روزوں کا فلسفہ

ایڈمن

سید رضوی

            رمضان اسلام کی بنیادی عبادتوں میں سے ایک ہے جو انسان کو ضبط نفس،تقوی،انکساری، غریبوں کے تئیں ہمدردی،خدا کے تئیں خلوص اور آخرت میں کامیابی عطا کرتا ہے۔روزے آپ کواس قابل بناتے ہیں کہ آپ نفس کی بندگی، شہوت، لالچ، استکبار اور حسد جیسی بری صفات پر قابو پا سکیں۔

            روزوں کے ذریعے آپ اپنے آپ کو مادی لطف اندوزی سے باز رکھتے ہیں اور شیطان کے وسوسوں سے پیدا ہونے والی دنیاوی خواہشات کو لگام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ کی حیثیت ایک ایسے مریض کی ہوتی ہے جسے نہ کھانے کی فکر ہوتی ہے نہ پینے کی، بلکہ ایک ہی فکر اس کی دامن گیر ہوتی ہے کہ کیسے اپنے برے اعمال کی بیماری سے شفا پاجاؤں۔

            روزے نفس کی خواہشات کی تربیت کرتے ہیں، اور مادی مسرتوں سے انسان کو بے زار کر دیتے ہیں۔اسی ذریعہ سے ایک انسان میں قلب کا تزکیہ، بدن کی طہارت، باطن و ظاہر کی اصلاح، نعمتوں پر جذبہ شکر، ضرورت مندوں کے لیے صدقات، عاجزی و انکساری میں اضافہ اور اللہ کی پناہ میں آنے کی دیگر تمام صفات پیدا ہوتی ہیں۔ اسی کے ذریعے تمام دنیاوی خواہشات کا خاتمہ، برائیوں کا خاتمہ اور اچھائیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ روزوں کے فوائد اس قدر ہیں کہ انہیں شمار نہیں کیا جا سکتا۔

            روزوں کی تربیت کا فرد پر ایک اثر یہ ہوتا ہے کہ فرد پر عادتوں اور خواہشات کی حکمرانی ختم ہو جاتی ہے اور فرد حسی خواہشات (Sensual Desires) کی غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے۔ سب سے بدترین اور خطرناک حکمرانی غلط عادتوں اور حسی خواہشات کی حکمرانی ہے۔ آزاد شخص وہی ہے جو کسی عادت کا غلام نہیں ہے اور جو اپنی مضبوط قوت ارادہ سے اپنی تمام عادتوں پر قابو رکھتا ہو۔ اس قسم کی آزادی اور روحانی کمال چند اعمال کا تقاضا کرتا ہے جن کی ابتداء روزوں سے ہوتی ہے۔

            روزے جذبات اور احساسات کو بیدار کرتے ہیں۔ خوش حال اور کھاتے پیتے گھرانوں کے افراد جو پورے سال بھوکے افراد سے بے خبر ہوتے ہیں، روزوں کے ذریعے وہ بھوکے افراد کی بھوک اور ان کے درد کو محسوس کرتے ہیں۔ پھر ان کا جذبہ اور احساس بیدار ہوجاتا ہے۔ وہ بھوکے افراد کی بھوک مٹانے کے لیے کمربستہ ہوتے ہیں۔ نتیجہ میں سماج کے مختلف طبقات کے مابین فاصلہ کم ہوتا ہے۔رمضان کے مقدس مہینے میں روزوں کا اہتمام کرنے سے مساوات و اتحاد کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ کیوں کہ اس مہینے میں خوشحال اور غریب تمام افراد خواہشات کی پیروی سے دور رہ کر ایک جیسی زندگی گزارتے ہیں۔

            اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض قرار دیے ہیں تاکہ انسان اللہ کو یاد کرے۔ انسان اپنے آپ کو بہتر جانتا ہے۔ وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ  اپنی خواہشات پر قابو پا لے۔ وہ آخرت کو یاد کرتا ہے۔ عمل صالح کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے۔ اپنی اخروی زندگی کے لیے اعمال صالح جمع کررکھتا ہے۔ اسے بھوک اور پیاس کا تجربہ ہوتا ہے، چنانچہ اس کے اندر غریبوں اور ضرورت مندوں کے تئیں ہمدردی اور ان کی مدد کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ وہ صحت مند ہو جاتا ہے۔ اس قابل ہو جاتا ہے کہ حصول کمال،جو اس کا طئے شدہ ہدف ہے،کی جانب آگے بڑھ سکے۔

            یہ ضروری ہے کہ آپ کے ساتھ ساتھ آپ کے تمام اعضاء و جوارح بھی روزہ رکھیں۔ آپ کے کان، آنکھ اور زبان وغیرہ کوئی غلط کام نہ کریں۔  آپ کے ہاتھ، پیر اور جسم کے دوسرے اعضاء کسی گناہ کا ارتکاب نہ کریں۔ تبھی آپ کے روزے بارگاہ الٰہی میں شرف قبولیت حاصل کریں گے۔ جب آپ روزے سے ہوں تو آپ کا برتاؤ دوسرے دنوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہو۔ آپ کی زبان بے کار کی باتوں اور لغو گوئی سے باز رہے۔ آپ دروغ گوئی سے کام نہ لیں۔ کسی کا مذاق نہ اڑائیں۔ حجت و تکرار سے دور رہیں۔ حاسدانہ جذبات کو دل میں جگہ نہ دیں۔ دوسروں کی برائیاں بیان کرنے اور ٹوہ میں پڑنے سے گریز کریں۔ لوگوں کے لیے عام دنوں سے زیادہ رحم دل بنیں۔

            روزوں کی حالت میں خواہشات پر لگام کسنا، بھوک اور پیاس کو برداشت کرنا، جسمانی خواہشات جو داخلی تحریک کو مہمیز دیتی ہیں، کے خلاف مزاحمت کرنا یہ وہ چیزیں ہیں جو انسان کے اندر اپنی ذات کو قابو میں رکھنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہیں اور انسان کو اس قابل بناتی ہیں کہ وہ مختلف خواہشات جیسے شہوانی ہیجان، غصہ اور انانیت کا آسانی سے شکار نہ ہوجائے۔ انسان کا معاملہ یہ ہے کہ اس کا دل اکثر غلط راہ پر لے جانے والی خواہشات کی آماجگاہ بنا رہتا ہے۔مثلا انسان غیر قانونی طریقے سے دولت اکٹھا کرتا ہے، ناجائز جنسی تعلقات میں مبتلا ہوتا ہے، عیاشی کرتا ہے اور اشتعال انگیزی کا شکار ہو جاتا ہے۔

             ایسی کئی خواہشات، رغبات اور اشتعال انگیز جذبات ہوتے ہیں جو اچانک بھڑک اٹھتے ہیں اور بالآخر انسان کی عزت اور اس کے مقام و مرتبے کو برباد کر دیتے ہیں۔ لیکن انسان کے لیے ممکن ہے کہ وہ اپنی قوت ارادہ کو مضبوط کرے، برائی کی طرف لے جانے والے ہر میلان کے خلاف استقامت کا مظاہرہ کرے اور ہر اشتعال انگیزی کا شکار نہ ہوجائے۔ دل میں پیدا ہونے والے ہر داعیہ پر لبیک نہ کہے۔ ناجائز خواہشات کے ہیجان کے وقت انسان کواپنی ذات پر قابو رکھنا چاہیے، عقل عام (Common Sense)کا استعمال کرنا چاہیے، مستقبل پر نظر رکھنی چاہیے۔ آخرت کی کامیابی و ناکامی کو مستحضر رکھنا چاہیے تاکہ وہ وقتی و عارضی رغبات کے لیے اپنے آپ کو ہمیشہ کے لیے برباد نہ کرلے۔اس قوت مزاحمت کو بتدریج مضبوط کرنے کے لیے ضروری ہے کہ فرد کو ایک ایسا موقع فراہم ہو جب کہ وہ اپنی خواہشات اور جسمانی مسرتوں کے خلاف لڑ سکے۔ رمضان کا مقدس مہینہ فرد کو یہ موقع فراہم کرتا ہے۔روزے اس قوت کو مضبوط کرنے کے تمام مواقع فراہم کرتے ہیں۔قرآن روزوں کے انوکھے فوائدان لفظوں میں پیش کرتا ہے:

 ”اے ایمان والو!تم پربھی روزہ فرض کیا گیاہے جس طرح تم سے پہلے والوں پر فرض کیا گیا تھا۔تاکہ تم تقوی حاصل کرو۔“ (سورہ البقرۃ، آیت 183)

”گنتی کے چند دن۔ اس پر بھی جو کوئی مریض ہو یا سفر میں ہوتودوسرے دنوں میں تعداد پوری کرلے۔اور جو لوگ ایک مسکین کو کھانا کھلا سکیں ان پر ایک روزے کا بدلہ ایک مسکین کا کھانا ہے۔جو کوئی مزید نیکی کرے تو وہ اس کے لیے بہتر ہے۔اور یہ کہ تم روزہ رکھو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے، اگر تم سمجھو۔“ (سورہ البقرۃ، آیت 184)

”رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیالوگوں کے لیے ہدایت بنا کر،اور ہدایت اور حق و باطل کے درمیان امتیاز کے کھلے دلائل کے ساتھ، سو جو کوئی تم میں اس مہینے میں موجود ہو وہ اس کے روزے رکھے۔اور جو بیمار ہو یا سفر پر ہوتو دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرلے۔اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے، تمہارے ساتھ سختی نہیں کرنا چاہتا۔اور چاہتا ہے کہ تم تعداد پوری کرواور اللہ نے جو تمہیں ہدایت بخشی ہے اس پر اس کی بڑائی کرو اور تاکہ تم اس کے شکر گزار بنو۔

روزہ ہر میدان کی ہر سمت میں تقوی کی تربیت کے عمل کی راہ ہموار کرتا ہے۔انسانی روح اور جسم کی تربیت پر اس کے اثر کی وجہ سے،روزہ صرف امت محمدیہ پر فرض نہیں کیا گیا بلکہ جیسا کہ اوپر کی آیات میں ذکر ہوا، یہ تاریخ کی دوسری قوموں پر بھی فرض کیا گیا تھا۔قرآن کی درج بالا آیات یہ بھی بتاتی ہیں کہ رمضان کی پریشانی کو کم کرنے کے لیے اسے گنتی کے محض چند دنوں کے لیے فرض کیا گیا، پورے سال کے لیے نہیں۔قرآن مریض اور مسافر کا بھی خیال کرتے ہوئے انہیں رخصت دیتا ہے اور انہیں اجازت دیتا ہے کہ شفایاب ہونے کے بعد یا سفر ختم ہونے کے بعد چھوٹے ہوئے روزوں کو مکمل کرلیں۔اسی طرح قرآن ضعیف مرد و خواتین، دائمی امراض میں مبتلا مستقل مریضوں کو بھی رخصت عطا کر تا ہے۔

            رمضان سے متعلق قرآنی آیات میں مریض اور مسافر سے متعلق احکام کی تکرار اس وجہ سے ہے کہ بعض افراد سوچ سکتے ہیں کہ روزہ نہ رکھنا بالکل غلط ہے لہذا وہ مریض یا مسافر کی حالت میں روزہ رکھنے پر اصرار کریں گے، اس لیے قرآن اس تکرار کے ذریعے مسلمانوں کو سمجھاتاہے کہ روزہ ایک طرف محفوظ اور صحت مند افراد کے لیے حکم الہی ہے،وہیں دوسری طرف مریض یا مسافر کی حالت میں روزہ نہ رکھنے کی رخصت بھی اللہ ہی کی طرف سے دی گئی ہے۔

            سورہ البقرہ کی آیت 185کے اختتام پر یہ الفاظ کہ ”اللہ تعالی تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے،تمہارے ساتھ سختی نہیں کرنا چاہتا“ روزوں کی فرضیت کے حکم الہی کا فلسفہ پیش کرتے ہیں۔یہ الفاظ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اگرچہ بظاہر روزوں میں سختی اور پابندیاں نظر آتی ہیں لیکن اس کا انجام بالآخرروحانی و مادی آسانی اور طمانیت پر ہی ہوتا ہے۔یہ جملہ اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ الہی احکامات کسی ظالم و جابر کے احکامات نہیں ہوتے۔ کسی معاملے میں اگر اللہ تعالی کوئی ایسا حکم دیتا ہے جسے کر گزرنے میں مشقت ہو تو ٹھیک اسی وقت اس عمل کو کرنے کے لیے اللہ تعالی آسان راہیں بھی بتا دیتا ہے۔جیسا کہ روزوں کے معاملے میں ہوا۔ پہلے تو روزے فرض کیے گئے، پھر روزوں کی تمام تر اہمیت کے باوجود بیمار، مسافر اور ان افراد کو جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے،اس اہم عبادت سے یہ کہہ کر مستثنی کردیا گیا کہ وہ روزوں کی تعداد دوسرے دنوں میں مکمل کرلیں۔

            اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر وہ شخص جو روزہ رکھ سکتا ہے اسے لازما سال میں ایک ماہ روزے رکھنا چاہیے، کیوں کہ یہ اس کی صحت کے لیے ضروری ہے۔اسی لیے کوئی شخص اگر بیمار یا سفر کی حالت میں ہے تو وہ شفایاب ہوجانے یا سفر ختم ہونے کے بعد چھوٹے ہوئے روزے رکھ کر روزوں کی تعداد مکمل کرلے۔

            آیت کے اخیر میں کہا گیا کہ ”اللہ نے جو تمہیں ہدایت بخشی ہے اس پر اس کی بڑائی کرواور تاکہ تم اس کے شکر گزار بنو“۔یقینا آپ کواللہ کی بڑائی بیان کرنی چاہیے اور اس فضل وکرم پر اس کا شکر بجالانا چاہیے جو اس نے ہمیں اپنی رحمت کے طور پر عطا فرمایا ہے۔ یہاں یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ شکر گزاری کے عمل کا تذکرہ  ’شکر‘ کی اصطلاح کے ساتھ ہوا ہے، جب کہ اللہ کی بڑائی بیان کرنے کی بات پوری گفتگو کے خلاصہ کے طور پر آئی ہے۔الفاظ میں یہ فرق اس وجہ سے ہے کہ اللہ کی عبادت (روزہ) کسی نہ کسی درجہ میں اللہ کی بڑائی ہی کا اعلان ہے، لیکن شکر گزاری، جس سے مراد اللہ کے فضل و کرم کو صحیح مقام پر استعمال کرنا، اور روزوں کے اثرات اور عملی دشواریوں سے فائدہ اٹھانا ہے، کی چند شرائط ہیں اور جب تک یہ شرائط پوری نہ ہوں، شکر گزاری نہیں ہوسکتی۔ان شرائط میں سب سے اہم ہیں: غایت درجہ کا اخلاص، روزوں کی حقیقت کا ادراک اور روزے رکھنے کے فلسفہ کا اعتراف۔

            بہرحال روزے رکھنا ہر مذہب کی شریعت کا حصہ رہا ہے،اگر چہ کہ ان کی شکل مختلف رہی ہو۔پانچ وقت کی فرض نمازوں کے بعد روزوں کی ہی سب سے زیادہ اہمیت ہے۔اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ ایمان پر عمل درآمد کے لیے روزوں کی حیثیت بنیادی حکم کی ہے۔روزے رکھنے کا حکم محمد ﷺ اور ان سے پہلے گزرے تمام انبیاء کرام کی روایت رہی ہے۔

            یہ بات بھی نوٹ کی جانی چاہیے کہ اسلام میں روزے نفسانی خواہشات کی تربیت اور برائی سے اجتناب کے لیے ہیں۔ یہ اپنے آپ کو محض کھانے پینے سے روک لینے کا نام نہیں بلکہ تمام برائیوں سے دور رہنے اور اجتناب کا نام ہے۔ کھانے پینے سے رکنے کا حکم انسان کے اندر یہ احساس پیدا کرنے کے لیے ہے کہ جب حلال چیزوں سے رکنا اتنا اہم ہے تو ان چیزوں سے بعض رہنا کس قدر اہم ہوگا جو حرام قرار دی گئی ہیں۔اسلام میں ایک ماہ کے مسلسل روزوں کا مقصدانسان کے رویوں اور کردار کی تربیت اور روح انسانی کو تجلیات الہی سے روشن کرنا ہے۔

            روزہ مومنوں کی مدد کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو برائی کے مقابلے میں صحیح رہ نمائی کریں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ مومنوں کو جسمانی سختیاں برداشت کرنے،اپنے نفس پر قابو رکھنے، مزاحمت کرنے اور استقلال و تحمل کاعادی بناتا ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جس کے لیے ایک مومن کو اپنے ایمان اوردوسرے مومنین کا دفاع کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔

Dr. Syed Rizvi,

Author, Islamic Wisdom,

www.islamicwisdom.net

مئی 2019

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں