اپنی باتیں

0

گزشتہ سال کی طرح امسال بھی ماہ رمضان کی مناسبت سے رفیق منزل کا خصوصی شمارہ پیش خدمت ہے۔ ماہ رمضان پر ان خصوصی شماروں کی اشاعت کا مقصد اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں کہ ماہ رمضان اور اس کی عبادتوں کے صحیح تصور کو ملت اسلامیہ کے درمیان عام کیا جائے، اور ملت کی ذہنی وفکری تربیت اور تعمیروترقی میں اس ماہ مبارک کے عظیم کردار کو سامنے لایا جائے، تاکہ یہ ماہ مبارک انفرادی واجتماعی زندگی میں تبدیلی کا جو پروگرام رکھتا ہے، اس سے کماحقہ مستفید ہونے کا رجحان عام ہوسکے۔
رمضان المبارک تبدیلی اور انقلاب کا مہینہ ہے، فرد کے لیے بھی اور معاشرے کے لیے بھی۔ اس تبدیلی اور انقلاب کے لیے اللہ رب العزت کی جانب سے جو اساس مقرر کی گئی ہے، وہ قرآن مجید کی صورت میں آج بھی من وعن موجود ہے۔
ماہ رمضان اور قرآن مجید کا رشتہ انتہائی گہرا ہے، اس ماہ میں نہ صرف قرآن مجید کا نزول ہوا ہے، بلکہ اس کی عبادتوں میں بھی قرآن مجید کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ قرآن مجید میں امت اسلامیہ کے کرنے کے جو کام بیان ہوئے ہیں، رمضان المبارک ان کے لیے تربیت اور ٹریننگ کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔
قرآن مجید کیا ہے؟ انسانیت کے نام رب کا پیغام۔ رب کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا لائحہ عمل۔ انسانی زندگی کے عروج وارتقاء اور زوال وانحطاط کا پیمانہ۔ ماہ رمضان ان تمام چیزوں کو سمجھنے اور ان پر غوروفکر کا شاندار موقع فراہم کرتا ہے۔
قرآن مجید میں روزوں کی فرضیت کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’امید ہے تم تقوی اختیار کروگے‘‘ (لعلکم تتقون) ۔یہ تقوی کیا ہے؟ تقوی یہی تو ہے کہ بندہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کا شعور حاصل کرلے اورقرآن مجید کی ہدایت اور رہنمائی کے مطابق اپنی زندگی کا سفر طے کرنے کا فیصلہ کرلے۔ اس طرح دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ رمضان، قرآن اور تقوی کے درمیان بہت ہی گہرا معنوی ربط پایا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے ملت اسلامیہ کے درمیان قرآن، رمضان اور تقوی تینوں ہی کا تصور بہت ہی دھندلا ہوکر رہ گیا ہے۔ تقوی ایک ظاہری کیفیت کا نام بن کر رہ گیا ہے، جبکہ قرآن اور رمضان کے سلسلے میں یہ تصور عام ہوگیا ہے کہ یہ محض خوب خوب ثواب بٹورنے کا ذریعہ ہیں۔
قرآن، رمضان اور تقوی کا یہ محدود اور ناقص تصور ملت اسلامیہ کے لیے بہت ہی خطرناک اور نقصاندہ ثابت ہوا ہے۔ اس نے اسلام کے پورے نظام عبادت کو متأثر کیا ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ عبادات کی روح اور مقاصد دھیرے دھیرے نظرانداز ہوتے چلے گئے، اور ظاہر نے روح اور مقاصد کی حیثیت اختیار کر لی۔
یہی وجہ ہے کہ ماہ رمضان ہرسال آتا ہے اور چلا جاتا ہے، لیکن نہ تو فرد کی زندگی پر اس کے کچھ اثرات نظر آتے ہیں اور نہ سماج پر۔ عبادات کا ایک موسم ہے، جب یہ آتا ہے تو ہر کوئی اپنی جھولی پھیلائے بارگاہ رب العزت میں حاضر نظر آتا ہے، اور اس کے گزرتے ہی صورتحال یکسر تبدیل ہوجاتی ہے۔
ضرورت ہے کہ قرآن مجید، رمضان المبارک اور تقوی کے صحیح تصور کو عام کیا جائے۔ قرآن مجید کے سلسلے میں یہ تصور جو ذہن ودماغ میں بیٹھا ہوا ہے کہ یہ کتاب ثواب ہے، اس کو کھرچ کھرچ کر نکال دیا جائے۔ یہ کتاب ثواب نہیں، کتاب انقلاب ہے۔ یہ کتاب اپنے اندر تبدیلی، حرکت اور انقلاب کا زبردست پیغام رکھتی ہے۔ یہ کتاب چاہتی ہے کہ بندۂ مومن اپنے سفر حیات کی لگام اس کے ہاتھوں میں سونپ دے۔ رمضان المبارک آتا ہے تاکہ اس تبدیلی اور انقلاب کے لیے بندوں کی تربیت اور ٹریننگ کا کام کرے،اہل ایمان اس ماہ میں قرآن مجید میں بیان کردہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کا شعور حاصل کرلیں، اورقرآن مجید کی ہدایت اور رہنمائی کے مطابق اپنی زندگی کا سفر طے کرنے کا فیصلہ کرلیں، اسی شعور اور عزمِ سفر کا نام تقوی ہے۔ تقوی محض کسی ظاہری رکھ رکھاؤ کا نام نہیں ہے،’’تقوی دراصل وہ ایمانی کیفیت ہے جوایک مومن کو عذاب آخرت سے لرزہ بر اندام رکھے ۔ جو اسے اپنے رب سے قریب ہونے کے لیے بے چین رکھے ،جو اسے رب کی مکمل اطاعت کے لیے سرگرم کردے ۔ جو اسے کتاب الہی کے ایک ایک حکم پر عمل کرنے ، اور اس کی روشنی کو سارے انسانوں تک پہنچانے کے لیے متحرک کردے ۔‘‘
اس خصوصی شمارے کے ذریعہ قرآن مجید، رمضان المبارک اور تقوی کے اسی پیغام کو عام کرنے کی کوشش کی گئی ہے، واللہ ہو الموفق وہو حسن المآب
(ابوالاعلی سید سبحانی)

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights