روزہ اور تزکیۂ نفس

0

رمضان کا مہینہ بڑا مبارک مہینہ ہے۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کے نزول کا آغاز ہوا، وہ قرآن جو بنی نوع انساں کے لیے کتاب ہدایت ہے۔ اس کی روشنی میں انسان وہ راہ پاسکتا ہے جو صراط مستقیم یعنی سیدھی اور صحیح راہ ہے۔ جس کو اختیار کرکے انسان اپنی زندگی کو کامیابی سے ہمکنار کرسکتا ہے۔ اور ہرطرح کی گمراہیوں سے خواہ فکرونظر کی گمراہی ہو یا طرز عمل کی گمراہی، اس سے مامون و محفوظ رہ سکتا ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ مختلف افکارونظریات میں صحیح نظریات کیا ہیں۔ مختلف قسم کے جذبات واحساسات میں صحیح اور بیش قیمت جذبات کیا ہیں جن سے ہمارے قلوب کو معمور ہونا چاہیے۔ اور مختلف قسم کے طرز عمل میں انسان کے لیے صحیح اور فطری طرز عمل کیا ہوسکتا ہے۔ الغرض قرآن بنی نوع انساں کے لیے ایک کامل رہنما کتاب ہے۔ جو ہمیں علم، بصیرت، حکمت اور پاکیزہ زندگی کی دعوت دیتا ہے۔ وہ ہمیں فکری وعملی انتشار اور پراگندگی سے بچاتا اور ہمیں اس نظام فکروعمل سے باخبر کرتا ہے جس سے بڑھ کر صحیح اور فطری نظام زندگی کا ہم تصور نہیں کرسکتے۔ قرآن ہمیں جس فکروعمل کی تعلیم دیتا ہے وہ ہر قسم کے نقائص سے پاک ایک متوازن اور کامل نظام فکروعمل ہے۔
قرآن نے انسان کی زندگی میں جس چیز کو سب سے زیادہ، اہمیت دی ہے وہ انسان کی شخصیت ہے۔ شخصیت کی تعمیر اس کی ساری تعلیمات کا ماحصل ہے۔ اسی شخصیت اور سیرت کی تعمیر کو قرآن تزکیۂ نفس سے تعبیر کرتا ہے۔ یہی تزکیہ مقصود حیات اور تعلیماتِ قرآن کا حاصل ہے۔ اسی لیے اس کے حصول کو قرآن فلاح اور کامیابی سے موسوم کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن میں ہے: قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَکَّی(سورہ الاعلی: ۱۴) ، ’’کامیاب ہوگیا وہ شخص جس نے اپنا تزکیہ کرلیا۔‘‘ ایک دوسری جگہ ارشاد ہواہے: جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا وَذَلِکَ جَزَاء مَن تَزَکَّی (سورہ طہ: ۷۶)۔ ’’ان کے لیے عدن کے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، ان میں وہ مستقل رہیں گے۔ یہ بدلہ ہے اس کا جس نے اپنا تزکیہ کیا۔‘‘
ایک جگہ فرمایا گیا: قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّاہَا۔ وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاہَا (سورہ الشمس: ۹۔۱۰) ’’کامیاب ہوگیا جس نے اپنا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا جس نے اپنے نفس کو دبایا۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کی تعلیمات کی اصل غرض وغایت تزکیۂ نفس کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ یہ مقصود کتنا حسین وخوشتر ہے۔ اس کو ہر صاحب ذوق محسوس کرسکتا ہے۔ تزکیۂ نفس کا مفہوم یہ ہے کہ ہماری شخصیت میں ترقی کے جو امکانات رکھے گئے ہیں وہ دب کرنہ رہ جائیں بلکہ وہ ظہور میں آئیں۔ اس کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ گلاب کے ایک چھوٹے سے پودے میں یہ امکانات پائے جاتے ہیں کہ وہ نشوو نما پاکر سرسبزوشاداب ہو۔ اس میں شاخیں نکلیں۔ کلیاں آئیں اور ایک روز اس کی شاخوں پر گلاب کے مہکتے ہوئے خوبصورت پھول کھل جائیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو سمجھئے کہ اس پودے کے اندر جو امکانات پائے جاتے تھے وہ کھل کر سامنے آگئے۔ لیکن پھر گلاب کا وہ پودا پھول کھلنے سے پہلے سوکھ گیا۔ یا کسی نے اس پودے کو کچل دیا یا اسے اکھاڑ کر ضائع کردیا تو ہم یہی کہیں گے کہ وہ پودا اپنے مقصدوجود تک نہ پہنچ سکا اور ضائع اور برباد ہوگیا، ٹھیک وہی مثال انسان کی ہے۔ کوئی بھی انسان محض پیدا ہوجانے سے ہی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوجاتا اور نہ وہ اپنے اس مقصد کو حاصل کرسکتا ہے جس کے لیے اسے زندگی عطا ہوئی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اندر ترقی اور بالیدگی کے جو امکانات رکھے گئے ہیں وہ معطل ہوکر نہ رہ جائیں بلکہ ایک بہترین اور بے عیب شخصیت کی شکل میں ان کا اظہار ہو۔ ایسی مطلوب شخصیت کی تعمیروتکمیل بہترین افکار، بہترین جذبات واخلاق اور بہترین اعمال وکردار کے ذریعہ سے ہوتی ہے۔ اب اگر ان میں سے کسی پہلو سے اس میں کوئی نقص اور خرابی پائی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ انسان ہوتے ہوئے آدمی منشائے حیات کو پورا کرنے سے قاصر رہ گیا۔
منشائے حیات کی تکمیل میں انسان سے جو قصور سرزد ہوتا ہے اس کے کئی وجوہ و اسباب ہوتے ہیں۔ کبھی اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ بے پرواہ ہوکر زندگی گزارتا ہے۔ اپنی ذمہ داری کا سرے سے وہ کوئی احساس ہی نہیں رکھتا۔ اس کے متعلق یہی کہا جائے گا کہ وہ گمراہی اور ضلالت میں پڑا ہوا ہے۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان مادی منفعتوں اور جسمانی لذات کا ایسا گرویدہ ہوتا ہے کہ وہ محض جسم کے آس پاس رہ کر زندگی گزارتا ہے۔ وہ نہیں جانتاکہ جسم کے علاوہ بھی کچھ ہے اور مادی ضروریات کے سوا بھی اس کی کچھ ضرورتیں ہوسکتی ہیں جو مادیت سے کہیں برتر و بیش قیمت ہوسکتی ہیں۔ ایسا شخص دنیوی فوائد اور دنیوی مسرتوں ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے۔ اس کے سواوہ کچھ اور سوچ نہیں سکتا۔ اور نہ اسے کسی اور چیز سے دلچسپی ہوسکتی ہے۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اس کے سامنے نبیوں اور پیغمبروں کی تعلیمات آتی ہیں تو وہ اپنی ذاتی دلچسپیوں اور سطحی قسم کے افکار کے مقابلہ میں انھیں کوئی وزن نہیں دیتا اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ وہ ان تعلیمات کی تکذیب پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ سچی ہدایات اور عدل وانصاف اور حق پسندی کے بجائے وہ غیر منصفا نہ رویہ اختیار کرتا ہے۔ اور یہ اختیار کرتے ہوئے نہ اسے اپنے اخلاق وکردار کی فکر ہوتی ہے اور نہ اسے اس کا کوئی خیال ہوتا ہے کہ اس کا کوئی خدا ہے جس کے سامنے وہ جواب دہ ہے، اور ایک روز اس سے اس کی بازپرس ہوگی۔
کبھی آدمی کسی قومی یا گروہی تعصب میں مبتلا ہوتا ہے۔ اور وہ اس تعصب کی قید سے نکل نہیں پاتا اور حق سے محروم ہوکر رہ جاتا ہے۔ کبھی بے جاپنداراور استکبار اس کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ اور وہ اپنی غلط روش پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہتا ہے۔ اور کسی حال میں بھی وہ اس کے لیے تیار نہیں ہوتا کہ وہ اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرے۔ اس طرح انسان آنکھ رکھتے ہوئے اندھا بنارہتا ہے۔ اور کان رکھتے ہوئے بہرہ اور دل رکھتے ہوئے پتھر کی طرح بے حس ثابت ہوتا ہے۔ ان ہی وجوہ سے حق سے بے گانہ لوگوں کو قرآن میں کہیں ظالم قراردیاگیاہے، کہیں انھیں مجرم اور سرکش کہا گیا ہے۔ کہیں انہیں ناشکرااور احسان فراموش قراردیا گیا ہے اور کہیں انھیں جانوروں میں شمار کیا گیا ہے بلکہ جانوروں سے بدترانھیں ٹھہرایا گیا ہے۔ اور کہیں انھیں بے حس اور مردہ تاریکیوں کا پرستار گردانا گیا ہے۔
جن خرابیوں اور رکاوٹوں کا ہم نے ذکر کیا ان میں کچھ تو نفسیاتی ہیں، اور کچھ کا تعلق جہل، مادیت اور ظاہر پرستی سے۔ ظاہر پرستی اور مادیت کے غلبہ کی وجہ سے آدمی نہ صرف یہ کہ اپنی ذمہ داریوں سے گریز کرتا ہے بلکہ وہ اپنی حیات کے بنیادی مقصد یعنی اپنی شخصیت کی تعمیر کو یکسرفراموش کرکے درحقیقت خودکشی کے جرم کا مرتکب ہوتا ہے۔
اس دنیا میں ہوشمندی کے ساتھ رہنے کے مقابلے میں انسان کے غافل ہونے کے امکانات زیادہ پائے جاتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ دنیا فتنوں سے بھری ہوئی ہے۔ اور اس زندگی میں انسان کو مختلف قسم کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کے مقابلے میں بالعموم وہ شکست کھاجاتا ہے۔ ایسی صورت میں یہ ضروری تھا کہ انسان کی تعلیم وتربیت کی طرف خصوصی توجہ دی جائے۔ چنانچہ ہماری تربیت کے لیے رمضان کا پورا ایک مہینہ مخصوص کردیا گیا۔ اور اس مہینہ میں روزہ رکھنا فرض قرار دیا گیا۔ یہ روزہ کئی پہلوؤں سے تزکیۂ نفس یا تعمیر سیرت میں غیر معمولی کردار ادا کرتا ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ صبرواستقامت اور انضباط نفس کے بغیر ہم کسی شخصیت اور سیرت کا تصور نہیں کرسکتے۔ اسی لیے قرآن نے صبروثبات کو بنیادی اہمیت دیتے ہوئے کہتا ہے۔وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوا وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِیْم (فصلت:۳۵)’’یہ چیز صرف ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو صبر سے کام لیتے ہیں اور یہ چیز صرف اس کو حاصل ہوتی ہے جو بڑے نصیبے والا ہوتا ہے۔‘‘ صبر کی اسی بنیادی اہمیت کے پیش نظر آخرت کی کامیابی اور جنت جیسی نعمت ان کے حصے میں دکھائی گئی ہے جن کے اندر صبر کی صفت پائی جاتی ہے۔ چنانچہ قرآن میں ہے: فَوَقَاہُمُ اللَّہُ شَرَّ ذَلِکَ الْیَوْمِ وَلَقَّاہُمْ نَضْرَۃً وَسُرُورا۔ وَجَزَاہُم بِمَا صَبَرُوا جَنَّۃً وَحَرِیْرا (الدھر: ۱۱۔۱۲)’’پس خدا نے انہیں اس دن کے شر سے بچالیا اور انہیں تازگی وزیبائی اور سرور عطا فرمایا۔ اور جو صبر انھوں نے کیا اس کے صلہ میں انہیں جنت اور ریشم (کا لباس) عطا کیا۔‘‘
صبرواستقلال کی طرح تعمیر سیرت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ آدمی صدق یعنی سچائی کی صفت سے متصف ہو۔ اس میں کوئی کھوٹ نہ ہو۔ اس پر اعتماد کیا جاسکے۔ صدق کے بغیر آدمی آواز کی کمزوریوں اور کھوکھلے پن سے نجات نہیں پاسکتا۔ اسی لیے قرآن کی نگاہ میں صبر کی طرح صدق کو بھی زندگی میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ فرمایا گیا:
لِیَجْزِیَ اللَّہُ الصَّادِقِیْنَ بِصِدْقِہِم(الاحزاب:۲۴) تاکہ(اس دن) اللہ سچوں کو ان کی سچائی کا بدلہ دے۔‘‘
ایک جگہ فرمایا:
قَالَ اللّہُ ہَذَا یَوْمُ یَنفَعُ الصَّادِقِیْنَ صِدْقُہُمْ لَہُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا أَبَداً رَّضِیَ اللّہُ عَنْہُمْ وَرَضُواْ عَنْہُ ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۔ (المائدہ:۱۱۹)
’’اللہ کہے گا، یہ وہ دن ہے کہ سچوں کو ان کی سچائی نفع دے گی۔ ان کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہوااور وہ اس سے راضی ہوئے۔ یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔‘‘ اب آپ غورکریں کہ روزہ کس طرح آدمی کے اندر ان سارے اوصاف کو پیدا کرتا اور انہیں قوت بخشتا ہے جو سیرت وکردار کا لازمی جزوہیں۔ جن کے بغیر ہم نفس کی بلندی اور اس کی بالیدگی کا تصور نہیں کرسکتے۔
رمضان میں روزہ رکھ کر مومن اپنے اس یقین کا اظہار کرتا اور اسے قوت بخشتا ہے کہ اس کا خدا پر ایمان ہے۔ وہ اس کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا۔ کیونکہ خدا کی نافرمانی اسے قیامت کے روز کہیں کا نہ رکھے گی۔ پھر تو خدا کا غضب ہی اس کے حصے میں آئے گا۔ رمضان میں روزہ رکھ کر اور بھوک پیاس برداشت کرکے وہ اپنے اندر وہ وصف پیدا کرتا ہے جسے صبر کہتے ہیں۔ پیغمبر اسلام نے بھی رمضان کو شھرالصبر یعنی صبر کا مہینہ کہا ہے۔ اس مہینے کی راتوں میں قیام(نماز) کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ قیام سے ایک طرف تو خدا سے رشتہ مضبوط ہوتا ہے دوسری طرف اس سے انسان کے اندر مشقتوں کو برداشت کرنے کی قوت پیدا ہوتی ہے۔ صبر اور صدق میں گہرا ربط وتعلق ہے۔ صبر کے بغیر سچائی پر قائم رہنا ممکن نہیں۔ چونکہ روزے کا تعلق عمل سے ہے اس لیے اس کے ذریعہ سے آدمی کے اندر جو وصف ابھرے گا وہ معتبر ہوگا۔ روزہ دار لوگوں سے چھپ کر نہیں کھاپی سکتا۔ وہ جانتا ہے کہ اس کا روزہ خدا کے لیے ہے اور وہ اپنی چوری خدا سے نہیں چھپا سکتا۔ اس طرح روزہ آدمی کو ہر قسم کے فریب اور مکر سے بچا کر اسے ایک صادق اور سچا بندہ بناتا ہے۔
پھر یہ روزہ آدمی کے خفیہ شعور کو بیدار کرتا اور اس کے احساسات کو لطافت عطا کرتا ہے جس کی وجہ سے اس کے اندر فطری طور پر اپنے بھائیوں سے تعلق پیدا ہوتا ہے جو اس کے ساتھ روزہ رکھتے اور خدا کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ ان میں مسکین اور ضرورت مند بھی ہوتے ہیں۔ ان کے لیے دل میں ہمدردی کا جذبہ ابھرنا ایک فطری بات ہے۔ آدمی کو ان کی مددکرنے میں خوشی ہوتی ہے۔
قرآن کے مطابق روزے سے آدمی کے اندر تقویٰ کی صفت پیدا ہوتی ہے۔ اس کے اندر سے بے پروائی جاتی رہتی ہے۔ اسے ہو شمندی اور ذمہ داری کے احساس کے ساتھ جینا آجاتا ہے۔ قرآن میں صاف لفظوں میں ارشاد ہوا ہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون۔ (البقرہ:۱۸۳) ’’ اے ایمان لانے والو تم پر روزے فرض کیے گئے۔ جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تاکہ تم تقویٰ حاصل کرو‘‘۔
یعنی تم پر روزے اس لیے فرض کیے گئے تاکہ غفلت دور ہوسکے۔ تمہارے اندر ہوشمندی کی صفت پیدا ہوجائے۔ تمہارا ذوق اتنا ستھرا اور لطیف ہوجائے کہ تمہیں یہ سمجھنے میں دیر نہ لگے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے۔ کس طرز عمل کے اختیار کرنے میں ہمارا اصل فائدہ ہے اور کون سا طرز عمل ہماری اخلاقی موت ہے۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
من صام رمضان ایما نا واحتسابا غفر لہ ماتقدم من ذنبہ۔
’’جو شخص رمضان کے روزے ایمان اور احتساب کے ساتھ رکھے اس کے سب پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔‘‘
روزہ میں خدا اور خدا سے ملاقات کا عقیدہ تازہ رہے اور اس سے اصلاً خدا کی رضا مطلوب ہو، یہی ایمان اور احتساب ہے۔ یہ ایمان اور احتساب درحقیقت روزے ہی کا ایک حصہ ہے۔ اس کی وجہ سے روزہ شعوری اور حقیقی ہوجاتا ہے، محض رسمی نہیں رہتا۔ ایسے روزے میں یہ وصف ہوتا ہے کہ آدمی گناہوں سے پاک ہوجائے۔ برائی کے اثرات اور کثافت اس سے بالکل دور ہوجائے۔ پھر روزہ صرف گناہوں کو ہی نہیں مٹاتا بلکہ اس کے اندریہ وصف بھی پایا جاتا ہے کہ وہ ہمیں ہر طرح کے گناہ اور ظلم اور نافرمانی کے کاموں سے روک دے، اسی سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
جس نے جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑا، تو خدا کو اس کی کچھ ضرورت نہیں کہ وہ(روزہ رکھ کر) اپنا کھانا پینا چھوڑدے۔‘‘ (بخاری)
خود قرآن میں روزے کے آداب وضوابط بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:
وَلاَ تَأْکُلُواْ أَمْوَالَکُم بَیْْنَکُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُواْ بِہَا إِلَی الْحُکَّامِ لِتَأْکُلُواْ فَرِیْقاً مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُون۔(البقرۃ:۱۸۸)
’’ اور اپنے مال غلط طریقے سے نہ کھاؤ اور نہ انہیں حاکموں کے آگے لے جاؤ کہ حق مارے ہوئے لوگوں کے کچھ مال حق تلفی کرکے جانتے بوجھتے کھاسکو۔‘‘
روزے سے جیسا کہ عرض کیا گیا انسان کی ایسی تربیت مقصود ہے کہ وہ نفسانی خواہشات اور جسمانی حوائج کا غلام بن کر نہ رہے۔ انسان کی مادی ضروریات بھی ہوتی ہیں، اس سے انکار نہیں لیکن یہ ضروریات اس لیے نہیں ہیں کہ انسان ان ہی کے حصول کو زندگی کا اصل مقصود قرار دے۔ اور پھر جائزوناجائز اور حلال وحرام کی کوئی تمیز باقی نہ رہے۔ اور آدمی پر ایسی دیوانگی طاری ہوجائے کہ وہ عدل وانصاف،اخوت وہمد ردی اور غم خواری اور مروت سب کو بالائے طاق رکھ دے۔ اور ایک خود غرض حیوان بن کر زندگی گزارنے لگے۔
انسان جب خدا کے حکم سے روزے رکھتا ہے اور دن میں کھانا پینا ترک کردیتا ہے اور جنسی خواہشات پوری کرنے سے باز رہتا ہے تو حقیقت میں وہ اپنے کو اس کے لیے تیار کرتا ہے کہ وہ خدا کے ہر حکم کی تعمیل کر ے گا اور زندگی کے ہر میدان میں خدا کا فرماں بردار اور وفادار بندہ بن کررہے گا۔ یہ عزم وارادہ ایسا ہے کہ اس کے ساتھ سرکشی اور نافرما نی کے رجحانات پیدا نہیں ہوسکتے۔ ایسا شخص یہ ہرگز پسند نہیں کرسکتا کہ وہ خدا کی نگاہ میں مجرم قرار پائے۔ یا خدا کے یہاں وہ ظالم اور مفسد ٹھہرایا جائے یا فیصلے کے دن وہ کاذب اور منافق ثابت ہو۔ اور اس کا شمار ان لوگوں میں ہو جو جہالت کی تاریکیوں میں گم ہوتے ہیں جن کو نہ اپنی قدروقیمت کا کوئی پتہ ہوتا ہے اور نہ وہ اپنے انجام بد سے واقف ہوتے ہیں۔
ایک مہینے کے مسلسل روزے سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ دنیا کی مادی نعمتوں سے بڑھ کر بھی کوئی نعمت ہے جسے کبھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اور وہ ہے اپنے رب کی یاد اور اس کی خوشنودی کی طلب۔ جس کا نام لے کر ہم روزہ رکھتے ہیں اور جس کا نام لے کر ہم شام کو روزہ افطار کرتے ہیں۔ یہ چیز روزے کو ایک بہترین عبادت کا درجہ دے دیتی ہے۔ ایسی عبادت جس کے اندر سے ہمارے نفس کا تزکیہ ہوتا ہے۔ دنیا کی ساری نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت حیات اور شعور حیات ہے۔ لیکن یہ حیات باطل ہوکر رہ جاتی ہے جب ہم اس کی تکمیل کے فرائض سے غفلت برتتے ہیں۔ زندگی کی اصل کمائی اعلی سیرت وکردار ہے، اسی اعلی سیرت وکردار کے حاصل کرنے کو تزکیۂ نفس کہتے ہیں۔ اگر ہمارے روزے سے نفس کا تزکیہ نہ ہوسکے اور روزہ رکھنے کے باوجود ہم اعلیٰ اخلاق وکردار کے حامل نہ ہو سکے تو اسے اس کے سوا اور کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ ہمارا روزہ حقیقی روح سے خالی محض ایک رسمی روزہ ہے۔ ضرورت ہے کہ ہمارا روزہ محض رسمی نہ ہو بلکہ حقیقی ہو اور اس سے وہ اصل مقصد حاصل ہوسکے جس کے لیے یہ روزہ خدا نے ہم پر فرض کیا ہے۔
مولانا محمد فاروق خاں، معروف اسلامی دانشور ومترجم قرآن

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights