نظام عدلیہ اور بڑھتے فرقہ وارانہ اثرات

ایڈمن

کسی بھی سماج یا ملک کی اہم ترین ضرورت عدل و انصاف کا قیام، اس کو دی جانے والی اہمیت ، نیز نظام انصاف کا مبنی بر انصاف ہونا ہے،اگر اس سماج یا ملک میں سکون و امن قائم کرنے کے سلسلے میں ہم سچے ہیں۔ جہاں نظام انصاف پر وہاں کی عوام یا سماج کے کسی بھی طبقہ کو انصاف ملنے کی امید نہ ہو، اس سماج میں بے چینی و بدامنی کے ساتھ ساتھ وہاں کے دستور کی اہمیت اس متأثرہ طبقہ کی نگاہ میں کم ہوتے ہوتے ختم ہوجاتی ہے۔ ہندوستانی نظام عدلیہ کے حق میں بھی یہ امر کسی سنگین تر المیہ سے کم نہ ہوگا کہ گزشتہ کئی برسوں سے سماج کا ایک بڑا طبقہ اس اہم جمہوری ادارۂ انصاف کے طریقۂ کارا ور طرز عمل پرجانب داری وتعصب کا الزام لگارہا ہے کہ وہ آنکھ پر پٹی باندھ کر پولیس کی من گھڑت کہانیوں پر یقین کرکے اپنے فیصلے سنا رہی ہے، جو کسی بھی جمہوری حکومت کے حق میں اچھا شگون ہرگز نہیں ہوسکتا ہے۔ان سوالات کی بنیاد بہت سے دلائل اور واقعات ہیں جن کو ہم آسانی سے نظر انداز بھی نہیں کرسکتے، ان دلائل و وجوہات میں ایک اہم وجہ عدلیہ و حکومت کا متعدد اہم ترین حادثات میں عدالتی تفتیش کایہ کہتے ہوئے انکار کہ کسی بھی طرح کی جانچ سے پولیس وحفاظتی دستوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔بٹلہ ہاؤس حادثہ میں عوام کی مسلسل مانگوں کے باوجود قوانین و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حکومتی دعوے پر ہندوستان کی اعلی عدالتوں نے بھی قوانین کی پاسداری و رواداری کے اپنے قانونی فریضہ کی ادائیگی سے انکار کردیا، جبکہ ملک میں مروجہ کرمنل پروسیجر کوڈ ( مجموعہ ضابطۂ فوجداری ) کی دفعہ ۱۷۶؍ کے تحت کسی بھی قسم کی پولیس مڈبھیڑ میں قتل کے کسی بھی حادثہ کی جانچ مجسٹریٹ کے ذریعے کروانا لازمی ہے، نیز اگر پولیس ہی اس میں ایک فریق ہے تو پولیس کے علاوہ کسی دیگر محکمہ کے ذریعے جانچ کروائی جائے گی۔ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کیس کی شروعات میں ہی قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں، عدالت عالیہ نے بھی اس جیسی متعدد قانونی خلاف ورزیوں کا ساتھ دیا۔
قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عدالتی تفتیش کے خلاف عدالت کا یہ غیر قانونی رویہ صرف بٹلہ ہاؤس کیس میں ہی نہیں ہے، بلکہ متعدد دیگر حادثات میں بھی یہ رویہ اختیار کیاگیا ہے، حتی کہ ہمارے سامنے ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جبکہ پولیس کی کاروائیاں پوری طرح غیرقانونی و فرقہ وارانہ تھیں جو کہ ہماری یہی عدالتیں باربار ثابت کرچکی ہیں، اس کے باوجود عدالتوں کی یہ روش مزید افسوس ناک ہوجاتی ہے، عوام کی مانگ دستوری و قانونی ہونے کے باوجود نکار دی گئی، یہ ایک تشویشناک امر ہے۔کسی بھی جمہوری ملک کی عدلیہ کا حکومتی و نام نہاد سلامتی اداروں کی پشت پناہی کرنا یقیناًجمہوری اقدار کے منافی اور تشویشناک ہے۔
بہرحال بنا کسی مجسٹریٹ انکوائری و غیر جانبدارانہ تفتیش کے بٹلہ ہاؤس سانحہ میں شہزاد کا فیصلہ ہمارے سامنے آچکا ہے، کچھ عرصہ قبل ہی جرمن بیسٹ بیکری بم دھماکہ کیس میں حمایت بیگ کا فیصلہ بھی آیا، جس کیس میں حمایت بیگ کے سلسلے میں ہماری مختلف پولیس ایجنسیوں کی تفتیش واضح طور پر ایک دوسرے سے بالکل مختلف و متضاد تھیں، ایسی اور مثالیں بھی ہمارے پاس موجود ہیں جن میں عدلیہ کے فیصلے واضح طور پر نظام انصاف اور انصاف کے درمیان بڑھتی خلیج کو واضح کررہے ہیں، ان شواہد کو سامنے رکھتے ہوئے عدلیہ پر سیاسی دباؤ اور ججوں کی فرقہ وارانہ ذہنیت پربھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ہندوستان کی عام عوام کے ذہن میں یہ سوال ابھر رہا ہے کہ کیا بٹلہ ہاؤس فرضی انکاؤنٹر کا فیصلہ سچ چھپانے کی ایک ناپاک کوشش ہے؟ کیونکہ وکیل دفاع کے اہم دعووں مثلا بٹلہ ہاؤس جیسے بھیڑبھاڑ والے علاقے جہاں یہاں یہ سانحہ پیش آیا آخر پولیس ایک بھی آزاد و عوامی گواہ پیش کرنے میں ناکام کیوں رہی؟ موہن چند شرما کے مبینہ قتل میں پولیس کے مطابق استعمال ہونے والا شہزاد کا ہتھیار پیش کرنے میں سرکار کی ناکامی، نہ ہی اس ہتھیار کے استعمال کے دعوے کو تقویت بخشنے والا کوئی ثبوت جائے واردات سے حاصل ہوا، پولیس کی چوطرفہ چوکسی کے باوجود شہزاد کا فرار ہوناجبکہ عمارت میں پولیس ٹیم موجود تھی، بلڈنگ کے آگے پیچھے راستہ و دائیں و بائیں جانب ایک منزلہ عمارت، ایسی صورت میں راہ فرار؟ موقع واردات سے شہزاد کا کوئی فنگرپرنٹ یا دیگر ٹھوس ثبوت کا نہ ہوناجیسے بے شمار سوالات عدالت میں اٹھا گئے تاہم ان کا کوئی تشفی بخش جواب دینے میں سرکاری وکلاء پوری طرح ناکام رہے، بلکہ عدالت کا فیصلہ بھی ان سوالات سے دامن بچاتا دکھائی دیا۔حکومتی اہلکاروں نے اپنے فرقہ وارانہ ذہن کا ثبوت دیتے ہوئے کہا تھا کہ بھیڑبھاڑ والا بٹلہ ہاؤس کا علاقہ چونکہ مسلم اکثریتی آبادی پر منحصر ہے اور ملزمین و مقتولین بھی مسلم ہیں اس وجہ سے ہم کو کوئی آزاد گواہ نہ ملا،عدالت نے اس دعوی کو تسلیم بھی کرلیا ، کیا یہ جج کے متعصب ہونے کی طرف اشارہ نہیں کرتا، جبکہ اوکھلا کے اس وقت کے ایم ایل اے پرویز ہاشمی پولیس کی حمایت میں گاڑی میں ہی موجود تھے۔
ان حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے شہزاد کو مجرم ثابت کرنے والے فیصلہ کو عدلیہ کا فیصلہ جو گواہ و ثبوت کی روشنی میں ہونا لازمی ہے ، تسلیم کرنا مشکل تسلیم ہوجاتاہے ۔ کیا اس فیصلہ میں بھی بابری مسجد اور افضل گرو پر آئے فیصلوں کی طرح ثبوتوں کے بجائے سماج کے اکثریتی طبقہ کی فرقہ وارانہ جماعتوں و افراد کے مسلم مخالف جذبات کو تسکین بخشنے کی کوشش کی گئی ہے۔
بٹلہ ہاؤس سانحہ کی شروعات میں ہی عوام کی جانب سے مجسٹریٹ انکوائری کی مانگ کو جس طرح عدلیہ و نام نہادحقوق انسانی کمیشن نے خارج کردیا تھا تبھی یہ طے ہو گیا تھا کہ مستقبل میں بھی اس کیس میں انصاف اورحق حاصل کرنا ایک مشکل و ناممکن امر ہوگا۔آج ملک کا ایک بڑا طبقہ اس فیصلے کو انصاف پر مبنی نہیں بلکہ عدلیہ کے ذریعے نظام عدل و جمہوریت پر فرقہ واریت کے بڑھتے اثر کی علامت و مثال مان رہا ہے۔
ہمارے سامنے اس تناظر میں بے شمار ایسی مثالیں موجود ہیں جب ہماری نچلی عدالتوں نے اصول و ضوابط، ثبوت و گواہوں کو نظر انداز کرتے ہوئے سخت ترین فیصلے سنائے تاہم بعد میں ہائی کورٹ و سپریم کورٹ نے سخت الفاظ میں نچلی عدالتوں کے فیصلوں پر تنقید کرتے ہوئے ملزمین کو باعزت بری کردیا۔مثال کے طور پر۲۰۰۱ ؁ء میں ہونے والے پارلیمنٹ حملہ میں دہلی کی ایک نچلی عدالت نے پروفیسر ایس اے آر گیلانی کو اہم مجرم گردانتے ہوئے پھانسی کی سخت سزا سنائی تھی تاہم دہلی ہائی کورٹ نے ان کو باعزت بری کردیا۔
۲۱؍ مئی ۱۹۹۶ ؁ء کے لاجپت نگر، دہلی میں ہوئے دھماکے کے الزام میں سید مقبول شاہ کو ۱۴؍ سال کے بعد دہلی ہائی کورٹ نے ۲۰۱۲ ؁ء میں بری قرار دیا، اس کیس میں مقبول کے علاوہ عبدالغنی، لطیف احمد اور مرزا افتخار حسین کو بھی ملزم بنایا گیا تھا، تاہم یہ سبھی بعد میں ان الزامات سے بری کردیے گئے۔
ایک اور مثال پنجابی باغ، دہلی کیس کی ہے جہاں ۳۰؍ دسمبر ۱۹۹۷ ؁ء میں بم دھماکے ہوئے تھے، جس کے بعد دہلی پولیس نے محمد حسین عرف ذوالفقار علی کو ملزم بنایا، دہلی کی ہی نچلی عدالت پھر دہلی ہائی کورٹ نے بھی تاعمر قید بامشقت کی سزا سنائی ، تاہم معاملہ جب سپریم کورٹ میں پہنچا تو سب کچھ الٹ گیا، سپریم کورٹ کے مطابق ملزم کو نچلی عدالتوں میں نہ تو غیرجانبدارانہ اور ایمانداری پر مبنی ٹرائل کا موقع ملا اور نہ ہی وکیل مہیا ہوا، اس طرح ۲۰۱۳ ؁ء میں انصاف کی ایک طویل لڑائی کے بعد محمد حسین بری قرار دیا گیا۔
اس قسم کے جانبدارانہ و متعصب رویے کے شکار صرف مسلم طبقے کے افراد ہی نہیں ہوتے بلکہ دیگر پسماندہ طبقات کے ساتھ ساتھ حکومت کی سماج دشمن پالیسیوں کی مخالفت کرنے والے سماجی کارکنان کے تئیں بھی یہی طرز عمل اختیارکیا جاتا ہے۔ کچھ سال قبل چھتیس گڑھ کی ایک عدالت نے حقوق انسانی کارکن ڈاکٹر بنائک سین پر نیز اترپردیش میں سیما آزاد و وشوا رنجن کے خلاف ماؤوادی سرگرمیوں کے نام پر جو سزائیں سنائی تھیں جنھیں بعد میں اعلی عدالتوں نے بری قرار دیا تھا، اس تناظر میں افسوسناک مثالیں ہیں۔
دس سے بیس سال جیل میں اپنی زندگی تباہ کرنے کے بعد اگر نظام عدلیہ کسی شخص کو بری قرار دیتا ہے تو یہ سوال یقیناًفطری ہوگا کہ کیا ان بے گناہوں کے ۱۵؍ سے۲۰؍ سالوں کی بربادی کی وجہ نچلی عدالتوں کا فرقہ وارانہ طریقۂ کار اور پولیس دوستی یا سیاسی دباؤ تو نہیں ہے؟ ایسی بے شمار مثالیں ہیں جب ایک لمبے عرصے کے بعد اعلی عدالتوں نے ملزمین کو بری قرار دیتے ہوئے نچلی عدالتوں کے طرزعمل پر سوالیہ نشانات لگائے ہیں۔یہ نہایت تشویشناک پہلو ہے کہ کسی بھی شہری کے اوپر ملک سے بغاوت و ملک کے خلاف جنگ کے الزامات لگیں، پھر وہ اپنی زندگی کا ایک بڑا اور اہم ترین حصہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے قیدوبند کی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے خود کو بے قصور ثابت کرنے میں لگادے، پھر آزاد ہونے کے بعد بقیہ زندگی معاوضے کی لڑائی لڑتا رہے۔
شہزاد کا فیصلہ ایک بار پھر سماج سے یہ اپیل کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ وہ ملک میں انصاف پر مبنی جمہوری نظام کی بقا و تحفظ کے لئے نظام عدلیہ پر بڑھتے فرقہ وارانہ اثرات کے خلاف متحدہ اصلاحی اقدام کے لئے سنجیدگی سے اٹھ کھڑے ہوں، ناانصافی کے خلاف جمہوری انداز میں بااثر آواز بلند کریں، ابھی دیر نہیں ہوئی ہے۔ 2n2

 

ابوبکرسباق سبحانی،اے پی سی آر

ستمبر 2013

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں