ڈاکٹر سلیم خان
رمضان المبارک کا آخری جمعہ دنیا بھر میں یوم القدس کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن ارض ِ فلسطین پریہودیوں کے غاصبانہ قبضے کے خلاف احتجاج، مظاہرے، جلوس ، جلسہ اور خطبات جمعہ وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان تقریبات میں عام طور پر صہیونی مظالم کی مذمت اور فلسطینی کا ز سے یکجہتی کا اظہار کیا جاتا ہے لیکن اسرائیل کے قیام کی وجوہات اور اس کے لیے کارفرما سازشوں پر گفتگو کم ہی ہوتی ہے۔ اسرائیل کے حوالے سے کئی سازشی نظریات بھی سماج میں پھیلے ہوئے ہیں انہیں باربار دوہرایا جاتا ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ان اسباب و علل پر غور کیا جائے جس کے سبب انسانیت کا یہ ناسور وجود میں آیا ۔ یہودیو ں کی جدید تاریخ پر ایک غائرنظر ڈالیں تو1880 ء میں عالمی یہودی آبادی 77 لاکھ تھی ۔ اس میں 90فیصد یورپ اور ان میں سے بھی 33 لاکھ مشرقی یوروپ کے سابقہ پولش صوبوں میں آباد تھی۔ان کے خلاف مسیحیوں کے اندر شدید مذہبی نفرت پائی جاتی تھی ۔ یوروپی ممالک میں قوم پرستی کی لہر نے انہیں غیرقوم بنا کر ان کا جینا دوبھر کردیا تھا۔
اس امر کا ثبوت انیسویں صدی کے اواخر میں روس اور یوکرین کے اندر رونما ہونے والے تین نمایاں قتلِ عام ہیں جن میں ہزاروں یہود قتل کیے گئے اور روس سے 22 لاکھ یہودیوں کو ہجرت پر مجبور ہونا پڑا۔ یورپ کی زمین چونکہ ان پر تنگ ہوچکی تھی اس لیے انہوں نے فلسطین کا رخ کیا۔یہی وہ زمانہ تھا جب بے یارو مددگار یہودیوں کو اپنی بے وطنی کا شدید احساس ہوا ۔ اس دورِ پرفتن میں قومیت کے سیاسی نظریہ سے خوفزدہ یہودی دانشوروں کی خاطر اپنے لیے ایک علٰحیدہ ریاست کا خواب دیکھنا ناگزیر ہوگیا۔یہودی ریاست کے حصول کی خاطر 1890 میں آسٹریائی مروج نیتھن برنبام نے پہلی بار صہیونیت کی اصطلاح وضع کی ۔ اس قومی تحریک کو اپنے آبائی وطن ارض فلسطین کی جانب واپسی اور یہود ی حاکمیت کی بحالی کی کا نام دیا گیا۔ 1897 میں تھیوڈور ہرتزلنے اسرائیلی ریاست نامی کتاب لکھ کر آزاد اور خودمختار ملک کے قیام کا تصور پیش کیا۔اس کے بعد پہلی صہیونی کانگریس (شوری) کے اجلاس میں عالمی صہیونی تنظیم کا قیام عمل میں آیا۔
1917ء میں برطانیہ نے ترکوں کو شکست دےکر فلسطین کو قبضہ میں لیا اور وہاں یہود کے لیے قومی وطن کے قیام کی باضابطہ سرکاری منظوری اور حمایت کی، تاہم مقامی عربوں کے شہری اور مذہبی حقوق کی ضمانت دی گئی ۔1921ء میں برطانیہ نے دریائے اردن اور اس کے مشرقی میں فلسطینی علاقوں کے اندر یہودی آبادکاری کو ممنوع قرار دے دیا۔ تاہم عربوں کی آبادکاری جاری تھی ۔ اشتراکی انقلاب کی خاطر روس کے اندربرپا ہونے والی خانہ جنگی ہزاروں یہودیوں کے قتل اور ہجرت کاموجب بن گئی ۔ سوویت یونین میں سرخ آندھی نے چونکہ نجی تجارت پر پابندی لگادی اس لیے یہودی تاجر وں کوپولینڈ جانا پڑا ۔ ۱۹۳۰ء میں یہودیوں کی آبادی ایک کروڈ پچاس لاکھ ہو گئی تھی اس میں سے 40 لاکھ یہودی پولینڈ میں جمع ہوگئے تھے۔ فلسطین میں ان کی تعداد 1لاکھ75 ہزار یعنی کل آبادی کا 17 فیصد ہوگئی تھی ۔ 1933ء میں ہٹلر نے یہودیوں کو قتل عام کرکےان کی شرحِ ہجرت میں بے شمار اضافہ کردیا۔
1939ء میں برطانوی حکومت نے قرطاس ابیض جاری کرکے 1940ء تا 1944ء ہر سال 10,000 یہود کو ہجرت کی اجازت دی نیز ہنگامی صورت حال میں 25,000 یہودیوں کے نقل مکانی کو مباح کیا گیا۔اس دوران پورے یورپ میں سے 60 لاکھ یہود کی باقاعدہ نسل کشی کا دعوی کیا جاتا ہے۔ 1945ءتا 1948ء کے مرگ انبوہ(ہولوکاسٹ) بڑے پیمانے پر یہودیوں کو فلسطین کا رخ کرنے کا سبب بنا ۔ اس کے پیش نظر برطانوی سامراج نے غیر قانونی طور پہ فلسطین میں داخل ہونے والے یہود پر پابندی لگادی ۔1946ء تا 1948ء کے دوران یہودی ریاست کے قیام کی جدوجہد دہشت گردی میں بدل گئی اور 14؍مئی 1948ء کوبن گوریون نے اسرائیل کی آزادی کا اعلان کردیا۔
اس کے بعد وقوع پذیر ہونے والے واقعات یہ ظاہرکرتے ہیں کہ یہ ایک عالمی سازش تھی کیونکہ یہودیوں کے سب سے بڑے دشمن سوویت یونین نے اسرائیل کو اقوام متحدہ میں شامل کرنے کی تجویز پیش کی ۔ اس کے فوراً بعد اقوام متحدہ نے یہودی اور عرب ریاستوں کے قیام کی باقاعدہ منظوری دے دی اور اس ناسور کو عالمی سطح پر جواز عطا کردیا گیا۔ گیارہ منٹوں کے اندر امریکہ نے اسے تسلیم بھی کرلیا۔ ان واقعات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یوروپ میں یہودیوں کے خلاف نفرت اور اس نحوست سے نجات کی شدید خواہش نے ایک خفیہ سازش کےتحت صہیونی ریاست کی راہ ہموار کی ۔ اس کے بعد جب بھی عربوں نے اس کو پسپا کرنے کی سعی کی تو برطانیہ ، فرانس اور امریکہ سب مل کر بالواسطہ اور بلا واسطہ اسرائیل کی پشت پناہی کرتے رہے کیونکہ اس نوزائیدہ ریاست سے ان کے کئی مفادات وابستہ تھے ۔
مغرب کے مفادات میں سرِ فہرست ان کی یہ ضرورت تھی کہ انہیں مشرق وسطیٰ میں ایک محتاج و مجبور مگر معتبر آلۂ کار چاہیے تھا کو اسرائیل کی صورت میں حاصل ہوگیا۔ اس کی مدد سے وہ عرب دنیا کو اپنے زیر اثر رکھنے کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرسکتے تھے ۔ اس احسان کے ذریعہ وہ یہودیوں پر کیے جانے والے ماضی کے مظالم کی پردہ پوشی کرنے میں بھی کامیاب ہوگئے تھے ۔ اپنا یہ کفارہ ادا کرنے کی خاطر انہوں نے خود کوئی قربانی دینے کے بجائے فلسطینی حقوق کوپامال کیا۔ اسرائیل کے قیام کی وجہ سے مغربی ممالک کو فتنہ پرور یہودی کے اپنے علاقوں سے نکالنے کا جواز بھی مل گیا ۔ اس لیے عالمی برادری کے ذریعہ اسرائیل کے خلاف منظور ہونے والی تمام قرار دادوں کو ویٹو پاور کے حامل ممالک بزور قوت مستردکروا کر عمل آوری میں رکاوٹ پیدا کرتے رہے۔ اس طفیلی ریاست کی ہر طرح سے امداد کی گئی اور اسے تحفظ فراہم کیا جاتا رہا یہاں تک کہ دوران جنگ بھی کمک پہنچائی گئی۔
اس عالمی سازش کے نتیجے میں مقبوضہ فلسطین کے اندر فی الحال عربوں کی آبادی صرف 20 فیصد ہو گئی ہے ۔ اس ظلم عظیم کی جانب انگشت نمائی کرنے کے بجائے ساری دنیا کا ذرائع ابلاغ اسرائیل کے حق میں رطب اللسان رہتا ہے اور اس کے ہر جبرو ظلم کو جائز قرار دیتا ہے۔ یہودی اپنی حیثیت جانتے ہیں اس کے باوجود عالم ِ اسلام کو مصنوعی مرعوبیت کا شکار کرنے کی خاطر انہوں نے پوری دنیا پر یہودی حکمرانی کا خواب بُنا ہوا ہے جو ناممکن ہے۔ مذکورہ خواب کا مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ ان لوگوں نے بڑی چالاکی سے اپنے مغربی آقاوں کے زیر تسلط دنیا کو اپنی عالمی ریاست میں شامل ہی نہیں کیا تھا ۔ یوروپ کی ناراضی سے بچنے کے لیے وہ عالم انسانیت کو دریائے نیل سے لے کر دریائے فرات تک محدود کرکے اس علاقہ پر سلطنت قائم کرنے کا دعویٰ کرتے رہتے ہیں حالانکہ اس کا بھی کوئی امکان نہیں ہے ۔
یہ ایک تحریر شدہ حقیقت ہے کہ صہیونی اپنا نام نہاد عالمی غلبہ حاصل کرنے کی خاطر تشدد ،دہشت گردی اور ظلم کو جائز سمجھتے ہیں لیکن ان کا سارا زور نہتے فلسطینیوں پر دکھائی دیتا ہے ۔ اس کے برعکس مختلف مسلم ممالک مثلاً مصر اور ترکی وغیرہ سے امن معاہدہ کرکے وہ انہیں اپنا ہمنوا بنانے کی فکر میں لگے رہتے ہیں ۔ اس حکمت عملی کا دائرۂ کار اب متحدہ عرب امارات، سوڈان اور بحرین تک پھیل چکا ہے۔صہیونی تحریک چونکہ سیاست میں اخلاقی ا قدار کے قائل نہیں ہے اور مکر و فریب، خیانت وجھوٹ کو اختیارکرنا جائز سمجھتی ہے اس لیے ان کے اپنے ناجائز ملک اسرائیل اب تک کوئی مستحکم حکومت قائم نہیں ہوپائی یعنی جو زہر انہوں نے دوسروں کے لیے تیار کیا وہ خود ان کے اندر سرائیت کرگیا۔
فی الحال یہ حالت ہے کہ بن یامن نیتن یاہو جیسا بدعنوان اور بدزبان انسان ان پر طویل عرصے سے مسلط ہے۔ وہ نت نئے انداز میں ان کا جذباتی استحصال کر کے تقریباً پچیس فیصد ووٹ حاصل کرلیتا ہے۔ اس کے بعد جوڑ توڑ کی سرکار بنا نے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور عیش و عشرت کی زندگی گزارتاہے۔ اسرائیل میں ہر الیکشن کے بعد موقع پرستی اور ابن الوقتی کا بےمثال مظاہرہ ہوتا ہے ۔ مختلف جماعتوں کو دولت یا وزارت کا لالچ دے کر خرید ا جاتا ہے ۔ اپنے اصول و نظریہ کو قدموں تلے روند کر ایک دوسرے کے خون کے پیاسی سیاسی جماعتیں عارضی طور پر آپس میں شیر و شکر ہوجاتی ہیں اور چند ماہ کے اندر لڑ بھڑ کر الگ ہوجاتی ہیں اور پھر سے انتخاب کی نوبت آجاتی ہے ۔
یہ دنیا کی حیرت انگیز حقیقت ہے کہ ڈیڑھ سال میں تیسرے انتخاب کے بعد گزشتہ مرتبہ حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت ریڈ اینڈ بلیو کا سربراہ بینی گینز ڈھائی سال تک وزیر اعظم بننے کے لالچ میں اپنے حریف ِ اول بن یامن نیتن یاہو کا حلیف بن گیا ۔ انتخابی مہم کے دوران یاہو کی خوب جم کر مخالفت کرنے والے وزارت عظمیٰ کے دعویدار نے اپنے ذاتی فائدے کی خاطرنہ صرف اتحادی جماعتوں بلکہ رائے دہندگان کے بھی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔ یہ حسنِ اتفاق ہے کہ اس کی باری آنے سےقبل سرکار گرگئی اور اب وہ گھر کا رہا نہ گھاٹ کا۔ چوتھے انتخاب میں اس کی پارٹی کا مکمل صفایہ ہوگیا اور پچھلی بار۳۲ نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے والا رہنما اب ۶ سیٹوں پر سمٹ کر سیاسی افق سے ناپید ہوگیا ۔
آج دنیا بھر میں اسرائیل کے اندر ہونے والی ویکسی نیشن کی مہم کو بہت سراہا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ ۲ سال کے اندر منعقد ہونے والے چوتھے انتخاب میں نیتن یاہو کے مخالفین نے کورونا وبا کے دوران حکومت کی بدانتظامی کو خوب اجاگر کیا ۔ حزب اختلاف کا سب سے سنگین الزام یہ تھا کہ وزیر اعظم اپنے انتہائی قدامت پسند سیاسی حلیفوں پر کوروناکی پابندیوں کا اطلاق کرنے میں ناکام رہے اور یہی نرمی اسرائیل کے اندر کورونا وائرس کے پھیلاو کا سبب بنی ۔حزب اختلاف کا موقف ہے کہ مذکورہ لاپرواہی کے سبب ایک جانب تو ملک کی معیشت کو نقصان پہنچا اور دوسری طرف اسرائیل میں بے روز گاری بڑھی ۔ بدعنوانی کے الزامات کی وجہ سے ان کے مخالفین کے نزدیک نیتن یاہو کا حکمراں رہنا اخلاقی طور پر درست نہیں ہے۔
نیتن یاہو کے سیاسی کے حلیف زیادہ تر سخت گیر مؤقف کے حامل قوم پرست ، نسل پرست اور قدامت پسندہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ حالیہ انتخاب میں یاہو کی لیکوڈ سمیت تمام جماعتوں کی نشستوں میں کمی آئی ہے وہاں ان گروہوں کی طاقت میں اضافہ ہو ا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر نیتن یاہو پھر سے حکومت بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اس کا انتہا پسندوں پر انحصار بڑھ جائے گا اوران کی من مانی میں اضافہ ہو جائے گا۔ وزیر اعظم کے مخالفین کا الزام ہے کہ انتہا پسند یہودی جماعتوں نے گزشتہ دو برس سے سیاسی نظام کو مفلوج کررکھا ہے۔ یاہو ان کی ناز برداری اس لیے کرتاہے تاکہ وزیراعظم کو حاصل استثنیٰ کا فائدہ اٹھا کر یا عدالتی کارروائی محفوظ رہ سکے ۔
اسرائیل کے انتہا پسند سیسی ٹولے انتخاب کے دوران مخالفین پر حملے کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ یاہو کے سب سے بڑے حریف اسرائیل کی ‘امیدِ نو پارٹی’ کے سربراہ گیدعون ساعر نے وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو پر انتخابی مہم کے دوران ایک حملے کے بعد اسرائیل کو “خانہ جنگی” کی طرف لے جا نے کا الزام بھی لگایا تھا ۔ساعر نے مزید کہا تھا کہ میں نے ابھی تک نیتن یاہو کی طرف سے کوئی مذمت کا اظہار نہیں سنا۔ نیتن یاہو کی خاموشی ان کے ملوث ہونے کا ثبوت ہے۔ ساعر نہیں جانتے کہ عصر حاضر کے ٹرمپ اور مودی جیسے جمہوری رہنما ایسا کرنے میں عار محسوس کرتے تو یاہو اس کی غلطی کیسے کرسکتاہے۔
اسرائیل کے سب سے بڑے حزب اختلاف ’امید نو پارٹی ‘ کے رہنما ساعر نے انتخابی جلسوں پر حملہ کرنےوالوں اور ان کو اکسا کر روانہ کرنے وا لوں کی بابت کہا تھا کہ وہ ہم سے خوفزدہ ہیں اس لیے ڈرانے کی کوشش کرتےہیں ۔ ساعر سے یاہو ڈرتے ہیں یا نہیں یہ تو کوئی نہیں جانتا لیکن وہ حماس سے ضرور خوفزدہ ہیں۔ اس کا ثبوت سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی وہ و ائرل ویڈیو ہے جس میں وزیراعظم نیتن یاہو کو راکٹ حملے کی خبر سننے کے بعد ایک ہوٹل سے فرار ہوتےنظر آتے ہیں ۔ پارلیمانی انتخابات کے دن غزہ کی پٹی سے صہیونی ریاست پر راکٹ کا حملہ ہوا تو اس وقت یاہو جنوبی اسرائیل میں بئر سبع نامی ہوٹل میں ایک میٹنگ کررہے تھے۔
غزہ کی پٹی سے راکٹ داغے جانے کی خبر آتے ہی وہ ریستوران میں جاری تقریب چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے اور یہ واقعہ کیمرے میں قید ہوکر ساری دنیا میں پھیل گیا۔ یاہو حسبِ موقع اس حملے کا فائدہ اٹھاکر قومی سلامتی کے نام پر سبھی سیاسی جماعتوں سے حمایت کی اپیل کرسکتے تھے لیکن اب اس کے اوپر سے سبھی کا اعتماد اٹھ چکا ہے اور کسی کے جھانسے میں آنے کا امکان نہیں ہے کیونکہ یہ بات اظہر من الشمس ہوچکی ہے کہ اس کے نزدیک ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر فوقیت حاصل ہے۔ اس سیاسی خلفشار کے اسرائیل کی عوام پر جو اثرات مرتب ہوئے ہیں اس کا اندازہ شہاب نیوز ایجنسی پر اسرائیلی بریگیڈیئر جنرل (ریزرو) زویکا فوگل کے بیان سے کیا جاسکتا ہے ۔
فوگل نے متنبہ کیا کہ اسرائیل میں سیاسی بحران اور اسرائیلی سیاستدانوں کے مابین تنازعات آنے والی نسلوں کے لئے تباہ کن نتائج مرتب کرے گی ۔ اس نے بتایا کہ اسرائیلی برادری سیاست دانوں کی آپسی جنگ کے سبب قوم جانتے بوجھتے بلاجھجک ایک گہری کھائی کی جانب گامزن ہے۔ اس کے مطابق اسرائیل نیگیو کے علاقہ میں اپنی خود اپنی خودمختاری کھو چکے ہیں اور اب ہم وہاں سرگرم عمل جرائم کے گروہوں پر قابو نہیں پا رہے ہیں۔ عام طور پر اسرائیلی حکام محافظوں کو جرائم پیشہ قرار دیتے ہیں کیونکہ فوگل کے تحت کام کرنے والی فوج ہی دنیا کا سب سے بڑا مجرم گروہ ہے۔ اس نے یہ اعتراف بھی کیا کہ مغربی کنارے اور وادی اردن میں بھی اسرائیل خودمختاری کھو رہاہے۔ فوگل بڑی ڈھٹائی سے غاصبانہ قبضہ کو خود مختاری کہتا ہے۔
مرکزی حکومت میں عرب پارٹیوں کی ممکنہ شمولیت پر ناراض ہوکر فوگل نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر میں غزہ میں حماس کے رہنما یحییٰ السنور یا جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ کی جگہ ہوتا تو ایک ہزار راکٹوں کی برسات کرکے یہ ثابت کردیتا کہ وہ حکومت کس قدر کمزور ہے اور کس آسانی سے ا سے تحلیل کیا جاسکتا ہے ۔ بریگیڈئیر فوگل کو دوسروں کی مثال دینے کے بجائے یہ بتانا چاہیے کہ وہ خود کیا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ؟ فوگل اپنے دل کی بات کہہ کر اپنے عہدے اور اس کے ساتھ وابستہ عیش و عشرت کو خطرے میں ڈالنا نہیں چاہتا اس اِ دھر اُدھر کی باتیں کرتا ہے۔ اسرائیلی سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ اس کے فوجیوں تک کے بزدلانہ اور منافقانہ بیانات کو سن کر یہ شعر یاد آتا ہے؎
تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا مجھے رہزنوں سے گلا نہیں تری رہبری کا سوال ہے
اسرائیل کے اس داخلی خلفشار پر تنقید اس لیے نہیں ہوتی کیونکہ صہیونی دانشوروں کے پرو ٹوکول میں عالمی ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کرنے کا خواب دیکھا گیا تھا اور اس میں انہیں بڑی حد تک کامیابی ملی ۔ مؤثر اخبار ات اور طاقتور چینلس پر تسلط ان کی کمزورویوں خوشنما بنا کر پیش کرتارہتا ہے۔ اسی کے ساتھ ان کے ظلم و استبداد کا جواز یا پردہ پوشی بھی ہوتی رہتی ہے۔ صہیونیوں چونکہ یہ بھی طے کررکھا ہے کہ اپنے زیر اثر خبر رساں ایجنسیوں، اخبارات اور رسائل کے ذریعہ انتشار و بے راہ روی، جنسی و اخلاقی انارکی کو بڑھاوادیں گے تو یہ کام بھی زور شور سے جاری ہے اور مغربی معاشرت اس کی بڑی قیمت چکا رہا ہے لیکن ان کی آنکھوں پر حرص و ہوس کا پردہ پڑا ہوا ہے ۔
صہیونیت کے زیر اثر عالمی میڈیا کا ایک ہدف استبدادی حکومتوں اور مطلق العنان حکمرانوں کی حمایت کرناہے۔ اس مذموم منصوبے میں بھی وہ بڑی حد تک کا میاب ہے ۔ اس کی سب سے بڑی مثال مصر میں سامنے آئی جہاں اپنے پالتو ذرائع ابلاغ کی مدد سے عوام کے جذبات کو مشتعل کیا گیا اور پھر ڈاکٹر محمد مُرسی کی منتخبہ حکومت کے خلاف مصنوعی فضا بنائی گئی۔ اس طرح ایک عادل اور جری رہنما کی جگہ بزدل و جابر السیسی کے اقتدار کی راہ استو ار کی گئی۔ اسرائیل اگر صحیح معنیٰ میں جمہوریت کا علمبردار ہے تو اسے السیسی کے بجائے مورسی کا حامی ہونا چاہیے تھا لیکن اس کے برعکس ہوا۔ السیسی نے بھی زمام ِ کار ہاتھوں میں لے کر سب سے پہلے حق نمک ادا کرتے ہوئے اسرائیل سے دوستی کرلی ۔ صہیونی میڈیا رجب طیب اردوان جیسے نیک نام رہنماوں کی بدنامی اورٹرمپ جیسے بدقماش لیڈروں کی پذیرائی میں دن رات مصروف رہتا ہے ۔
صہیونی چونکہ اپنے طاقت کے بل بوتے پر دنیا پر اثر انداز نہیں ہوسکتے ہیں اس لیے دنیا کی مختلف طاقتوں کے درمیان عداوت و عناد کو پیدا کرنا ان کی مجبوری ہے ۔ عربوں کو ایران سے خوفزدہ کرکے اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کرنا اس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ اس سیاسی رسہ کشی میں چونکہ مغربی ممالک کا بھی مفاد ہے اس لیے وہ اسرائیل کے ساتھ شانہ بشانہ نظر آتے ہیں ۔ مثلاًیمن کے مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر نہ صرف اسلحہ فروخت کیا گیا بلکہ ایک اچھے خاصے ملک کو تباہ کردیا گیا اوپر سے ہمدردی بھی حاصل کی گئی۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ مسلم ممالک بھی آپس میں لڑ بھڑ کر اس کی مانند کمزور اور مغربی استعمار کے مرہونِ منت ہوجائیں۔ اسرائیل کے وجود کو اس تناظر میں دیکھ کر اس کے خلاف ایک عالمی حکمت عملی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔