پروفیسر محسن عثمانی ندوی
ادب کا اسلام سے گہرا رشتہ ہے بلکہ صحیح معنوں میں وہی ادب عظیم ادب کہلانے کا مستحق ہے جس کی روح اسلام کی تعلیمات کے مغایر نہ ہو، عظیم ادب وہی ادب ہے جس کا مضمون مؤدب ہو اور پیرایہء اظہار بھی مؤدب ہو، یعنی ہر اعتبار سے اس میں ادب وشرافت کی رعایت ہو، اس کے خلاف جو بھی ہوگا وہ کم تر ادب کہلائے گا۔اسلام صرف عقائد کا مجموعہ نہیں ، یہ مکمل تہذیب ہے اور ادب وشاعری پر محیط ہے۔ اسلام نے ادب وشاعری کو جلا بخشی اور اس سے اصلاح وتعمیر کا کام لیا، بقول حالی:
ادب میں پڑی جان ان کی زباں سے
جلا دیں نے پائی تھی ان کے بیاں سے
سناں کے لئے کام انھوں نے لساں سے
زبانوں کے کوچے تھے بڑھ کر سناں سے
ہوئے ان کے شعروں سے اخلاق صیقل
پڑی ان کے خطبوں سے عالم میں ہل چل
اسلام کا نظام حیات در اصل عقیدہ وعمل کی جمالیات کا نام ہے۔اس نے حسن وجمال پر زور دیا ہے، جس سے ذوق کی پاکیزگی اور نفاست پیدا ہوتی ہے، یہاں تک کہ کہا گیا ہے :’’ان اللہ جمیل ویحب الجمال‘‘یعنی اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے، ستاروں کو تابندگی اور چاند اورسورج کو رخشندگی اورپھولوں کو شگفتگی دینے والی ہستی کا انسا ن سے یہ مطالبہ ہے کہ ان کے کردار اور گفتار دونوں میں حسن اور سلیقہ پایا جائے۔ ادب گفتار کے اسی سلیقہ کا نام ہے، اس لئے اسلامی ادب میں صرف مضمون میں نہیں بلکہ ہیئت اور شکل میں بھی مناسب طریقہ سے آرائش اور زیبائش اختیار کی جاتی ہے، ہیئت اور اسلوب کو نظر انداز کردینا ذوق ادب کی خلاف ورزی ہے۔وعظ وتذکیر کی اہمیت اپنی جگہ پر ہے لیکن جب تک وہ فن کی شرطیں نہ پور ی کرتاہو وہ ادب نہیں ہوسکتا ہے۔ قرآن مجید خود فصاحت وبلاغت کے اعجاز کا نمونہ ہے، وہ فن اور ادب کا سب سے اونچا معیار ہے، اس لئے اسلامی ادیب کی ذمہ داری بھی زبان وبیان کی درستی اور فن کی چابک دستی کے اعتبار سے دوسروں سے کہیں زیادہ ہے، جہاں تک موضوع اور مضمون کا تعلق ہے وہ کچھ بھی ہوسکتا ہے، البتہ یہ ضروری ہے کہ جو وہ لکھے وہ حیات آمیز ،حیات آموز اور حیات افروز ہو، اس میں زندگی کے تمام پہلووں کا تذکرہ ہوسکتا ہے اس میں ذکر چاند کا بھی ہوگا ستاروں کا بھی، پھولوں کا بھی چشم غزال کا بھی ، حور کا بھی اور شراب طہور کا بھی اور آب انگور کا بھی، حضرت یوسف کا بھی اور زلیخا کا بھی، خودی کا بھی اور خدا کا بھی، علمی، تحقیقی ،تنقیدی ،دینی، اصلاحی،شعری، ادبی، تفریحی، طزیہ مزاحیہ، ناول، افسانہ، ڈرامہ تمام اصناف سخن اس کے دائرہ میں آتے ہیں بس یہ ضروری ہے کہ ان سے معاشرہ میں خیر کے اقدار کا فروغ ہو۔
اسلامی ادب میں موضوع کی کوئی شرط نہیں ہے، ہر تحریراسلامی ادب کے دائرہ میں داخل ہوسکتی ہے خواہ اس کا کوئی موضوع ہو بشرطیکہ وہ تحریر ادب کی شرطیں پورا کرتی ہو اور یہ کہ اس میں خدا اور مذہب کے ساتھ شوخیاں نہ ہوں اور اس کے ذریعہ بے حیائی نہ پھیلائی جائے۔ اسلامی ادب در اصل اسلامی شعور کے تحت وجود میں آنے والا فن ہے۔ یہ جب شعر کا جامہ اختیار کرتا ہے تو اقبال کا کلام وجود میں آتا ہے، یہ جب نثر کا جامہ اختیار کرتا ہے تو شبلی اورابو الاکلام کی نثر وجود میں آتی ہے، یہ جب فکشن پیرایہ اظہار اختیار کرتا ہے تو عبد الحلیم شرر اور نسیم حجازی کے ناول کی شکل میں سامنے آتا ہے ، ایک اسلامی ادیب کا کام فن کی شرطیں پوری کرنا ہوتا ہے خواہ موضوع کچھ بھی ہو ، وہ ناول اور افسانہ بھی لکھے گا تو اس کا کام نظریاتی قبلہ کو درست کرنا ہوگا لیکن زاہد خشک اور محتسب بن کر نہیں۔ وہ اپنی بات کو فن کے لباس حریر میں پیش کرے گا۔ اس میں اسے استاد کا کم اور خیر خواہ دوست کا رول زیادہ ادا کرنا ہوگا۔ اس کے لئے اسے حکیمانہ اور متصوفانہ وسیع النظری بھی درکار ہوگی، اس کی تخلیقات میں قاضی کے فیصلہ کی قطعیت یا مفتی کے فتوی کی یبوست نہ ہوگی۔
تخلیقی ادب میں مثال کے طور پر شعر و افسانہ میں اسلامی ادیب کے کہنے کا انداز اور اثر انداز ہونے کا طریقہ زاہدخشک اور شیخ دونوں سے الگ ہوتا ہے۔ وہ خاموشی سے دل کو جیتنے کی کوشش کرتا ہے وہ گیسوے جاناں بن کر شوق کی الجھن کو بڑھاتا اور شمیم گل بن کر مشاں جاں کو معطر کرتا ہے، وہ تیز روی سے کام نہیں لیتا ہے، وہ تلوار نہیں اٹھا تا ہے، وہ سوشل ورکر اور رفارمر کا رول بھی ادا نہیں کرتا ہے، بلکہ وہ فن کے ذریعہ تعمیری رجحان کی داغ بیل ڈالتا ہے، وہ احساس کی تربیت کرتا ہے، وہ باطن کو بڑی حکمت کے ساتھ ایمان کے نور سے جگمگاتا ہے۔ وہ فکر انسانی کی مشاطگی میں نرمی اور محبت سے کام لیتا ہے وہ دلیل سے زیادہ دل کے دروازوں کودستک دینے کا قائل ہے ۔ لیکن یہ باتیں تخییلی اور تخلیقی ادب کے تناظر میں ہیں، جو خطابت اور مقالہ نگاری سے بالکل الگ صنف سخن ہے۔ یہ قصہ نگاری اور ناول کا میدان ہے ۔ لیکن مجھے یہ اعتراف کرنے میں تامل نہیں کہ قصہ نگاری اور ناول کے میدان میں اسلامی ادب نے اب تک وہ کامیابی حاصل نہیں کی ہے جو اس نے مقالہ نگاری، صحافت، تاریخ نویسی وسوانح اور شاعری اور ایک حد تک تنقید کے میدان میں حاصل کی ہے۔
ادب اسلامی کا یہ میمنہ اور میسرہ کمزور ہے۔ اس میدان میں ان لوگوں کے نام زیادہ ہیں جن کے ذہن اسلامی عقیدہ اور اسلامی اقدار سے ہم آہنگ نہیں چنانچہ وہ اپنی تخلیقات کے ذریعہ معاشرہ میں مسلسل زہر افشانی کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر قرۃ العین حیدر اردو کی بہت بڑی ناول نگار ہیں، خاص بات یہ کہ ان کے ناولوں میںعصمت چغتائی کے برخلاف کہیں فحاشی نہیں پائی جاتی ہے لیکن ان کے فن میں اسلامی فکرسے ہم آہنگی کا عتصرکم پایا جاتا ہے۔ عبد الحیم شرر اسلامی ناول نگار ہیں لیکن انہوں نے صرف تاریخی ناول لکھے ہیں۔ ڈپٹی نذیر احمد قرآن کے مترجم بھی ہیں اور ناول نگار بھی ہیں، لیکن ناول کا فن ان کے عہد کے بعد بہت آگے بڑھ گیا ہے۔ عربی میں نجیب محفوظ ناول نگار ہیں جن کو ادب کا نوبل پرائز بھی ملا ہے۔
اسلامی تہذیب کے بجائے مغربی تہذیب اور الحاد کے طرف دار نظر آتے ہیں، عربی میں نجیب کیلانی اچھے ناول نگار اور ڈرامہ نگار ہیں اوراسلامی ادیب ہیں لیکن اس طرح کے نام بہت کم ہیں۔اسلامی ادب کے ہم نواوںکو فکشن کے میدان کی طرف بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ ادب کے پردہ میں مسموم افکار پیش کرنے والے طاقتور نہ ہوسکیں، ادب کی اہمیت کا اندازہ لگانے میں غلطی نہیں کی جانی چاہئے، ادب میں تاثیر بھی ہے قوت تسخیر بھی ہے، وہی وسیلہ تخریب بھی ہے اور وہی وسیلہ تعمیر بھی ہے، لفظوں میں جادوکا اثر اور جملوں میں دارو کا زہر ہوتا ہے، ادب سے روح بالیدہ ہوتی ہے۔ اس سے ذوق جمال آسودہ ہوتا ہے، حالات کی نزاکت نے اہل دین کو بھی مجبور کردیا ہے کہ وہ ایسے ادب کے وکیل بن جائیں جو صالح ہو حیا سوز نہ ہو، اسلام پسند ہو خدا بیزار نہ ہو، وہ اصلاح کا ذریعہ ہو فساد کا آلہ کار نہ ہو، اس اہم کام کے لئے تحریکیں اٹھی ہیں بر صغیر میں ادارہ ادب اسلامی کے نام سے تحریک اٹھی اس کی ایک تاریخ ہے۔’’پیش رفت‘‘ کے نام سے اس کا ایک ادبی ترجمان شائع ہوتا ہے۔ بہت سی ادبی شخصیتیں اس سے وابستہ رہی ہیں، عالمی اور بین الاقوامی سطح پر مولانا ابو الحسن علی ندوی نے رابطہ ادب اسلامی قائم کیا، دنیا کے مختلف ملکوں میں اس کی شاخیں قائم ہیں جو سرگرم ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں تعمیر وتخریب، خوب ونا خوب دونوں ایک دوسرے سے ستیزہ کار رہتے ہیں اس لئے ادب اس سنگھرش میں تماشائی بن کر نہیں رہ سکتا ہے، ادیب اور فنکار جو کچھ بھی سپرد قرطاس کرے گا اس کی عمر ادیب اور فنکار کی عمر سے زائد ہوگی۔ اس کے اثرات صرف حال پر نہیں بلکہ مستقبل پر بھی پڑیں گے۔ حال اور مستقبل کے ناقد کو یہ جائزہ لینے کا حق ہے کہ ادیب نے اس کشمکش اور سنگھرش میں حق کا ساتھ دیا تھا یا باطل کا ، خیر اور حسن کی حمایت کی تھی یا شر اوربدی کی ۔
اب آخری بات ادب اسلامی کی اصطلاح کے بارے میں۔ اسلامی ادب کی اصطلاح زیادہ قدیم نہیں۔ در اصل عہد حاضر میں ادب کو مختلف نظریات سے منسوب کیا جانے لگا، رومانی ادب، ترقی پسند ادب، وجودی ادب، ادب لطیف، اشتراکی ادب اور جدیدیت اور مابعد جدیدیت کی اصطلاحیں مقبول خاص وعام ہوگئیں، اہل ادب نے اپنے اپنے اسٹیج سے اپنے نظریات کی تبلیغ واشاعت کا کام شروع کیا، در اصل حیات انسانی کی کاوشیں کسی نہ کسی تصور اور عقیدہ پر منحصر ہیں، یہ عقیدہ واذعان ہے جو کاروان حیات کو سرگرم سفر رکھتا ہے، حیات وکائنات کے بارے میں نظریہ اگر درست ہوگا تو اس کا اثر لازمی طور پر ادبی کاوش اور تخلیق پر بھی پڑے گا، مختلف نظریات حیات اور نظام ہائے حیات کے درمیان اس کی ضرورت پیش آگئی کہ ادب اسلامی کی بھی اپنی شناخت ہو، اسلامی ادب اگرچہ موج تہ آب کی مانند ہمیشہ سے ہے لیکن نظریات اور اصطلاحات کے اس عہد میں اسلامی ادب کی اصطلاح وضع کرنے کی ضرورت پیش آئی اور ایک باضابطہ مکتب فکر کی حیثیت سے اس کا وجود عمل میں آیا، اگر انگریزی ادب اور فرانسیسی ادب کی ترکیبیں لوگوں کے لئے نامانوس نہیں ہیں، اگر اسلامی فن تعمیر اور اسلامی ثقافت اور اسلامی تہذیب کے ناموں میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی ہے تو ہمیں اسلامی ادب کی اصطلاح کو بھی گوارا کرنا چاہئے، دور جدید واضح طور پر نظریاتی قطبیت کا دور ہے، اس فضا میں اسلام کی تعلیمات پر یقین رکھنے والے اگر اس پر اصرار کریں کہ وہ اسلام کے معیار پر ادب کے اصول متعین کریں گے اور تنقید کے لئے اس کو پیمانہ بنائیں گے توآخر کس دلیل سے اسے غلط قرار دیا جاسکتا ہے؟ جو لوگ اسلامی نظریہ حیات کونہیں مانتے ان سے ہم اصرار نہیں کرتے کہ وہ ہمارے نظریہ کو قبول کریں لیکن یہ مطالبہ ضرور کرتے ہیں کہ انصاف کو اپنا شعار بنائیں اور گلاب کے پھول کی خوبصورتی کی تعریف کریں، یہ گلاب کا پھول جس طرح مئے خانہ کے دروازہ پر کھل سکتا ہے اسی طرح وہ مسجد کے صحن میں بھی اپنی بہار دکھاسکتا ہے، یہ نا انصافی ہے کہمئے خانہ میں کھلے تو پھول کہلائے اور مسجد میں کھلے تو ببول کہلائے۔