اسلامی شناخت کا اظہار اور اس پر اصرار

0

سید سعادت اللہ حسینی [امیر جماعت اسلامی ہند]

سی اے اے اور این آر سی و این پی آر کے خلاف جاری احتجاجی مہم میں ایک سوال ، ادھر کچھ دنوں سے شدت کے ساتھ ابھر رہا ہے ،اسلامی شناخت کے اظہار اور اس پر اصرار کا سوال ۔اس سوال پر خصوصاً نوجوانوں کے درمیان گرما گرم بحثیں ہورہی ہیں اور افراط و تفریط کے رویوں کا مظاہرہ بھی ہورہا ہے۔


مسلمان اس ملک کا حصہ ہیں اوراسلام پر پوری طرح عمل کرتے ہوئے اور اسلامی شناخت اور اسلامی تشخص کے ساتھ وہ اس ملک کا حصہ رہنا چاہتے ہیں۔ وہ ہندوستان کے شہری ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت انہیں اس شہریت سے اور ہندوستانی شہری کی شناخت سے محروم نہیں کرسکتی۔ اسی طرح وہ کلمہ گو مسلمان ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت انہیں اسلامی شناخت اور اسلامی تشخص سے بھی محروم نہیں کرسکتی۔(ان شاء اللہ) ان کی شہریت اور ملک سے وابستگی کو جو لوگ چیلنج کررہے ہیں، اُن کا وہ بھرپور مقابلہ کررہے ہیں اور کریں گے لیکن اس کے لئے انہیں اپنی اسلامی شناخت پر کسی قسم کی معذرت خواہی کی ضرورت نہیں ہے۔ دیگر مذاہب کی طرح اسلام، اس ملک کا اور یہاں کی وراثت کا اہم حصہ ہے اور اسلام پر قائم رہنا ہر مسلمان کا بنیادی انسانی اور دستوری حق ہے۔ ملک سے وفاداری اور برادران وطن سے خوشگوار تعلق کا یہ تقاضہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ اپنے دین و ایمان سے دستبرادر ہوں یا اس پر کسی قسم کی مصالحت کے لئے تیار ہوں۔


مسلمان اپنے برادران وطن کے اس حق کو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اپنے مذہب اور عقیدہ کے مطابق زندگی گذارسکتے ہیں اسی طرح یہ حق وہ خود بھی رکھتے ہیں۔خوشگوار تعلق کا مطلب اس حق سے دستبرداری نہیں ہے بلکہ اس کا احترام ہے۔ ہر غیر مسلم کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے عقیدہ کے مطابق دعاکرے، عبادت کرے، نعرہ لگائے، غذا اور لباس اختیار کرے، رسوم و رواج کی پیروی کرے لیکن اپنی دعاوں، اپنے نعروںاور اپنی مذہبی شناختوں کو دوسروں پر مسلط کرنے اور اس کے سلسلہ میں جبر کرنے کا کوئی حق اسے حاصل نہیں ہے اسی طرح اپنے عقیدہ اور روایات کے مطابق زندگی گذارنے کاحق ہر مسلمان کو بھی حاصل ہے اور اس کے لئے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے کلمے، اپنے نعرے یا اپنی شناخت کو دوسروں پر زبردستی مسلط کرے۔ نہ اسلام اس کی اجازت دیتا ہے اور نہ عام طور پر کوئی مسلمان اس کا ارتکاب کرتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اِس معذرت خواہانہ مزاج کے آثار مسلمانوں میں نظر آنے لگے ہیں کہ وہ برادران وطن سے بہتر تعلق کے لئے اپنی دینی و نطریاتی شناخت پر سیریس مصالحت کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔ بہتر تعلقات کے لئے آپ کو اپنے عقیدہ کے خلاف مذہبی رسوم میں شرکت کرنی پڑے، عقیدہ سے متصادم نعرے لگانے پڑیں یا خود کو ہندو کہلانا پڑے تو یہ عمل مذہبی رواداری کو نہیں بلکہ عدم رواداری کو فروغ دینے کا سبب بنتا ہے۔ اس رویہ کا مطلب یہی ہوگا کہ آپ نے تسلیم کرلیا کہ اس ملک میں اپنی مذہبی قدروں کے ساتھ آپ آزاد زندگی نہیں گذارسکتے۔


اس کے رد عمل میں دوسری انتہا یہ ہے کہ موقع بے موقع غیر متعلق نعروں اور اسلامی شناختوں کے مصنوعی اور جذباتی طریقوں سے،اعلان و اظہار کا چلن بھی شروع ہوگیا ہے۔ شناخت کے اعلان و اظہار سے متعلق اپنے نوجوان دوستوں کے جوش و جذبہ کی ہمیں قدر کرنی چاہیے۔ موجودہ حالات میں یہ خود اعتمادی اور حوصلہ مندی، امت کے لئے نہایت قیمتی اثاثہ ہے لیکن ہمیں یہ بات بھی اچھی طرح سمجھنی چاہیے کہ آج اصل لڑائی کس بات کی ہے؟ اس وقت فسطائی طاقتوں کا فوری حملہ ہماری اسلامی شناخت پر نہیں بلکہ ہماری ہندوستانی شناخت پر ہے۔ فرقہ پرست طاقتیں چاہتی ہیں کہ اس ملک کے مسلمان ، باقی ہندوستانیوں سے الگ تھلگ ہوجائیں۔ ہندو، سکھ، عیسائی، جین، بدھ، پارسی بلکہ عیسائی بھی اس ملک کے بیٹے بیٹیاں ہیں اور مسلمان ‘غیر’ ہیں۔ اس غیریت othernessکو پیدا کرنا، اسے فروغ دینا، اور اسے ملک کی سوچ اورمزاج میں راسخ کردینا ، فرقہ پرست پروجیکٹ کا فی الحال سب سے اہم ایجنڈا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی ٹوپیاں ، داڑھیاں ، ان کی مذہبی علامتیں اور نعرے نمایاں ہوں اور نمایاں ہونے کے ساتھ ساتھ ِ غیریت، اجنبیت، اور ملک سے علحدگی کی علامتیں بن جائیں۔ اس وقت سارا نریٹیو یہی ہے کہ مسلمان، ان کی علامتیں ، ان کے مطالبات، ان کے احتجاج، ان کے مراکز سب کچھ غیریت کی بلکہ دشمنی کی علامات ہیں۔وہ ہندوستان اور اس کی اصل دھارا سے مختلف بلکہ متصادم دھارا کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان سے وابستگی اور ان کے ساتھ ہمدردی ایک جرم اور بغاوت ہے۔


اس صورت حال کے مقابلہ کا طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے اسلامی تشخص پر کسی معذرت خواہی کے شکار نہ ہوں اور نہ اسے چھپانے کی کوشش کریں لیکن اس کو ابھارنے کے ایسے طریقے ہرگز اختیار نہ کریں جو دوسروں کے فرقہ پرستانہ جذبات کوفروغ دینے والے اور ہم کو الگ تھلگ کرنے میں مدد دینے والے ہوں۔ اس وقت بڑی ضرورت یہی ہے کہ ہم ملک کے عام باشندوں کو اپنے سے قریب کریں ، قدرِ مشترک کا احساس اُن کے اندر مضبوط کریں اوراس تصور کو مستحکم کریں کہ ہم بھی ہندوستان کے شہری اور اُن کے ہم وطن ہیں۔ جس طرح قرآن نے پیغمبروں کو اپنی قوموں کا بھائی کہا ہے؛ (مثلاً وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا,وَإِلَىٰ عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًا,وَإِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا) یہ احساس یہاں رہنے والے سب لوگوں میں مستحکم ہو کہ مسلمان بھی وطن کے رشتےسے ان کے بھائی اور ان کے اپنے ہیں۔ اس کے لئے جہاں یہ ضروری ہے کہ ہم ایک قدم آگے بڑھ کربرادران وطن کو گلے لگائیں وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑکانے والے اور دوری پیدا کرنے والے طرز عمل سے گریز کریں۔


نعروں میں خصوصاً جذباتی عنصر بہت قوی ہوتا ہے۔ موجودہ حالات میں نعروں پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ نعرے ایسے ہوں جو اس وقت کے اصل مسئلہ سے متعلق ہوں۔ نعرے نہ تو مشرکانہ اور ہمارے عقیدے، روایات اورقدروں سے متصادم ہوں اور نہ ایسے ہوں جو دوسروں کی حمیت اور فرقہ پرستانہ جذبات کو مشتعل کرسکتےہوں۔بلکہ نعرے ،مسلمانوں کی یہاں کے تمام باشندوں سے قربت کوتقویت پہنچانے والے ہوں اوراُن آفاقی انسانی قدروںکی ترجمانی کرنے والے اور ان کو مستحکم کرنے والے ہوں جومختلف مذاہب کے ماننے والے ہندوستانیوں کو جوڑنے کا باعث بنتی ہیں اور جن کی وضاحت ملک کے دستور میں بھی موجود ہے۔


جہاں تک مذہبی اور اسلامی تشخص سے متعلق نعروں کا سوال ہے، اللہ اکبر کا نعرہ تو رب کائنات کی بڑائی کا اعلان ہے۔ اس میں کیا قباحت ہوسکتی ہے؟اس کا تعلق تو ہمارے ایمان اور عقیدہ سے ہے۔ تکبیر مسلسل تو ایک مسلمان کی اصل ذمہ داری اور اس کا فرض منصبی ہے۔ لیکن ملک کی ماضی قریب کی تاریخ میں ان نعروں کا اس طرح استحصال ہوا ہے کہ ایک عام غیر مسلم کے لئے یہ فرقہ وارانہ تصادم کے موقع پر بلند کیا جانے والا جنگی نعرہ بن چکا ہے۔لاالہ الا اللہ تو اسلام کی دعوت کی بنیاد ہے۔ لیکن ملک کا اجتماعی حافظہ اس کو پاکستان کی تحریک سے جوڑ کر دیکھتا ہے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں نے اُس پیغام کو سمجھانے کی سنجیدہ کوشش بہت کم کی ہے جس کی یہ کلمات نمائندگی کرتے ہیں۔اس لئے افہام و تفہیم اور سنجیدہ دعوت کی بجائے جب یہ کلمات، نعروں کے طور پر بلند کئے جاتے ہیں تو ان سے فرقہ پرستانہ اشتعال پیدا ہوجاتا ہے، غیریت کے احساس کو تقویت ملتی ہے، یہ تاثر مستحکم ہوتا ہے کہ مسلمان عام ہندوستانیوں سے الگ ہیں۔

اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ لاالہ الااللہ اور اللہ اکبر جیسے کلمات اور اسلامی شعائر سنجیدہ دعوت اور گہرے مذاکرات کے موضوع بنیں ، جذباتی نعروں کے نہیں ۔ وہ لوگوں کو جوڑنے والے، ان کے دل و دماغ کو اپیل کرنے والے کلمات بنیں، قوم پرستی اور فرقہ پرستی کی علامتیں اور سیاسی مہمات کے عنوان نہیں۔ ان کلمات کو طویل المیعاد اور صبر آزما دعوتی کام کی بنیاد بنایا جائے، سیاسی کشمکش کی ہیجان خیز فضا میں سیاسی شناخت کے اظہار کا ذریعہ نہیں۔


اس طرح کی مہمات بھی ہم کو یہ موقع فراہم کرتی ہیں کہ ہم قرآن و سنت کا پیغام سنجیدگی کے ساتھ پیش کریں۔ اسلام کی انسانیت دوست تعلیمات کو نمایاں کریں۔ لوگوں کو بتائیں کہ اسلام کیسے ظلم کی بیخ کنی کرتا ہے، سارے انسانوں کو آزادی اور مساوات فراہم کرتا ہے، انسانوں کے درمیان اخوت و محبت پیدا کرتا ہے۔اس حقیقت کا اظہار کریں کہ سارے انسان ایک خدا کی مخلوق اور اسکے بندے ہیں۔ ایک ماں باپ کی اولاد ہیں۔موقع و محل کی رعایت کے ساتھ اپنے اصولوں اور قدروں کی طرف اس طرح متوجہ کریں کہ عام ہندوستانیوں کے درمیان ان قدروں کے لئے احترام کا جذبہ پیدا ہو۔ اسلامی شناخت کے اظہار و اعلان کے پاکیزہ جذبے کو اگر آپ یہ رخ دیں گے تو اس سے اس مہم کو اشتعال یا تفریق پیدا کرنے والے انداز سے بچاسکیں گے اور داعی الی اللہ کی اپنی ذمہ داری کو بھی ادا کریں گے۔ ان شاء اللہ۔اور واقعہ بھی یہی ہے کہ اسلامی شناخت اصلاً محض ایک قومی یا فرقہ وارانہ شناخت نہیں ہے بلکہ ایک نظریاتی، دعوتی اور منصبی شناخت ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights