ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی
تحریر بضمن ادبی اشاعت
ادب، تحریک اور اسلام کے باہمی تعلق اور تقاضوں پر اظہار خیال سے پیشتر ادب کیا ہے؟ فرد و معاشرے اور زندگی سے اُس کا کیا تعلق ہے؟جیسے سوالوں پر غور کرلینا مناسب ہے۔ ہمارے خیال میں ادب کی کوئی منطقی تعریف نہیں کی جاسکتی، اگر ایک طرف ادب کو وقت اور زمانے کا آئینہ کہا جاسکتا ہے تو ساتھ ہی ساتھ اسے ہم حُسن ِکلام اور تاثیر کلام کے نام سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں،دراصل ادب نام ہے احساسات کو لفظوں میں ڈھالنے کا، جذبات کو مترنم پیکر عطا کرنے کا، تصوّرات کو قابل فہم اشاروں میں تبدیل کرنے کا ادب انسانی زندگی کا حسین ترجمان اسکے افکار کا پر تو اور اسکے خیالات کا عکس ہوتا ہے،ادب زندگی سے پیدا ہوتا ہے زندگی کی ترجمانی کرتا ہے اور زندگی ہی کے کام آتا ہے اور ہمیشہ مُعاشرے اور زندگی کی تعمیر یا تخریب میں مشغول رہتا ہے ،یہ ناممکن ہے کہ کسی معاشرے کا ادیب اپنے کو معاشرے سے خارج کرکے کوئی اور ہی ادب پیش کرے یا یہ کہ جو کچھ وہ پیش کرے وہ دوسروں پر اثر انداز نہ ہو،وہ ادب ہی نہیں جو معاشرے اور اس میں رہنے والے فرد اور اسکی زندگی کو اپنے مخصوص رنگ سے متاثر نہ کرے۔
مغربی لادینی نظریات اور مختلف مادّی افکار کے حوالے سے ادب نے معاشرے کو جس طرح متاثر کیاہے اور اسکے نتیجہ میں نئے معاشرے کا انسان جس بحران، انتشار، ناآسودگی، روحانی کرب،اخلاقی انار کی ،جنسی بے راہ روی ، فحاشی وبے حیائی ،قتل وغارت گری ،معاشی استحصال، معاشرتی نابرابری ،منافقت ،فریب اور تہذیبی شکست وریخت سے دوچار ہے، آج کے ادب میں انکااظہار بھی ہوا ہے اورمختلف الحادی اداروں کے ذریعہ انکا فروغ بھی۔ چنانچہ نیا ادب چاہے وہ ترقی پسندی ہو یا جدید یت،لوگ اس کے پھیلائے ہوئے جراثیم سے مسموم ہوتی ہوئی فضاکو اب محسوس کرنے لگے ہیں اور اس سے نجات کی راہ ڈھونڈھنے لگے ہیں۔ یہی وہ حالات تھے جنھوں نے ادب میں تحریک اسلامی کا شعور پیدا کیا اور اسلامی رجحانا ت کے فروغ اور نشونما کی منظم کوششیں شروع ہوگئیں ۔
ادب کی طاقت کو دنیا کی تمام تحریکات نے تسلیم کیا ہے اور اپنے نظریات کی اشاعت کے لئے اسے بطوروسیلہ استعمال کیا ہے ۔ اب ایک ایسی انقلابی تحریک جو زندگی کے ہر پہلو اور ہر ادارے کی اصلاح چاہتی ہے،جو تعلیم ،سیاست اور معاشرت کو بدلنا چاہتی ہے ،وہ ادب کے شعبے کو کیسے نظر انداز کرسکتی ہے ،ہندو پاک کے مشہور ادیب افسانہ نویس اور تحریکی رہنما جناب سید اسعد گیلانی نے ایک جگہ بڑی عمدہ بات لکھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
’’کوئی تحریک بھی ادب کا تعاون حاصل کئے بغیر جڑ نہیں پکڑسکتی اور کسی تحریک کاکوئی پروگرام بھی بروئے کار نہیں لایا جاسکتا،جب تک ادب اس پروگرام کو اپنی آغوش میں لے کر دل ودماغ میں اسے بیٹھانہ دے،یہ دونوں چیزیں لازم وملزوم سی ہیں۔ ایک مسافر ہے تو دوسرا زادراہ، ایک سپاہی ہے تو دوسرا اس کا اسلحہ، ایک قافلہ ہے تو دوسرا س کا پیش رو۔‘‘
ہر تحریک اپنے دامن میں ایک انقلاب کا تصور رکھتی ہے اور ہر انقلاب قلب و نظر کے زاویوں سے لے کر زندگی کے تمام مادی و اخلاقی پہلوؤں پر ایسے ہمہ گیر اثرات ڈالتا ہے او ر یہ اثرات ادب کے ذریعے غیر محسوس طریقے پر دل کی ایک لرزش سے جو جسد انسانی میں سرایت کرتا رہتا ہے در اصل دل ودماغ اور قلب ونظر کی تبدیلی اور تعمیر جدید میں ادب کسی بھی تحریک کا سب سے بڑا ایجنٹ ہوتا ہے وہ چپکے چپکے آنکھوں کے راستے دلوں میں اترتا ہے یا کانوں کے راستے قلوب میں گھر بناتا ہے اور آنے والے انقلاب کے لئے جذبات اور احساسات کے مورچہ بناتا ہے ،یہ ادب ہی ہے جو براہ راست حملہ کرکے شکار کو بھڑکاتا نہیں بلکہ اسکے گرد تصورات وتخیلات کی سوندھی سوندھی فضاء پیدا کرتا ہے شکار خود بخود اس خوشبو کو اپنے دل میں جذب کرنے کے لئے اپنے جسم کے تمام بند ڈھیلے چھوڑدیتا ہے ۔ادب کی اسی طاقت کا تذکرہ کرتے ہوئے ہندوپاک کے مشہور ادیب شاعر اور مصنف جناب نعیم صدیقی نے لکھا ہے کہ:
’’ادب خیال انگیز اور خیالات افروز قوت ہے وہ معاشرہ کی کھیتی میں خیالات کے بیج ڈالتا ہے اور پھر انکی آبیاری کرتا ہے وہ خیال کے جمود کو توڑتا ہے اور حرکت پیدا کرتا ہے وحی الٰہی کے بعد اگر کوئی دوسرا ذریعہ انسانیت کو خیالات سے مالا مال رکھنے کا ہے تو وہ ادب ہے ادب خیالات کو ابھارتا ہے۔‘‘
واقعہ یہ ہے کہ ادب انسانی خیالات ،جذبات اور اقدار کو زندہ رکھنے اور بنانے بگاڑنے والی عظیم طاقت ہے،دنیا کی تمام تحریکات نے اس طاقت کا خوب خوب ادراک بھی کیا ہے اور بہتر سے بہتر استعمال بھی،فرانس کا عوامی انقلاب والٹیر اور روسو کے قلموں کونہیں بھول سکتا، ان کے قلموں کی سیاہی اس انقلاب کا جیتا جاگتا خون ہے۔ روس کا اشتراکی انقلاب مارکسؔ ٹراٹسکیؔگورکیؔ اور دوسرے اہل قلم حضرات کے قلموں کی جبنش پر چلتا ہو ا نظر آتا ہے جرمنی کا نازی انقلاب ،اس تصور سے اُبھرا ہے ، جو نٹشے نے اپنی تحریروں میں چھوڑا تھا ،اسی طرح خود انبیائی تاریخ پر اگر آپ ایک نگاہ ڈالیں تو دیکھیں گے کہ انبیاء علیہم السلام نے اپنے اپنے دور میں جو تحریکیں چلائیں،ان میں خدا کے لکھائے ہوئے اسالیب بیان کو اپنی دعوت کے فروغ کے لئے پورے طور پر استعمال کیا۔ خدا کا کوئی پیغمبر ایسا نہ تھا جو ادب کے بارے میں معمولی ذوق کا مالک ہو ،آج بھی الہامی کتابوں کے ذخیرے میں پورا پورا ادبی زور موجود ہے ،حضرت عیسیٰ ؑ کی دعوت کے انجیل میں جو ٹکڑے ملتے ہیں ،ان کی قدروقیمت دوامی ہے یہی حال زبورکا ہے، اگرچہ ان میں تحریف ہوچکی ہے لیکن آپ دیکھیں گے کہ ان میں ادب کا پورا پورا اہتمام ہے، قرآن مجید اس سلسلے میں اخری چیز ہے جسے ادبی چیلنج کے ساتھ پیش کیا گیا ہے ،عرب میں اسلام کی انقلابی تحریک جب اُٹھی، جاہلی ادب کے مقابلے میں قرآن کی ادبیت کو استعمال کرنا پڑا اور جب جاہلی ادب کو قرآنی ادب نے چیلینج کیا تو عرب کے کسی بڑے سے بڑے ادیب کو اس کے مقابلے کی ہمت نہ ہوسکی کہ اسکی عظمت کے سامنے اپنا چراغ جلا سکے ۔
ادب کی طاقت کو تمام آسمانی کتابوں میں استعمال کیا گیا ہے بلکہ یہ تقاضہ کیا گیا ہے کہ اس کے علمبردار ادب کی طاقت کو معرکہ خیروشرمیں استعمال کریں خود مدینہ منوّرہ میں جب اسلامی مملکت کا قیام عمل میں آیا اور بزم رسالت سجائی گئی تو پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیؐ نے ارشاد فرمایا ’’جنھوں نے خدا اور رسول کی مدد تلواروں سے کی ہے آخر وہ شعر و ادب سے اس مقصد خاص کی اشاعت کیوں نہیں کرتے، یہ سنتے ہی حضرت حسّان بن ثابت ؓجو اپنے زمانے کے جلیل القدر شاعر تھے ،اُٹھے اور عرض کیا ’’میں اس خدمت کے لئے حاضر ہوں ۔’’چنانچہ اس دور میں جب حق و باطل کی قوتیں نبر د آزماتھیں،اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ مخالفین کا سر نیچا کرنے کیلئے فن ہجو گوئی سے بھی کام لیا جائے،عرب میں یہ صنف بہت زیادہ مقبول اور موثر تھی اس وجہ سے مشرکین قریش کی ہجوئیں شعرائے اسلام نے لکھیں ، حضرت حسان بن ثابت اس فن میں زیادہ دستگاہ رکھتے تھے رسول اکرم ؐ نے ان کے بارے میںفرمایا کہ ’’حسان کے اشعار مخالفین اسلام پرتیرسے کہیں زیادہ ضرب کاری لگاتے ہیں‘‘ حضرت حسّان بن ثابت ؓ،کعب بن زبیرؓ اور ثابغتہ الجعدی وغیرہ نے اپنے شعر و ادب سے اس عہد کی تحریکی ضرورتوں کو خوب خوب پورا کیا ہے۔
مختصر یہ ہے کہ اسلامی تحریک جو دنیا کی تحریکوں میں سب سے زیادہ انسان کی فطرت کے قریب ہے۔وہ کبھی بھی ادب کی خدمت سے محرومی کی حماقت نہیں کرسکتی چنانچہ اب آخر میں تحریک ادب اسلامی کی ضرورت و اہمیت کے سلسلے میں مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی ایک تقریر کاآخری اقتباس پیش خدمت ہے،جو انھوں نے حلقہ ادب اسلامی پاکستان کے اجلاس مورخہ ۳۱؍جولائی ۱۹۵۰ء میں کی تھی، یہ پوری تقریر وابستگانِ تحریک ِ اسلامی کے لئے ایک واضح نشانِ راہ ہے ، مولانا مرحوم فرماتے ہیں :
’’ہر شخص کو اپنے آپ کو ٹٹول کر دیکھنا چاہئے جو ادب کے جس شعبے کیلئے موزوں ہے وہ اپنے آپ کو اسی کے لئے تیار کریں ،جو خطابت کی صلاحیت پاتے ہوں ،وہ اپنے آپ کو اسی کے لئے تیار کریں تاکہ ان کی یہ قوت ناطقہ اور قوّت کلام خدا کے کام میں آئے، جن کے اندر لکھنے کی صلاحیّت ہو تو اپنا جائزہ لیں کہ وہ کس نوعّیت کے کام کے لئے زیادہ موزوں ہیں۔ صحافت،شاعری ،افسانہ نویسی جس چیز کے لئے اپنے آپ کو موزوں پائیں اسی کے لئے نفس کی تربیت کریں اور جو لوگ بہتر علمی اور دماغی صلاحیّت رکھتے ہوں ،وہ علم کے مختلف شعبوں میں آگے قدم بڑھائیں۔‘‘
ہم ایک بڑے طوفانی دور سے گذر رہے ہیں اس وقت دنیا میں دو نظریوں کی کشمکش جاری ہے اور وہ ساری دنیا کو اپنے لپیٹ میں لے رہی ہے ہم ان کے درمیان تیسرے نظریے والے ہیں، ہمیں کوشش کرنی ہے کہ اپنی ساری قوتوں سے اپنے نظریۂ حق کو کامیاب بنائیں، جواللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کی ہیں۔ قوت ناطقہ اور قوت فکروفہم سب سے زیادہ ضروری ہے جسمانی طاقتیں بھی ان طاقتوں سے علیحدہ استعمال نہ کی جائیں گی۔ میں خاص طور پر اپنے نوجوانوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ اس جمود کو ختم کریں اور ادب کے ہر شعبے میں آگے بڑھیں مجھے توقع ہے کہ میری یہ اپیل بہرے کانوں سے نہ سنی جائے گی اور رفتہ رفتہ ادب کے محاذکی طرف ہمارے نوجوان کثرت سے متوجہ ہوجائیں گے۔‘‘
مولانا مودودی ؒکا یہ فکر انگیز بیان نہ صرف موجودہ حالات میں شعرو ادب کی اہمیت پر دلالت کرتا ہے بلکہ اس حقیقت کا اظہار بھی کہ اگر ہم اب بھی اس طرف متوجہ نہ ہوں گے تو ابلاغ عامّہ کے جدیدوسائل ریڈیو،ٹیلیوژن اور اخبارات ورسائل پر باطل پرستوں کانہ صرف قبضہ برقرار رہے گا بلکہ وہ اپنے ڈراموں ،نغموں ،حتیٰ کہ خبروں اور ان پر تبصروں کے ذریعہ اسلام دشمنی، الحادوبے دینی اور عریانی وفحاشی کے فروغ میں کوشاں رہیں گے اور ہم انکا کوئی توڑ نہ کرسکیں گے۔ لہٰذا اب بھی موقع ہے کہ ہم اپنے ادبی محاذکی اہمیت سمجھیں اور نہ صرف اُسے اپنا ہر طرح کا تعاون پیش کریں بلکہ ہمارے اہل فکروفن نوجوان اس میدان علم دانش میں قدم رکھیں اور تمام اصنافِ ادب میں اسلامی اقدار کے فروغ کے لئے نئی نئی راہیں تلاش کریں ۔
تحریک ادب اسلامی سے وابستہ قلمکاروں کو ایک بار پھر اپنے عہد کے ادبی و تحریکی تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے برسرپیکار ہوناہے،انھیں اُسی خلوص،جذبے اور نیّت سے قلم اُٹھانا ہے، جس نیت سے وہ مسجد میں نماز کے لئے یا میدان میں جہاد کے لئے داخل ہوتے ہیں ،کیونکہ ان کا ادب عبادت کے لئے وقف ہے،لیکن اسی کے ساتھ دوسری اہم چیزفن ہے۔ادب میں فن کی کمزوری خلوص نیّت اور جذبہ نمود سے بے نیازی کا بدل نہیں بن سکتیں، ہماری فنّی کو تاہیاں، مقصد و نصب العین کی خدمت کے بجائے اس کا وزن کم کر نے کا موجب ہوسکتی ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کن کن الفاظ کا استعمال کس کس جگہ مفید ہے،جس سے ہم اپنا راستہ نکال سکیں ۔الفاظ ادیب کے لئے آلات کار ہیں ،ان آلات کا مناسب اور بر محل استعمال ہی ایک سپاہی کو میدان جنگ میں کامران کرتا ہے ،لہٰذا موجودہ معاشرے کو رائج الوقت الحادی ادب کے پنجے سے نکال کر اپنے تحت لانے کے لئے ہمیں شدید محنت اور فنّی ریاض کرنا ہوگی ،اس سلسلہ کی دوسری اہم ترین چیز مطالہ کی وسعت ہے موجودہ ادب اور اس کے سرچشمے کو اچھی طرح جانے بغیر ان پرغلبہ حاصل نہیں ہو سکتا، اس کے لئے ماضی و حال کے تمام ادب ،مختلف مادّی افکار ونظریات اور عقائدومذاہب کا تنقیدی وتقابلی مطالعہ ضروری ہے، اس سے فن میں گہرائی وگیرائی پیدا ہوتی ہے، ادبی رسوخ بڑھتا ہے تخلیق کو عمر دوام نصیب ہوتی ہے ۔
تیسری چیزجو ہمیشہ دل ودماغ میں تازہ رکھنے کی ہے ،وہ یہ کہ ہمیں بہرحال ایک نصب العین کی خدمت کرنی ہے اور ایک مقصد کو فروغ دینا ہے ۔چنانچہ ہماری کوئی چیز میدان ادب میں آئی جو اس نصب العین کو تقویت کے بجائے اسکی تذلیل اور سبکی کا باعث ہوئی تو یہ خود اس نصب العین کو نقصان پہنچانے کا باعث ہوگا۔ لہٰذا یہ کوشش بھی ہونی چاہئے کہ ہمارے ادبی محاذ پر کوئی ایسی چیز نہ آنے پائے جو اجتماعی نصب العین کو نقصان پہنچانے والی ہو ۔ آخری بات یہ ہے کہ ادب میں الحاد وبے دینی کے غلبہ اور فحاشی وبے حیائی کے سیلاب کو روکنے کے لئے منظّم جدّوجہد کا عزم اسلامی فنکاروں کا فرض ہے ،ہمارا کام یہ ہے کہ اس محاذ پر اپنی قوتوں کو رتی تری جمع کر دیں۔ جس محاذ پر جاہلیت کے کارندوں نے جاہلی ادب کے پہاڑ کھڑے کر رکھے ہیں، وہاں ہم حقائق کے سنگریزوں کو لا کر ڈال دیں اور اس طرح اپنی اجتماعی کوششوں کے ذریعہ ایک ایسی تحریک کا آغاز کریں جس سے ادبی جاہلیت کا غلبہ ختم ہو اور انسانی فطرت کے صحیح رجحانات کی حفاظت ہو۔