ادب کا تعمیری و کلی نقطۂ نظر

ایڈمن

پروفیسر احمد سجاد پچھلی تین صدیوں میں مغرب نے اپنی مادی و عسکری ترقی اور معاشی و سیاسی برتری کی بدولت جہاں دنیا کو بہت کچھ دیا وہیں اس کی بہت سی بیش قیمت متاع کو چھین بھی لیا۔جس کا…

پروفیسر احمد سجاد

پچھلی تین صدیوں میں مغرب نے اپنی مادی و عسکری ترقی اور معاشی و سیاسی برتری کی بدولت جہاں دنیا کو بہت کچھ دیا وہیں اس کی بہت سی بیش قیمت متاع کو چھین بھی لیا۔جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ آج دنیا کا جو ملک جتنا زیادہ ’’ترقی یافتہ‘‘ ہے اتنا ہی زیادہ ظلم و جبر، استحصال اور قتل و غارتگری کا سبب بھی ہے۔ مغربی فکر و نظر کا بنیادی نقص مادہ پرستی کے نتیجے میں اس کی جزو پرستی ہے۔پچھلی دو صدیوں میں ان’’شکستہ بتوں‘‘ کے عجائب خانہ میں اگر جھانکیں تو ہمیں ڈارون کی ارتقائیت، میکیاویلی کی وطنیت، کارل مارکس کی اشتراکیت، فرائیڈ کی جنسیت، ایڈلر کی لاشعوریت،ینگ کی اساطیریت اور ژاں پال سارترے کی وجودیت وغیرہ کی لاشوں کے ڈھیر نظر آئیں گے۔

؎ وہ حکمت ناز تھا جس پر خرد مندان مغرب کو
ہوس کے پنجۂ خونیں میں تیغ کارزاری ہے

انہیں دو تین صدیوں میں مغرب نے اپنی عسکری قوت، تکنیکی ترقی، معاشی خوشحالی اور سیاسی پروپیگنڈے کے ذریعہ مشرق بلکہ تقریباً پوری دنیا کو اپنا یرغمال اور غلام بنا لیا، اس لیے مشرق کے بعض ادیب و دانشور بھی ان سے مرعوب و متاثر ہوئے بغیر نہ رہے۔چنانچہ مشرقی ادبیات بشمول اردو میں بھی جزو پرستانہ ادبی نظریات کی ایک وبا چل پڑی مثلاً ادب برائے ادبیت، ترقی پسندیت، جدیدیت، لسانیت، تکثیریت اور اب تازہ ترین نجاتیت(بنام: آزادی، خود مختاری و کشادگی)ان میں آخرالذکر کو بسا غنیمت کہا جاسکتا ہے کہ اس میں حق تک پہنچ کے ،حصول نجات کی جستجو پائی جاتی ہے۔

؎ تازہ پھر دانش حاضر نے کیا سحر قدیم
گذر اس عہد میں ممکن نہیں بے چوب کلیم

اس صورت حال نے زندگی و ادب کے تعمیری یا کلی نقطۂ نظر کو وقتی طور پر بڑا نقصان پہنچایا۔ انسانی تاریخ از آدم تا ایندم گواہ ہے کہ اس نے اس کرۂ ارضی پر جب اولین قدم رکھا تو اس وقت سے آج تک جبلت کے علاوہ وہ خود شعوری اور خدا پرستانہ کلی قدری شعور سے مالا مال رہا ہے۔ مگر اس جزو پرستانہ ہائے ہو نے پوری انسانیت کو ’’معلومات زدہ جہل مرکب‘‘ میں مبتلا کردیا۔ چنانچہ ایک طرف بچیاں ماں کی کوکھ میں ماری جارہی ہیں تو دوسری طرف عورتوں کی کوکھ کو کرایہ پر لے کر بے اولادی کا غم غلط کیا جارہا ہے۔ انسانی اعضا کی چوری کے لیے اغوا کا ایک نیا ریکٹ شروع ہوگیا ہے۔ عورت، عورت سے اور مرد، مرد سے شادی رچا رہے ہیں۔ اس فکر و نظر کا فساد یہ بھی ہے کہ آج ساری دنیا میں تین بنیادی رشتوں کا بحران پیدا ہوگیا ہے یعنی: انسان اور خدا، انسان اور فطرت، انسان اور انسان کے مابین۔ان تین بنیادی رشتوں کے بحران نے مزید تین انسانی رشتوں کے توازن کو بگاڑ کے رکھ دیا ہے یعنی: مرد کا مرد سے، مرد کا عورت سے اور فرد کا اپنی ذات سے۔

؎ یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات

زندگی کے اس کلی یا روحانی تعبیر کو پس پشت ڈالنے کی وجہ سے انسانی و اخلاقی ہی نہیں کائناتی بحران بھی پیدا ہو گیا ہے۔ گلوبل وارمنگ، اوژون کا سوراخ، کاربن ڈائی آکسائیڈ زہر کی فراوانی، فضا کی آلودگی اور صاف پانی کی شدید قلت وغیرہ آخر کیا ہیں؟حیات و کائنات کے اس بحران پر متعدد مغربی دانشوروں اور تخلیق کاروں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ٹی، ایس، ایلیٹ نے اسے’’ہوش مندی کے انقطاع‘‘ اور روژموں نے اسے ’’وحشت و بربریت کی کامیابی‘‘پر محمول کیا ہے۔

؎ میخانے کی بنیاد میں آیا ہے تزلزل
بیٹھے ہیں اسی فکر میں پیران خرابات

اس کے برعکس کلی و تعمیری فکرونظر نے ’’ فی السلم کافہ‘‘ کی وجہ سے جملہ شیطانی وساوس و غلبے سے انفرادی و سماجی دونوں سطحوں پر محفوظ و مامون رہنے کا نسخۂ شفا پیش کیا ہے اور کارحیات کو چند سالہ جہان فانی تک محدود رکھنے کے بجائے حقائق ابدی تک دراز کردیا ہے۔ یہاں آزادی کا مطلب مادر پدر آزاد ہونا نہیں ہے بلکہ ہر طرح کے ’فتنوں‘ سے خود کو بچاتے ہوئے تسخیر کائنات تک کی راہ ہموار کرنی ہے۔کیونکہ بعض فتنے قتل سے بھی بدتر ہیں جن سے آج حیات انسانی نت نئے بحرانوں کا شکار ہے۔اسی لیے راہ حق کو یہاں نور و ظلمت ، معروف و منکر، گناہ و ثواب، تقویٰ و فجور، کلمہ طیبہ و کلمہ خبیثہ وغیرہ کے تضادات سے واضح کرکے ایک مکمل نظام حیات کو پیش کیا گیا ہے۔ جہاں مسخ شدہ مذاہب کی تنگی اور خوش کن بشارتوں اور ہیبت ناک اذیتوں کی کوئی گنجائش نہیں۔کیونکہ آغاز ہی میں واضح کردیا گیا ہے کہ ’’لکم دینکم ولی دین، لااکراہ فی الدین اور لست علیھم بمصیطر‘‘ کے ساتھ’’ امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ ضروری ہے۔اس لیے یہاں ہر نئے احساس، جدید فکر، نادر تجربے اور نئے امکانات کے تخلیقی اظہار کی مصنوعی نہیں حقیقی آزادی میسر ہے۔

؎ بیا تا گل بیفشانیم ومے درساغر اندازیم
فلک راسقف بشگا فیم و طرح دیگر اندازیم
اور
؎ میں کہاں رکتا ہوں عرش و فرش کی آواز سے
مجھ کو جانا ہے بہت اونچا حد پرواز سے

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں