میرے سفرحیات کی ہم نشین:اسلامی معاشیات

0

عصر جدید میں علم معیشت اسلامی کے آفریدگارپروفیسر محمد نجات اللہ صدیقی کی خصوصی تحریر

                                                     ترجمہ: عبدالباری مومن

سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مسلم امت ابھی تک اپنے آپ کو عصر حاضرکے حقائق سے ہم آہنگ نہیں کرسکی ہے۔رسول اکرم ﷺ کے دلِ درد مند میں وہ جذبہ تھا جس تحت آپ نے انسانیت کو حقیقی معاشیات کا درس دیا۔اگر ہماے دل میں بھی وہی جذبہ ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم سنجیدگی سے اس ضمن میں تحقیقی کام کریں اور نئی بلندیوں کو چھونے والے ایسے ادارے قائم کریں جن کی اہمیت کوجدید دنیا تسلیم کرنے پر مجبور ہوجائے۔ آج اگرچہ اسلامی دنیا میں بڑے بڑے ایسے ادارے ہیں جو اسلامی معیشت کے مشن کو لے کر چل رہے ہیں۔ مثلاً کنگ عبدالعزیز یونی ورسٹی کا اسلامی معاشیات پر تحقیق کا بین الاقوامی مرکز (جو اب اسلامی معاشیات کا ادارہ  Islamic Economics Institute کہلاتا ہے)۔ اس کا مقصد ہے اس فیلڈ میں تحقیقی کام اور اساتذہ کی تربیت کرنا۔اس کے علاوہ اسلامک ڈیولپ منٹ بینک کا اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ ہے،اسلامک یونی ورسٹی (اسلام آباد) کا اسکول آف ا سلامک اکونومِکس ہے، کوالا لمپور میں قائم انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی کی کلّیہ آف اکونومیکس ہے۔حال یہ ہے کہ اب تو مسلمانوں کے زیر انتظام اعلیٰ تعلیم کے ہر ادارے کے نصاب میں یہ مضمون شامل ہے۔لیکن ان تمام پروگراموں پر ایک مصنوعی دھند اور ان کے مواد پر ایک سطحیت چھائی ہوئی نظر آتی ہے۔ نالج کے اسلامائزیشن کے بارے میں ہمارا تصور یہ معلوم ہوتا ہے کہ قدیم علوم پر نئی معلومات کا پیوند لگادیا جانا ہی کافی ہے۔اس میدان میں تحقیق کرنے والے بہت سارے اسکالرس کو یہ خیال تک نہیں آرہا ہے کہ قدیم علوم پر مکرّر غورو فکر، ان میں تبدیلی اور کانٹ چھانٹ کی ضرورت بھی ہے۔ہم قدیم اسلامی معیشت پر کوئی سوال اٹھانے والے کو توہینِ شریعت کا مرتکب سمجھ لیتے ہیں۔

             میں اپنی اس بات کو سمجھانے کے لیے ایک مثال دیتا ہوں۔ میں نے جن ریسرچ اسکالرس کی بطور ممتحن جانچ کی ان میں سے اکثر سعودی عربیہ کی اُمُّ القریٰ یونی ورسٹی اور جامعۃُالامام سے تعلق رکھتے تھے۔ میں جِدّہ کے مرکز میں تھا توڈاکٹریٹ کے بہت سے طلبہ نے انتخابِ مضامین، تحقیقی طریقہ کار اور دیگر مسائل کو سمجھنے کے لیے مجھ سے ربط قائم کیا۔ایک طالب علم کو میں نے قرآن کریم میں اِسراف کے موضوع کی طرف متوجہ کیا۔ اس میں یہ بات شامل تھی کہ مختلف ادوار میں، مختلف علاقوں میں اور مختلف آمدنی والے گروہوں میں اِسراف کے طریقوں میں کیا کیا تبدیلیاں ہوئیں۔اس تحقیق کے لیے کتابی مطالعہ کے علاوہ فیلڈ ورک کی بھی ضرورت تھی۔طالب علم کو سوال نامے تیار کرنا ہوتے جو مختلف مقامات پر رہنے والے خاندانوں کے ذریعہ پر کرنے ہوتے۔لیکن ذمہ داروں نے یہ تجویز رد کردی۔وجہ یہ تھی کہ موضوع اور فیلڈ ور ک دونوں کو مناسب نہیں سمجھا گیا۔ معلوم ہوا کہ مذہب سے تعلق رکھنے والے موضوعات کی تحقیق کے لیے تجرباتی مطالعہ کے طریقہ کار کو بالکل ہی سرد خانے میں ڈال دیا گیا تھا۔اس کا احساس مجھے اس وقت ہوا جب میں نے ہندوستان کے متعدد اسلامی اداروں سے ربط قائم کرکے اس بات کی کوشش کی کہ وہ مسلمانوں میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کے مسئلہ کی تحقیق میں دلچسپی لیں۔لیکن معلوم ہوا کہ فیلڈ ورک کرنے یا زمینی حقائق معلوم کرکے کچھ سیکھنے کے لیے کوئی تیار ہی نہیں۔ انہیں اس بات کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ سماجی رجحان میں اس طرح کی تبدیلیاں کیوں ہورہی ہیں۔

            آج(2015) سے تقریباً بیس سال قبل ہارورڈ کے ایک پروفیسر نے مجھے کچھ ورک شیٹس بھیجیں جنہیں اسلامی اصولوں کی روشنی میں سود کے متعلق گفتگو کے لیے استعمال کرنا تھا۔سود کے موضوع پر تمام قرآنی آیات اور اہم احادیث ان کے ساتھ مہیا کی گئیں تھیں۔ طلبہ سے کہا گیا کہ ان کی روشنی میں جتنے اصول اخذ کیے جاسکتے ہیں وہ کرلیں۔اسکے بعد وہ مختلف فقہی اسکولوں میں دیے گئے اصولوں اور فیصلوں کا جائزہ لیں۔آخر میں اُن کو اِن میں پائے جانے والے اختلافات پر رائے زنی کرتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کرنا تھا۔تقریباً اسی زمانے میں، مَیں ام القریٰ یونی ورسٹی کے شعبہ معاشیات میں بطور ممتحن اپنی خدمات انجام دے رہا تھا۔طالب علم اسلامی اصولوں کی روشنی میں مالک و ملازم کے حقوق کے تعلق سے اپنے استاذ کے دعوے کا دفاع کررہا تھا۔ مختلف آراء بیان کرنے کے بعد جب طالب علم نے کہا کہ میری رائے میں ………… تو فوراً ہی چیف ممتحن نے(جو فقہ کا پروفیسر تھا) نے اسے سخت لہجے میں ڈانٹا کہ آپ اپنی رائے نہیں دے سکتے۔ ہمارے لیے یہ کافی ہے کہ ہم اپنے اسلاف کی آراء کو جان لیں اور ایمان داری سے انہیں اگلی نسلوں تک پہنچادیں۔

            ایک طالب علم جو خود ندوۃ العلماء کا فاضل تھا، نیز اس نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے اسلامی معاشیات میں مرابحہ کے موضوع پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی، اس نے حیدرآباد کے ایک مدرسے میں اِفتاء کے کورس میں داخلہ لیا، جب وہ فارغ ہوکر آیاتو میں نے اس سے پوچھا کہ آپ کو فتویٰ  لکھنے کی تربیت کس طرح دی جاتی ہے؟اس نے بتایا کہ ہم کو کچھ اِستفتاء دیے جاتے ہیں اور مخصوص قدیم کتابوں میں سے اس کے تعلق سے جوابات تلاش کرنے کے لیے کہا جاتاہے۔

            اس طریقے سے ہم اسلامی معاشیات کی تعلیم دیتے ہیں اورعملی کام انجام دیتے ہیں۔امت مسلمہ کو جو چیلنجس درپیش ہیں کیاان سے نپٹنے کے لیے یہ طریقہ کارآمد ہو سکتا ہے جو حیدرآباد کے دارالافتاء میں سکھایا جاتا ہے یا ام القریٰ یونی ورسٹی میں جو موقف اختیار کیا جاتا ہے۔ درس و تدریس کا یہ طریقہ آزادانہ غورو فکر اور تخلیقی حِس کی نشو ونما کے لیے نیز تجسُّس کے کسی بھی شائبہ کے لیے سمِّ قاتل ہے۔ تجرباتی طریقوں سے اجتناب ہماری ریسرچ کو کھوکھلا بنا دیتا ہے۔ہم صرف گذشتہ قدیم کتابوں پر ہی مکمل انحصار کیے ہوئے ہیں۔ ہم نے زمینی حقائق اور تاریخ کے سبق کو بالکل نظر انداز کرنے کا تہیہ کرلیا ہے۔جب ہم مکمل طور سے صرف اساتذہ پر ہی انحصار کیے رہتے ہیں تو ہم وسیع تر بحث و مباحثہ سے حاصل ہونے والے فوائد سے محروم ہوجاتے ہیں۔ جب کہ بحث و مباحثہ کے ذریعے ہمیں باہمی تبادلہ خیال اور حقیقت مندانہ غورو فکر کا موقع حاصل ہوتا ہے۔ نئے نئے انکشافات ہوتے ہیں۔

            ہمارا تاریخ کا مطالعہ بھی ناقص ہوتا ہے۔ عام طور پر کچھ منتخب اجزاء لے لیے جاتے ہیں۔ ایک طرف توجدید تاریخ دانوں کو ہمارے ماضی کے فکروعمل میں تضاد نظر آتا ہے۔ دوسرے مسلم اسکالرس ہمارے ماضی کی ایک ایسی آئیڈیل تصویر پیش کرتے ہیں جس کا تعلق صرف ہمارے روشن دور سے ہے۔ دونوں صورتوں میں ہم صداقت تک پہنچنے اور تاریخ سے صحیح استفادہ کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔جب میں نے ایک مقالہ  Public Borrowing in Early Islamic History کے نام سے لکھا اور اسے ایک اسلامی معاشی جرنل کو بھیجا تو اس نے پہلے اسے دو ثالثوں (referees)کو روانہ کیا۔اس مقالہ میں دیگر باتوں کے علاوہ ایک بات یہ بھی تھی کہ نویں صدی عیسوی کے عباسی دور میں حکومت نے غیر مسلموں سے قرضے لیے تھے تاکہ فوج کی تنخواہ وقت پر ادا کی جاسکے۔ قرض واپسی کے لیے قرض دینے والوں کو یہ اجازت دی گئی تھی کہ وہ ایک صوبہ کا لگان وصول کرلیں۔اس میں رباء کا شبہ ہونے کی بناء پر ایک ثالث نے نہایت غضب ناکی کا مظاہرہ کیا اور اصرار کیا کہ یہ واقعہ مقالے سے نکال دیا جائے کیوں کہ اس سے اسلامی تاریخ پر حرف آتا ہے۔ہمیں تو بس یہ سمجھنا چاہیے کہ تمام تاریخی شخصیات انسانیت کے لیے مشعل راہ اور مہذب ترین نمونے کی مثالیں تھیں۔اس قسم کے تاریخی واقعات کے لیے تاویلات یا حالات کے تقاضوں کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔1976 میں مکہ کانفرنس کے دوران مجھے ایک اورثالث سے اسی قسم کاتجربہ ہوا۔ غیر سودی معیشت کی خیر خواہی کے لیے شدت سے اس بات کا اظہار کیاگیا کہ اس سے افراط زر کا مکمل خاتمہ ہوجاتا ہے۔ماہرین معاشیات نے اس کا مضحکہ اڑایا اور اس سے بیزاری کا اظہار بھی کیا لیکن کسی نے بھی اس دعویٰ کو پیش کرنے والے کو چیلنج نہیں کیا۔میں نے ایک نجی ملاقات میں سید قطب ؒکے بھائی محمد قطب ؒسے (جو غیر سودی معیشت کے موئد تھے)بھی اس بات پر اختلاف کا اظہار کیا اور اس بعید از قیاس دعوے کے خلاف تاریخی ثبوت بھی دیا۔ لیکن شیخ نے تاریخی ثبوت کو کوئی اہمیت دینے سے انکار کردیا،کیوں کہ ان کے خیال میں ایک اسلامی معاشرے کے خط و خال بعینہ وہی ہونے چاہئیں جن کا ذکر قرآن و حدیث میں موجود ہے۔

            جب ہم اسلامی تاریخ کے صرف منتخب ابواب کا ہی مطالعہ کرتے ہیں اور ارد گرد کے حقائق سے چشم پوشی کرتے ہیں تو اس کے نیتجے میں ایک ایسی پژمُردگی اور مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں جو بعض اوقات تشدد کا رخ اختیار کرلیتی ہے۔ اس صورت حال کی جڑیں حالیہ تاریخ میں پیوست ہیں۔ جدہ کے مرکز اسلامی میں ایک مرتبہ پشاور کے ایک تعلیمی ادارے سے ایک مرتبہ چند اعلیٰ درجے کی ماہر تعلیمی شخصیات تشریف لائیں۔وہی پشاور (پاکستان) جو طالبان کے لیے مشہور ہے۔زیادہ تر سوالات کا تعلق اس بات سے تھا کہ رو س کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد پڑوسی ملک افغانستان کی اسلامی معیشت میں کیا تبدیلیاں متوقع ہیں۔ایک سوال یہ تھا کہ ہم کب اور کیسے خلیفہ دوم حضرت عمر ؓ کی طر ح ہر خاندان کا سالانہ وظیفہ مقرر کرسکتے ہیں۔ ان کا اصرار تھا کہ یہ اسلامی معیشت کی امتیازی خصوصیت ہے۔ جدید حکومتیں ٹیکس لگاتی ہیں جبکہ اسلامی حکومت وظیفے دیتی ہے۔

            بدقسمتی سے اس طرح کی سادہ لوحی صرف مذہبی شدت پسندوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ ایک مرتبہ میں جدہ کے مرکزِ اسلامی معاشیات میں منعقدہ ایک بند کمرے کی میٹنگ میں موجود تھا۔ وہاں مجھے چند ممتاز شخصیات سے مخصوص ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ان میں ترکی کے اس وقت کے وزیر اعظم(جون    1996 تا جون 1997) جناب نجم الدین اربکان بھی شامل تھے۔ انہوں نے ایک مقالہ  بہ عنوان ”العِلاج“  تقسیم کیا۔ اس میں مستقبل کی معاشی پالیسیوں کا خاکہ تھا۔اربکان کی تجویز تھی کہ معیشت کے کچھ شعبوں سے نقدی کے لین دین کو بالکل ختم کردیا جائے۔ کیوں کہ تجارت بذریعہ کرنسی اور سٹہ بازی بہت سے مسائل کو جنم دیتے ہیں۔ پیداکار اپنی پیداوار حکومت کو دیں گے اور حکومت انہیں اپنی رسید جاری کرے گی۔وہ اس رسید کو اپنی اشیاء خریدنے کے لیے استعمال کریں گے۔ اس طرح کی اور بھی غیر عملی اور خیالی باتیں اس مقالے میں شامل تھیں۔مرکز میں موجود تحقیق کنندگان نے نہایت حلم کے ساتھ اس کا جواب تیار کیا۔جس میں ان کی تجاویز کا تنقیدی جائزہ لے کر دیگر متبادلات کی نشان دہی کی گئی تھی۔ہم نے کنگ عبدالعزیز یونی ورسٹی کے سابق سربراہ محترم محمد عمر زبیر سے درخواست کی کہ وہ اس کوجناب نجم الدین اربکان تک پہنچانے کا نظم فرمائیں۔وہ بذات خود اس کو لے کر استنبول تشریف لے گئے تاکہ بنفس نفیس وزیر اعظم کے حوالے کردیں۔ لیکن وہ ایسا نہیں کر سکے۔ یہ سوچ کر رہ گئے کہ عام طور پر عوام میں مقبول رہنما تنقیداور اختلاف کو برداشت نہیں کرتے۔میں جتنا کچھ عرب دنیا،برصغیر ہندو پاک اور جنوب مشرقی ایشیاء کی اسلامی پارٹیوں کے بارے میں جانتا ہوں اس سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ان سب میں یہ کمزوری پائی جاتی ہے۔فیصلہ سازی کی جمہوری روایات ان میں ہیں ہی نہیں۔اگر سادہ لوحی اور عدم برداشت دونوں ایک جگہ مل جائیں تو مہلک ثابت ہوتی ہیں۔اس کے نتیجے میں ہوا یہ کہ اسلامی بینکنگ کا نظریہ اور عملی اقدامات سب دھرے کے دھرے رہ گئے۔اس سلسلے کے تمام پروجیکٹ بے ضابطگیوں کی نذر ہوکر ناکام ہوگئے۔صرف یہ ہوا کہ ہم نے فقہ اسلامی کے ذریعہ پھر سے سرمایہ داری کو زندہ کردیا۔ہمارے اس رجحان اور قرن اول کے قانون دانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کے درمیان ایک خلیج پیدا ہوگئی۔ہم میں اور استعماری دور کی منجمد فکر میں کوئی فرق باقی نہ رہا۔چند سال قبل مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ عام مسلمان تو کیا خود علماء کو بھی اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ بینک کس طرح چلائے جاتے ہیں۔جزوی محفوظ رقم کی بنیاد پر کریڈٹ کی تخلیق ان کے فہم سے بالا تر چیز ہے۔ان کے نزدیک وہ ایک ایسا ادارہ ہونا چاہیے جو لوگوں سے ڈپازٹ جمع کرتا ہے اس شر ط پر کہ وہ اس رقم کو کاروبار میں لگائے گا اور ڈپازٹ جمع کرنے والوں کو منافع میں سے کچھ حصہ دے گا۔دوسرا اِمکان یہ ہے کہ اس کی حیثیت ایک منتظم کی سی ہے، جو رقم کے مالکین کی طرف سے کاروبار کررہا ہے۔ لیکن ان کے نزدیک اس طرح کے درمیانی شخص کی وساطت شک و شبہ سے خالی نہیں ہوسکتی۔میری تجویز  المُدرِب یُدرِب  کے اصول پر مبنی تھی(جس کا مطلب یہ تھا کہ ایک ورکنگ پارٹنر ہو،جو لوگوں سے نفع بخش کاموں میں لگانے کے لیے رقم حاصل کرے اور اس رقم کو استعمال کرنے کے لیے اسی طرح کا معاہدہ وہ دیگر افراد کے ساتھ کرے)۔اس تجویز کے مطابق بینکنگ کے کاروبار میں سے سود کو خارج کر کے اسے منافع کی حصہ داری میں تبدیل کردیا جاتا۔ یعنی مالیاتی وساطت منافع میں شراکت داری کے ذریعہ ہو۔میں نے مثالوں کے ساتھ بتایا کہ یہ عمل کریڈٹ کی تخلیق کو شامل کرتا ہے۔لیکن بینک کے تخلیق زر کے اس عمل سے کچھ نئے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ان میں مزید پیچیدگی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب یہ سمجھا جاتا ہے کہ جدید خیال کے مطابق بینک اپنے نقدی کے ذخیرے اور قرض دی جانے والی رقموں کی نسبت(Leverage-Ratio) میں ادائیگی کے مطالبات سے عہدہ برآہونے کے لیے اپنی مرضی کے مطابق اضافہ کرسکتے ہیں۔بینکوں کے درمیان لین دین کی سہولتوں میں اضافہ اور مرکزی بینک کی ضمانت کی بناء پر یہ عمل اور بھی آسان ہوگیا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قیاسی یا نظری دلائل کی بنیاد پرغیر سودی بینکنگ کی صنعت میں باقاعدگی پیدا کرنے کی کوشش مفید ثابت نہیں ہوسکتی۔بلکہ اس کے لیے پیش آمدہ معاملات اور مصالح کو سامنے رکھ کر غور و فکرکرنا ضروری ہوجاتا ہے۔کچھ اسکالرس یہ بھی سوچتے ہیں کہ بینک کے تصور سے کنارہ کشی کرتے ہوئے بیت المال جیسے کسی ادارے کا قیام کیا جائے۔بیت المال کا ادارہ اسلامی تاریخ میں ایک ایسے مالیاتی ادارہ کی حیثیت رکھتا ہے جو اسلامی ریاست میں خاص طور سے محصولات کا نظم کرتا ہے۔ اس طرح یہ بحث چلتی رہی اورچل رہی ہے۔لیکن میں ہو‘ بہو‘ اسلامی تاریخ کے اس رجحان کی طرف لوٹنے میں یقین نہیں رکھتا۔رسولِ  اکرم  ﷺ نے تجارت کے معروف ایماندارانہ اور راست مروجہ طریقوں کو علیٰ حالہ برقرار رکھا۔آپ  ﷺ نے صرف ضرر رساں طریقوں کو ختم کیا۔جیسے جوا، قرضوں کے سود وغیرہ۔ادارہ جات مقاصد کے حصول اور اقدارکو عملی شکل میں ڈھالنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ ابتدائی اسلامی تاریخ میں بھی بینکنگ کی مثالیں پائی جاتی ہیں۔صحابی رسول حضرت زبیر بن العوام ؓ کے بارے میں روایت ہے کہ جب کوئی شخص ان کے پاس بطور امانت رقم رکھوانا چاہتا تھا توآپ فرماتے تھے کہ تم یہ رقم مجھے بطور قرض دے دوتاکہ میں اسے استعمال کرسکوں۔ تم جب چاہوگے تمہاری رقم تمہیں واپس مل جائے گی۔امام اعظم ابو حنیفہ ؒ جو ایک بہت بڑے تاجر تھے خود ایک بینکر کی حیثیت سے معروف تھے۔

             حالیہ مالیاتی بحران نے مروجہ نظام زر اور مالیات کی بے انصافیوں اور کمزوریوں کو برہنہ کردیا ہے۔دنیا نے دیکھ لیا کہ اس نظام زر نے دولت کو صرف ایک فیصد اعلیٰ طبقے کے ہاتھوں میں مرکوز کردیاہے، اور کثیرآبادی کو غربت کی گود میں دھکیل دیاہے۔ دنیا بھر میں پھر سے اس نظام پر غورو فکر کیا جارہاہے۔ لیکن آج بھی مالیاتی اور معاشی ماہرین بنیادی مسائل (یعنی دولت کس کے لیے پیدا کی جارہی ہے اور کس طرح اسے مستحقین تک پہنچایا جائے) سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف بینکنگ اور فائنانس کی میکانیکی صور تحال پر غور کر رہے ہیں۔ ایک بار پھر بینکوں کی سرمایہ کاری کو میڈیم آف ایکسچینج سے علیحدہ کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ جزوی ریزرو کو ختم کرنے اور سو فی صد ریزرو رکھنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ حقیقی مسئلہ یہ ہے کہ خطرات کا درماں کیسے کیا جائے۔میرا خیال ہے کہ موجودہ مالیاتی نظام میں کسی بھی طرح کی اصلاح ناممکن ہے جب تک کہ زر اور زر کی پالیسیوں میں انقلابی تبدیلیاں نہ لائی جائیں۔ سودی قرضوں کوہرگز زر قرار نہ دیا جائے۔حالات کی وجہ سے پیش آنے والے خطرات اور بے یقینیت کی مناسب تقسیم ہو۔ان مخصوص صورت حالات کا تقاضہ ہے کہ حکومتیں کوئی فیصلہ کن رول ادا کریں۔ ایک مشترک عالمی نقطہ نظر بھی ضروری ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ انسانیت کواس ناگفتہ بہ صورت حال سے نکالا جائے توتمام نقطہ ہائے نظر کے ماہرین معاشیات کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور دیگر ماہرین کا تعاون بھی حاصل کرنا چاہیے۔اگرچہ یہ کوئی آسان عمل نہیں ہے کہ زر اور مالیات کے ایک ایسے تصور کی تخلیق کی جائے جو قرض کی بنیاد نہ ہو اور جس میں خطرات کی منصفانہ تقسیم بھی ہوسکے اور جو ساری دنیا کے یے قابل قبول بھی ہو۔

            آخری بات: کسی نئے وژن کی تلاش کی آخر ضرورت ہی کیا ہے؟ جب آپ زر اور فائنانس کو ایک یگانہ خصوصیت عطا کرتے ہیں توآج کے اس عالمی تناظر میں آپ کے پاس متعدد طریقے یا نظام باقی نہیں بچتے۔تاریخ عالم خیالی اور تمنائی غورو فکر اور تجربات سے بھری پڑی ہے۔نقدی سے خالی، مقامی نقدی،سونے کی نقدی، غرض ہر قسم کے نظریات ہیں جو تجربات کی دہلیز پرنامراد ہو چکے ہیں۔ان میں سے کوئی بھی آفاقی بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔طبعی زر اب برقی زر میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ریاست کی اجارہ داری زَر پر سے ختم ہوتی جارہی ہے۔ماہرین، بشمول اسلامی ماہرین معاشیات کی موجودہ بحث اب اس بات پر محیط ہوتی جارہی ہے کہ کس طرح ادائیگی کے میکانزم(مبادلہ زر) کے نظم کو بینکوں کی منافع خوری کی سرگرمیوں سے الگ کردیا جائے۔کس طرح جزوی ریزرو کے سِسٹم کو سو فیصد ریزرو کے سِسٹم سے تبدیل کردیا جائے(یعنی تخلیق زر کا خاتمہ ہوجائے)۔ہوسکتا ہے کہ آزادانہ اور نجی طور سے غور و فکر کرنے کے نتیجے میں کچھ ایسے نئے طریقے ایجادہوسکیں جواس بحث کو ہی غیر متعلق ثابت کردیں۔کوئی نہیں جانتا مستقبل کی تہوں کے نیچے کیا چھپا  ہوا ہے۔ زر کے ساتھ منسلک خطرات کا تعلق اس کی قوت خرید سے ہے۔اس قوت خرید کا زیروزبر ہوناتقسیم دولت کے مسائل کی جڑ ہے۔ایک اور خطرہ کا تعلق نو تخلیق شدہ دولت سے ہے، خاص طور سے اس وقت جب کہ سرمایہ کسی اور کا ہو اور اسے استعمال کرنے والا کوئی اور ہو۔ قوت خرید میں تبدیلی کی ذمہ داری کا تعین بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔زر کی پالیسی کو مطعون کرنا آسان ہے۔لیکن لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ دیگر بہت سے عوامل ہیں جو اس پر اثر انداز ہوتے ہیں، جیسے آبادی میں کمی بیشی، پسندو ناپسند کی تبدیلی، نئی تیکنالوجی کا ظہور،حالت امن و امان یا حالت جنگ،ماحولیات اور موسم کی تبدیلی وغیرہ۔مساوات کے نقطہ نظر سے یہ ضروری ہے کہ معاشی خطرات کو صرف زَر کے استعمال کنندہ کے سر نہ منڈھ دیا جائے۔ زر کا مالک بھی جو عام حالات میں خطرات کا جھیلنے والا ہوتا ہے اسے بھی بعض اوقات تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے۔ زندگی گذارنے کے عمل کو آسان بنانا اور خطرات کوتقسیم کردینا ضروری ہے۔ یہ چیز تعاونِ باہمی پر مبنی انصرام سے ہی حاصل ہوسکتی ہے کیوں کہ اس کی بنیاد میں انصاف کاجذبہ پوشیدہ ہے۔ جبکہ دوسری طرف موجودہ انفرادیت پسندانہ تقسیمِ دولت کے وژن میں یہ چیز مفقود ہے۔ اسی لیے  انفرادیت پسندی کایہ وژن تعاونِ باہمی پر مبنی معیشت کے مطالبات کو اہمیت دینے میں ناکام ہے اور سرمایہ دار یعنی زر کے مالک کو سماجی ذمہ داریوں سے بَری کردیتا ہے۔زری قرض یا ایسے مالیاتی سَودے جو قرض کا باعث بنتے ہیں ان میں ایک قسم کی سختی پائی جاتی ہے جو زندگی میں ایک غیر منصفانہ جنگ برپا کرتی ہے۔ مختصر یہ کہ قرضہ جات بشکل زَر انسانی وجود کی سماجی فطرت سے مطابقت نہیں رکھتے۔

            میرا خیال ہے کہ یہی وہ نکتہ ہے جس پر وضاحت اور پوری قوت کے ساتھ بحث ہونی چاہیے۔ جدید زرمکمل طور سے قرض ہی کی ایک شکل ہے۔مرکزی بینک کی سطح پر زر کی تخلیق کی جاتی ہے اور اسے بانڈ (قرضہ جات) کی شکل میں معیشت میں داخل کردیا جاتا ہے۔اعلیٰ سطح پر اس زر کی تخلیق سے قوت پاکر کاروباری بینک قرضہ جات کی شکل میں مزید زَر کی تخلیق کرتے ہیں۔ ہر قرض پرقرض لینے والے کو سود دینا پڑتا ہے۔ لیکن صرف زمانے کا گذرنا ہی زر میں بڑھوتری کا باعث نہیں ہوتااو رنہ ہی تمام قرض پیداواری کاموں میں صرف ہوتا ہے۔ اس لیے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مالیاتی نظام میں اپنے آپ عدم مساوات میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔زر کے مالک کی زری دولت میں زر کے استعمال کنندہ کی محنت کی وجہ سے اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ محنت کرنے والے زر کے استعمال کنندہ (Entrepreneur) کو زر کے مالک کی بہ نسبت زیادہ فائدہ ملنا چاہیے۔ عدم مساوات میں کمی کرنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔ اس کے لیے ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جس میں زر کو بطور قرض استعمال نہ کیا جائے۔ یا اگر زر کی شکل میں قرض دینا ہو تو وہ غیر سودی قرض ہو۔

            سوال یہ ہے کہ ہم اس نظام کی طرف کیسے قدم بڑھائیں۔موجودہ نظام تو ناکام ہوچکا ہے۔معاشیات کے موجودہ نصاب کی تعلیم طلبہ کو بس سرمایہ داری کی تائید کی طرف ہی لے جاتی ہے۔اس روایاتی تعلیم کو جاری رکھنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ طالب علم اپنے ماحول سے نہ صرف غیر مطمئن بلکہ بیزار ہوجائیں گے۔ اس فرسودہ معاشی نظام کی تعلیم کے ساتھ ژولیدہ ذہن طلبہ ہی معاشرہ میں داخل ہوں گے۔ یقینی طور سے وہ ایک ایسا معاشرہ برپا کرنے میں ہرگز کامیاب نہیں ہو سکیں گے جو عدل و مساوات پر مبنی ہو۔

            معاشی نظم خصوصاً مالیاتی اور مانیٹری نظم کو ایک خصوصی منظر نامے کے تحت رکھنا ہوگا۔ہمیں ایک ایسا ماحول تیار کرنا ہوگاجو مطلوبہ معیارحیات کو نہ صرف یہ کہ برقرار رکھے بلکہ اس کوبہتربھی کرسکے۔سب سے پہلے ہمیں تغذیہ کی طرف توجہ دینی چاہیے جو قوت حیات کے بقا اور استحکام کے لیے لازمی ہے۔ اس کے بعد نمبر آتا ہے آزادی انتخاب او ردیگر حقوق کا جن کے بغیر زندگی کے کوئی معنی ہی نہیں ہیں۔استحصال، جبر اور افراتفری کو روکنے کے لیے قوانین کی عمل داری بھی ضروری ہے۔صرف معاشی اور تکنیکی ترقی ہی اس بات کی ضمانت نہیں ہے کہ سب کی بنیادی اور عمومی ضرورتیں بھی پوری ہوجائیں گی۔ بلکہ اس کے برعکس یہ بالکل ممکن ہے کہ معاشی ترقی خود عدم مساوات پیدا کرنے اور اسے بڑھانے کا باعث بن جائے نیز اس کی وجہ سے محرومی میں اضافہ اور تصادم کی سرپرستی ہونے لگے۔ سرمایہ داری کے زوال کا اصل سبب یہی ہے کہ وہ صرف معاشی بڑھوتری کی طرف پوری توجہ لگا دیتی ہے اور تمام لوگوں کے لیے باوقار قوت حیات کی فراہمی کو نظر انداز کردیتی ہے۔ جبکہ اسلام کا راستہ کثیرالجہت اعلیٰ مقاصد کو مرکز بنا کر ان تمام خرابیوں کو دور کرسکتا ہے۔

            یہ مقاصداور اصول(ان کا اخذ اور حصول) انسانی حالات کی کئی سطحوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ پہلی چیز یہ ہے کہ ہر اصول کسی نہ کسی مقصد کی تکمیل کے لیے ہوتا ہے۔یہ اٹکل پچّو نہیں ہوتے۔دوسری بات یہ ہے کہ اگر حالات میں تبدیلی کی بناء پر کوئی اصول اپنی موجودہ صورت میں اپنے اصل مقصد کی تکمیل نہ کرسکے تو اصولوں میں ایسی لچک ہوتی ہے جس کی بناء پراسے اپنے اصل مقصد کی تکمیل کے قابل بنایا جاسکتا ہے۔تیسری چیز یہ ہے کہ اگر کوئی ایسی انوکھی صورت حال پیش آجائے جو کسی اصول کے دائرے میں نہ لائی جاسکتی ہو تو متعلقہ مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے اور اسلامی حدود کے اندر رہتے ہوئے نئے اصول وضع کیے جاسکتے ہیں۔چوتھی بات یہ ہے کہ اگر کوئی اصول یا حُکم کسی خاص صورت حال میں مقاصدشریعت کے خلاف نتائج(فاسد یا غیر مطلوب) پیدا کرتا ہوا نظر آئے تو ایسا نیا حُکم ایجاد کیا جائے گاجو شریعت کے متعلقہ مقصد کی تکمیل کرتا ہو۔چنانچہ متعلقہ لٹریچر (فقہ وغیرہ) میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔بدقسمتی سے نظم معاشیات خصوصا زراور مالیات کے بارے میں حالیہ مطالعے میں ان اصولوں کا ادراک نہیں کیا گیا۔ اپنے آپ کو روایاتی معیار تک محدود رکھا گیا اور فقہ کے اسی فریم ورک کے اندررہ کر کام کرنا پسند کیا گیا جو ایک ہزار سال پہلے کے آج سے بالکل مختلف حالات کے لیے مرتب کیا گیا تھا۔قدیم ماہرین فقہ نے مسائل، مصالح، معاملات، نتائج سب کو قرار واقعی اہمیت دی تھی۔ آج کے فقہا فیصلہ کنندگان کو ایسے مشورے دینے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ وہ ایسے مالیاتی معاملات اورذرائع کی تائید کرتے جارہے ہیں جو قرضوں کی دستاویزات میں اضافہ ہی کرتے چلے جاتے ہیں۔مقاصد سے گہری وابستگی ہی ہمیں اس طرح کی بے ضابطگی سے روک سکتی ہے اور ہمیں ایک ایسا اسلامی نمونہ مہیا کرسکتی ہے جسے ہم دُنیا میں دوسروں کے مقابلے میں پیش کرسکتے ہیں۔

            قرآن میں مقاصد کا بیان بالکل واضح ہے۔ تغذیہ (رزق) خدا کی عطا کی ہوئی چیزوں میں سے سب کو ملنا چاہیے۔ (7:10)۔ محروموں کا حصہ اغنیاء کے مال میں مقرر ہے۔(70:24-25)۔ انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا خدائی قانون کا مقصد ہے (4:58)- اور (57:25)۔ فساد و بدامنی کو روکنا اور امن وشانتی کوبرقرار رکھنا (28:71; 30:41)۔

            شریعت کے روایاتی ماہرین قدیم اصولوں کو ایسے نئے اصولوں سے بدلنے میں ہچکچاتے ہیں جو بدلے ہوئے حالات میں مقاصد شریعت کی تکمیل میں ممد و معاون  ہوتے ہیں۔ حالاں کہ اس طریقے کی صحت کی کئی مثالیں سلف میں موجود ہیں۔حضرت عمر ؓ خلیفہ دوم کی مثالیں لیجیے۔ آپ نے شام اور عراق کی مفتوحہ زمینوں کی تقسیم کا طریقہ بدل ڈالا، حالاں کہ حضرت بلا لؓ جیسے اکابر صحابہ نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ رسول اکرم ﷺ نے ان کو فوج میں تقسیم کردیا تھا۔اس کے باوجود حضرت عمرؓ نے زمینیں کسانوں کے پاس رہنے دیں اور ان سے کہا کہ لگان بیت المال میں جمع کریں۔

            ایک اور وجہ جوروایاتی علماء کو براہ راست مقاصد کی طرف مراجعت سے روکتی ہے وہ ہے آراء اور عمل کا اختلاف۔ حالاں کہ یہ ایک فطری چیز ہے۔ان کا پختہ خیال ہے کہ خوشنودی رب ہر حال میں ایک ہی طریقے پر قائم رہنے سے مل سکتی ہے۔اگرچہ اس کی تائید رسول اکرم ﷺ کی سُنّت سے نہیں ہوتی۔ آپ ﷺ نے مختلف حالات میں مختلف طریقے اختیار فرمائے ہیں اور ہر حال میں نگاہ اصل مقصد پر مرکوز رکھی ہے۔طریقہ ہائے دعوت، دعوت دین قبول کرنے والوں کا تحفظ، انسانیت پر عمومی رحم دلی وغیرہ۔مکہ کی خشک وادی میں محصور ہونے پر قبیلہ والوں کی حمایت پر انحصار کیا۔طائف والوں کے انکار پر واپسی میں مکہ میں داخل ہونے کے لیے غیر مسلم کی امان کا سہارا لیا۔مسلمانوں کو حبشہ ہجرت کرنے کی ہدایت فرمائی، جہاں کا بادشاہ عیسائی مگر رحم دل تھا۔مدینہ ہجرت کے لیے ان چند مٹھی بھرمسلمانوں کی دعوت قبول فرمائی جو آپ پر ایمان لائے تھے۔مکہ کے مہاجرین کو مدینہ میں بسانے کے لیے مدینہ کے انصار سے ا ن کی مواخاۃ کا انوکھا طریقہ اختیار کیا جو دو سال تک جاری رہا۔ مدینہ کے شہری نظم و نسق کی خاطر یہودیوں، عیسائیوں، یہاں تک کہ دیگر مذاہب کے لوگوں کو بھی ساتھ لے کرفیڈریشن قائم کرنے کے لیے معاہدہ کیا جو قبائلی تہذیب کے لیے ایک نادر نمونہ تھا۔صلح حدیبیہ کا معاہدہ،فتح مکہ کے بعدعام معافی کا اعلان، غزوہ حنین کے مال غنیمت کو مکہ والوں کو دے دینا، یہ ہیں اس حکمت عملی کی چند مثالیں جو حضور ﷺ نے موقع کی مناسبت سے اختیار کی تھی۔ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر اسی رسول ﷺ کی امت اس اکیسویں صدی کے بدلے ہوئے حالات میں اس سنت کو اختیار کرنے کے لیے کیوں متردِّد ہے۔ 

            اسلامی معاشیات کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ ہم مکمل معاشی نظام پرمکرّر غور کرنے کے لیے کتنی جدو جہد کرتے ہیں۔ موجودہ معاشی نظام اور اپنے آپ پر کتنی تنقیدی نگاہ ڈالتے ہیں۔ نئے نظریات تخلیق کرتے ہیں۔ مغرب کے زوال کے بعد قوّت کی مشرق کی طرف منتقلی ہمارے لیے بہترین موقع ہے۔  نظام سرمایہ داری کے موئیدین اس نئے نظریے کو رد کرسکتے ہیں۔لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ نظامِ سرمایہ داری کا سب سے مہلک تحفہ جو اس نے دنیائے انسانیت کو دیا ہے وہ ہے عدم مساوات اور انسانیت کی توہین کو دنیا والوں پر تھوپ دینا۔ اس کے مقابلے میں اسلام ا نسانی مساوات و اُخوت کو اہمیت دیتا ہے۔ایک متبادل معاشی نظام قائم کرنے میں وہ یقیناً کامیاب ہوسکتا ہے۔لیکن ہمیں وقت کے حالات کے لحاظ سے نئے غورو فکر سے کام لینا ہوگا۔غوروفکرکرنے سے رجحانات میں خوش آئند تبدیلی ہوسکتی ہے۔ نئے ادارہ جات قائم کیے جاسکتے ہیں اور زمینی حقائق تبدیل کیے جاسکتے ہیں۔بدقسمتی سے نئے خیالات کی افزائش کے لیے ہمارا ریکارڈ حوصلہ افزا نہیں ہے۔لیکن میں ابھی بھی اسلام اور مسلمانوں سے مایوس نہیں ہوں۔میں منتظر ہوں اختراعی تصورات کی تشکیل اور ان کے مقبول ہونے کا۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights