لغو سے اعراض

ایڈمن

محمد فراز احمد

             بندہ مومن ہمیشہ لغویات اور وقت بربادی والے مشاغل سے اپنے آپ کو محفوظ رکھتا ہے۔ قرآن مجید میں سورۃ المومنون میں اللہ نے تعالیٰ نے مومنین کی صفات میں ایک صفت یہ بھی بتائی ہے کہ ”الَّذِینَ ھُم عَنِ اللَّغوِ مُعرِضُونَ“  (سورہ المؤمنون، آیت 03، ترجمہ: جو لغویات سے دور رہتے ہیں) تفہیم القرآن میں مولانا سید ابولاعلیٰ مودودیؒ نے اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ ”لغو“ ہر اس بات اور کام کو کہتے ہیں جو فضول، لایعنی اور لاحاصل ہو۔ جن باتوں یا کاموں کا کوئی فائدہ نہ ہو، جن سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہ ہو، جن کی کوئی حقیقی ضرورت نہ ہو، جن سے کوئی اچھا مقصد حاصل نہ ہو، وہ سب ”لغویات“ ہیں۔

            ”معرضون“ کا ترجمہ ہم نے ”دُور رہتے ہیں“ کیا ہے۔ مگر اس سے بات پوری طرح ادا نہیں ہوتی۔ آیت کا مفہوم کامل یہ ہے کہ مؤمنین لغویات کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ ان کی طرف رُخ نہیں کرتے۔ ان میں کو ئی دلچسپی نہیں لیتے۔ جہاں لغو باتیں ہو رہی ہوں یا لغو کام ہو رہے ہوں وہاں جانے سے پرہیز کرتے ہیں، ان میں حصّہ لینے سے اجتناب کرتے ہیں، اور اگر کہیں ان سے سابقہ پیش آہی جائے تو ٹل جاتے ہیں، کترا کر نِکل جاتے ہیں، یا بدرجہ آخر بے تعلق ہو رہتے ہیں۔ اسی بات کو دوسری جگہ یوں بیان کیا گیا ہے کہ وَاِذَا مَرُّوْ ا بِاللَّغْوِ مَرُّوْ ا کِرَ امًا۔ (الفرقان، آیت27) یعنی جب کسی ایسی جگہ سے ان کا گزر ہوتا ہے جہاں لغو باتیں ہو رہی ہوں، یا لغو کام ہو رہے ہوں،تو وہاں سے مہذب طریقے سے گزر جاتے ہیں۔

            یہ چیز، جسے اس مختصر سے فقرے میں بیان کیا گیا ہے، دراصل مومن کی اہم ترین صفات میں سے ہے۔ مومن وہ شخص ہوتا ہے جسے ہر وقت اپنی ذمہ داری کا احساس رہتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ دنیا دراصل ایک امتحان گاہ ہے اور جس چیز کو زندگی اور عمر اور وقت کے مختلف ناموں سے یا د کیا جاتا ہے وہ درحقیقت ایک نپی تُلی مدّت ہے جو اسے امتحان کے لیے دی گئی ہے۔ یہ احساس اس کو بالکل اُس طالب علم کی طرح سنجیدہ اور مشغول اور منہمک بنا دیتا ہے جو امتحان کے کمرے میں بیٹھا اپنا پرچہ حل کر رہا ہو۔ جس طرح اُس طالب علم کو یہ احساس ہوتا ہے کہ امتحان کے یہ چند گھنٹے اس کی آئندہ زندگی کے لیے فیصلہ کن ہیں، اور اس احساس کی وجہ سے وہ اُن گھنٹوں کا ایک ایک لمحہ اپنے پرچے کو صحیح طریقے سے حل کرنے کی کوشش میں صرف کر ڈالنا چاہتا ہے اور ایک سیکنڈ فضول ضائع کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا، ٹھیک اسی طرح مومن بھی دنیا کی اس زندگی کو اُن ہی کاموں میں صرف کرتا ہے جو انجام کار کے لحاظ سے مفید ہوں۔ حتیٰ کہ وہ تفریحات اور کھیل کود میں سے بھی اُن کا انتخاب کرتا ہے جو محض تضیع وقت کا سامان نہ ہوں بلکہ کسی بہتر مقصد کے لیے اُسے تیار کرنے والی ہوں۔ اُس کے نزدیک وقت”کانٹے“ کی چیز نہیں ہوتی بلکہ ”استعمال کرنے“ کی چیز ہوتی ہے۔

            اس سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ مومن خشک مزاج ہوتا ہے، مولانا مودودی ؒبندہ مومن کا مزاج بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”علاوہ بریں مومن ایک سلیم الطبع، پاکیزہ مزاج، خوش ذوق انسان ہوتا ہے۔ بیہودگیوں سے اس کی طبیعت کو کسی قسم کا لگاؤ نہیں ہوتا۔ وہ مفید باتیں کر سکتا ہے، مگر فضول گپیں نہیں ہانک سکتا۔ وہ ظرافت اور مزاح اور لطیف مذاق کی حد تک جا سکتا ہے، مگر ٹھٹھے بازیاں نہیں کر سکتا، گندہ مذاق اور مسخرہ پن برداشت نہیں کر سکتا، تفریحی گفتگو ؤں کو اپنا مشغلہ نہیں بنا سکتا۔ اُس کے لیے تو وہ سوسائٹی ایک مستقل عذاب ہوتی ہے جس میں کان کسی وقت بھی گالیوں، غیبتوں اور تہمتوں اور جھوٹی باتوں سے، گندے گانوں اور فحش گفتگوؤں سے محفوظ نہ ہوں۔ اس کو اللہ تعالیٰ جس جنت کی امید دلاتا ہے اُس کی نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ بھی بیان کرتا ہے کہ  لَا تَسمَعُ فِیْھَا لَاغِیَہ۔ ”وہاں تُو کوئی لغو بات نہ سُنے گا“۔(اقتباس از تفہیم القرآن، جلد سوم، سورۃ المومنون)

            دور حاضر پر اگر پہلو سے نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بے مصرف وقت گزاری اور گپ بازی چبوتروں، نکڑوں اور چوپالوں سے کے ساتھ ساتھ اب موبائل فون اور کمپیوٹرجیسے جدید آلات میں آگئی ہے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر بے مقصدسرفنگ اور چیٹنگ،آنکھوں کو خیرہ کردینے اور دل کو لبھانے والے سہ ابعادی (3D)ویڈیو گیمزدور حاضرمیں لغویات میں پڑنے کا بڑاذریعہ ہیں جس کی کے سحر میں نوجوان نسل بہت سرعت سے گرفتار ہوتی جارہی ہے۔اس سحر باطل کا شکارنہ صرف نوجوان بلکہ ادھیڑ عمر کے افراد بھی ہورہے ہیں۔ لغویات سے بچ کر اپنے وقت کوبا مقصد اور تعمیری کاموں میں لگانا ایک بندہ مومن کی نشانی اور وقت کی بڑی ضرورت ہے۔

دسمبر 2019

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں