ماہ رمضان کی معنویت انفرادی واجتماعی زندگی میں

0

انسان کی زندگی اپنے اندر بڑے امکانات رکھتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ ان سے فائدہ اٹھایا جائے اور ان امکانات کو روبہ کار آنے کا موقع فراہم کیا جائے، اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے ایک بیج کے اندر اِس بات کے امکانات رکھے گئے ہیں کہ وہ ایک درخت بن سکے۔ لیکن اگر کوئی اس بیج کو گرم توے پر بھون دے تو پھر اِن سارے ہی امکانات کا خاتمہ ہوجاتا ہے جو اِس بیج کے اندر موجود ہوتے ہیں۔ اب اُس سے درخت بننے کی امید نہیں رکھی جاسکتی اور نہ ہم اس سے پھل پھول اور کسی گھنے سایہ کی توقع کرسکتے ہیں ٹھیک یہی حال انسان کی زندگی کا ہے۔
انسان کی یہ ایک ضرورت ہے کہ اس کی فطری صلاحیتوں اور قوتوں کو ابھرنے اور نشو و نما پانے کے لیے تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جائے۔ عام حیوانات کے خلاف انسان کا اپنا ایک اخلاقی وجود ہے۔ اس اخلاقی وجود کے کچھ لازمی تقاضے ہیں۔ ان تقاضوں کو پورا کیے بغیر انسان کی زندگی کی تکمیل اور اس کی کامیابی کا ہم تصور نہیں کرسکتے۔ اس دنیا میں بالعموم ذہنوں پر مادیت اور دنیوی مفاد پرستی کا ایسا غلبہ ہوجاتا ہے کہ آدمی کے لیے یہ حد درجہ مشکل ہوتا ہے کہ وہ زندگی کو اس کی فطری پاکیزگی میں دیکھ سکے۔ اور زندگی کی اہم قدروں اور بیش قیمت حقائق کو سمجھ سکے۔ ایسی حالت میں انسان کی تربیت اور تزکیہ کی ضرورت حد درجہ بڑھ جاتی ہے۔
ماہ رمضان کی اہمیت اور اس کی معنویت کا اندازہ آپ اس سے کرسکتے ہیں کہ پورا مہینہ ہماری فکری، روحانی اور عملی تربیت کے لیے خاص کردیا گیا ہے۔ پھر تربیت کے لیے ان تمام لوازمات کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے جو ہماری روح کی بالیدگی اور ہماری سیرت کی تعمیر میں معاون ہوتے ہیں، رمضان میں ہماری جس تربیت کا اہتمام کیا گیا ہے وہ کوئی ادھوری اور ناقص تربیت ہرگز نہیں ہے۔ اس تربیت سے مطلوب یہ ہے کہ انسان نہ صرف یہ کہ اپنی انفرادی زندگی میں صالح اور نیک بن سکے بلکہ اسے اجتماعیت کا بھی شعور ہو اور وہ اجتماعی تقاضوں کو بھی پورا کرے۔ کیونکہ اس کے بغیر کسی اعلیٰ کردار یا اعلیٰ اخلاق کا تصور ممکن نہیں۔ خدا کے مطلوب انسان وہی ہوسکتے ہیں جو اپنی انفرادی زندگی میں بھی بہترین انسان ثابت ہوسکیں اور جو اجتماعی زندگی سے بھی فرار اختیار نہ کریں بلکہ اس پہلو سے بھی اپنی ذمہ داریوں کا پورا احساس رکھتے ہوں۔ قرآن میں ہے:
شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰن ھُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِنَ الْھُدٰی وَالفُرقْان فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ (البقرہ: ۱۸۵)
(رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اتارا گیا۔ لوگوں کی ہدایت کے لیے اور ہدایت اور امتیاز حق و باطل کی دلیلوں کے ساتھ۔ لہٰذا تم میں سے جو کوئی اس مہینہ میں موجود ہو اسے چاہئے کہ اس کے روزے رکھے۔)
ہماری تربیت کے لیے ماہ رمضان کو منتخب کیا گیا، اور اس کا رشتہ واضح طور پر قرآن مجید سے قائم کیا گیا ہے۔ قرآن کے نزول کا مقصد رمضان کے روزوں کے مقصد سے مختلف نہیں ہے۔ قرآن انسانی زندگی کے لیے ہدایت بن کر نازل ہوا ہے، اور اس لیے نازل ہوا ہے کہ لوگ دلائل و بصائر کی روشنی میں حق کو پالیں، اور ان کے اندر حق و باطل میں فرق و امتیاز کرنے کی پوری صلاحیت پیدا ہوجائے۔ وہ کبھی بھی دھوکا کھاکر باطل کو حق اور حق کو باطل سمجھنے کی غلطی نہ کریں۔ان کے قدم کسی حال میں بھی غلط راہوں پر نہ پڑیں۔ وہ اتنے بلند ہوجائیں کہ پستیاں انہیں اپنی طرف راغب کرنے میں ناکام رہ جائیں۔ وہ حق کی روشنی کے ایسے قدر شناس ہوں کہ اندھیرے کبھی انہیں اپنے اندر گم نہ کرسکیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ روزے کے ذریعہ سے رمضان کے مہینے کو خاص امتیاز حاصل ہے۔ یہ روزہ ایک مقدس عبادت اور ہماری اخلاقی و روحانی تربیت کا ایک بہترین ذریعہ بھی ہے۔ پھر ہم جانتے ہیں کہ ضبط نفس، فرض شناسی اور تقویٰ کے بغیر اعلیٰ تربیت ایک بے معنی لفظ بن کر رہ جاتا ہے۔ چنانچہ قرآن میں صاف لفظوں میں ارشاد ہوا ہے کہ روزے کا اصل مقصد تقویٰ کا حصول ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰ امَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (۲: ۱۸۳)
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے تم سے اگلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ حاصل کرسکو۔)
تقویٰ کا مطلب ہوتاہے احساسِ ذمہ داری، ضبطِ نفس، خدا ترسی، بڑی حقیقت کے پیش نظر چھوٹی چیزوں سے صرفِ نظر کرنا۔ خواہشات سے مغلوب انسان نہ تو خدا کی عظمت اور اس کی بزرگی کا صحیح احساس کرسکتا ہے اور نہ وہ زندگی کی اعلیٰ قدروں اور اعلیٰ حقیقتوں کو محسوس کرسکتا ہے، اور نہ اس کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ راہِ خدا پر چل سکے۔
روزہ اس حقیقت کا عملی مظاہرہ ہے کہ اکل و شرب اور جنسی خواہشات کی تکمیل ہی پوری زندگی نہیں ہے بلکہ ان کے علاوہ کچھ اعلیٰ حقیقتیں بھی ہیں ، وہی اصل سرمایۂ حیات ہیں۔ روزہ بظاہر یہ ہے کہ آدمی سحر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور جنسی خواہش کے پورا کرنے سے رُکا رہے لیکن اپنی روح اور اسپرٹ کے لحاظ سے روزہ حقیقت میں اس چیز کا نام ہے کہ آدمی کو اپنی خواہشات پر قابو ہو اور اسے تقویٰ کی زندگی حاصل ہو۔ اس کی نگاہیں عفیف ہوں اور اس کی زندگی پاکیزگی اور خدا ترسی کی آئینہ دار ہو۔ روزہ کا مطلب یہ ہے کہ روزے کی حالت میں تو وہ کھانے پینے اور جنسی خواہشات کو پورا کرنے سے باز رہے لیکن گناہوں کے ارتکاب اور ناپسندیدہ کاموں کو ہمیشہ کے لیے ترک کردے۔
روزہ اپنے آپ کو خدا کے لیے فارغ کرلینے اور کامل طور پر خدا کی جانب متوجہ ہونے کا نام ہے۔ اس پہلو سے روزے اور اعتکاف کے درمیان گہری مناسبت پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اعتکاف کے ساتھ روزہ رکھنا ضروری قرار دیا گیا ہے، اور رمضان کے آخری دس (۱۰) دن میں اعتکاف کرنا مشروع ٹھہرایا گیا ہے۔
رمضان کی معنویت اور اہمیت جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں انفرادی اور اجتماعی دونوں ہی پہلوؤں سے ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے تو یہ حقیقت بخوبی واضح ہوجاتی ہے۔ ہم یہاں اس سلسلہ میں چند احادیث نقل کرنا چاہیں گے:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: وَ ھُوَ شَھْرُ الصَّبْرِ۔کہ یہ صبر واستقامت کا مہینہ ہے
جو لوگ رمضان کی برکتوں سے پورا فائدہ اٹھاتے اور ماہ رمضان کے آداب کا پورا لحاظ رکھتے ہیں ان کے لیے یہ پورا مہینہ خیرو برکت سے معمور ہوتا ہے۔ اسی لیے حدیث میں ہے:
’’یہ (رمضان) وہ مہینہ ہے جس کا ابتدائی حصہ رحمت، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ (دوزخ کی) آگ سے آزادی ہے۔‘‘
یہ احادیث یہ اندازہ کرنے کے لیے کافی ہیں کہ ہماری انفرادی زندگی کے لیے رمضان کی کیا معنویت اور اہمیت ہے۔
ماہ رمضان میں اجتماعیت کی پوری شان پائی جاتی ہے۔ سبھی اہل ایمان ایک ساتھ روزہ رکھتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ عبادت اور نیک کاموں میں مشغول ہوتے ہیں۔ اس سے معاشرہ میں نیکی اور روحانیت کی ایک فضا پیدا ہوجاتی ہے جس کا دلوں پر گہرا اثر مرتب ہوتا ہے۔
عام حالات میں آدمی کو ایک دوسرے کی تکلیف اور بھوک کا احساس کم ہی ہوتا ہے لیکن روزہ میں بھوک پیاس کا عملی تجربہ آدمی کے اندر یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ وہ ناداروں اور ضرورتمندوں کو فراموش نہ کرے بلکہ ان کے ساتھ ہمدردی سے پیش آئے اور ان کی پریشانیوں کو دور کرنے کی کوشش کرے۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینہ میں انتہا درجہ فیاض ہوتے تھے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ یہ مہینہ شہر المواساۃ یعنی ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے۔ (بیہقی فی شعب الایمان) یعنی روزے میں اپنے دوسرے بھائیوں کے لیے ہمدردی کا جذبہ شدت کے ساتھ ابھرنا چاہیے۔
آپؐ فرماتے ہیں کہ جو کوئی روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے اللہ اسے میرے حوض سے ایسا سیراب کرے گا کہ اس کو پیاس ہی نہ لگے گی یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔
آپؐ کا ارشاد ہے کہ جو شخص اپنے مملوک (خادم، غلام) کے کام میں تخفیف کردے گا اللہ اس کی مغفرت فرمادے گا، اور اسے (دوزخ کی) آگ سے چھٹکارا دے دے گا۔
کتب سابقہ میں روزے کے اجتماعی تقاضوں کا ذکر ملتا ہے۔ دیکھئے یہ فقرے کس قدر مؤثر ہیں:
’’کیا وہ روزہ جو میں چاہتا ہوں یہ نہیں کہ ظلم کی زنجیریں توڑیں اور جوئے کے بندھن کھولیں اور مظلوموں کو آزاد کریں۔ بلکہ ہر ایک جوئے کو توڑ ڈالیں۔ کیا یہ نہیں کہ تو اپنی روٹی بھوکوں کو کھلائے اور مسکینوں کو جو آوارہ ہیں اپنے گھر لائے اور جب کسی کو ننگا دیکھے تو اسے پہنائے اور تو اپنے ہم جنس سے روپوشی نہ کرے؟ تب تیری روشنی صبح کے مانند پھوٹ نکلے گی اور تیری صحت کی ترقی جلد ظاہر ہوگی۔ تیری صداقت تیری ہراول ہوگی اور خداوند کا جلال تیرا چنڈاول ہوگا۔۔۔۔ اور اگر تو اپنے دل کو بھوکے کی طرف مائل کرے اور آزردہ دل کو آسودہ کرے تو تیرا نور تاریکی میں چمکے گا اور تیری تیرگی دوپہر کے مانند ہوجائے گی۔‘‘
آدمی اگر ماہ رمضان کی آمد سے واقعتہً فائدہ اٹھائے تو وہ اسے اس مقام پر کھڑا کردے گا کہ اسے ہمہ وقت اپنی ذمہ داری کا احساس ہوگا۔ پھر تو اس کے شب و روز غفلت اور بے پروائی میں بسر نہیں ہوسکتے۔ وہ خدا کا قرب حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا اور بندگان خدا یعنی انسانوں کے حقوق ادا کرنے والا اور ان کا خیرخواہ اس سے بڑھ کر کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔
مولانا محمد فاروق خان

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights