سرجیکل اسٹرائیک: خلائی تصاویر اور زمینی حقائق

0

ڈاکٹر سلیم خان

انسان روز اول سے آسمان کی جانب دیکھتا رہا ہے ۔ ستاروں کی گردش سے اپنے روز وشب کو جوڑتا رہا ہے ۔ مرزا غالب نے تو اس موضوع پر دستنبو نامی کتاب بھی تصنیف کردی تھی۔ اپنی نادر روزگار کتاب میں غالب یوں رقمطراز ہیں ’’جب یہ مسلم ہے کہ آسمان کی گردش حکم خدا کے تابع ہے تو پھر آسمان جو کچھ دے، ہم اس کو ظلم کیسے کہہ سکتے ہیں؟۔سبحان اللہ کتنا عظیم ہے وہ خدا جو وجود عطا کرتا ہے اور عدم کو ختم کرتا ہے۔ جو ظلم کو ختم کرنے والا اور انصاف کی روشنی پھیلانے والا ہے۔ وہ انصاف (کی طاقت) سے طاقتوروں کا زور گھٹا دیتا ہے اور اپنے کرم سے کم زوروں کو طاقت بخشتا ہے۔ ابابیل کے کنکروں کی ضرب سے فیل سوار خود سروں کا خاک میں مل جانا یا ایک مچھر کا نمرود کو موت کے بستر پر سلا دینا کیا تھا؟ یقیناً یہ وہ نشانیاں ہیں جن سے اس کی (بے پناہ) قوت و قدرت کا اظہار ہوتا ہے، ورنہ مجھ کو بتاؤ کہ یہ دو مختلف قسم کی تباہیاں جو مختلف زمانوں میں نازل ہوئیں۔ یہ کس ستارے کی نگاہ ستم کا کرشمہ تھیں۔ضحاک، جمشید سے تخت و تاج چھین لیتا ہے۔ سکندر، دارا کا سینہ چاک کر دیتا ہے۔ عفریت، حضرت سلیمان کے ہاتھ سے انگوٹھی اڑا لے جاتا ہے، جو دیو اور پریوں پر حکمرانی کرتے تھے۔ تم جزا و سزا کے اسرار سے واقف نہیں ہو۔ بس آسمانوں اور ستاروں کو ہر چیز کا ذمے دار سمجھتے ہو‘‘

ستاروں کے عشق میں شاعروں کے ساتھ ساتھ سائنسداں بھی گرفتار رہے۔ ان  کو قریب سے دیکھنے کے لیےان لوگوں نے دوربین بنائی  ۔ پھر کیمرہ ایجاد کرکے تصویریں لینے لگا  اور آگے بڑھ کرفلم بنانے لگا لیکن اس کی  طلب و جستجو تشنہ ہی رہی تو اس نے  بذاتِ خود خلاء کا سفر  شروع کیا اور مصنوعی سیارے  بھی روانہ کیے ۔ مصنوعی سیاروں میں جب  کیمرے نصب ہوئے وہ  اپنی زمین کی تصاویر آسمان سے لینے لگا۔یہ زمینی  تصاویر چونکہ خلاء  سے لی جاتی ہیں اس لیے سرحد کے حدود و قیود کی پابند نہیں ہیں۔ یعنی راجناتھ سنگھ کو یہ کہنے سے بے نیاز کردیتی ہیں  کہ جن کو   بالا کوٹ کےمہلوکین کی تعدادمعلوم کرنی ہو  وہ پاکستان جانے کے لیے آزاد ہیں اور نہ پاکستان کے فوجی ترجمان کے اس  اعلان  کی محتاج ہوتی ہیں کہ جس کسی کو حقیقت کا پتہ لگانا ہو اس کا استقبال ہے۔

امریکہ کے شہر سین فرانسسکو میں واقع پلینیٹ لیبس نے 4 مارچ یعنی سرجیکل اسٹرائیک کے 6 دن بعد ایک نجی سٹیلائٹ سے لی گئی  تصاویر شائع کرکے  فی الحال ہنگامہ مچا رکھا  ہے۔ ان تصویروں میں بالا کوٹ کے اندر جیش کے 6 مدرسے اب  بھی محفوظ و مامون نظر آتے ہیں۔ رائٹرزنامی بین الاقوامی نیوز ایجنسی نے انہیں اپنی ایک رپورٹ شائع کیا۔ رپورتاژ کے مطابق بالاکوٹ میں جیش کے مدرسوں کا  کوئی نقصان نہیں ہوا ۔ دیواروںمیں شگاف تک نہیں آیا  اور اس کے قرب و جوار میں  پیڑ بھی ہرے،بھرے ہیں۔ رائٹرز تو خیر اس فرانس کی خبررساں ایجنسی ہے  جس سے نہایت مہنگے داموں پرہندوستان نے رافیل طیارے  خریدے ہیں ۔ افسوس کہ   اس کے باوجود اس  نےنمک کا حق  ادا نہیں کیا۔ یہ  تصاویر اگر منظر عام پر نہیں آتیں  تو  ہمارے وزیراعظم اور بی جے پی والے جیش کے ٹھکانوں اور  کنٹرول روم کو تباہ کر نے کا دعویٰ کرکے ووٹ گنتے رہتے لیکن  تصاویر کی اشاعت نے رنگ میں بھنگ کردیا ۔


 رائیٹرز نے توجو کیا سوکیا لیکن مودی جی کو اپنے رفیق خاص مکیش امبانی سے یہ توقع کبھی نہیں رہی ہوگی کہ وہ اس نازک گھڑی میں   وہ ان کی پیٹھ کے اندر چھرا گھونپ دیں گے ۔ ہندوستان کے اندر اس خبر کو مشتہر کرنے کاکام امبانی کے پورٹل ’نیوز 18‘ نے کیا ہے۔  مودی جی نے مکیش امبانی کے لیے کیا کیا نہیں کیا؟ کتنی بدنامی اٹھائی اس کے باوجود  موقع ملتے ہی  ایک گجراتی کو دوسرے گجراتی  کا گلا کاٹ دیا لیکن چونکہ  سرمایہ داری میں  سنگھانیا جیسابیٹا  بھی باپ کا نہیں ہوتا اس لیے دوستی یاری کیا چیز ہے؟ اس کی ایک وجہ مودی جی کا انل امبانی کو رافیل سودے میں فائدہ  پہنچانا بھی ہوسکتا ہے۔ مکیش اور انل ویسے تو سگے بھائی ہیں لیکن ان کے اندر کرن اور ارجن جیسی دشمنی ہے۔

مودی جی نے دونوں بھائیوں  کو بیک وقت خوش کرنے کی کوشش کی ۔ ان میں سے ایک دشمن اور دوسرا دیوالیہ  ہوگیا۔ اب ان کے مشترک دوست کا الیکشن میں  کیا حال ہوگا کوئی نہیں جانتا ۔ ویسے اس حرکت سے مکیش امبانی نے حزب اختلاف پر جو احسان عظیم کیا ہے اس کا فائدہ مودی جی کے جھولا اٹھا کر بن باس پر نکل جانے کے بعد کیا جائے گا۔  انتخابی  نتائج کے معاملے میں بڑے بڑے صحافیوں سے درست اندازے سرمایہ داروں کے ہوتے ہیں  ۔ نیوز ۱۸ کی اس خبر سے مکیش امبانی کی توقعات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ویسے امبانی اور اڈانی جیسے سرمایہ داروں کو حکمرانوں کے آنے جانے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ دولت کے مقناطیس سے سیاست کے زنگ زدہ لوہے کو بہ آسانی  اپنی  بھٹی میں پگھلا کر چمکا دیتے ہیں ۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں دولت اور سیاست ایک جان دو قالب ہوگئے ہیں  اس لیے  ان دونوں پر بیک وقت یہ شعر صادق آتا ہے؎

ان سے امید نہ رکھ ہیں یہ سیاست والے                          یہ کسی سے بھی محبت نہیں کرنے والے

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights