- رمضان،سکران اور غضبان وغیرہ کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے۔ امام غزالیؒ کی تحقیق یہ ہے کہ عرب میں کسی زمانے میں جب مہینوں کے نام رکھے جارہے تھے تو جو سب سے گرم مہینہ تھا اس کا نام رمضان رکھا گیا۔ اس مہینے میں لوگ اپنے آپ کوسخت موسمی گرمی سے بچانے کے لئے بہت سی تدبیر اختیار کرتے تھے، جس میں سونے جاگنے کے، نیزگھروں سے باہر نکلنے اور تجارت کرنے کے اوقات بدل جاتے تھے۔ اس پہلو سے اگر دیکھا جائے تو اسلامی نقطہ نظر سے یہ جہنم کی آگ سے خلاصی پانے کا مہینہ ہے۔ اس مہینے کا روزہ شفیع بن کر آئے گا۔ قیام اللیل شفیع بن کر کھڑا ہوگا کہ کسی طرح یہ بندہ جہنم میں نہ جانے پائے۔ رسول اللہ نے فرمایا:
الصیام والقرآن یشفعان للعبدیوم القیامۃ۔ یقول الصیام: أی رب، منعتہ الطعام والشہوات بالنہار، فشفعنی فیہ، ویقول القرآن: منعتہ النوم باللیل، فشفعنی فیہ، قال: فیشفعان۔
ترجمہ: ’’روزہ اور قرآن قیامت کے روز بندوں کے لیے شفاعت کریں گے، روزہ کہے گا: اے میرے رب، میں نے اس کو دن میں کھانے اور شہوات کی تکمیل سے روک رکھا تھا، میری اس کے حق میں شفاعت قبول فرما۔ اور قرآن کہے گا: میں نے اس کو رات کی نیند سے روک رکھا تھا، میری اس کے حق میں شفاعت قبول فرما۔ فرمایا(آپؐ نے): دونوں کی شفاعت قبول کرلی جائے گی۔ ‘‘
اس پہلو سے رمضان وہ مہینہ ہے جس میں بندۂ مومن کے یہاں استحضار آخرت کا پہلو زیادہ حساس ہوجاتا ہے اور عام دنوں کے بہ نسبت اس کی کچھ زیادہ تیاری کی طرف وہ آمادہ ہوجاتا ہے۔
ایک اور تحقیق امام غزالی کی یہ ہے کہ’’رمضہ‘‘ عرب میں اس گرم چٹان کو کہتے تھے جس پر کپڑے دھونے کے بعد ڈال دئے جا تے تاکہ اس کی گرمی اور تپش سے کپڑے نہ صرف سوکھ جائیں بلکہ وہ جراثیم اور بدبو وغیرہ سے بھی پاک ہوجائیں۔ رمضان اس نقطہ نظر سے بعض کے لئے، وہ مہینہ ہے جس میں وہ پرُمشقت عبادات کے ذریعہ اپنے گناہوں کی معافی تلافی کی امکانی کوشش کرتا ہے، جس کے بعد وہ ایک نیا انسان بن جاتا ہے اور گناہوں سے اپنے آپ کو ہلکا محسوس کرنے لگتا ہے۔ یہ بات ہے جو نبیؐ نے عرض فرمائی:
من صام رمضان ایمانا واحتساباً غفرلہ ماتقدم من ذنبہ۔
من قام رمضان ایمانا واحتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ۔
جس نے رمضان کے روزے ایمانی شعور اور نیت اجر اور جائزے کے ساتھ رکھے، اس کے پچھلے گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں
اور جس نے رمضان کی راتوں میں تلاوت قرآن کے لئے ایمانی شعور اور نیت اجر اور جائزے کے ساتھ قیام کیا اس کے پچھلے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔
ایک روزہ روایتی ہوتا ہے اور ایک روزہ شعوری ہوتا ہے۔ دونوں میں فرق ہوتا ہے۔ روایتی روزہ کے ساتھ بلا ارادہ جھوٹ، غیبت، جھگڑا معمولاً صادر ہوتے رہتے ہیں، جبکہ شعوری روزے میں صائم کو یہ فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ کہیں اس کا روزہ حقیقی اسپرٹ کھوکر محض بھوک اور پیاس کی کیفیت میں نہ بدل جائے، اسی لئے رسول اللہؐ کی تعلیم کو اپنے اوپر نافذ کرتے ہوئے کہتا ہے:
’’بھائی آج میں روزے سے ہوں اور میں تم سے لڑنا نہیں چاہتا‘‘
حیرت کی بات ہے جس دین نے انانیت، غصہ اور ایذارسانی کی عاد تیں کھرچ کر نکالنے کی غرض سے اس طویل اور مشقت بھری عبادت تجویز کی، اس جاں گسل نصاب سے ایک ایک مہینہ گزرنے کے باوجود افرادامت میں دنیوی امور تو دور کی بات دینی بنیادوں پر بھی تحمل، اور تعاون کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے۔ ایسا کیوں؟
روزہ
انسان روح اور جسم کا مرکب ہے۔ ان دونوں کے تقاضے نہ صرف مختلف بلکہ بسااوقات متضاد ہوتے ہیں۔ روحانی اور جسمانی تقاضوں کے درمیان ایک کشمکش بپا رہتی ہے۔ روزہ اس امر میں معاون ہوتا ہے کہ بندہ کچھ دیر کے لئے سہی اپنے جسمانی اور حیاتیاتی تقاضوں کو لگام لگا سکے، اور محض جسم کی فکر سے آزاد ہوکر روحانی کیفیت محسوس کرسکے۔ نفس کو سدھارنے اور اپنے کنٹرول میں رکھنے کا یہی طریقہ ہے۔ اس کے تقاضوں کو ختم نہ کردیا جائے بلکہ اوقات بدل ڈالے جائیں تاکہ اپنے بنائے ہوئے روز کے ڈسپلن کو توڑ کر ایک دوسرے ڈسپلن کی عادت پیدا ہو۔ دنیوی امور میں بھی نوکری چاکری میں انسان مشین بن کر سونے جاگنے، کھانے پینے گھرسے نکلنے اور لوٹ آنے کے اوقات کی اس حد تک پابندی کرتا ہے کہ لگتا ہے کہ وہ اپنے بنائے ڈسپلن کا خود غلام ہے۔ اس کے برعکس تاجر پیشہ فرد کے روز کے معمولات میں اوقات بدلتے رہتے ہیں، کام کو فوقیت ہوتی ہے اور جب تک وہ مکمل نہ ہوجائے، نہ بھوک اسے بے قرار کرتی اور نہ نیند اسے ستاتی ہے۔ اس طرح روزہ ایک ڈسپلن سے دوسرے ڈسپلن میں بسرعت بدلنے کی مشق کراتا ہے۔ علی جاہ علی عزت بیگوچ نے لکھا ہے کہ
’’ جس امت کو نماز کے ذریعہ طہارت اور وقت کی پابندی اور روزہ کے ذریعہ ڈسپلن کی مشق کرائی جاتی ہے، وہ ان امور میں دیگر اقوام سے پیچھے کیوں ہے، اس کا تشفی بخش جواب تلاش کرنے والا نوبل انعام کا مستحق قرار پائے گا‘‘۔
Standfort universityکے ایک ماہر نفسیات Walter Mischelنے بچوں پر ایک ترتیب وار تجربہ کیا جس کا نام ہےMarshmallow Test۔ ٹسٹ کا مقصود یہ جاننا تھاکہ جو بچے خواہشات کے غلام ہوتے ہیں اور جو اپنی نفسانی خواہشات کے تقاضوں کی تکمیل میں ارادی تاخیر کرسکتے ہوں‘ ان کی شخصیت کا ارتقاء یکساں ہونا ہے یا مختلف۔ اس تجربہ میں ۶۰۰؍ بچوں کو اس نے منتخب کیا، اور ان کے سامنے چاکلیٹ، بسکٹ، کینڈی، کیک وغیرہ پیش کیا گیا اور بتایا گیا کہ اگر وہ ۱۵؍ منٹ بغیر کھائے انتظار کریں( یعنی ترغیب نفس کو وہ روک سکیں) تو ایک انعام ملے گا۔ کچھ بچوں نے آنکھ بند کرلی، کچھ ادھر ادھر دیکھتے رہے، کچھ ڈیسک بجاتے رہے، جبکہ کیثر تعدادان کی تھی جو نفس کی اکساہٹ برداشت نہ کر پائے اور تجربہ کرنے والے فرد کے ہٹتے ہی ٹپکتی رال کے ساتھ اس کو اٹھاکر کھائے گئے۔ انسان کی یہ صلاحیت کہ ایک بڑے اجر کے لئے وہ اپنی فوری خواہش پر کنٹرول کرے، اس کے کیا اثرات اس کی شخصیت پر پڑتے ہیں جاننا مقصود تھا۔ اس سے اُسے معلوم ہوا کہ جو بچے ایک بہتر اجر کے لئے اپنی مرغوبات نفس کو روک کر انتظار کرسکتے ہوں ان کی زندگیوں کے بہتر نتائج سامنے آئے، تعلیمی لیاقت بھی وہ حاصل کرسکے اورصحت کے پہلو سے بھی وہ بہتر ثابت ہوئے۔ اس میں نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ اجر ان کے سامنے نہیں تھا بلکہ وعدہ تھا۔ Mischel نے اپنے اس تجربے سے غیر متوقع نتائج دیکھے۔ ان بچوں کیFollow upاسٹڈی کی گئی۔ ۱۰؍سال بعد پھر ۱۲؍ سال بعد ان کی شخصیت کی جانچ کی گئی تو معلوم ہوا کہ جن بچوں کے اندر ترغیبات نفس پہ روک لگانے کی صلاحیت تھی وہ اپنے ہم عمروں میں موزوں تر شخصیت کے حامل تھے۔ 2011میں ان بچوں کی (جواب جوان ہوچکے تھے)brain mapping کی گئی تو معلوم ہواکہ وہ بچے جو اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے انتظار میں بہترنکلے وہ سوچنے سمجھنے اور قوت فیصلہ میں ان بچوں سے بہت بہتر ثابت ہوئے جو اپنی خواہش کو کنٹرول نہ کرسکے اور فوراً چاکلیٹ یا کیک کھا گئے۔ اسی طرح ان بچوں میں addiction (کسی چیز کا شدت سے عادی ہوجانا) کے پہلو سے بھی جائزہ لیا گیا تو کامیاب طلبہ بہتر ثابت ہوئے۔ جس نفسیاتی کیفیت کوناپاگیا اسےDelayed gratification capablityکہا جاتا ہے( تکمیل خواہش میں تاخیر کرنے کی استعداد)۔
روزہ ہر مومن کو اس تجربے سے گزارتا ہے تاکہ وہ خواہشات کے بندے بن کر نہ رہ جائیں بلکہ اس پر لگام لگانے کہ استعداد پیدا کرکے اپنی شخصیت کو کارگر، مستعد اور مضبوط بنا سکے۔
تقویٰ
فرضیت روزہ کی غایت بتائی گئی کہ’’ لعلکم تتقون‘‘ یعنی تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہوسکے۔ روزہ کا جو مقصود ہو وہ نگاہوں سے اوجھل ہو یا اس کی حقیقت سے ناواقفیت ہو تو عمل روزہ کا اجر تو ایک شخص پالے گا لیکن اپنی زندگی میں مطلوب اثر پیدا کرنے سے قاصر رہے گا، لہذا ذیل کی سطور میں تقوی ور اس کے مترادفات کا قرآن کی روشنی میں جائزہ لیا جائے گا۔
وحی کے ابتدائی حصہ میں تصور آخرت اورانجام خیروشر کو انتہائی اثرانگیز اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔ تصور تقوی آخرت کی گھڑی اور ہلاکت خیزی کے تصور سے جڑا ہوا ہے۔
یا ایھاالناس اتقوا ر بکم ان زلزلۃ الساعۃ شئی عظیم ( ۱:۲۲)
’’لوگو اپنے رب کے غضب سے بچو حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا زلزلہ ہولناک چیز ہے‘‘۔
اسلام اس امر میں ممتاز ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کے اندر آخرت کا ڈر اور مالک یوم الدین کا ڈر پیدا کرتا ہے، جس کی بنیاد احترام ومحبت ہے کہ جس ہستی نے ہمیں وجود بخشا اور زندگی کی ضروریات فراہم کیں اس کی محبت ہمیں روکتی ہے کہ ہم کوئی ایسا کام کر گزرے جس سے ہمارا محبوب ہم سے ناراض ہوجائے۔
ایمان اور ڈر میں ایک گہری مناسبت ہے۔ بسااوقات قرآن مومن کے لئے متقی کی اصطلاح استعمال کرکے یہ بتاتا ہے کہ ایمان اور تقوی ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔
زین للذین کفروا الحیوۃ الدنیا ویسخرون من الذین آمنوا والذین اتقوا فوقھم یوم القیٰمۃ۔ (۲:۲۱۲)
’’جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی، ان کے لئے دنیا کی زندگی بڑی محبوب اور دل پسند بنادی گئی ہے۔ ایسے لوگ ایمان کی راہ اختیار کرنے والوں کا مذاق اڑاتے ہیں، مگر قیامت کے روز متقی لوگ ہی ان کے مقابلے میں عالی مقام ہوں گے‘‘۔
جس طرح ایمان کی ضد کفر ہے اسی طرح کفار کی ضد کی حیثیت سے قرآن متقین کا لفظ استعمال کرتا ہے، چونکہ ڈر ایمان کا مرکزی عنصر ہے، کفر میں یہ ڈر غائب ہوتا ہے۔
مثل الجنۃ التی وعد المتقون تجری من تحتھا الانھار أکلھا دائم وظلھا، تلک عقبی الذین اتقوا وعقبی الکافرین النار۔(۱۳:۳۵)
’’خدا ترس انسانوں کے لئے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں بہررہی ہیں، اس کے پھل دائمی ہیں، اور اس کا سایہ لازوال۔ یہ انجام ہے متقی لوگوں کا۔ اور منکرین حق کا انجام یہ ہے کہ ان کے لئے دوزخ کی آگ ہے۔‘‘
معلوم ہواکہ تقوی بنیادی طورپر جذبہ خوف (Emotion of fear) ، اور ایک عمومی و دائمی کیفیت کا نام ہے۔ اس کے ساتھ قرآن نے دو اور اصطلاحیں استعمال کی ہیں۔ ایک ہے خشیت دوسرا خوف۔ایک پہلو سے دیکھا جائے تو قرآنی استعمالات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مترادفات ہیں، مگر ایک ہلکا سا فرق بھی موجود ہے۔ مترادف کی حیثیت سے مندرجہ ذیل استعمال ملاحظہ ہوں:
ولقد آتیناموسی وھرون الفرقان و ضیاء وذکراً للمتقین۔الذین یخشون ربھم بالغیب وھم من الساعۃ مشفقون۔ (۲۱: ۴۸۔۴۹)
’’پہلے ہم موسی اور ہا رون کو فرقان، روشنی اور ذکر عطا کرچکے ہیں، ان متقی لوگوں کی بھلائی کے لئے جوبے دیکھے اپنے رب سے ڈریں، اور جن کو حساب کی اُس گھڑی کا کھٹکا لگا ہوا ہو۔‘‘
ومن یطع اللہ و رسولہ ویخش اللہ ویتقیہ فاولئک ھم الفائزون۔ (۲۴:۵۲)
’’ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں اور کامیاب وہی ہیں جو اللہ اور رسول کی فرمانبرداری کریں، اور اللہ سے ڈریں اور اس کی نافرمانی سے بچیں۔‘‘
مگر تقوی اور خشیت میں جو فرق ہے وہ درجہ اور اجر کے لحاظ سے ہے، جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے کہ تقوی ایک دائمی خوف کی کیفیت کا نام ہے جو ہلکا سا ہو جبکہ خشیت ایک ہنگامی اور عارضی ڈر کی کیفیت کا اظہار ہے جس کی دہشت اور شدت حواس کو متأثر کردیتی ہو۔ مثلاً
اللہ نزل أحسن الحدیث کتاباً متشابھا مثانی، تقشعر منہ جلودا لذین یخشون ربھم ثم تلین جلودھم وقلوبھم الی ذکر اللہ۔ (۳۹:۲۳)
’’اللہ نے بہترین کلام اتارا ہے، ایک ایسی کتاب جس کے اجزا ہم رنگ اور جس میں باربار مضامین دہرائے گئے ہیں۔ اسے سن کر ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں۔ پھران کا جسم اور ان کے دل نرم ہوکر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہوجاتے ہیں۔‘‘
علت خشیت کا معلول ہمیشہ خدا ہوتا ہے اور یہ خشیت ظاہر اور محسوس ہوتی ہے جبکہ تقوی کا ڈر درونِ دل ہوتا ہے جو عموماً ظاہر میں منعکس نہیں ہوتا۔ خشیت کو دھماکہ خیز باروری قوت کے مفہوم میں قرآن نے سورہ الحشر میں استعمال کیا ہے۔ ملاحظہ ہو
لو انزلنا ھذا القرآن علی جبل لرایتہ خاشعًا متصدعًا من خشیۃ اللہ۔ (۵۹:۲۱)
’’اگر یہ قرآن ہم نے کسی پہاڑ پر بھی اتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے، وہ اللہ کے خوف سے دبا جارہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے‘‘۔
خدا سے ڈرنے کے لئے قرآن ایک تیسری اصطلاح استعمال کرتا ہے، وہ ہے’’خوف‘‘۔ خوف وہ عمومی ڈر کی کیفیت ہے جو انسان کے تحفظ اور بقاکے لیے اللہ نے ودیعت فرمائی ہے جسے اصطلاحاً defence mechanismکہا جاتا ہے۔ سانپ کو دیکھ کر بھاگ کھڑا ہونا، اندھیرے میں محتاط ہو کر چلنا، دفاع ذات کے لئے لازم ہے۔
والق عصاک فلماراٰھاتھتزکأ نھا جان ولی مد براََ ولم یعقب ط یاموسی لا تخف۔ (۲۷:۱۰)
’’اور پھینک تو ذرا اپنی لاٹھی، جوں ہی کہ موسی نے دیکھا لاٹھی سانپ کی طرح بل کھارہی ہے تو پیٹھ پھیر کر بھاگا اور پیچھے مڑکر بھی نہ دیکھا اے موسی ڈرو نہیں۔‘‘
مگر یہ ڈر خدا کے لئے بھی ہونا چاہیے۔ جبکہ تقوی اور خشیت صرف خدا کے لئے ہوتا ہے۔ قرآن نے خوف کو بھی تقوی کے مترادف استعمال کیا ہے۔
ولنسکننکم الأرض من بعدھم ط ذالک لمن خاف مقامی وخاف وعید۔ (۱۴:۱۴)
’’(ہم ان ظالموں کو ہلاک کردیں گے) اور ان کے بعد زمین میں تمہیں آباد کریں گے۔ یہ انعام ہے اس کا جو میرے حضور جو ابدہی کا خوف رکھتا ہو اور میری وعید سے ڈرتا ہو‘‘۔
ولمن خاف مقام ربہ جنتان۔ (۵۵:۴۶)
’’اور ہراس شخص کے لئے جو اپنے رب کے حضور پیش ہونے کا خوف رکھتا ہو دوباغ ہیں‘‘۔
وأما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھوی۔ فان الجنۃ ھی الماویٰ۔ (۶۹: ۴۱۔۴۵)
’’اور جس نے اپنے رب کے سا منے کھڑے ہونے کا خوف کیا تھا، اور نفس کو بری خواہشات سے باز رکھا تھا، جنت اس کا ٹھکانہ ہوگی۔‘‘
رمضان، روزہ دار کو خدا کے تئیں حساس بناتا ہے اور لاپرواہی کے بجائے خدا کا احترام اور اس کی پکڑ کا ڈر پیدا کرتا ہے۔ خوف خد،ا خشیت الہی، اور تقویٰ اس کی ایمانی زندگی کا جزو لا ینفک بن جائے تو مومن روزہ کا مقصود پالے گا۔
ایس۔ امین الحسن، رکن مرکزی مجلس شوری جماعت اسلامی ہند