مکالمہ: برادر نحاس مالا

0

مکالمہ: برادر نحاس مالا
(سابق صدر، ایس آئی او آف انڈیا۔ میقات 18-2017 ء)
مکالمہ کار: اسامہ اکرم

س۔ دوسالہ میقات کے آغاز کے وقت آپ کی ترجیحات کیا تھیں؟ اس سلسلے میں کیا راہیں اختیار کی گئیں؟
ج۔ہمارے سامنے ابتداء سے یہ بات رہی کہ ہم سماجی مسائل کو کیمپس میں موضوع بحث بنائیں گے۔اسی طرح کیمپس کے جو مسائل ہیں انہیں ہم سماج کے سامنے لائیں گے۔ ان دواہم موقف کے ساتھ ہم نے اپنی میقات کا آغاز کیا۔اس وقت ملک کے جو حالات تھے مثلا تعلیمی اداروں پر مرکزی حکومت کی جانب سے جوشکنجہ کسا جا رہا تھااس کو روکنے کی کوشش کی۔ حیدرآبادد سینٹرل یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر روہت ویمولا اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طالب علم نجیب احمد کے ایشیوز سامنے آئے۔ خاص طور سے نجیب احمد کے ایشیو کے ذریعے معلوم ہوا کہ ملک میں ایک ایسا ماحول بنایا جارہا تھا کہ مسلم طلبہ ڈر جائیں اور اعلی تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے کی ہمت نہ کریں۔ اعلی تعلیمی اداروں میں مسلم طلبہ کی نمائیندگی پہلے سے ہی بہت کم ہے۔ لیکن لوگ اسے بھی برداشت نہیں کرپارہے ہیں۔اقلیتی طبقات سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو حاشیے پر رکھنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔لہذا ان ایشیوز پر کام کرنے کے لئے ہم آگے بڑھے۔ حکومت کی قومی تعلیمی پالیسی میں بھی واضح طور پر جانبداری نظر آئی ۔لہذا ہم نے قومی تعلیمی پالیسی پر بھی اثرانداز ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔


س۔ تنظیم میں سوچنے سمجھنے والے ممبران کی جانب سے ایک شکایت اکثر سامنے آتی ہے کہ تربیت اور ایکٹیوزم کے حوالے سے تنظیم عدم توازن کا شکار ہے۔تربیت و تزکیہ کی بجائے ایکٹیوزم کی طرف تنظیم کا جھکاو زیادہ ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
ج۔ تربیت اور ایکٹیوزم ،یہ دونوں دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں۔ایکٹیوزم ہی تربیت ہے اور تربیت ہی ایکٹیوزم ہے۔ان میں سے ایک کا اہتمام کرنے سے دوسرے کو تقویت ملتی ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم تزکیہ سے متعلق کوئی کام کرتے ہیں تو اسے محض تربیت سمجھتے ہیں ،ایکٹیوزم نہیں۔جب ہم ایشیوز پر کام کرتے ہیں تو اس کو محض ایکٹیوزم سمجھتے ہیں، تربیت نہیں۔ یہ طرز فکر مناسب نہیں ہے۔ ہم مختلف ایشیوز پر سوچ سمجھ کر جو موقف لیتے ہیں اس کا تعلق تربیت سے بھی ہے اور ایکٹیوزم سے بھی۔اسی طرح خالص تربیتی سرگرمی بھی ہمارا ایکٹیوزم ہی ہے۔بد قسمتی سے ہم نے ان دونوں میں خط امتیاز کھینچ دیا ہے۔ اسی وجہ سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے یہاں ایکٹیوزم زیادہ ہے،تربیت کم ہے۔یا ہمارے یہاں تربیت پر زور زیادہ ہے،ایکٹیوزم پر نہیں۔اصل مسئلہ تنظیم اور تحریک کی صحیح سمجھ کا ہے۔ جب تک ہمارا تحریکی شعور بالیدہ نہیں ہوگا ،اس طرح کے مباحث جاری رہیں گے۔یہ بات ہمیشہ پیش نظر ہونی چاہیے کہ کوئی بھی تنظیم ،تنظیم برائے تنظیم وجود میں نہیں آتی۔ بلکہ اس کا وجود کچھ بڑے مقاصد اور نصب العین کے حصول کے لئے ہوتا ہے۔ انہی مقاصد کے حصول کی جد و جہد کو ہم تحریک کہتے ہیں۔تحریک کو زندہ رکھنے کے لئے، اسے آگے بڑھانے کے لئے ایک تنظیمی ڈھانچے کی ضرورت ہوتی ہے،یہ تنظیمی ڈھانچے الگ الگ ملکوں میں ،الگ الگ ریاستوں میںمختلف ہوسکتا ہے، اور ہے۔لیکن تحریک کے سفر میں کبھی کبھی وہ موڑ آجاتا ہے جہاں تحریک خالص تنظیم میں تبدیل ہوجاتی ہے۔تحریک کا اصل کام پس پشت چلا جاتاہے۔پھر ہم تحریکی جدوجہد کو تربیت اور اس جیسی دوسری اصطلاحات میں قید کردیتے ہیں۔ حالانکہ تربیت تو درحقیقت جدوجہد اور سرگرمی ہی کے ذریعے ہوتی ہے۔

س۔ملک کی سیاسی و سماجی صورت حال کی اصلاح کے لئے آپ ایس آئی او کے طلبہ و نوجوانوں کو کس حد تک تیار پاتے ہیں؟
ج۔ میں صرف اس ملک کے نہیں بلکہ تمام نوجوانوں کی قوت تسخیر میں یقین رکھتا ہوں۔کیوں کہ نوجوان اور نئی نسل ہی کسی بھی ملک ، ملت اور تحریک کا اصل سرمایہ ہوتے ہیں۔زمانے کی فتنہ سامانیوں کے علی الرغم میرا خیال ہے کہ خود وطن عزیز ہندوستان میں بھی اس وقت عوام میں اصل رجحان خیر اور بھلائی کا ہے شر اور بدی کا نہیں۔ تاریخ کے ہر دور کی طرح حق اور باطل کی کشمکش اس وقت بھی جاری ہے۔ لیکن حق بالآخر سرکرو ہوکر رہے گا، ان شاء اللہ ۔قرآنی آیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ حق اور باطل میں جو فرقِ بین ہے ،انسانیت فطری طور پر اسے محسوس کرے گی۔میں نے تنظیم کے ذمہ دار کے طور پر ملک کے طول و عرض کا سفر کیا۔ میں خاص طور پر اپنے آخری دورے کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ یہ دورہ جھارکھنڈ کا تھا۔جس دن وہاں میرا پروگرام تھا اس کے اگلے دن وہاں ریاست کے وزیر اعلی کا دورہ تھا۔وزیر اعلی کے پروگرام میں ریاست جھارکھنڈ کے سب سے بہترین گرام پنچایت صدر کے اعزاز سے ایس آئی او کے ایک سابق رکن کو نوازا گیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ریاست جہاں ہجومی تشددکے متعدد سانحے رونما ہوچکے ہیں ،اسی ریاست میں ہمارے نوجوان تعمیری اقدار کے ساتھ سرگرم عمل بھی ہیں۔سماجی تانے بانے کو مضبوط کرنے کے لئے سرگرداں ہیں۔ صلاحیتوں کا بہترین مظاہرہ کر رہے ہیں اور انعا م و اکرام سے نوازے جارہے ہیں۔

س۔ملک کی موجودہ صورت حال میں طلبہ تحریکیں کیا کردار ادا کرسکتی ہیں؟ ایس آئی او کا کردار کیا ہونا چاہیے؟
ج۔ کیمپس میں ہمیں اپنی جدوجہد کو جاری رکھنے، تیز تر کرنے اور مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔جدوجہد محض اپنے حقوق کی بحالی کے لئے نہیں بلکہ انصاف پر مبنی ایک سماج کی تشکیل کے لئے جار ی رکھنی چاہیے۔اس وقت سرگرم عمل بہت ساری طلبہ تحریکوں کی جدوجہد حقوق اور انصاف کے مطالبات تک محدود ہے۔اصل کام یہ ہے کہ آپ انصاف کے مطالبے کی سطح سے آگے بڑھ کر انصاف قائم کرنے کی پوزیشن میں آئیں۔اس راہ میں ہمیں بہت سارے چیلنجز کو انگیز کرنا ہوگا۔اپنا قیمتی وقت ،دولت اور صلاحیت اس راہ میں صرف کرنی ہوگی۔اس کام کو اپنا فرض سمجھ کرآگے بڑھناہوگا۔دیگر طلبہ تنظیموں کے ساتھ کام کرنے کے سلسلے میں میرا خیال ہے کہ مشترک ایشیوز پر جدوجہد کرنے کے لئے تمام طلبہ تنظیموں کو بقائے باہم اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی راہیں ہموار کرنی چاہیے۔آپس میں ایک دوسرے کے تعاون کے سلسلے کو دراز رکھنا چاہیے۔

س۔ پانچ ریاستوں کے حالیہ اسمبلی انتخابات کے نتائج پر آپ کا رد عمل کیا ہے؟
ج۔بلا شبہ پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے جو نتائج آئے ہیں وہ کسی حد تک ہمارے لئے خوشی کی بات ہے۔ البتہ یہ واضح رہے کہ محض چہروں کا بدل جاناہندوستانی عوام کے بے شمار مسائل کا اصل حل ہرگز نہیں ہے۔ بحیثیت ایک ہندوستانی شہری، ہمیں اس پر مباحثہ کرنا ہوگا کہ جمہوری فریم ورک میں رہتے ہوئے موجودہ نظام کو ہم کیسے بہتر سے بہتر بنا سکتے ہیں۔ اسی طرح بحیثیت ایک نظریاتی تحریک آپ کیا حل اور متبادل پیش کرتے ہیں ،یہ ایک اہم سوال ہے۔

س۔ وابستگان ایس آئی او کو آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
ج۔ موجودہ پر آشوب دور میں ایس آئی او کے وابستگان ، ملت اسلامیہ کاانمول سرمایہ ہیں۔الحمدللہ ہمارے کیڈرس اپنے قائدین کے لئے سراپا سمع و طاعت ہیں۔اپنی گوناگوں صلاحیتوں کا بہترین مظاہرہ کرتے ہیں۔میں ان کی خدمت میں صرف یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ وہ مکمل طور پر اپنے قائدین پر انحصار کرنے کی بجائے، خود قائدین کونئے اور انوکھے آئیڈیاز فراہم کرنے والے بنیں۔اپنی صلاحیتوں کے معیار کو اس حد تک بلند کریں کہ ہماری تحریک انسانی زندگی کے ہر محاذ پر اثرانداز ہوسکے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights