سیاسی مسائل میں اجتہاد اور علامہ قرضاوی

0

ڈاکٹر مسعود صبری

سیاسی مسائل پر غوروفکر کے سلسلے میں علامہ یوسف القرضاوی کا اپنا ایک سوچا سمجھا انداز فکرہے، اصولی طور پر اس کی دو بنیادیں ہیں:
پہلی بنیاد یہ کہ مسائل کے حل تک پہنچنے کے لیے امت کے بنیادی مصادر (قرآن وسنت) کی طرف رجوع کیا جائے، اور ساتھ ہی ساتھ صحابہ کرام، تابعین عظام اور علماء امت نے اپنے پیچھے جو سرمایہ چھوڑا ہے اس سے استفادہ کیا جائے۔


دوسری بنیاد یہ کہ موجودہ زمانے کا گہرا فہم ہو، اور موجودہ زمانے کے مسائل کو مکمل طور سے شرعی نقطہ نظر کے مطابق حل کرنے کی کوشش کی جائے، ایسا نہ ہو کہ زمانے کا ساتھ دینے کے لیے اسلامی تعلیمات میں تحریف اور بگاڑ شروع کردیا جائے، بلکہ شریعت کے کلی مقاصد کی روشنی میں جزوی نصوص کو سمجھنے کی کوشش کی جائے، اورشریعت کے دائمی اور وقتی احکام کے درمیان فرق کیا جائے، نیز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سیاست سے متعلق جو قابل تغییر شرعی احکام ہیںاور جو ناقابل تغییر شرعی احکام ہیں ان کے درمیان فرق کیا جائے۔


سیاسی مسائل اپنے اندر تین شرعی پہلورکھتے ہیں:
(1) اصولوں کو شریعت کے مطابق ہوناچاہیے
(2) مقاصد کو شریعت کے مطابق ہوناچاہیے
(3) طریقہ کارکو شریعت کے مطابق ہوناچاہیے


علامہ یوسف القرضاوی نے اپنی تحریروں میں بہت سے سیاسی مسائل پر گفتگو کی ہے، مثال کے طور پر:
( 1) جمہوریت کے سلسلے میں اسلامی حکومت کا موقف
(2) ملکی نظام میں ایک سے زائد سیاسی پارٹیوں سے متعلق اسلامی حکومت کا موقف
(3) عملی سیاست میں خواتین کی شرکت سے متعلق اسلامی موقف
(4) غیراسلامی نظام حکومت میں شرکت
(5) مسلم ممالک کی پارلیمنٹ میں غیرمسلموں کا انتخاب میں حصہ لینا
(6) سربراہ مملکت کے لیے مدت کا تعین
(7) پارلیمنٹ کی شرعی حیثیت
(8) مسلح انقلاب کی شرعی حیثیت
(9) قدس سے دستبرداری کا مسئلہ
(10) مسجد اقصی کی زیارت کے لیے سفر
(11) اسرائیل کے ساتھ امن کے قیام کی کوشش
(12) مقبوضہ علاقوں کے مسلمانوں کا یہودی عبادت گاہوں میں جانا
(13) اسرائیل سے تعلقات
(14)صہیونی ریاست میں موجود مسلم قیدیوں اور غلاموں کا مسئلہ
(15) سرزمین فلسطین کے معاوضہ کو قبول کرتے ہوئے مصالحت کرنا
(16) امریکی اوراسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ
(17) شہادت سے متعلق مسائل


علامہ یوسف القرضاوی سیاسی مسائل پر غوروفکر یا فقہ سیاسی کی بنیادوں کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’فقہ سیاسی کا سرچشمہ اسلامی عقیدہ ہوتا ہے، اس کا اعتماد شریعت پر ہوتا ہے، اخلاق واقدار اس کی تائید کرتے ہیں، اس کے کچھ اصول اور کچھ بنیادیں ہوتی ہیں، جن کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:


پہلی بنیاد: شریعت کے کلی مقاصد کی روشنی میں شریعت کے جزوی نصوص پر غوروفکر۔علامہ قرضاوی مقاصد کی روشنی میں نصوص کے فہم سے متعلق اعتدال پسند مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں، چنانچہ وہ کلی مقاصد کی روشنی میںجزوی نصوص پر گفتگو کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ بہت ہی معتدل نقطہ نظر رکھتے ہیں، وہ نہ تو اس بات کے قائل ہیں کہ مقاصد کو ترک کرتے ہوئے صرف نصوص کو پکڑ کر آگے بڑھا جائے اور نہ اس بات کے قائل ہیں کہ مصالح اور مقاصد کے نام پر نصوص کو ترک کردیا جائے۔


دوسری بنیاد: زمانے کی سمجھ، اور اس بات کی سمجھ کہ زمانے کی تبدیلی سے فتوی میں بھی تبدیلی واقع ہوجاتی ہے۔زمانے کی سمجھ پر مبنی فقہ کی خاص خوبی یہ ہوتی ہے کہ جس مصلحت یا جس عرف پر وہ حکم قائم ہے، وہ مصلحت یا وہ عرف تبدیل ہوجانے پر حکم خود بخود تبدیل ہوجاتا ہے۔ علامہ قرضاوی کہتے ہیں کہ افراد، حالات، مقام اور زمانہ، جو فتوی کی تبدیلی کے موجب ہوتے ہیں، ان کی تبدیلی سے فتوی کے اندر آنے والی تبدیلی کا لحاظ رکھنا ضروری ہوجاتا ہے۔


تیسری بنیاد:کسی بھی حکم کے نتیجے میں رونما ہونے والے مصالح اور مفاسد کے درمیان موازنہ۔علامہ قرضاوی کہتے ہیں کہ فقہ اسلامی میں مصالح اور مفاسد کا اعتبار بہت اہم ہوتا ہے، لیکن سیاسی مسائل میںان کا اعتبار کرنا اہم تر ہوجاتا ہے۔ علامہ قرضاوی کے یہاں اس کی تین نوعیتیں ہوتی ہیں، کبھی مصالح آپس میں متعارض ہوجاتے ہیں، کبھی مفاسد آپس میں متعارض ہوجاتے ہیں، اور کبھی کبھی مصالح اور مفاسد کے درمیان ٹکراؤہوجاتا ہے، ایسی صورت میں عمومی مصلحت کو مخصوص مصلحت پر مقدم رکھا جائے گا، بڑی مصلحت کو چھوٹی مصلحت پر مقدم رکھا جائے گا، اور ثابت شدہ مصلحت کو غیرثابت شدہ پر مقدم رکھا جائے گا، اور یہی اس وقت بھی کیا جائے گا جب مصالح اور مفاسد میں باہم تعارض ہوجائے۔


چوتھی بنیاد: ترجیحات کا تعین۔ترجیحات کے تعین سے علامہ قرضاوی یہ مراد لیتے ہیں کہ ہر چیز کو اس کی مناسب جگہ پر رکھا جائے، جس کو پہلے رکھنا ہو اسے موخر نہ کردیا جائے، اور جس کو موخر کرنا ہو اسے مقدم نہ کردیا جائے، اسی طرح بڑی چیز کو چھوٹا نہ بنا دیا جائے اور چھوٹی چیز کو بڑا نہ بنا دیا جائے۔ ترجیحات کے تعین کے سلسلہ میں یہ دلیل بہت اہم ہے کہ عہد مکی میں دعوت، تربیت اور تزکیہ پر خاص توجہ دینی تھی، چنانچہ عقیدہ، وحدانیت اور عبادت کو دلوں میں جاگزیں کرنے اور شرک وطاغوت سے اجتناب کرنے اور اعلی اخلاق وکردار پیدا کرنے پر پوری طرح توجہ مرکوز کردی گئی، اس دوران اصنام کو ان کی جگہ چھوڑ دیاگیا اور انہیں منہدم کرنے سے اجتناب برتا گیا۔ وہ مسائل جن میں ترجیحات کا تعین بہت ضروری ہے، ان میں ایک مسئلہ دس دس بار لوگوں کے حج اور عمرہ کرنے کا بھی ہے، خاص طور پر ایسے حالات میں جب کہ افریقی اور ایشیائی ممالک میں مسلم اداروں اور تنظیموں کو اُن وسائل کی شدید ضرورت ہے جن کے ذریعہ وہ عیسائی مشنریز کے ذریعہ کھڑے کیے گئے تبدیلی مذہب کے خطرات کا مقابلہ کرسکیں۔ علامہ قرضاوی کہتے ہیں کہ سیاسی مسائل میں ترجیحات کے سلسلہ میں شریعت کے مصالح کا ایک ترتیب کے ساتھ اعتبار کیا جائے گا، چنانچہ دین کی حفاظت کو جان کی حفاظت پر ترجیح دی جائے گی، اور جان کی حفاظت کو عقل کی حفاظت پر ترجیح دی جائے گی، اور عقل کو نسل پر اور نسل کو مال پر ترجیح دی جائے گی۔ مسلم ممالک کی سیاسی ترجیحات کی مثالوں میں اس بات کو بھی شامل کیاجاسکتا ہے کہ اس وقت جب کہ انہیں ہتھیاروں کے کارخانے شروع کرنے چاہئیں، وہ زیب وزینت کے سامان بنانے کے لیے کارخانے نہ شروع کریں، اور جب قوم کو بنیادی ضروریات درپیش ہوں تو وہ کمالیات اور استحسانیات کی فراہمی کے چکر میں نہ پڑیں، اور یہ بھی نہ ہو کہ لوگ تو گیہوں اور آٹے کے لیے ترس رہے ہوں اور حکومتیں اعلی قسم کے میوہ جات کے باغات لگارہی ہوں۔


پانچویں بنیاد: تبدیلی لانے والی فقہ۔ سیاسی مسائل پر غوروفکر کرتے وقت ایک بات یہ بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ہمارے پیش نظر وہ فقہ ہے یا مسائل کا وہ حل ہے جو تبدیلی لانے والا ہو۔ تبدیلی ایک ایسا مقصد ہے جو اسلامی، قومی اور دیگر بہت سی قوتوں کے پیش نظر ہوتا ہے، لیکن کوئی سیاسی تبدیلی کی بات کرتا ہے، کوئی معاشی تبدیلی کی بات کرتا ہے اور کوئی تہذیبی تبدیلی کی بات کرتا ہے۔ خود اسلام کے علمبرداروں کے درمیان بھی تبدیلی کے سلسلہ میں مختلف نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں، کسی کے پیش نظر عقیدے کی درستگی اور شرک کا مقابلہ ہوتا ہے، کوئی اخلاق اور سلوک پر خاص توجہ دیتا ہے، کوئی معیشت اور اسلامی بینکوں پر ساری توجہ مرکوز کردیتا ہے، کوئی سماجی اور رفاہی کاموں کا ہوکر رہ جاتا ہے،کوئی دعوت، فکر اور تہذیب کی بات کرتا ہے اور کوئی سیاسی محاذ پر ساری توجہ لگادیتا ہے، اس کے پیش نظر انتخابی معرکوں میں شرکت اور لادینیت یا سیکولرزم کا مقابلہ ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ اس میں سب سے خاص پہلو، جس کی طرف علامہ قرضاوی نے اشارہ کیا ہے وہ ہے دلوں کی تبدیلی، غلط عقیدوں سے نجات اور منحرف افکار وخیالات کی درستگی۔ علامہ قرضاوی کہتے ہیں کہ سیاسی مسائل پر شرعی رہنمائی تلاش کرنے کے لیے اس اصول کے ساتھ ساتھ گزشتہ اصولوں اور بنیادوں کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ کوئی حکیمانہ عمل نہیں ہوگا کہ اسلام پسند یہ سمجھ بیٹھیں کہ اگر انہیں کسی سیکولر، یا کسی قدر سیکولر، یا اس جیسے ملک پر حکومت کا موقع مل گیا تو وہ راتوں رات پورے ملک کو تبدیل کرڈالیں گے، کیونکہ وہاں بہت سی ایسی چیزیں ہوں گی جن پر شرعی لحاظ سے کوئی مضائقہ نہیں ہوگا، کچھ چیزیں ایسی ہوں گی جنہیں مکمل طور سے منہدم کرنے کے بجائے ان میں معمولی ردوبدل کافی ہوگا، جیسے عدالت کے معروف اسٹرکچر میں مکمل تبدیلی کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی، اسی طرح بینکوں کے اسٹرکچر کو بھی مکمل طور سے تبدیل کرنے کے بجائے انہیں ایک معاشی ادارہ کے طور پر باقی رکھا جائے گا۔ اس سلسلے میں تین باتوں کا خیال رکھا جائے گا: (1) ضرورتوں کے لحاظ کا اصول (2) دو ضرررساں چیزوں میں کم ضرر رساں کا انتخاب (3) تدریج کے اصول کا لحاظ۔


چھٹی بنیاد: جس چیز کی حرمت کے تعلق سے نص نہ آئی ہو ، وہ اصلاً حلال ہے۔سیاسی مسائل میں شرعی رہنمائی تلاش کرتے وقت اس اہم اصول کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ جس چیز کی حرمت کے تعلق سے کوئی نص نہ موجود ہو، وہ اصلاً حلال اور جائز ہوتی ہے، اس کی حرمت کا فیصلہ اس میں موجود مصالح اور مفاسد کو دیکھنے کے بعد ہی کیا جائے گا۔ یہ اصول بہت سے فتوؤں میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے، مثال کے طور پر اسلامی حکومت میں ایک سے زائد سیاسی پارٹیوں کے وجود کا مسئلہ ہے، علامہ قرضاوی کہتے ہیں کہ وہ جائزہے، کیونکہ اس کی ممانعت دلیل کی محتاج ہوگی اور ایسی کوئی دلیل نہیں ملتی جس کی بنیاد پر اس کو حرام قرار دیا جاسکے۔


ساتویں بنیاد: امت کے عمل اور سیاسی معاملات میں خلفائے راشدین کے اسوے پر اعتماد۔علامہ قرضاوی بہت سے سیاسی مسائل کے سلسلے میں متقدمین کے فہم کی طرف بھی رجوع کرتے ہیں، خاص طور سے وہ یہ دیکھتے ہیں کہ اس سلسلے میں خلفائے راشدین کا کیا عمل تھا، اور ان سے کیا اقوال ثابت ہیں۔ مثلاً اسلامی حکومت میں اپوزیشن کے وجود کے مسئلہ پرعلامہ جواز کے قائل ہیں، کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خوارج نے خروج کیا تھا، لیکن حضرت علی نے ان سے قتال نہیں کیا، بلکہ انہوں نے اپوزیشن کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں ہدایت دی کہ وہ ہتھیار نہیں اٹھائیں گے، نماز سب کے ساتھ مسجد میں ادا کریں گے، اور مسلمانوں کے ساتھ جب تک جہاد میں شرکت کرتے رہیں گے وہ مال غنیمت میں بھی حصہ دار ہوں گے، اسلامی حکومت ان سے قتال کا آغاز نہیں کرے گی، اور اس وقت تک ان سے جنگ نہیں کرے گی جب تک کہ وہ خود آمادۂ پیکار نہ ہوں، اور ایسا دفاع عن النفس کے لیے کیا جائے گا۔ اسی کی ایک مثال مسلم ممالک کی پارلیمنٹ میں غیرمسلموں کے منتخب ہونے کا مسئلہ ہے، علامہ قرضاوی اس کے بھی جواز کے قائل ہیں، اس بنیاد پر کہ مسلمانوں نے اپنی تاریخ کے مختلف زمانوں میں ذمیوں کو مختلف وزارتوں پر مأمور کیا تھا، عباسی حکومت میں بھی بہت سے غیرمسلم وزراء تھے، لیکن ان کے عدم جواز پر کبھی کسی نے کوئی فتوی نہیں دیاتھا۔ (عربی سے ترجمہ وتلخیص)

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights