نئی نسل کی تربیت اور ہمارا معاشرہ

ایڈمن

شاہد میاں صدر مدرس جونیر ہائی اسکول اوساواں ضلع بدایوں نئی نسل کی تعلیم و تربیت میں معاشرہ کا اہم کردار ہوتا ہے ۔ تعلیم کے ذریعہ انسان جانتا ہے اور تربیت کے ذریعہ انسان کے اندر ماننے کی صلاحیت…

شاہد میاں
صدر مدرس جونیر ہائی اسکول
اوساواں ضلع بدایوں

نئی نسل کی تعلیم و تربیت میں معاشرہ کا اہم کردار ہوتا ہے ۔ تعلیم کے ذریعہ انسان جانتا ہے اور تربیت کے ذریعہ انسان کے اندر ماننے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے ۔ یہ دونوں ہی باتیں ضروری ہیں ۔ تعلیم سے محرومی ایمان سے محروم ہونے کے سب سے بڑا نقصان ہے ۔ جو شخص علم سے محروم ہو اس کی مثال آنکھوں سے محروم شخص کی طرح ہے ۔ لیکن اگر تربیت نہیں ہوئی اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو ظالم اور مظلوم میں فرق نہیں کرتا ۔ پہلا شخص اپنے آپ کو نقصان پہنچائے گا اور دوسرا شخص سماج اور معاشرہ کو ۔ تعلیم و تربیت سے محروم انسان کا تکبر ، اس کی زبان درازی ، دوسروں کی حق تلفی اور رشوت کی گرم بازاری پورے سماج کو بے سکون بنادیتی ہے ۔


اس لیے اسلام نے جہاں تعلیم حاصل کرنے اور اپنے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے پر زور دیا ہے وہیں خاندان اور سماج کے ذمہ دار لوگوں کو اپنے چھوٹوں کی تربیت کی بھی نہایت تاکید کے ساتھ تلقین کی ہے ۔ نماز کا حکم دینے کے ساتھ اپنے اہل و عیال کو بھی نماز کی تلقین کرنے کا حکم دیا ۔


تربیت میں عام طور پر تین عناصر اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ اساتذہ ، والدین اور دوست و احباب ۔ استاد سے شاگرد صرف ان مضمون کو نہیں پڑھتے جو نصاب کا حصّہ ہوتا ہے ۔ بلکہ وہ اساتذہ سے بول چال ، اندازِ ملاقات اور بہت کچھ سیکھتے ہیں اور پڑھنے والے پر ان کی گہری چھاپ پڑتی چلی جاتی ہے ۔ مگر افسوس کہ آج کل اساتذہ سے طلبہ خوبیوں کے بجائے کمزوریوں کو اخذ کرتے ہیں ۔ افسوس کے کام چوری ، ناشائستہ گفتگو ، نامناسب رویہ اور فرض شناسی کا سبق اکثر وہ اساتذہ سے ہی سیکھتے ہیں اور اپنی آئندہ زندگی میں اس کو دہراتے ہیں ۔


والدین پر اولاد کی تربیت کا خصوصی ذمہ داری ہے کیونکہ ہر انسان چاہتاہے کہ وہ خود کیسا بھی ہو اس کے بچے اچھے ہوں مگر تین باتیں تربیت میں رکاوٹ بنتی ہیں ایک توماں باپ کی جہالت ۔ مسلم معاشرہ میں آج بڑی تعداد ایسے والدین کی ہے جو اپنی اولاد کی تربیت کی صلاحیت نہیں رکھتے دوسرے زیادہ تر والدین معاشی تگ و دو کی وجہ سے بچوں کی تربیت پر توجہ نہیں دیتے ۔ کچھ والدین جو پڑھے لکھے ہیں اور بچوں کی تربیت بھی کرنا چاہتے ہیں مگر ان کے نزدیک دنیوی زندگی کی ترقی کے لیے بچوں کو تیار کرنا ہے ۔ اخلاقی تربیت کی ان کے یہاں کوئی قدر و قیمت نہیں ہے ۔


تربیت کا تیسرا ذریعہ انسان کے دوست و احباب ہیں ۔ بعض اوقات انسان مدرس اور ماں باپ سے بڑھکر قریبی دوستوں کا اثر قبول کرتا ہے ۔ موجودہ دور میں سماجی بگاڑ کی وجہ سے عام طور پر تعلیمی اداروں میں جو صحبت ملتی ہے وہ ان کو فائدہ کم اور نقصان بہت زیادہ پہنچاتی ہے ۔ اس لئے تربیت عنصر بالکل ختم ہوجاتا ہے اسی لئے معاشرہ میں جیسے جیسے تعلیم بڑھتی جاتی ہے اخلاقی اقدار تباہ ہوتی جارہی ہے ۔


یہ صورت حال اس وقت اور بھی زیادہ پریشان کن ہوتی ہے جب ابتدائی تعلیم حاصل کرکے اعلیٰ تعلیم کے لیے دوسرے شہروں میں جاتے ہیں ۔ وہاں نہ تو والدین کی نگرانی ہوتی ہے اور نہ اچھے مدرس ملتے ہیں ۔ اس وجہ سے وہ بگاڑ کی طرف چلے جاتے ہیں ۔


شہروں میں دیکھ بھالی اور تربیت کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے سماجی برائیوں کے واقعات پیش آتے ہیں وہ روزانہ اخبار میں دیکھے جاسکتے ہیں ۔


ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے ہاسٹل تعمیر کئے جائیں کہ وہاں تربیت کا نظم ہو ۔ اگر دینی مدارس ہاسٹل قائم کریںتو یہ بہت ہی مفید صورت ہوگی اس طرح ہم قوم کے بہت سے بچوں اور بچیوں کو گمراہ ہونے سے بچا سکیں گے اور عصری تعلیم سے آراستہ ہوکر ملازمتیں حاصل کریں گے تو بہتر طریقے سے اپنے کاموں کو انجام دے سکیں گے۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں