ریاستی انتخابات کا پیغام ‘ آستینوں کا انتظام کرو

0

ڈاکٹر سلیم خان
قومی انتخاب کا بگل بج چکا ہے اس لئے حالیہ ریاستی انتخابات کو اس کے تجربہ گاہ کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ سیاسی جماعتوں نے اسے اپنی حکمتِ عملی جانچنے کا اور عوامی رحجان کو معلوم کرنے کا وسیلہ بنایا اور اس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کی لیکن عوام کو بھی ان انتخابات کے بعد سیاسی جماعتوں کے رنگ ڈھنگ جاننے کا نادر موقع مل گیا۔ کل ملا کر پانچ ریاستوں میں انتخاب کا اہتمام ہوا جن میں سے دو چھوٹی اور تین بڑی ریاستیں تھیں۔ اتفاق سے دونوں چھوٹی ریاستوں میں کانگریس کی حکومت تھی اور تین میں سے ایک بڑی ریاست میں بھی کانگریس بر سراقتدار تھی لیکن انتخاب کے بعد یہ ہوا کہ جن دو بڑی ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت تھی قائم رہی اور اس میں ایک کا اضافہ ہوگیا۔ چھوٹی ریاستوں میں سے کانگریس ایک کو بچا سکی لیکن دوسری اس نے گنوا دی۔ کانگریس کو دہلی گنوانے کا افسوس اس لئے کم ہے کہ وہ قومی سطح پر عام آدمی پارٹی کو اپنا حریف نہیں سمجھتی اسے خوشی ہے کہ دہلی میں بی جے پی اپنی حکومت نہیں بنا سکی۔ کانگریس کیلئے مسرت کا ایک اور موقع اس میں بھی ہے کہ عام آدمی پارٹی اس کی حمایت سے حکومت بنانے کیلئے کوشاں ہے۔ اس طرح نہ صرف عام آدمی پارٹی کی مخالفت کی شدت میں کمی واقع ہوگی بلکہ وہ مناسب وقت میں اس کی سرکار کو گرا کردوبارہ عوام کا اعتماد حاصل کر سکے گی۔ اس طرح کی حکمت عملی ہمیشہ ہی کانگریس کیلئے منافع بخش رہی ہے۔
کانگریس کے نقطہ نظر سے یہ انتخابی نتائج خطرے کی گھنٹی ہیں۔ ۱۰؍ سال قبل ۲۰۰۳ ؁ء میں بھی قومی انتخاب سے قبل اسے اسی طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ میزورم کے علاوہ انہیں چاروں ریاستوں میں انتخابات کا انعقاد ہوا تھا،اور بی جے پی کو دہلی کے علاوہ بقیہ تین ریاستوں میں زبردست کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ اس وقت دہلی میں بی جے پی کے تحت متحدہ قومی محاذ کی حکومت تھی۔ انتخابی نتائج کے بعد غیرملکی دورے پر جاتے ہوئے ملک کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے خوش ہو کر کہا تھا کہ ہمیں تو اس مرتبہ ۲:۲ کی توقع تھی لیکن یہ تو ۱:۳ کا معاملہ ہوگیا۔ پرمود مہاجن اس وقت بی جے پی کے سب سے ذہین رہنما سمجھے جاتے تھے۔ نریندر مودی کو فسادات کے بعد دوبارہ وزیراعلیٰ بنانے میں انہوں نے ارون جیٹلی کے ساتھ مل کر اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان کامیابیوں کی ہوا پرمود مہاجن کے دماغ میں اسی طرح بھر گئی جس طرح کہ فی الحال نریندر مودی پھولانہیں سمارہا ہے۔ مہاجن نے جوش میں آکر ذرائع ابلاغ کی مدد سے چمکتا دمکتا ہندوستان(شائننگ انڈیا ) نامی مہم چلائی اور ایک ایسا ماحول بنا دیا کہ گویا سارا ہندوستان ان کی مٹھی میں آگیا ہے۔ پرمود مہاجن کی خوش فہمی نے بی جے پی کے رہنماؤں کو قبل ازوقت قومی انتخابا ت منعقد کرنے پر مجبور کردیا مگر جب نتائج سامنے آئے تو چڑیا کھیت چگ چکی تھی۔
اس بار بھی بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی کامیابی کو مودی کا چمتکار بتانے کی کوشش کی اور یہ کہنا شروع کردیا کہ جلد ہی وہ وزیراعظم بن جائے گا لیکن ذرائع ابلاغ نے اعدادو شمار کی مدد سے اس دعویٰ کی قلعی کھول دی۔اس لئے کہ مدھیہ پردیش میں چوہان اورراجستھان میں راجے کی کامیابی خودنریندر مودی کی گجرات میں حاصل ہونے والی کامیابی سے کہیں بہتر ہے۔ گجرات کے اندر بی جے پی کو ۱۱۵؍ تو کانگریس کو ۵۰؍ فیصد سے زیادہ ۶۰؍ نشستیں ملی تھیں جو پہلے کی بہ نسبت دو کم تھیں جبکہ راجستھان میں کانگریس کو ۱۶۲؍ کے مقابلے صرف ۲۱؍ نشستیں ملی ہیں یعنی ۱۵؍ فیصد سے کم اورگزشتہ کے مقابلے ۱۰۰؍ زیادہ ہے۔ اسی طرح مدھیہ پردیش میں جب مودی نہیں تھا تو اوما بھارتی نے ۱۷۳؍ سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی اور اب مودی صرف ۱۶۵؍ نشستوں پر بی جے پی کو کامیاب کراسکا اور وہ اضافہ بھی اوما بھارتی کی گھر واپسی کی وجہ سے ہوا۔ مدھیہ پردیش میں شرمناک شکست کے باوجود کانگریس کے رائے دہندگان میں ۵؍ فیصد کا اضافہ ہوالیکن بی جے پی کے رائے دہندگان کی تعداد میں ۹؍ فیصد کا اضافہ اس کو مات دے گیا۔
راجستھان میں بھی بی جے پی کی زبردست کامیابی کے پیچھے کانگریس کے رائے دہندگان نہیں ہیں۔ کانگریس کے تو صرف ۴ فیصد ووٹرس کم ہوئے جبکہ ۱۰؍ فیصد ووٹرس دیگر جماعتوں سے نکل کر بی جے پی کی جھولی میں آگئے جنہوں نے اس کی قسمت بدل دی۔ چھتیس گڑھ میں بھی مودی نشستوں میں اضافہ تو نہیں کرسکا ہاں ایک کم ضرور ہوئی۔ چھتیس گڑھ کی ۹ نشستوں پر ۵ سے ۱۰؍ فیصد کے درمیان ووٹ دئیے۔ ماؤ وادیوں کی یہ حکمت عملی کانگریس اور بی جے پی دونوں پر اثر انداز ہوئی۔ دہلی میں نریندر مودی کی پانچ ریلیاں بی جے پی کو واضح اکثریت سے ہمکنار نہیں کرسکیں اور حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کے ووٹ کا تناسب گزشتہ کے مقابلے۳ فیصد کم ہوا۔ بی جے پی کو سب سے بڑی پارٹی مودی نے نہیں عام آدمی پارٹی نے بنایا جس نے کانگریس کی جھولی سے ۱۵؍ فیصد ووٹ اپنے قبضے میں لے لئے۔
۲۰۰۳ ؁ء کے ریاستی انتخابات میں کانگریسی کی ناکامی کے بعد ایم جے اکبر جیسے معمر صحافی نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ کانگریس کے سارے دلدّر سونیا گاندھی کے سبب سے ہیں اور جب تک وہ پارٹی پر مسلط رہیں گی اس وقت تک اس کا مستقبل روشن نہ ہوسکے گا اس لئے پہلی فرصت میں کانگریس پارٹی کو چاہئے کہ اس نحوست سے نجات حاصل کرلے لیکن تاریخ شاہد ہے کہ سونیا نے اکبر سمیت اپنے سارے چھوٹے بڑے ناقدین کو دھول چٹادی۔ سونیا گاندھی کی کامیابی کا راز ان کا اعترافِ شکست تھا۔ جب ان کی ہم نوا مثلاً امبیکا سونی وغیرہ نے شکست کے بعد اپنا استعفیٰ پیش کیا تو سونیا نے اسے واپس کردیا اور نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ ہار کی ذمہ داری اپنے سر لیتے ہوئے کہا کہ اس شکست کیلئے کوئی فردِ واحد نہیں بلکہ تنظیم کے سارے لوگ ذمہ دار ہیں جن میں وہ خود بھی شامل ہیں۔ انہوں نے شکست کی وجہ بیان کرتے ہوئے کسی لنگڑی لولی کا منطق یا بہانہ بازی کا سہارا نہیں لیا بلکہ اعتراف کیا کہ ہم عوام کی توقعات پر پورے نہیں اتر سکے اس لئے انہوں نے ہمیں دھتکار دیا۔ پارٹی کی اس کمزوری کو دور کرنے کیلئے انہوں نے تنظیمِ نو پرزور دیا۔
سونیا کی یہ حکمتِ عملی بار آور ثابت ہوئی۔ انتخاب کے بعد انہوں نے منموہن سنگھ کو وزیراعظم بنا کر بی جے پی سے غیرملکی وزیراعظم کا ہتھیار چھین لیا۔۲۰۰۴ ؁ء کے مقابلے ۲۰۰۹ ؁ء میں کانگریس نے اپنی حالت کو بہتر بنایا اور اس بات کا امکان پیدا ہوگیا کہ جلد ہی راہل کی تاجپوشی ہو جائیگی لیکن راہل کا بچپنا اور سونیا کا اس پر عدم اعتماد کانگریس کے پیروں کی زنجیر بن گیا۔ منموہن کی عمر اور بدعنوانی و مہنگائی پر لگام لگانے میں ناکامی کی بڑی قیمت کانگریس پارٹی فی الحال چکا رہی ہے۔ماضی کی مانند اس بار بھی سونیا گاندھی اور ان کے بیٹے راہل گاندھی نے خوداحتسابی کا نعرہ بلندکیا ہے ؟ دونوں ماں بیٹا اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ عوام تک پیغام رسانی میں کہاں کوتاہی ہوئی؟ لیکن انہیں جان لینا چاہئے کہ مسئلہ طریقہ کار کا نہیں بلکہ نفسِ پیغام کا ہے۔اس انتخابی مہم کے دوران ایسا لگتا تھا راہل گاندھی کے پاس ملک کے عوام اور خاص طور پر نوجوانوں کیلئے کوئی نصب العین یا لائحہ عمل نہیں ہے۔ وہ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے لوگوں کو یہ نہ بتا سکے کہ اگر کانگریس پارٹی اقتدار میں آجاتی ہے تو ان کا وزیراعلیٰ کون ہوگا اور وہ ایسا کیا کرے گا کہ جس کی خاطر بی جے پی کو اقتدار سے ہٹا دیا جائے ؟ ان کے برعکس بی جے پی کی راجستھان اوردہلی میں حکمت عملی بہت واضح تھی۔ دونوں مقامات پر ان کا مجوزہ وزیراعلیٰ عوام کے سامنے تھا جس کا فائدہ بی جے پی کو ہوا کانگریس کی طنابیں اڑ گئیں۔
راہل کا معاملہ یہ تھا انہوں احسان مندی کی سیاست کھیلنے کی ناکام کوشش کی۔ کبھی اپنی والدہ کی صحت کا رونا رویاتو کبھی والد اور دادی کی قربانی یاددلائی۔ ملک کے نوجوان رائے دہندگان میں سے بڑی اکثریت ایسے لوگوں کی جنہوں نے اندرا گاندھی و راجیو گاندھی کو نہیں دیکھا۔ اس نوجوان نسل کو ماضی سے زیادہ مستقبل میں دلچسپی ہے۔ اس کے سامنے بیروزگاری کا سنگین مسئلہ ہے وہ جاننا چاہتی ہے کہ کانگریس کے پاس اس کا حل کیا ہے؟ ملک میں روز افزوں بڑھنے والی مہنگائی کی اصل وجہ بدعنوانی ہے اور اب عوام کو یقین ہوگیا کہ اس بدعنوانی اورمہنگائی کیلئے کانگریس کی مرکزی حکومت ذمہ دار ہے۔ ان بنیادی مسائل پروہ سیر حاصل گفتگو کرنے میں راہل بری طرح ناکام رہے۔ جذباتی استحصال کا حربہ اور احسانات کو یاد دلا نا عوام کو متاثر نہیں کرسکا۔ راہل گاندھی کا یہ کہنا کہ ہمیں عوام کا پیغام مل گیا ہے اورہم نے اسے اپنے دماغ سے نہیں دل سے سناہے۔ اس بات کی دلیل ہے کہ ہنوز وہ جذباتیت کے رتھ پر سوار ہیں اس لئے کہ اب تک انہیں معلوم ہوجانا چاہئے کہ سیاست کی دنیا میں سننے سنانے کا کام دل اور دماغ کا نہیں کان اور زبان سے لیا جاتا ہے۔ جو کچھ سنا جاتا ہے عقل اس پر فیصلہ کرتی ہے۔ دل کی آمادگی کو جب میدانِ عمل میں جوش و خروش حاصل ہوتا ہے تواس کے بعد ہی کامیابی قدم چومتی ہے۔
راہل نے یہ بچکانہ اعلان بھی کردیا کہ وہ اپنی پارٹی کا حلیہ بدل کر اس کو عام آدمی کی پارٹی بنا دیں گے جو زمینی سطح پر عوام کے درمیان جاکرکام کرے گی ۔ راہل گاندھی جوش میں یہ بھی کہہ گئے کہ عام آدمی پارٹی نے جو غیرروایتی طریقہ کار استعمال کیا ہے ہم اسے اس قدر بہتر بنا کر استعمال کریں گے کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ سیاست کی دنیا میں ناپختہ کارراہل گاندھی کو نہیں پتہ کہ یہ سب کہنا جس قدر آسان ہے کرنا اتنا ہی مشکل ہے۔ عام آدمی پارٹی کے لیڈر نے سب سے پہلے اپنے آپ کو عوام کے اندر رچایا بسایا بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہے کہ اروند کیجریوال عام لوگوں میں سے ایک تھا۔ کیا راہل گاندھی کیجریوال کی طرح بغیر سیکورٹی کے عوام کے درمیان آنے کا تصور کرسکتے ہیں ؟
راہل گاندھی کیلئے ایک مشکل یہ بھی ہے کہ عام آدمی پارٹی نے کانگریس کی بدعنوانی اور مہنگائی کے خلاف عوام کو مجتمع کیا ہے لیکن راہل کس کے خلاف ایسا کریں گے؟ جبکہ کرپشن ،بے حسی و نااہلی کا الزام خود ان کی اپنی مرکزی حکومت پر ہے۔ عام آدمی پارٹی اور کانگریس میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ اس نے عوام سے بیس کروڑ روپئے جمع کئے جبکہ کانگریس اور بی جے پی نے ہزاروں کروڑ روپئے رشوت لے کرانتخابات پرخرچ اور تقسیم کردئیے۔ عام آدمی پارٹی نے عوام کے اندرجوعزم و حوصلہ پیدا کیا ،کیا راہل گاندھی میں ایسا کرنے صلاحیت ہے ؟ اس سوال کا مثبت جواب تو خود سونیا گاندھی کے پاس بھی نہیں ہے ورنہ وہ دہلی کا تاج کب کا ان کے سرپر رکھ دیتیں۔ اس بار دہلی میں سابق کانگریسی وزیراعلیٰ کی رعونت کا یہ عالم تھا کہ اسے دیکھ کرافتخار راغب کا مندرجہ ذیل شعر یاد آتا تھا
راغب یہ لگ رہا ہے کہ ٹوٹے گی پھر سے شاخ
پھر سے اکڑ رہا ہے شجر اعتبار کا
شکست خوردہ وزیراعلیٰ شیلا دکشت نے یہ پوچھے جانے پر کہ آپ لوگ عوام کا موڈجاننے میں کیوں ناکام رہے ؟ مختصر اور مؤثرترین جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم بے وقوف ہیں۔ اس مغروروزیراعلیٰ سے جس نے عام آدمی پارٹی کوغازی آباد کے جھاڑو والے کہہ کر پکارا تھااسی جواب کی توقع تھی۔ شیلا دکشت کو اروند کیجریوال نے ۱۸؍ ہزار کے مقابلے ۴۴؍ ہزار ووٹ سے ہرا کران کے سیاسی مستقبل پر جھاڑو پھیر دیا۔ اسی کے ساتھ یہ بات ثابت ہوگئی کہ انتخابی سیاست میں عام لوگوں کو بے وقوف سمجھنے والوں سے بڑا بے وقوف کوئی اور نہیں ہو سکتا ۔ وہ تو بھلاہو ۴؍ مسلمان اور دو سکھ امیداوروں کا جن کے سبب کانگریس کو دلی میں ۸؍ نشستوں پر کامیابی ملی۔ شیلا دکشت کے موجودہ عجزو انکسار پرحفیظ میرٹھی کا یہ شعر یاد آتا ہے ؂
بڑے ادب سے غرورِ ستمگراں بولا
جب انقلاب کے لہجے میں بے زباں بولا
عام آدمی پارٹی کی کامیابی سے ایک خوشگوار تبدیلی آئی ہے جس نے پیغام دیا ہے کہ دہلی کی طرح جہاں ریاستی و مرکزی دونوں حکومتیں کانگریس کی تھیں اور کوئی تیسرا متبادل نہیں تھا کانگریس کی ناکامی کا فائدہ بی جے پی کو ہوا لیکن ہر ریاست میں ایسا نہیں ہوگا بلکہ جس مقام پر جو پارٹی کانگریس کی حریفِ اول ہوگی عوام اس کی حمایت کرکے کانگریس کو سبق سکھائیں گے۔ نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ علاقائی جماعتیں نہ صرف کانگریس کو ہراسکتی ہیں بلکہ بی جے پی کو اکثریت میں آنے سے روکنے کا دم خم بھی اپنے اندر رکھتی ہیں ۔ یہ کردارتیسرے محاذ کی جماعتیں مختلف ریاستوں میں ادا کریں گی۔ جہاں کہیں رائے دہندگان کو عام آدمی پارٹی جیسا طاقتورغیر کانگریسی و غیر بی جے پی متبادل میسر آئے گا وہ اس کی پذیرائی کریں گے۔
مسلمان چونکہ بی جے پی اور کانگریس کے ذریعہ یکساں طور پر ستائے گئے ہیں اس لئے وہ بہت جلد پر امید یا مایوس ہونے لگتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ قومی سطح پر عام آدمی پارٹی سے مسلمانوں کی توقعات خود اروند کیجریوال سے بھی زیادہ ہیں۔ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ بڑے شہروں میں انتخاب کا فیصلہ متوسط طبقہ کرتا ہے مگر دیہات میں ذات پات کا کردار اہم ہوتا ہے۔ جن شہروں میں کانگریس اور بی جے پی کے علاوہ کوئی اور علاقائی جماعت طاقتور نہیں وہاں تو یہ کسی حد تک اپنا رسوخ قائم کرسکتی ہے اور اس صورت میں وہ شمالی ہندوستان کے اندربی جے پی کے ووٹ تو کاٹے گی لیکن جن شہروں میں تیسرا محاذ مضبوط ہے ان میں اس کی دال مشکل ہی سے گلے گی۔
مسلمانوں کے نزدیک اپنے دینی تشخص کا تحفظ سب سے زیادہ اہم ہے اور اس کے بعد امن وسلامتی کی اہمیت ہے اس لئے ساری مسلم سیاسی جماعتیں ان دو مسائل پر اپنی تمام توانائی صرف کرتی ہیں لیکن اگر وہ چاہتی ہیں کہ غیر مسلمین بھی ان کا ساتھ دیں تو انہیں یاد رکھنا چاہئے ہندو رائے دہندگان کیلئے ان مسائل کی حیثیت ثانوی ہے۔ گجرات کے فسادات کو ذرائع ابلاغ میں خوب اچھالا گیا اس کے باوجودان کے ایک سال کے اندر نہ صرف گجرات بلکہ دیگر تین ریاستوں میں بی جے پی کو زبردست کامیابی ملی۔ اس لئے ہندورائے دہندگان کو ساتھ لینے کیلئے ان مسائل کو اہمیت دینا لازمی ہے جن کو وہ اہم سمجھتے ہیں۔ ہندوستان میں انتخابی ہار جیت کا فیصلہ فسطائیت نہیں بلکہ دیگر مسائل کی بنیاد پر ہوتا ہے۔عام آدمی پارٹی کی کامیابی پر تبصرہ کرتے ہوئے بی جے پی ترجمان نرملا سیتارامن نے کہا کہ اس جماعت کیلئے قومی انتخاب تک اپنی مقبولیت کو برقرار رکھنا مشکل ہوگا لیکن یہی بات خود بی جے پی کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔
انتخاب کے بعد دہلی میں پیدا شدہ صورتحال نے تمام سیاسی جماعتوں کو بے نقاب کردیا۔یہاں کانگریس نے ۱۵؍ فیصد ووٹ گنوائے لیکن اسی کے ساتھ بی جے پی کو بھی ۳ فیصد کا خسارہ ہوا۔یہ تمام ووٹ عام آدمی کے پارٹی کو ملے اس کے علاوہ ۱۲؍ فیصد ووٹ اسے دیگر جماعتوں کے مل گئے جس سے وہ دوسری سب سے بڑی جماعت بن گئی۔ اگر یہی رحجان برقرار رہتا ہے توجن ریاستوں میں بی جے پی کمزور ہے اس کے ووٹ بھی تیسرے محاذ کی جھولی میں جا سکتے ہیں۔ اس طرح کسی مقام پرکانگریس تو کہیں بی جے پی کا نقصان ہوگا۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی نے کانگریس کے علاوہ بی جے پی کے خلاف بھی محاذ کھولا ہوا تھا اس لئے بی جے پی کی حمایت کرنا یا کانگریس سے حمایت لینا اصولاً غلط تھا۔ اس کی بھلائی اسی میں تھی کہ صدر راج نافذ کروا کر دوبارہ انتخاب ہونے دیا جائے۔ اس لئے کہ عام آدمی پارٹی کے ۲۰؍امیدوار دوسرے نمبر پر آئے ہیں اور کئی بہت کم فرق سے ہارے ہیں۔ان میں سے ۲ کے علاوہ ۱۸؍ کوبی جے پی نے ہرایا ہے۔ آئندہ انتخاب میں اگران ۲۰؍ میں سے۱۰؍ بھی جیت گئے تو عام آدمی پارٹی کو واضح اکثریت حاصل ہوجائیگی اور حالیہ مظاہرے کے بعد چونکہ اس کے تئیں عوام کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے اس لئے اس کی کامیابی کے امکانات روشن ہیں۔
ان ٹھوس حقائق کے باوجود میدانِ عمل میں جو کچھ وقوع پذیر ہورہا ہے وہ یکسر مختلف ہے۔ ہندوستان میں ہر نظریاتی یا عوامی تحریک کے ساتھ ماضی میں جو کچھ ہوا ہے انہیں مراحل سے عام آدمی پارٹی تیزی کے ساتھ گزر رہی ہے۔ اس پارٹی کے قیام سے قبل اروند کیجریوال سیاسی نظام کو تبدیل کرنے کی بات کیا کرتے تھے اور انتخاب لڑنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے۔ اس کے بعد الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ ہوا جس نے انہیں اس نظام کا نہ صرف حصہ بلکہ محافظ بنا دیا۔ اب وہ سیاسی جماعتوں کے خلاف تو بہت کچھ بولتے ہیں لیکن سیاسی نظام کا نام نہیں لیتے۔ انتخابی نتائج کے فوراً بعد اروند نے بڑے طمطراق کے ساتھ کہا تھا کہ کانگریس اوربی جے پی کو مل کر حکومت بنانی چاہئے اس لئے کہ دونوں کا خمیر یکساں ہے۔ ہم نہ حمایت لیں گے نہ کریں لیکن اس پر خود ان کی اپنی جماعت میں اختلاف ہو گیا۔ کانگریس نے بغض معاویہ میں اپنی غیر مشروط حمایت کا اعلان کرکے کیجریوال کی مشکلات بڑھا دیں۔ ذرائع ابلاغ میں ہوا بنائی گئی کہ عام آدمی پارٹی کے لوگ بزدل ہیں ذمہ داریوں کو دیکھ کر بھاگ رہے ہیں۔
کانگریس کی چال کامیاب رہی اروند کیجریوال نے عوام سے رجوع کرنے کا ناٹک شروع کردیا اور انتخاب کے ذریعہ لوگوں کے پاس جانے کے بجائے غیر روایتی انداز میں رائے لینے لگے۔ اب صورتحال یہ ہے کانگریس اور بی جے پی میں واقعی اس بات پر اتفاق ہوگیا کہ عام آدمی پارٹی کی حکومت بنے اور اس کی ہوا نکلے۔ اس لئے دونوں جماعتیں عوام سے اپیل کررہی ہیں کہ وہ اس کے حق میں رائے دیں۔ اس سے عوام کو یہ بتانے میں مدد ملے گی کہ عام آدمی پارٹی بھی دیگر موقع پرست اور ابن الوقت سیاسی پارٹیوں میں سے ایک ہے جو گرگٹ کی طرح انتخاب سے پہلے اور بعد میں اپنا رنگ بدل دیتی ہیں۔ آج عام آدمی پارٹی کانگریس کا تعاون لے گی تو کل تعاون بھی دے گی اور کانگریس ہی کیوں حسب ضرورت بی جے پی سے بھی تعاون کا لین دین ہوتا رہے گا۔ ہندوستان کی ساری سیاسی جماعتیں یہی کرتی ہیں اور یہی کریں گی۔ اس ادھیڑ بن کو دیکھ کر بے ساختہ حفیظ میرٹھی کا یہ شعر یاد آتا ہے کہ ؂
سانپ آپس میں کہہ رہے ہیں حفیظ
آستینوں کا انتظام کرو
سوال یہ ہے کہ جو کچھ عام آدمی پارٹی کے ساتھ ہورہا ہے، یہی سب اشتراکی تحریک ، ڈی کے تحریک، دلت تحریکیں اور دیگر جماعتوں کے ساتھ کیوں ہوتاہے کہ وقت کے ساتھ ساری جماعتوں کا ظاہر تو مختلف نظر آتا ہے لیکن اندرون یکساں ہو جاتا ہے۔ یہ دراصل سیکولر جمہوری نظام پر ایمان لانے کا نتیجہ ہے جو اندر ہی اندر سب کو اپنے رنگ میں رنگ لیتا ہے۔ یہ اس دور کی سب سے بڑی گمراہی ہے۔ قرآن حکیم میں گمراہی کیلئے اندھیرا اور جمع کا صیغہ ظلمات کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے جبکہ ہدایت کو واحد نور سے منسوب کیا گیا ہے، ارشاد ربانی ہے ’’بے شک یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے۔تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اورایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے۔ اور اپنی توفیق بخشی سے انہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لارہا ہے اور صراط مستقیم کی طرف ان کی رہنمائی کررہا ہے۔ (مائدہ ۱۵؍ تا ۱۶؍)۔نورِ ہدایت سے بے بہرہ تمام سیاسی جماعتوں میں ظلمت مشترک ہے۔ اس لئے کمیت کے اختلاف کے باوجود ان کے رویہ میں یکسانیت پائی جاتی ہے اور یہ صد فیصد حسب توقع ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امت مسلمہ کیا کرے ؟ آیا وہ خود بھی اس اندھیرے کو اپنا اوڑھنا بچونا بنالے اور اس کے تحفظ و ترویج میں لگ جائے یا اسے دور کرکے نور ہدایت سے اس کو بدلنے کی جدوجہد کرے۔ قرآنِ عظیم کی رہنمائی تو یہ ہے کہ ا.ل. ر۔ یہ کتاب ہے۔جو ہم نے تمہاری طرف اس لیے نازل کی ہے تاکہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاؤ۔ان کے رب کی توفیق سے خدائے عزیز و حمید کے راستہ کی طرف۔ہم نے اسے راستہ دکھادیا ہے۔خواہ وہ شکر گزار بندہ بنے یا کفر کرنے والا۔(الدھر:۴) ایسے میں جو لوگ گھبرا کر یہ کہتے ہیں کہ یہ کام خاصہ مشکل یا دیر طلب یا ناممکن ہے تو انہیں معلوم ہونا چاہئے ؂
ارادے جن کے پختہ ہوں،یقین جن کو خدا پر ہو
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے
2n2

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights