کی بات ہماری اعلی عدالتوں کی فائنڈنگ ہے کہ پولیس پشت پناہی کرتے ہوئے مجرمین کو بچانے کی حتی المقدور کوشش کرتی ہے۔

نظام عدلیہ کا قیام امن و انصاف کا قیام یقینی بنانے کی غرض و غایت سے ہوا، انصاف کا نظام پائیدار بنانے کے کچھ بنیادی اصول ہیں جن میں اہم ترین اصول یہ ہیں کہ متأثر شخص کی حفاظت یقینی بنائی جائے، کرمنل مقدمات کی روح ان مقدمات کے گواہ ہوتے ہیں جن کی حفاظت انصاف کی حفاظت کے مانند ہے، مقدمات میں تاخیر کا مطلب انصاف دینے سے انکار کے مترادف تسلیم کیا جاتا ہے۔

            اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک میں اقلیتی طبقات کی موجودہ صورتحال تشویشناک ہے، اقلیتی طبقات کے ساتھ حکومت اور حکومتی اداروں کا رویہ نیز ان کی پالیسیاں افسوسناک ہیں، کرمنل جسٹس سسٹم کے سبھی ادارے بشمول پولیس نظام و نظام عدلیہ نیز کروڑوں مقدمات کی موجودہ صورتحال حیرتناک ہے، کسی بھی طرح کی کوئی جوابدہی کا نظام یا اس کی شکل موجود نہیں، تاہم اقلیتی طبقات خصوصاً مسلم طبقہ اور اس کی سیاسی قیادت کی روِش اور اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار سب سے زیادہ ہیبت ناک ہے۔ ہمارے ملک میں مسئلہ قوانین یا دستورکا نہیں بلکہ ان کے نفاذ اور نفاذ میں شہریوں کی کسی طرح کی حصہ داری کے لیے سنجیدگی کا نہ ہونا مسئلہ ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف حکومتیں بلکہ ان کے ذیلی ادارے اپنی دستوری ذمہ داریوں سے مجرمانہ خلاف ورزیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

ABUBAKR SABBAQ

National Coordinator,

Asssociation for Protection of  Civil Rights (APCR).

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں