مصنف این سی ای آر ٹی کے سابق ڈائرکٹر ہیں۔
بشکریہ، انڈین ایکسپریس
ہندوستان جدید ٹیکنالوجی اور شہری رنگارنگی سے آراستہ ایک ملک ضرور بن گیا ہے لیکن ذات پات جیسا قدیم اور فرسودہ نظام اب بھی ہمارے سماج اور سیاست پر اثر انداز ہے۔ مہاراشٹرا میں رونما ہوا حالیہ واقعہ بتاتا ہے کہ ان قدیم موضوعات پر بحث و مباحثہ اب بھی نہایت ضروری ہے۔
تین دلت نوجوانوں کو بےدردی سے پیٹا گیا اور سرِ عام برہنہ گھمایا گیا۔ ان نوجوانوں کا جرم بس اتنا تھا کہ انہوں نے اس کنویں پر نہانے کی جرأت کی تھی جہاں پسماندہ طبقے کی رسائی ممنوع تھی۔ مظلوم طبقے کے خلاف اس پوری واردات کو انجام دینے والوں نے خود ہی اسے لوگوں کے سامنے پیش بھی کیا۔ اس کے ذریعے شاید وہ یہ سبق دینا چاہتے ہیں کہ اعلیٰ طبقہ کی بنائی ہوئی خود ساختہ روایات کو توڑنے کا یہی انجام ہوگا۔ ان کو اس سے مطلب نہیں ہے کہ زمانہ بدل چکا ہے اور تاریخ اپنی فرسودہ روایات کو پیچھے چھوڑ کر ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ موجودہ سیاست میں کچھ تو ایسی بات ضرور ہے کہ ایسے لوگوں کو اب بھی اس طرح کی ظالمانہ روایات کو برقرار رکھنے کا موقع ملا ہوا ہے۔
یہ پورا واقعہ مجھے ہندوستان کے اس قدیم دور کی یاد دلاتا ہے جب کنوؤں کے ذریعہ پانی حاصل کیا جاتا تھا۔ پائپ لائن کا کوئی رواج نہ تھا اور کنویں بھی ذات پات کی سرحدوں میں تقسیم تھے۔ اپنے گھر کے احاطے میں خود کا کنواں ہونا اکرام کی بات سمجھی جاتی تھی۔ منشی پریم چند نے کئ مختصر کہانیاں کنوؤں اور اس سے متعلق جھگڑوں کو ہی موضوع بنا کر لکھی ہیں۔ انہیں میں سے ایک کہانی ’’ٹھاکر کا کنواں‘‘ ہے جو غالباً 1930 میں لکھی گئی تھی۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک شودر مزدور کی بیوی اپنے بیمار شوہر کی پیاس بجھانے کے لئے رات کے اندھیرے میں چھپ چھپا کر پانی لینے کی جرأت کرتی ہے۔ جس کنویں سے شودر پانی پیتے تھے اس میں کسی جانور کے گر جانے سے بدبو پھیل گئی تھی۔ رات کے اس پہر ٹھاکر کا کنواں ہی ایک واحد آسرا تھا۔ ابھی وہ پانی بھرنے ہی والی ہوتی ہے کہ ٹھاکر کا دروازہ کھلتا ہے۔ پکڑے جانے کے خوف سے وہ وہاں سے بھاگ کھڑی ہوتی ہے۔ گھر پہنچتی ہے تو دیکھتی ہے کہ اس کا شوہر وہی گندے پانی کا لوٹا منہ سے لگائے ہوئے ہے۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ کہانی میں ذکر کئے گئے واقعات اب قصۂ پارینہ بن چکے ہیں لیکن مہاراشٹرا میں رونما ہوا یہ واقعہ بتاتا ہے کہ ان واقعات کی نوعیت مختلف ضرور ہو سکتی ہے لیکن ان کا وجود اب بھی باقی ہے۔ منشی پریم چند کی کئی کہانیاں اسکول اور کالج کے نصاب میں پڑھائی جاتی ہیں اور طلباء کو بتایا جاتا ہے کہ کس طرح انہوں نے پرانے دور کی فرسودہ روایات کو مثلاً چھوا چھوت، توہمات وغیرہ کو اپنی کہانیوں کے ذریعہ پیش کیا۔ طلباء ان کی کاریگری کو حسن و خوبی سے لکھتے ہیں تاکہ اچھے نمبر حاصل کر سکیں۔ ٹیچر طلبہ کو بتاتے ہیں کہ ذات پات کی بنا پر تعصب جیسی برائیاں قدیم دور میں پائی جاتی تھیں۔ اب اگر کہیں یہ تھوڑی بہت موجود بھی ہے تومحض دیہاتی علاقوں میں۔ درسی کتابوں میں اس طرح کی کہانیوں کو شامل کر نے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ تعلیم کے ذریعہ ان غیر انسانی روایات سے لڑاجا رہا ہے۔ لیکن ہم تعلیمی نصاب کے علاوہ دیکھیں تو اکثر ریاستوں میں ذات برادری جیسے موضوع پر برائے نام ہی گفتگو ہوتی ہے۔ اسے محض درسی نصاب تک ہی سمیٹ کر رکھ دیا گیا ہے۔ اسکول، کالج اور اساتذہ کی تربیت کے اداروں میں ہر جگہ اس موضوع سے گریز کیا جاتا ہے۔ اگر بات ہوتی ہے تو صرف پسماندہ طبقات کے تحفظات اور دستوری اغراض ومقاصد کی۔ اس بات کی امید لگائے رکھنا کہ تعلیم کے ذریعہ ذاتی تعصبات بھلے ہی یکسر کم نہ ہوں لیکن دھیرے دھیرےاس رویہ میں کمی ضرور آئیگی،اس سے بہتر ہے کہ ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ ہمارے تعلیمی ادارے اور نصاب تیار کرنے والی ایجنسی وہ کونسی پالیسی اپناتی ہے جس سے اس عصبیت کو ختم کیا جا سکے۔
اگر ہم اس موضوع پر دو سوالوں کا جواب دیں تو شاید ہم کسی نتیجہ تک پہنچ سکتےہیں۔ پہلا سوال یہ کہ کیا تعلیم کے ذریعہ پس ماندہ طبقے کا سماجی و معاشی ارتقاء ہوا ہے؟ دوسرا یہ کہ کیا تعلیم کے ذریعہ ذاتی تعصب میں کمی آئی ہے؟ پہلے سوال کا جواب ’’ہاں‘‘ ہے لیکن دوسرے سوال کے جواب میں زیادہ سے زیادہ یہی کہا کہ شاید ’’کچھ حد تک‘‘ اور یہ عصبیت ہم تعلیمی اداروں کے اندر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ دوستی سے لےکر سیاست تک ہر جگہ ذاتی تعصب کے اثرات ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کالج وغیرہ میں کسی حد تک ایک آزادانہ اور غیر متعصب فضا پروان چڑھانے کی کوشش ضرور کی جاتی ہے لیکن اس سنجیدہ موضوع کو براہِ راست بحث کا حصہ نہیں بنایا جاتا۔ اب یہ بات سمجھی جانے لگی ہے کہ ذات پات کے نظام کو نصاب میں شامل کرنے سے اسے اور بڑھاوا ملے گا۔ حتیٰ کہ وہ ادارے جن کا قیام ہی خاص طبقہ یا ذات کی بنا پر عمل میں آیا تھا وہ بھی دھیرے دھیرے طلباء کے ذہنوں سے اس موضوع کو محو کر دینا چاہتے ہیں۔ اور یہی چیز ہم ٹیچر ٹریننگ اداروں میں بھی دیکھ سکتے۔ آپ کسی شخص کو اس بات کا قائل نہیں کرسکتے کہ وہ وقت نکال کرایس سی دوبے کی لکھی ہوئی ایسی کتابیں پڑھے جو ذات پات کے نظام پر بحث ومباحثہ کے لئے ابھارتی ہوں۔
ذات پات کے نظام کو بی آر امبیڈکر بہت صحیح نقطۂ نظر سے دیکھ رہے تھے کہ یہ ذہنی ترقی کے لئے بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ ان کے فلسفۂ تعلیم کے کولمبیا سے تعلق رکھنے والے استاد جان دیوے نے اپنے جمہوری ماڈل میں اسے مرکزی مقام دیا ہے۔ ذات پات کا نظام کس طرح خیالات کے بہاؤ اور علم کی رفتار کو روک دیتا ہے اسے واضح کرنے کے لئے امبیڈکر نے social endosmosis کا استعارہ استعمال کیا ہے۔ یہ ‘endosmosis’ جھلی کے ذریعہ ایک خلیہ تک پہنچنے کے لئے سیال راستے کو یقینی بناتا ہے۔ امبیڈکر نے محسوس کیا کہ ذات پات کا یہ نظام بنیادی طور پر سماج کو صحت سے محروم کر دے گا۔ دیوے کی طرح امبیڈکر بھی تعلیم کی طاقت کے قائل ہیں تاکہ اس کے ذریعہ جمہوریت پرورش پائے۔ ہمارا نظام تعلیم کسی بھی طرح کے Endosmosis کو بڑھاوا دینے میں بہت کمزور ثابت ہوا ہے یہاں تک کہ نظم و ضبط کے معاملے میں بھی سماجی گروہوں کو اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ سائنس، مینجمینٹ اور انجینئرنگ کے علوم ذات پات کے نظام کا دانشورانہ محاکمہ اور گرفت نہیں کر سکتے۔روز مرہ کی زندگی میں جو خیال معمول کا حصہ بن کر عام بات ہو گئے ہیں ضرورت ہے کہ انہیں پھر سے از سر نو تازہ کیا جائے۔ اگر آپ متوسط طبقہ کے شہری ہیں تو آپ کو ذات پات کا اس طرح ادراک ہونا چاہئے کہ گویا کچھ ہے جو آپ سے چھن گیا ہے۔ یہاں تک کہ یہ سوچ آپ کی روز مرہ کی زندگی پر چھا جائے اور آپ کو اپنی پہچان مل جائے۔